Jasarat News:
2025-11-12@15:26:32 GMT

مشتاق احمد خان اور قافلہ صمود؛ ضمیر کی گواہی

اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

دنیا کی تاریخ میں ایسے لمحات بار بار نہیں آتے جب کوئی ایک قافلہ، کوئی ایک صدا، کوئی ایک کردار پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دے۔ آج امت مسلمہ کی تاریخ کے اس نازک موڑ پر ایک قافلہ عزم و صبر کے ساتھ سفر کر رہا ہے۔ یہ قافلہ نہ دولت کے لالچ میں ہے، نہ شہرت کا طلبگار ہے، اور نہ ہی طاقت کے سامنے جھکنے کے لیے نکلا ہے۔ یہ قافلہ صمود ہے، مزاحمت ہے، سچائی کی گواہی ہے۔ اس قافلے میں شامل وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ وقت کا سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ کون مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور کون ظالموں کے ساتھ سودے بازی کرتا ہے۔ انہی میں سے ایک نمایاں کردار سابق سینیٹر مشتاق احمد خان ہیں، جو جماعت اسلامی کے رہنما اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کے فکری و روحانی فرزند ہیں۔ ان کی موجودگی اور قیادت اس قافلے کو نہ صرف وزن بخشتی ہے بلکہ اسے ایک فکری اور تحریکی تسلسل سے جوڑتی ہے۔

غزہ کی سرزمین اس وقت انسانی تاریخ کے بدترین المیے سے گزر رہی ہے۔ لاکھوں انسان بے گھر ہیں، ہزاروں شہید ہو چکے ہیں، بچے ملبے تلے دبے ہیں، اور دنیا کی بڑی طاقتیں محض تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔ وہ اقوام متحدہ جو انصاف اور امن کے قیام کی دعویدار ہے، وہ عالمی ادارے جو انسانی حقوق کی دہائیاں دیتے ہیں، وہ سب اپنی آنکھوں کے سامنے یہ ظلم دیکھ رہے ہیں مگر ان کے لب سلے ہوئے ہیں۔ ایسے وقت میں جب دنیا کے بیش تر حکمران اور سیاستدان خاموش تماشائی ہیں، جب بیش تر مسلم ممالک کے رہنما عالمی طاقتوں کی خوشنودی کے لیے اپنی زبانوں پر تالے ڈالے ہوئے ہیں، ایسے وقت میں یہ قافلہ صمود اعلان کرتا ہے: ’’ہم غزہ کے ساتھ ہیں، چاہے جو بھی ہو جائے‘‘۔

سینیٹر مشتاق احمد خان کا یہ قدم محض سیاسی ایکٹویزم نہیں بلکہ ایک فکری وراثت کی تجدید ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی پوری زندگی یہ پیغام دیا کہ مسلمان صرف اپنی سرحدوں کے اندر محدود نہیں بلکہ پوری امت ایک جسم ہے۔ اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کی سیاست کا محور یہی ہے کہ وہ امت کو ایک وحدت کے طور پر دیکھتی ہے۔ مشتاق احمد خان اسی فکر کے ترجمان ہیں۔ ان کا قافلہ میں شامل ہونا دراصل یہ اعلان ہے کہ مودودی کا فکری چراغ آج بھی جل رہا ہے اور یہ امت کے ضمیر کو روشنی دے رہا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے سیاسی افق پر آج وہی کامیاب سمجھا جاتا ہے جو طاقتور کے ساتھ کھڑا ہو۔ مگر تاریخ نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ اصل کامیابی طاقتور کے سامنے کھڑے ہونے میں ہے۔ مشتاق احمد خان اور قافلہ صمود کے یہ مسافر جانتے ہیں کہ ان کا راستہ آسان نہیں، انہیں رکاوٹوں، دھمکیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کبھی سفری پابندیاں، کبھی ڈرون حملوں کا خطرہ، کبھی بیماری اور تھکن، مگر ان کے عزم میں لرزش نہیں آتی۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سفر صرف غزہ تک نہیں بلکہ یہ سفر تاریخ کے اوراق تک ہے۔ کل جب تاریخ لکھی جائے گی تو یہ قافلہ زندہ مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

پاکستان کی سیاست میں ایسے کردار بہت کم ملتے ہیں جو ذاتی فائدے اور مفاد سے اوپر اٹھ کر امت کے مفاد کو ترجیح دیتے ہوں۔ سینیٹر مشتاق احمد خان انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام کے دل غزہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہمارے بچے غزہ کے بچوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں، ہماری مائیں فلسطینی ماؤں کے آنسوؤں کو اپنا سمجھتی ہیں، ہمارے نوجوان فلسطینی نوجوانوں کو اپنا بھائی مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قافلہ صمود پاکستانی عوام کی آواز بھی ہے اور امت مسلمہ کے ضمیر کی گواہی بھی۔

یہ کالم محض ایک شخصیت کی تعریف کے لیے نہیں بلکہ ایک فکر کو اُجاگر کرنے کے لیے ہے۔ آج اگر مشتاق احمد خان غزہ کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں تو یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل سیاست کیا ہوتی ہے۔ سیاست اقتدار کے ایوانوں میں سودے بازی کا نام نہیں، بلکہ سیاست کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت، حق کی حمایت اور ظلم کے خلاف مزاحمت ہے۔ یہی وہ سیاست ہے جو سید مودودی نے سکھائی اور یہی وہ سیاست ہے جو جماعت اسلامی آج تک جاری رکھے ہوئے ہے۔

ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر امت مسلمہ کے تمام حکمران اور سیاستدان اس قافلے کی طرح اٹھ کھڑے ہوں تو دنیا کے نقشے پر ظلم کا یہ باب زیادہ دیر باقی نہ رہے۔ اسرائیل کی جارحیت اور امریکا کی پشت پناہی اس وقت تک مضبوط ہے جب تک امت کے حکمران کمزور اور خاموش ہیں۔ جیسے ہی امت کی قیادت بیدار ہوگی، ظلم کی بنیادیں ہلنے لگیں گی۔ قافلہ صمود اسی بیداری کی ایک کرن ہے، جو اندھیروں میں روشنی پھیلا رہی ہے۔

آج کے دور میں جب میڈیا پر جھوٹ کی یلغار ہے، جب طاقتور اپنے ظلم کو قانون کا لبادہ پہنا کر پیش کر رہے ہیں، ایسے وقت میں یہ قافلہ اور سینیٹر مشتاق احمد خان کا کردار ایک زندہ دلیل ہے کہ ابھی بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو نہ بکتے ہیں، نہ ڈرتے ہیں اور نہ ہی جھکتے ہیں۔ یہ کردار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ امت مسلمہ ابھی مکمل مردہ نہیں ہوئی۔ ابھی بھی ضمیر کی گواہی باقی ہے، ابھی بھی سچائی کی صدا زندہ ہے، ابھی بھی عزم و صمود کے چراغ بجھے نہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس قافلے کے قدموں کو استقامت دے، ان کے حوصلوں کو بلند کرے، ان کی حفاظت فرمائے، اور ان کے سفر کو کامیاب و سرخرو لوٹائے۔ یہ دعا صرف ایک قافلے کے لیے نہیں بلکہ پوری امت کے لیے ہے۔ کیونکہ جب یہ قافلہ کامیاب ہوگا تو دراصل یہ امت مسلمہ کی کامیابی ہوگی۔

تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ مظلوموں کے حق میں ہوتا ہے۔ ظالم چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، وہ ہمیشہ رسوا ہوتا ہے۔ آج اسرائیل اور اس کے حامی طاقتور نظر آتے ہیں، مگر آنے والی نسلیں انہیں مظالم کی علامت کے طور پر یاد رکھیں گی۔ اس کے برعکس آج یہ قافلہ چھوٹا لگتا ہے، کمزور دکھائی دیتا ہے، مگر آنے والی نسلیں اسے عزیمت اور سچائی کی علامت کے طور پر یاد کریں گی۔ یہی اصل کامیابی ہے، یہی اصل عزت ہے، اور یہی وہ وراثت ہے جو سینیٹر مشتاق احمد خان اور ان جیسے بہادر کردار اپنی امت کے لیے چھوڑ رہے ہیں۔

میر بابر مشتاق.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سینیٹر مشتاق احمد خان جانتے ہیں کہ قافلہ صمود نہیں بلکہ کے طور پر ابھی بھی کی گواہی اس قافلے یہ قافلہ کے ساتھ کے لیے امت کے غزہ کے

پڑھیں:

ٹرمپ سے  شامی صدر احمد الشرع کی ملاقات، مشرق وسطیٰ کے لیے نیا اشارہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکا اور شام کے درمیان برسوں سے جمی برف پگھلنے لگی ہے۔

شامی صدر احمد الشرع نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی، جو نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک نئی سمت کا اشارہ قرار دی جا رہی ہے۔

عرب میڈیا کے مطابق ملاقات میں دوطرفہ تعلقات، علاقائی امن، اور بین الاقوامی معاملات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے گفتگو کے دوران احمد الشرع کی عملیت پسندی اور اصلاحاتی وژن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مجھے شامی صدر پسند آئے اور ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ شام کامیاب ہو کیونکہ یہ مشرقِ وسطیٰ کا اہم حصہ ہے۔

ملاقات کے چند گھنٹے بعد ہی امریکی محکمۂ خزانہ نے ایک غیر متوقع اعلان کیا، جس کے تحت سیزر سیریا ایکٹ کے تحت شام پر عائد اقتصادی پابندیاں چھ ماہ کے لیے عارضی طور پر ختم کر دی گئیں۔ یہ فیصلہ خطے میں استحکام کی کوششوں اور شام کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایک اہم موڑ سمجھا جا رہا ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ کے بیان کے مطابق یہ فیصلہ شام کے شہریوں کے لیے معاشی مواقع بڑھانے، انسانی ترقی کو فروغ دینے اور تعمیرِ نو کے عمل کو آسان بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ اقدام اعتماد سازی کے عمل کا حصہ ہے، جس کے تحت امریکا شام کے ساتھ محدود سطح پر تعاون کے دروازے کھولنے پر غور کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ سیزر سیریا سویلین پروٹیکشن ایکٹ 2019 میں منظور کیا گیا تھا، جس کا مقصد سابقہ شامی حکومت اور فوج پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کریں۔ اس قانون کے تحت امریکی کمپنیوں اور شہریوں کو شام کی حکومت یا فوج سے کاروباری روابط رکھنے سے مکمل طور پر روک دیا گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں سال جون میں بھی واشنگٹن نے انسانی بنیادوں پر شام پر عائد کچھ تجارتی پابندیاں نرم کی تھیں، مگر سیزر ایکٹ بدستور نافذ العمل تھا، تاہم، اب اس کے جزوی خاتمے نے شام کے لیے اقتصادی بحالی کی نئی امید پیدا کر دی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق ٹرمپ اور الشرع کی ملاقات ایک علامتی مگر اہم موڑ ہے۔ ایک طرف امریکا اپنے اقتصادی مفادات اور مشرقِ وسطیٰ میں اثر و رسوخ کی بحالی چاہتا ہے جبکہ دوسری طرف شام عالمی تنہائی سے نکلنے کی راہ پر گامزن ہے۔

اُدھر مشرقِ وسطیٰ میں کئی حلقے اس پیش رفت کو امریکا کی نئی عملی پالیسی قرار دے رہے ہیں، مگر فلسطینی اور عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کا یہ قدم وقتی اور سیاسی مفاد کے تحت ہے، کیونکہ واشنگٹن کبھی بھی شام، فلسطین یا کسی عرب ملک کے حقیقی مفاد میں دیرپا قدم نہیں اٹھاتا۔

متعلقہ مضامین

  • شامی صدر احمد الشرع عالمی سطح پر نمایاں، ملکی سطح پر چیلنجز کا سامنا
  • احمد الشرع کی وائٹ ہاوس یاترا
  • جسٹس منیر سے لے کر گڈ ٹو سی یو تک ججز کا ضمیر نہیں جاگا، ہمیں فرشتے بننے کا کہتے ہیں، خواجہ آصف
  • سر سید روڈ سے کروڑوں روپے کا نان کسٹم پیڈ کپڑا بر آمد ، 5اسمگلرزگرفتار
  • ٹرمپ سے  شامی صدر احمد الشرع کی ملاقات، مشرق وسطیٰ کے لیے نیا اشارہ
  • جے یو آئی نے27 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر سینیٹر احمد خان کو پارٹی سے نکال دیا
  • جے یو آئی کا سینیٹر احمد خان کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان
  • پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو اور جے یو آئی کے سینیٹر احمد خان نے 27ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا
  • آئمہ بیگ سے شادی کے 3 ماہ بعد ہی علیحدگی، زین احمد نے تصاویر ڈیلیٹ کر دیں
  • سابق ایم این اے  جسٹس (ر) افتخار چیمہ سپردخاک