افتخار گیلانی
غزہ کے صحافی وہ چراغ ہیں، جو شبِ سیاہ میں بجھا دیے جا رہے ہیں۔ مگر انہی کی قربانیوں نے غزہ کی کہانی کو دنیا تک پہنچایا ہے ۔ اگر یہ نہ ہوں تو دنیا اندھی ہو جائے ۔ تاریخ ان کے خون کو سطر سطر لکھے گی اور آنے والی نسلیں جانیں گی کہ ظلم کے اندھیروں میں بھی کچھ لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سچ کا چراغ جلاتے رہے ۔
رات کی چادر بھی فلسطین کے مظلوم خطہ غزہ یا وہاں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے سکون کا لمحہ فراہم نہیں کرتی ہے ۔ فضا کو اسرائیلی ڈرونز کی گونج مسلسل چیرتی رہتی ہے ۔یہ ڈرونز بھوکے گِدھوں کی طرح جیسے زخمی شکار کے اوپر منڈلاتے رہتے ہیں۔ غزہ میں کسی بھی صحافی سے بات کیجیے تو فون کے پس منظر میں ڈرونز کی بھنبھناہٹ سنائی دیتی ہے ، جو ہر لمحہ موت کی خبرسنا تی ہے ۔اس شور کا مطلب ہے ؛ نہ نیند، نہ آرام، نہ لمحے بھر کی فراغت۔ ہر پل اچانک موت کو گلے لگانے کا خدشہ۔
اڑتیس سالہ آزاد صحافی اور فلمساز مومن فائز کے لیے ڈرون کی یہ آواز زندگی کا کڑوا سنگیت بن چکی ہے ۔وہ غزہ سے مجھے بتا رہے تھے : جب ہم آنکھیں بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہی بھنبھناہٹ کانوں میں گونجتی ہے ۔ پھر اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے ۔ مکانات لرز اٹھتے ہیں، شیشے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ ہم گھبرا کر باہر نکلتے ہیں تاکہ دیکھیں کس عمارت کو زمیں بوس کر دیا گیا، کتنے لوگ مارے گئے ، اور کہیں ہمارے کسی ساتھی کی لاش تو ملبے میں نہیں دبی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ جہاں عام لوگ دھماکے کے مقام سے دور بھاگتے ہیں، وہاں فائز اور ان کے ساتھی اس طرف دوڑ کر ملبے اور دھویں میں کود پڑتے ہیں۔ ہاتھوں میں کیمرے تھامے ، اور اوپر سے دوبارہ بم برسنے کا خدشہ موجود رہتا ہے ۔جب میں نے فائز سے پوچھا کہ آجکل ایک صحافی کا دن غزہ میں کیسے شروع ہوتا ہے ۔ تو ان کا کہنا تھا؛جب ہم صبح گھر سے نکلتے ہیں تو یقین نہیں ہوتا کہ شام تک زندہ واپس لوٹیں گے یا نہیں۔ رات کو سوتے ہیں تو پتا نہیں کہ اگلی صبح آنکھ کھلے گی یا نہیں۔
فائز کا جسم خود غزہ کی جنگوں کی ایک چلتی پھرتی دستاویز ہے ۔ تیرہ برس پہلے ایک اسرائیلی بم نے ان کی دونوں ٹانگیں چھین لیں۔ وہ بیساکھیوں کے سہارے صحافت کے میدان میں واپس لوٹے ۔ وہ ملبوں پر کھڑے ہو کر کیمرہ اٹھاتے رہے ۔ بعد میں ایک اور حملے میں ان کی انگلیاں ضائع ہوگئیں۔ وہ کہتے ہیں؛میں کم از کم تین بار شدید زخمی ہو چکا ہوں۔ محض اتفاق نے بچا لیا، ورنہ میں بھی انہی قبروں میں سویا ہوا ہوتا، جن پر آجکل فوٹیج بناتا رہتا ہوں۔ کام جاری رکھنا بھی ایک فرض ہے ۔وہ اپنی صبح عام لوگوں کی طرح چائے یا ناشتے سے نہیں بلکہ مرنے والوں کی گنتی کرنے سے شروع کرتے ہیں۔ موبائل پیغامات کھنگالتے ہیں، پیرا میڈکس اور سول ڈیفنس اہلکاروں سے تصدیق کرتے ہیں، اور پھر ہسپتالوں میں پہنچتے ہیں جہاں ہر راہداری چیخوں سے بھری رہتی ہے ۔اس کے بعد جنازے ۔ پھر ایک اور بمباری۔ پھر ایک اور جنازہ۔ پچھلے دو سال سے یہ ایک معمول بن چکا ہے ۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے جس میں صرف غم ہے ۔ وہ بتاتے ہیں:ہم صبح شہیدوں کی تلاش میں نکلتے ہیں اور رات بموں کی آواز کے ساتھ سو جاتے ہیں۔
بجلی اور انٹر نیٹ کی عدم دستیابی کہ وجہ سے صحافی کبھی سولر پینل، کبھی ہانپتے ہوئے جنریٹر، کبھی اسرائیلی یا مصری سم کارڈ کے سہارے اپنی خبریں دنیا تک پہنچاتے ہیں۔اس خطر ے کے باوجود کہ اسرائیلی سم کا استعمال جاسوسی کے شبہ میں ان کی جان کو مزید خطرے میں ڈال سکتا ہے ، وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔فائلیں چھوٹے چھوٹے میموری کارڈز پر چھپا کر رکھی جاتی ہیں تاکہ اگر بمباری میں سب کچھ تباہ بھی ہو جائے تو شواہد محفوظ رہیں۔کیمرے ٹوٹے ہوئے ، لینز دراڑ زدہ، ٹرائی پوڈ بکھرے پڑے ہیں۔ فائز کہتے ہیں:زیادہ تر سامان حملوں اور آئے دن کی بے دخلی اور نقل مکانی کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔ جو بچا ہے وہ بھی ٹوٹا پھوٹا ہے ۔ پھر بھی استعمال کرتے ہیں، کیونکہ اس کے بغیر دنیا کچھ نہیں دیکھ پائے گی۔فائز کا کہنا ہے کہ یہ جنگ پچھلی جنگوں سے مختلف اور اس میں خاص طور پر صحافیوں کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے :بمباری اندھی ضرور ہوتی ہے ۔ مگراس بار صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ہم دنیا کو ایک حقیقت دکھا رہے ہیں، ہم ماتم کی آواز ہیں۔ اسی لیے ہمیں خاموش کرنا چاہتے ہیں۔
یہ حقیقت صرف ان کے ذاتی احساسات نہیں بلکہ اعداد و شمار بھی گواہی دیتے ہیں۔ فلسطینی صحافی یونین کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 240 فلسطینی صحافی مارے جا چکے ہیں۔رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز یعنی آر ایس ایف کے مطابق یہ تعداد 278 ہے ۔
جدید تاریخ میں کسی بھی جنگ نے صحافیوں کو اس پیمانے پر ہلاک نہیں کیا۔عراق، افغانستان، شام یا بوسنیا، کہیں بھی اتنے زیادہ صحافی ایک ہی تنازع میں مارے نہیں گئے ۔جن صحافیوں کو ٹارگٹ کیا گیا، وہ پریس جیکٹ پہن کر کام کر رہے تھے ، بعض اسپتالوں کے باہر میڈیا خیموں میں بیٹھے تھے ، یا اپنے گھروں میں اہلِ خانہ کے ساتھ تھے ۔ اس کے باوجود میزائل ان پر برسائے گئے ۔دنیا میں شاید ہی کوئی دوسرا خطہ ہو جہاں کیمرہ یا صحافت اتنا بڑا جرم بن گیا ہو۔یہ صحافی صرف بموں سے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ بھوک سے بھی نبرد آزما ہیں۔مارچ 2024 میں اسرائیل نے سرحدی راستے بند کر دیے جس سے 24 لاکھ انسان محصور ہو گئے ۔ اب تک 450 افراد بھوک سے مر چکے ہیں، جن میں 150بچے شامل ہیں۔رپورٹرز بھی قطار میں کھڑے ہو کر روٹی کا ایک ٹکڑا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر اوقات اپنی بھوک بھلا کر بچوں کو کھلاتے ہیں، اور پھر میدانِ کارزار میں نکل پڑتے ہیں۔کئی بار وہ جنازے میں اپنے ہی بچوں کو دفناتے ہیں اور شام کو دوسروں کے جنازے کور کرتے ہیں۔ فائز کہتے ہیں:ہم فلم تو بناتے ہیں، مگر ہمارے دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہر بچہ جو کیمرے میں آتا ہے وہ اپنا بچہ لگتا ہے۔کچھ صحافی ایسے بھی ہیں جو دن بھر بھوکے رہ کر رپورٹنگ کرتے ہیں، محض چائے اور ایک روٹی پر گزر بسر کرتے ہیں۔ کئی بار تھکن اور فاقے سے وہ میدان میں گر پڑتے ہیں، لیکن پھر بھی کیمرہ نہیں چھوڑتے ۔صحافیوں کی ہلاکت پر عالمی میڈیا اور ادارے صرف بیانات اور قراردادوں تک محدود ہیں۔ یکم ستمبر کو ستر ملکوں کے ڈھائی سو سے زائد اخبارات نے صفحہ اول پر مشترکہ سرخی لگائی: جس رفتار سے اسرائیلی فوج صحافیوں کو مار رہی ہے ، جلد ہی کوئی باقی نہ رہے گا جو آپ کو خبر دے سکے ۔لیکن عملی قدم کچھ نہ ہوا۔ آر ایس ایف نے چار بار جنگی جرائم کی شکایت عالمی فوجداری عدالت میں دی مگر پیش رفت صفر۔ مغربی میڈیا کے بڑے ادارے بھی خاموش ہیں۔فائز کڑواہٹ سے کہتے ہیں:باہر کے بڑے چینل بھی خاموش ہیں، نوکری کھونے یا ملک بدری کے خوف سے ۔ تاریخ ان کی خاموشی معاف نہیں کرے گی۔
ایک اور فلسطینی صحافی، سلمیٰ القدومی بتارہی ہے کہ جنگ کے پندرہ ماہ میں بار بار زبردستی نقل مکانی اور خاندان سے جدائی سہنا سب سے مشکل مرحلہ رہا ہے :آپ ایک جگہ ٹھہرتے ہیں، اور پھر دوبارہ سب کچھ چھوڑ کر چل پڑتے ہیں۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ کوئی جگہ واقعی محفوظ نہیں ہے ۔وہ جنوبی غزہ میں رپورٹنگ کے دوران وہ زخمی ہوئیں، اسی واقعے میں ان کی ایک ساتھی جان سے گئیں۔ایک صحافی محمد منصور اپنے گھر پر فضائی حملے میں اپنی بیوی اور بیٹے سمیت مارے گئے ۔ وہ خان یونس کے رہائشی تھے اور فلسطین ٹوڈے کے لیے کام کرتے تھے ۔اسی روز شمالی غزہ کے شہر بیت لاہیا میں 23 سالہ صحافی حسام شباط، جو الجزیرہ کے نمائندے تھے ، کار حملے میں مارے گئے ۔اسرائیلی فوج نے بیان میں کہا کہ اس نے شباط کو’ختم کر دیا’ اور الزام لگایا کہ وہ ‘اسنائپر دہشت گرد’تھے ۔
شباط کی ہلاکت کے بعد قطر میں قائم الجزیرہ نے اپنے نمائندے کی ہلاکت کو’قتل ناحق’قرار دے کر سخت مذمت کی۔ ادارے نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کے ‘صحافیوں کے منظم قتل’کی مذمت کرے ۔مرام حمید، جو الجزیرہ انگلش، ڈیجیٹل کے لیے غزہ سے رپورٹنگ کرتی ہیں، کہتی ہیں؛میں تھک گئی ہوں۔
وہ بتاتی ہیں:میں اس لیے تھک گئی ہوں کیونکہ میرا دل اور دماغ مسلسل آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ وہ جھگڑتے ہیں کہ کون سی کہانی لکھنی ہے ، کون سی چھوڑنی ہے ۔ اتنی دردناک، غم انگیز اور صدمہ خیز کہانیاں ہیں کہ آپ انہیں نظرانداز نہیں کر سکتے ۔ یہ عقل اور جذبات کی جنگ ہے ۔ کوئی بات منطقی نہیں لگتی۔ اس طویل جنگ کے ہولناک مناظر دیکھنے کے بعد نیند اور سکون دونوں رخصت ہو گئے ہیں۔ نہ دل یہ سب سہہ سکتا ہے نہ دماغ۔ اپنی روزمرہ کی روٹین کے بارے میں وہ بتار ہی ہیں:میں سوتی ہوں، جاگتی ہوں، چلتی ہوں، کھانا پکاتی ہوں، کپڑے ہاتھ سے دھوتی ہوں، اپنے نومولود کی دیکھ بھال کرتی ہوں، مگر دماغ مسلسل متحرک رہتا ہے ۔ وہ کہانیاں لکھتا رہتا ہے ۔وہ عورت جو چار بچوں کے ساتھ خیمہ نہ ملنے پر سڑک پر سو رہی ہے ، وہ شخص جو قابض فوج کی قید سے چھوٹ کر اب ہسپتال میں چائے بیچ رہا ہے ، وہ میڈیکل کی طالبہ جو تعلیم مکمل نہ کر سکی اور اب مایوس ہو کر خیمے میں بیٹھی ہے ، وہ ماں جو ہر روز صحافیوں سے بچی کے لیے دودھ کی فریاد کرتی ہے ، اور وہ عورتیں جو ہسپتال کی راہداریوں میں بچوں کو گرمی اور سردی سے بچانے کیلئے سو جاتی ہیں۔مرام مزید کہتی ہیں کہ اس کا دماغ ہر روز اس کو ایک نئی کہانی کی طرف لے جاتا ہے ؛
ایک جوشیلی لڑکی کی کہانی جو صبح روٹی کی قطار میں لگتی ہے اور شام کو ہسپتال میں صحافیوں کے کپڑے دھو کر مدد کرتی ہے ۔ یا اس نوجوان کی کہانی جو لکڑی کے ڈنڈے پر موبائل باندھ کر کیمپ والوں کو ہاٹ اسپاٹ سے انٹرنیٹ بانٹتا ہے ۔ یہ سب طاقتور کہانیاں ہیں، جو دنیا تک پہنچنی چاہیے ۔
ہسپتالوں کے ایک سین کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہے :وہ اپنا بیگ خیمے میں رکھ کر باہر نکلتی ہوں تو ایک بچی کی لاش پر بین سنائی دیتا ہے ۔ لوگ کل کے ملبے سے نکالے گئے شہید کے جنازے کی نماز پڑھ رہے ہیں۔ ماں باپ چیختے ہیں۔ عورتیں زمین پر گرتی ہیں۔ مرد حوصلہ دیتے ہیں:صبر کرو، بیٹا شہید ہے ۔ مردوں کو غسل دلوانے کی بھی لائن ہے ۔ ایک باپ اپنی بیٹی کو اٹھائے کھڑا ہے کہ کب کفن نصیب ہو۔وہ کہتی ہے کہ یہ روزِ محشر کا منظر ہے ۔مگر اب عادی ہو چکی ہوں۔اسی دوران کوئی چائے بیچ رہا ہے ، تھکے لوگ کافی پی رہے ہیں، بچے بھُنے ہوئے چنے بیچ رہے ہیں۔مرام کے مطا بق :یہ مناظر اب اتنے عام ہو گئے ہیں کہ اب یہ جذبات سے عاری لگتا ہے ۔ وقت اور جگہ ہی نہیں کہ کوئی اپنے پیاروں کو الوداع کہہ سکے ۔ان سب کے بیچ میرا دماغ شرمندہ ہو جاتا ہے ۔ مگر پھر سوال اٹھتا ہے ؛ اگر ہم نہ لکھیں تو کون لکھے گا؟ اگر ہم نہ دکھائیں تو کون دکھائے گا؟ شہیدوں کی کہانیاں کون سنائے گا؟ تاریخ کے لیے اس قیامت کو کون محفوظ کرے گا؟ خدایا، یہ کیسا ظلم ہے !تقریباً دو سال ہو گئے ، لائیو کوریج، انٹرویوز اور مضامین کا سلسلہ ہے ۔ مگر دل پوچھتا ہے ؛ کیا فائدہ؟ دماغ پوچھتا ہے ؛ کیا فائدہ؟ دنیا تو کچھ کرتی نہیں۔
صحافیوں کی یہ کہانیاں مل کر ایک حقیقت کو نمایاں کرتے ہیں،غزہ کے صحافی دنیا کے آخری گواہ ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو غزہ کی کہانی اندھیروں میں دفن ہو جائے گی۔ شاید دنیا بعد میں کہہ دے ہمیں پتا نہیں تھا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ صحافی اپنی جان پر کھیل کر یہ حقائق دنیا تک پہنچا رہے ہیں تاکہ کل کوئی انکار نہ کر سکے ۔مومن فائز کہتے ہیں کہ غزہ کے صحافی عنقا کی طرح راکھ سے پھر جی اٹھتے ہیں۔ انہیں پتا ہے کہ ہر کوریج ان کی آخری ہو سکتی ہے ۔ پھر بھی ان کا عزم ہے کہ ٹوٹے کیمروں سے ، اپنی آخری سانس تک سب کچھ ریکارڈ کرتے رہیں گے اور دنیا کے ضمیر کو جگانے کا کام کرتے رہیں گے ۔ ان کے کئی ساتھی فاقے سے بے ہوش ہو گئے مگر رپورٹنگ نہیں چھوڑی۔
غزہ کے صحافی وہ چراغ ہیں جو شب ِسیاہ میں بجھا دیے جا رہے ہیں۔ مگر انہی کی قربانیوں نے غزہ کی کہانی کو دنیا تک پہنچایا ہے ۔ اگر یہ نہ ہوں تو دنیا اندھی ہو جائے ۔ تاریخ ان کے خون کو سطر سطر لکھے گی اور آنے والی نسلیں جانیں گی کہ ظلم کے اندھیروں میں بھی کچھ لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سچ کا چراغ جلاتے رہے ۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: غزہ کے صحافی صحافیوں کو پڑتے ہیں کرتے ہیں کہتے ہیں کی کہانی ایک اور ہو جائے دنیا تک ہیں میں رہے ہیں رہا ہے کام کر ہو گئے ہیں کہ کے لیے غزہ کی ہوں تو
پڑھیں:
غزہ ، انسانیت کی شکست کا استعارہ
اسرائیلی بحریہ نے غزہ کے لیے امداد لے جانے والے ’’ گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ پر ایک بڑا فوجی آپریشن کرتے ہوئے 42 کشتیوں کو تحویل میں لے لیا اور ان میں سوار 450 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا۔
دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی حملوں میں مزید 53 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ شہر میں اب بھی سات لاکھ افراد پھنسے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ نے امریکا کے نئے جنگ بندی منصوبے کو مسترد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
غزہ ایک بار پھر تاریخ کے خون آلود اور سیاہ باب کی زد میں ہے۔ اسرائیلی بمباری، ٹینکوں کی گھن گرج، فضا میں اڑتے ہوئے تباہ کن طیارے، ملبے کے نیچے دبی انسانی چیخیں، ادھ جلی لاشیں، بچوں کی لاوارث نعشیں، اور غزہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ عالمی طاقتیں، انسانی حقوق کے دعویدار اور بین الاقوامی ادارے سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان کی خاموشی، ان کی لاتعلقی اور ان کے دہرے معیار اس انسانی المیے کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔
غزہ کی جانب امداد لے جانے والے ’’گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ پر اسرائیلی بحریہ کی کارروائی انسانی ہمدردی پر براہِ راست حملہ ہے۔ 42 کشتیوں کو تحویل میں لینا، 450 سے زائد امدادی کارکنوں کو گرفتار کرنا اور انھیں اشدود بندرگاہ منتقل کر کے یورپ ڈی پورٹ کرنا عالمی قوانین اور انسانی اقدار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
فلوٹیلا میں شریک افراد محض سیاسی کارکن نہیں تھے، بلکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ کے متاثرین کے لیے خوراک، ادویات، اور بنیادی ضروریات لے کر جا رہے تھے۔ ان میں سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد، اور جنوبی افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کے پوتے نکوسی زویلیولیلی بھی شامل تھے۔ ان افراد کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ انسانی اقدار، انصاف اور مظلوموں کے لیے آواز بلند کر رہے تھے۔
اگر دنیا میں کوئی قانون ہوتا، اگر عالمی ضمیر بیدار ہوتا، تو اسرائیل کے اس عمل کو بحری قزاقی اور دہشت گردی قرار دے کر اسے جواب دہ ٹھہرایا جاتا، لیکن بدقسمتی سے عالمی طاقتوں نے خاموشی کو ترجیح دی، اور اسرائیلی جارحیت کو نظر انداز کر کے گویا اسے اس جرم کی اجازت دے دی۔
غزہ میں خوراک، پانی، بجلی، اور دوا کی عدم دستیابی ایک ایسی صورت حال پیدا کر چکی ہے جو نسل کشی کے مترادف ہے۔ جب کسی علاقے کو مکمل طور پر بند کر کے وہاں انسانی زندگی کے تمام بنیادی وسائل ختم کر دیے جائیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہاں زندہ رہنا ممکن نہیں۔ یہی صورت حال آج غزہ میں ہے۔13 افراد جو گزشتہ روز شہید ہوئے، وہ صرف اس لیے مارے گئے کہ وہ خوراک کی تلاش میں نکلے تھے۔
یہ واقعہ عالمی ضمیر پر ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب شاید کبھی نہ ملے۔ اگر دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں واقعی مخلص ہوتیں، تو وہ اس واقعے کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی المناک داستانوں میں شمار کرتیں، لیکن یہاں بھی دہرے معیار غالب ہیں۔ غزہ شہر، جو کبھی زندگی، ثقافت اور مزاحمت کا مرکز تھا، آج ایک کھلی جیل بن چکا ہے۔
اسرائیلی ٹینکوں نے شہر کا مرکزی راستہ بند کر دیا ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق اب بھی سات لاکھ سے زائد فلسطینی شہری شہر میں محصور ہیں۔ ان کے لیے نہ خوراک ہے، نہ دوا، نہ بجلی اور نہ ہی کوئی محفوظ پناہ گاہ۔ یہ لوگ بے بسی کی اس انتہا پر ہیں جہاں سے آگے صرف موت کی وادی ہے، لیکن اس کے باوجود، ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ غزہ میں مقیم عوام کا کہنا ہے ’’ مرجائیں گے، لیکن غزہ چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ ہمیں ڈر ہے اگر یہاں سے گئے تو کبھی واپس نہیں آ سکیں گے۔‘‘ یہ ایک اجتماعی عزم ہے، ایک اجتماعی فیصلہ، جو کسی سیاسی منشور یا رہنما کے حکم کا نتیجہ نہیں بلکہ تاریخ کے زخم خوردہ لوگوں کی فطری مزاحمت کا عکس ہے۔
فلسطینی عوام کو گزشتہ سات دہائیوں سے انسانی حقوق کی مسلسل پامالی کا سامنا ہے، لیکن موجودہ حملے ان تمام مظالم کی انتہا ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک شہدا کی تعداد 66 ہزار 225 ہو چکی ہے، جب کہ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ 68 ہزار 938 سے تجاوزکرچکی ہے۔
ان اعداد و شمار کے پیچھے صرف اعداد نہیں، بلکہ ٹوٹے ہوئے گھرانے، یتیم بچے، دکھی مائیں اور جلتے ہوئے خواب ہیں۔ ایک عام شہری جب بھوک، قحط اور پانی کی تلاش میں گھر سے نکلتا ہے اور اسرائیلی گولے کا نشانہ بن جاتا ہے، تو یہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں بلکہ انسانیت پر حملہ ہوتا ہے۔
اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں امریکا کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی منصوبہ حماس کے عسکری ونگ نے مسترد کر دیا ہے۔ اس منصوبے میں نہ صرف حماس سے مکمل ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا بلکہ اسے غزہ کی مستقبل کی حکومت میں بھی کسی قسم کا کردار دینے سے انکار کیا گیا۔ مزید برآں، ’’ سیکیورٹی بفر زون‘‘ قائم کرنے اور بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی، جوکہ دراصل ایک نئی قسم کا قبضہ ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس منصوبے کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیش کیا، جسے اسرائیل پہلے ہی قبول کر چکا ہے، لیکن حماس کو کوئی رعایت دیے بغیر اس سے مکمل اطاعت کا تقاضا کیا گیا ہے۔ قطر میں موجود حماس کی سیاسی قیادت اگرچہ ترامیم کے ساتھ منصوبے کو قبول کرنے پر آمادہ ہے، مگر ان کا اثر و رسوخ محدود ہے، کیونکہ جنگی قیدیوں اور یرغمالیوں کا کنٹرول ان کے پاس نہیں۔ یہ تمام حقائق اس بات کا مظہر ہیں کہ عالمی طاقتیں، خاص طور پر مغربی دنیا، مسئلہ فلسطین کو انصاف کے ترازو میں نہیں بلکہ اپنے سیاسی، معاشی اور اسٹرٹیجک مفادات کی عینک سے دیکھتی ہیں۔ انسانی حقوق، آزادی، خود مختاری، اور جمہوریت جیسے نعرے صرف اس وقت بلند کیے جاتے ہیں جب ان سے مغربی مفادات کو فائدہ ہو۔
یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ ایسا ہولناک المیہ دنیا کی نظروں کے سامنے پیش آ رہا ہے اور دنیا بے حس، بے بس اور مفلوج بنی تماشائی ہے۔ اسرائیل کے بے رحم حکمرانوں کے ہاتھوں فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، ان پر دنیا کس طرح خود کو بری الذمہ قرار دے سکتی ہے؟ آنے والی نسلیں آج کے عالمی رہنماؤں کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ دنیا کس طرح ان درندگی بھرے اقدامات کے مقابل خاموش رہی؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا جذبات سے عاری ہو چکی ہے۔ غزہ میں جاری قیامت خیز صورتحال انسانی ضمیرکا پیچھا کرتی رہے گی۔
بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کی چیخیں، جو خیراتی اداروں کے چند نوالوں کے لیے دوڑ رہے ہیں، ہر انسان کے دل میں درد بیدار کرتی ہیں۔ یہ مناظر انسانیت کے لیے باعثِ شرم ہیں۔ کیمرے میں محفوظ کیے گئے یہ مناظر موجودہ اور آنے والی نسلوں کی یاد داشت سے کبھی مٹ نہیں سکیں گے۔ اور وہ مناظر جن میں ماں باپ اپنے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے بچوں کی لاشوں پر چیخ رہے ہیں، وہ انسانی ضمیر کو ہمیشہ جھنجھوڑتے رہیں گے۔
آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ کیا دنیا کے پاس ظلم روکنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا؟یہ المیہ صرف مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تصادم کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ انسانیت کا زخم ہے۔ بیشتر یہودی بھی ان بربریت بھرے اقدامات کے مخالف ہیں۔ غزہ اب صرف فلسطین کا نہیں، بلکہ انسانی المیے کی علامت بن چکا ہے۔
دنیا کو اس پر شرمندہ ہونا چاہیے کہ وہ ان مجرموں کو روکنے، ان پر مقدمے قائم کرنے، اور انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے مؤثر نظام قائم کرنے میں ناکام رہی۔ مغرب کو اب انسانی حقوق، انسانی وقار اور شہریوں کے تحفظ کے دعووں سے باز آنا چاہیے، کیونکہ غزہ میں ان کے دہرے معیار، منافقت اور خاموشی نے سب کچھ بے نقاب کر دیا ہے۔غزہ کا بحران نہ صرف فلسطینیوں کا المیہ ہے بلکہ انسانیت کی مجموعی شکست کا استعارہ ہے۔
جب معصوم بچوں کی لاشیں دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام رہیں، جب اسپتالوں کے ملبے کے نیچے دبی چیخیں اقوام متحدہ کو خواب غفلت سے نہ جگا سکیں اور جب امدادی کارکنوں کی گرفتاریاں عالمی قوانین کو حرکت میں نہ لا سکیں، تو ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے۔ ’’ ہم کہاں کھڑے ہیں؟‘‘ اگر اس ظلم پر خاموشی اختیار کی گئی، تو کل یہ ظلم کسی اور دروازے پر دستک دے گا۔ فلسطین کا مسئلہ صرف ایک خطہ زمین کا نہیں، بلکہ یہ انصاف، انسانی وقار اور عالمی ضمیر کا امتحان ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی بے حسی کو توڑیں، آواز بلند کریں، اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں، اگر ہم آج بھی خاموش رہے، تو کل تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔