ڈنمارک کے سب سے بڑے فوجی اڈے پر پراسرار ڈرونز کی پرواز، کئی ہوائی اڈے عارضی طور پر بند
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
کوپن ہیگن: ڈنمارک کے سب سے بڑے فوجی اڈے کاروپ بیس کے اوپر نامعلوم ڈرونز کی پروازوں نے حکام کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔
پولیس کے مطابق یہ ڈرونز بدھ کی رات کو دیکھے گئے، جو کئی گھنٹے فضا میں موجود رہے۔
پولیس نے بتایا کہ ڈرونز کو نہ گرایا گیا اور نہ ہی یہ بتایا جا سکا کہ وہ کہاں سے آئے تھے۔ ان واقعات کے بعد ڈنمارک بھر میں کئی ہوائی اڈے عارضی طور پر بند کر دیے گئے، تاہم تجارتی پروازیں متاثر نہیں ہوئیں۔
وزیراعظم میٹے فریڈریکسن نے کہا ہے کہ ملک گزشتہ دنوں ’’ہائبرڈ حملوں‘‘ کا شکار رہا ہے، جو غیر روایتی جنگ کی ایک نئی شکل ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یورپ کو اب بار بار ہونے والے ان حملوں کو ’’نئی حقیقت‘‘ کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق اگرچہ ڈنمارک نے براہِ راست روس کو الزام نہیں دیا، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ یہ واقعات یوکرین جنگ کو یورپ کے عام شہریوں تک پہنچانے کی ایک حکمت عملی ہو سکتی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
معرکۂ حق کے بعد فوجی ڈھانچے میں تبدیلی ناگزیر تھی، رانا ثنا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ معرکۂ حق میں کامیابی کے بعد فوج کے اندرونی ڈھانچے میں تبدیلی ناگزیر تھی اور یہ ایک خالصتاً پیشہ ورانہ فیصلہ ہے جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
ایک پروگرام میں گفتگو کے دوران رانا ثناء اللہ نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن کو کئی بار مذاکرات کی پیشکش کی تاکہ قومی مسائل پر بات ہو اور ملک کے مفاد میں مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جا سکے، لیکن بدقسمتی سے تحریکِ انصاف بات چیت پر آمادہ نہیں ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ 27ویں آئینی ترمیم پر بھی پی ٹی آئی سے ڈائیلاگ کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے کسی قسم کی بیٹھک سے انکار کر دیا۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ “معرکہ حق” یعنی بنیان المرصوص میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامیابی عطا کی، اور اسی تجربے سے حاصل ہونے والے سبق کے بعد فوج کے اندرونی اسٹرکچر میں تبدیلی کی گئی، جو وقت کی اہم ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تبدیلی فوج کے نظم و نسق اور مؤثر کارکردگی سے متعلق ہے اور اس میں کوئی سیاسی پہلو شامل نہیں۔
مشیرِ وزیراعظم نے مزید بتایا کہ 27ویں ترمیم سے متعلق اب تک تعلیم، صحت، آبادی اور بلدیاتی نظام جیسے اہم امور پر مکمل اتفاق رائے نہیں ہو سکا، تاہم مذاکرات کا عمل جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوکل باڈی نظام کو مضبوط بنانے کی کوشش ہو رہی ہے اور جیسے جیسے اتفاق رائے بنتا جائے گا، ترمیمی عمل بھی آگے بڑھتا رہے گا، تاہم اس کے لیے پارلیمان میں دو تہائی اکثریت ناگزیر ہے۔