افغانستان میں نئے فوجی اڈوں کی مخالفت، طالبان دہشتگرد گروپوں کو ختم کریں: پاکستان، چین، روس، ایران
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق نیویارک میں چین، ایران، پاکستان اور روس کے وزرائے خارجہ کا چوتھا چار فریقی اجلاس ہوا جس میں افغانستان میں کالعدم داعش، القاعدہ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان، کالعدم بی ایل اے، کالعدم جیش العدل پر تشویش کا اظہار اور کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اجلاس افغانستان کی صورتحال پر 80 ویں جنرل اسمبلی کے موقع پر منعقد ہوا۔ چاروں ممالک کا افغانستان کو آزاد، متحد اور پْرامن ریاست بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ افغانستان کی معیشت بہتر بنانے اور عوام کی حالت زار کم کرنے پر اتفاق ہوا۔ اجلاس میں فریقین نے افغانستان کے ساتھ تجارتی تعاون اور علاقائی روابط بڑھانے پر زور دیا۔ 1988ء کی پابندیوں کے نظام میں زمینی حقائق کے مطابق ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ طالبان رہنماؤں کے سفری استثنیٰ پر سیاسی مقاصد اور دوہرے معیار سے گریز کی اپیل کی گئی۔ اجلاس میں افغانستان کے لیے ہنگامی انسانی امداد بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا، انسانی امداد کو سیاسی معاملات سے نہ جوڑنے پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں افغان حکام پر دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر اقدامات کرنے پر زور دیا گیا، دہشت گردوں کی فنڈنگ، بھرتی، اسلحے تک رسائی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق افغانستان میں دہشت گردی کے تربیتی مراکز اور انفراسٹرکچر ختم کرنے پر زور دیا گیا، انسداد دہشت گردی میں دوطرفہ اور کثیرالجہتی تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ اجلاس میں افغان حکام کی افیون کی کاشت کم کرنے کی کوششوں کو سراہا، منشیات کے انسداد کے لیے جامع حکمت عملی اپنانے پر زور دیا گیا، افغان پناہ گزینوں کی باعزت واپسی کے لیے اقدامات پر زور دیا گیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق ایران اور پاکستان کی جانب سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کو سراہا گیا، عالمی برادری سے ایران و پاکستان کو مزید مدد دینے کی اپیل کی۔ افغانستان میں جامع اور وسیع البنیاد حکومت بنانے پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں خواتین اور بچیوں کو تعلیم، روزگار اور عوامی زندگی میں شمولیت دینے، افغان عوام کے بنیادی حقوق اور سہولتوں کی فراہمی پر زور دیا گیا۔ نیٹو ممالک کو افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ افغانستان کے منجمد اثاثے افغان عوام کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ افغانستان اور اردگرد فوجی اڈے قائم کرنے کی مخالفت اور افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے عالمی اور علاقائی کوششوں کی حمایت کی گئی۔ اجلاس میں ماسکو فارمیٹ، شنگھائی تعاون تنظیم اور ہمسایہ ممالک کے اجلاس کو اہم قرار دیا گیا، دوشنبے میں چاروں ممالک کے نمائندوں کے حالیہ اجلاس کا خیرمقدم کیا گیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ترک اعلیٰ حکام اگلے ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گے، افغانستان سے کشیدگی پر بات چیت ہوگی, صدر اردوان
ترک صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ ترکی کے وزیرِ خارجہ حکان فیدان، وزیرِ دفاع یشار گولر اور انٹیلی جنس چیف ابراہیم کالن اگلے ہفتے اسلام آباد کا دورہ کریں گے تاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بات چیت کی جا سکے۔
صدر اردوان نے یہ اعلان اتوار کے روز آذربائیجان سے واپسی پر صحافیوں سے گفتگو میں کیا۔
ذرائع کے مطابق استنبول میں ہونے والے پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات کسی معاہدے کے بغیر ختم ہوگئے ہیں۔ مذاکرات میں فریقین سرحد پار دہشت گردی کی نگرانی کے طریقہ کار پر اتفاق نہ کر سکے۔ پاکستانی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے تصدیق کی کہ “بات چیت ختم ہوچکی ہے” اور اب یہ “غیر معینہ مدت کے لیے معطل” ہو گئی ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ افغان طالبان وفد بغیر کسی واضح منصوبے کے مذاکرات میں شریک ہوا اور تحریری معاہدے پر دستخط کرنے سے گریز کیا۔
ذرائع کے مطابق، مذاکرات کے دوران ترکی اور قطر کے ثالثین نے دونوں وفود کے درمیان بات چیت کرانے کی کوشش کی، تاہم جمعے کے روز براہِ راست ملاقات نہیں ہوئی۔ پاکستانی وفد کی قیادت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک نے کی، جبکہ افغان وفد کی سربراہی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس (GDI) کے سربراہ عبدالحق واثق کر رہے تھے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندرابی کے مطابق پاکستانی وفد نے اپنے مؤقف کو “ٹھوس شواہد اور دلائل کے ساتھ” پیش کیا، اور ثالثوں کے ذریعے افغان نمائندوں تک اپنے مطالبات پہنچائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، تاہم دونوں ممالک کے درمیان موجود عارضی جنگ بندی بدستور قائم ہے۔
دوسری جانب، ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے پاکستانی وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار اور افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا، اور کہا کہ ایران دونوں ممالک کے درمیان اختلافات دور کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔