ٹرمپ کے ایجنڈے پر فلسطین کا سودا کرنے والے مسلم حکمران خیانت کار ہیں، علامہ حسن ظفر نقوی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایمپریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکمران خائن عرب بادشاہوں کے طرز عمل اپنا رہے ہیں، خائن عرب حکمرانوں کی طرح فلسطین کا سودا نہ کیا جائے، فلسطین میں موجود مزاحمتی جماعتیں غاصب اسرائیل کے خلاف اپنا جائز دفاع کر رہی ہیں۔ نے کہا کہ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین ٹرمپ منصوبے کو سختی سے مسترد کرتی ہے، ہمیں ٹرمپ کا نہیں قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستا ن چاہیئے، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار عوام کو معاہدے سے مطلق بے وقوف نہ بنایئے، کل اگر کشمیری عوام کے بغیر ٹرمپ مسئلہ کے حل کیلئے اپنا ایجنڈا دیتے ہیں کیا حکومت قبول کرے گی۔ علامہ باقر عباس زیدی، علامہ صادق جعفری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ نہ صرف فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے بلکہ غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف یہود و نصاری کی ایک منظم اور گہری سازش ہے، غزہ کے عوام کو ان کے وطن، شناخت، خودمختاری اور جغرافیائی وحدت سے محروم کرنے کی اس مذموم کوشش کے خلاف امت مسلمہ کو آواز بلند کرنا ہوگی، اس منصوبے کا مقصد غزہ کو سیاسی طور پر تنہا، معاشی طور پر مفلوج، اور انسانی سطح پر تباہ کرنا اور وہاں کی مزاحمتی آواز کو مکمل طور پر خاموش کرنا ہے۔
علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ غزہ کے عوام کو سیاسی منظرنامے سے نکالنے کی کوشش ایک ناقابل قبول اقدام ہے جو بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے، اس منصوبے کے ذریعے فلسطینی سرزمین کی تقسیم، انضمام اور غزہ کی علیحدگی کو ایک ''حل'' کے طور پر پیش کرنا اصل میں قبضے کو قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے، غزہ پر جاری ناکہ بندی، معاشی پابندیاں، اور مسلسل عسکری حملے اس منصوبے کے نفاذ کی عملی صورت ہیں، جو غزہ کے لاکھوں مظلوم عوام کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہیں، فلسطینی مجاہدین ایسے کسی دھوکے میں نہیں آئیں گے، ٹرمپ کے ایجنڈے پر فلسطین کا سودا کرنے والے مسلم حکمران خیانت کار ہیں، امریکہ و صہیونی غاصب ریاست کی افواج نے سرزمین انبیاء فلسطین پر لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا ہے، پاکستانی حکمران خائن عرب بادشاہوں کے طرز عمل اپنا رہے ہیں، خائن عرب حکمرانوں کی طرح فلسطین کا سودا نہ کیا جائے۔
علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ فلسطین میں موجود مزاحمتی جماعتیں غاصب اسرائیل کے خلاف اپنا جائز دفاع کر رہی ہیں، اسرائیل مغربی کنار ے سمیت غزہ پر مسلسل حملے کر رہا ہے، امریکہ اور یورپی ممالک مشرق وسطیٰ میں امن و امان کے خیر خواہ نہیں، ٹرمپ کی امن تجاویزات کو عرب و مسلم ممالک کو مسترد کرنا چاہیئے، ہم عالمی برادری، اقوام متحدہ، اسلامی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس خطرناک اور غیر انسانی سازش کا حصہ بننے کی بجائے اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوں، غزہ کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات وقت کی اولین ضرورت ہے، ہم فلسطین کی مکمل آزادی، القدس کو دارالحکومت بنانے اور غزہ سمیت پورے فلسطین میں عوام کے حقِ خودارادیت کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے، ٹرمپ منصوبہ تاریخ کی کوڑے دان میں جائے گا لیکن غزہ کے عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، غزہ فلسطین کا دل ہے اور دل کی اس دھڑکن کو کبھی خاموش نہیں ہونے دیا جائے گا۔
رہنماؤں نے گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیل کا قبضہ کرنے سینیٹر مشتاق سمیت 150 سے زائد نہتے کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ امدادر قافلے پر اسرائیلی حملہ بین الاقوامی پانیوں میں قانون اور انسانیت دونوں کی صریح توہین ہے، واقعہ دراصل غزہ کے غیر قانونی اور غیر انسانی محاصرے کو مزید سخت کرنے کی ایک شرمناک کڑی ہے، قافلہ کسی جنگ کے لیے نہیں بلکہ بھوک اور پیاس سے تڑپتے غزہ کے بچوں اور مریضوں کے لیے زندگی کا پیغام لے کر نکلا تھا، مگر اسرائیلی جارحیت ایک بار پھر دنیا پر عیاں ہوگئی ہے اس ریاست کے اصل عزائم امداد روکنے، ظلم بڑھانے اور انسانیت کو روندنے کے سوا کچھ نہیں، حکومت اپنے اس دوغلے رویے کو ترک کرے، مگرمچھ کے آنسو بہانے کے بجائے فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ دے سینیٹر مشتاق سمیت دیگر مغویوں کو فوری آزاد کرایا جائے، ملکی عوام امریکی صدر کے ایجنڈے کو مسترد کرتی ہے حکومت فورا اپنی حمایت واپس لے۔ کانفرنس میں مولانا اسلم عابد، علامہ مبشر حسن، ناصر الحسینی سمیت دیگر رہنما بھی موجود تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ حسن ظفر نقوی فلسطین کا سودا غزہ کے عوام اور انسانی کے خلاف عوام کو عوام کے کے لیے نے کہا
پڑھیں:
ٹرمپ کا امن منصوبہ یا امت ِ مسلمہ کے خلاف سازش؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا ایک بار پھر بڑے منظرناموں کے پیچھے چھپی حقیقت سے آنکھیں چرا رہی ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے غزہ کے حوالے سے وہ معاہدہ پیش کیا ہے جسے بڑے شوروغل کے ساتھ ’’امن منصوبہ‘‘ کہا جا رہا ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے: یہ امن نہیں، فریب اور سیاسی سودے بازی ہے جس کا نتیجہ فلسطینیوں کی مزید بے بسی اور اسرائیلی تسلط کی باضابطہ تقویت ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا گیا یہ منصوبہ دراصل غزہ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ایک ایسا سیاسی جال جس کا مقصد مظلوم کو جھٹلا کر مظالم کو جائز قرار دینا ہے۔ یہ بات کسی قسم کی مبالغہ آرائی نہیں؛ تاریخ بارہا بتا چکی ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے مفاد کے لیے وعدے کرتی ہیں اور معاہدے کرتی ہیں، مگر نتیجہ ہمیشہ کمزور طبقات کے نقصان میں نکلتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ ’’یہود و نصاریٰ تمہارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے‘‘۔ (البقرہ: 120) اور رسولِ مقبولؐ نے اسی حقیقت کی طرف خبردار کیا۔ آج جب ہم غزہ کی ویرانی، بے گھر خاندان، اور سسکتی ہوئی ماؤں کو دیکھتے ہیں تو یہ نصیحت حرفِ آخر کی طرح سچ معلوم ہوتی ہے۔ مزید افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت نے اس معاہدے کے متعلق جو ردِ عمل دکھایا یا جس پر خاموشی اختیار کی وہ امت ِ مسلمہ کی قلبی توقعات کے بالکل برعکس ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے ٹرمپ کو امن کا علمبردار قرار دینا اور اس کے لیے ایوارڈ کی بات کرنا — چاہے وہ محض ایک تجویز یا حمایت ہو!! دراصل فلسطینی شہداء کے خون کے ساتھ ایک ظالمانہ کھلواڑ ہے۔ ایسے شخص کو امن کا علم بردار کہنا، جس کے دورِ اقتدار میں لاکھوں مظلوموں کا خون بہا، اسپتال و اسکول ملبے میں تبدیل ہوئے اور بے گناہ بچے یتیم ہوئے، انسانیت کے منافی ہے۔
فلسطین کے محاذ پر جو قوتیں کھڑی ہیں، ان میں حماس ایک ایسا نام ہے جس نے عملی مزاحمت کے ذریعے امت ِ مسلمہ کے فرض کو ادا کرنے کی کوشش کی۔ حماس کے بانی اور قائدین نے اپنی اپنی جگہ پر قربانیاں دیں اور دین و وطن کے دفاع کی خاطر جدوجہد کی۔ حماس کی قیادت اور مجاہدین نے ہمیشہ یہ واضح کیا ہے کہ لہو کے آخری قطرے تک سرزمین ِ فلسطین کی حفاظت کریں گے۔ حماس کی لاتعداد قربانیوں کے بعد عالمی سطح پر بہت سے مسلم ممالک نے کھل کر اسرائیل کی پالیسیوں کی مخالفت کی ہے؛ احتجاج ہوئے، قراردادیں منظور ہوئیں، بعض حکومتوں نے سفارتی سطح پر اقدامات کیے۔ مگر پاکستان کی پالیسی، جو روایتی طور پر فلسطین کے حق میں مضبوط بیانیہ رکھتی آئی ہے، آج عملی موقف میں نمایاں طور پر کمزور دکھائی دیتی ہے۔ زبانی اظہارِ یکجہتی کافی نہیں؛ عملی قدم، واضح بیانیہ اور بین الاقوامی سطح پر مضبوط موقف درکار ہوتا ہے۔ افسوس کہ تاحال پاکستان کی جانب سے کھلے اور واضح الفاظ میں اسرائیل کی مخالفت یا اْس کے خلاف ٹھوس عملی اقدامات نظر نہیں آئے۔ بیانات بھی دیے گئے، مگر عملی سطح پر وہی ڈبل اسٹینڈرڈ دکھائی دیتا ہے جس نے ہماری خارجہ پالیسی کو کمزور کر دیا ہے۔
یہ دوغلی پالیسی صرف فلسطین تک محدود نہیں؛ یہ ہماری قومی خوداری، ہماری خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی شعبہ کو متاثر کرتی ہے۔ ماضی میں جب پاکستان نے اصولی موقف اپنایا تھا تو ہمیں اسلامی دنیا میں ایک وقار ملا کرتا تھا۔ مگر آج جو رویّہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ ہمیں اس عزت و وقار سے محروم کر رہا ہے۔ اب یہ بتانا ضروری ہے کہ ٹرمپ کا حالیہ معاہدہ محض ایک دستاویز نہیں؛ یہ ایک سیاسی عمل ہے جس کے اثرات آنے والے برسوں میں محسوس ہوں گے۔ یہ معاہدہ فلسطین کے حقوق پر سمجھوتا، اسرائیلی تسلط کو قانونی رنگ دینے اور خطے میں دہشت گردی کی فضا کو مزید گہرا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ایسے معاہدے کی حمایت خواہ وہ کسی حکومت کی جانب سے براہِ راست کی جائے یا خاموشی سے قبول کر لی جائے، بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی انصاف کے خلاف ایک اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔ اور جب ہمارے اعلیٰ حکومتی عہدے دار اِس پر نرم گوشہ دکھاتے ہیں یا ایوارڈ جیسی تجاویز سامنے آتی ہیں، تو یہ نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابل ِ فہم ہے بلکہ قوم کے نظریاتی بْنیادوں کے ساتھ بھی تضاد ہے۔
ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا: کیا ہم فلسطین پر ہوئے ظلم و ستم کی اس تاریخ کو فراموش کر دیں گے؟ کیا ہم اپنے مذہبی، اخلاقی اور انسانی تقاضوں کے برعکس رہ کر دنیا کی طاقتوں کے سودے بازی میں شریک ہو جائیں گے؟ حقیقی امن کا علمبردار تو وہ ہے جو مظلوم کا حق دے اور انصاف کو قائم کرے۔ پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ وہ فوری اور کھلے دل کے ساتھ اس معاہدے کی کھل کر مذمت کرے، فلسطینیوں کے حق ِ خودارادیت کے لیے عملی طور پر آواز اٹھائے، اور اپنے بیانات کو عمل سے بھی ثابت کرے۔ قوم کا صبر اٹل ہے مگر تاریخ کی نظر سخت ہے؛ جو اب خاموش رہتا ہے، کل اسے اپنی چپ پر جواب دینا ہوگا۔ آخر میں ایک کڑوی مگر سچ بات کے پاکستانی وزیر اعظم اور آرمی چیف کا امریکا کا کر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عالمی دہشت گرد کو امن کا ایوارڈ دینے کی سفارش کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ موجودہ حکمران کا قدر اپنے زمینی آقاؤں کی دہلیز پر سجدہ ریز ہیں اور مسلمانوں کے خون کا سودا کرنے کو تیار ہیں۔