ہیٹی میں گینگ وار سے نمٹنے کے لیے نئی یو این فورس کے بارے میں جانیے
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) ہیٹی میں مسلح گروہ مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور شہریوں کے لیے خوف کا ماحول برقرار ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس تشدد کو روکنے اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لیے ملک میں ایک نئی فورس تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مسلح جتھوں کی سرکوبی کرنے والی اس فورس (جی ایس ایف) کے بارے میں چند اہم حقائق درج ذیل ہیں۔
یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے منظور شدہ ایک نئی کثیر الملکی فورس ہے جو مسلح گروہوں کے خلاف کام کرے گی۔
یہ فورس 5,550 اہلکاروں پر مشتمل ہو گی اور ابتداً 12 ماہ تک ذمہ داریاں انجام دےگی۔ اس دوران یہ فورس ہیٹی کے حکام کے ساتھ مل کر مسلح گروہوں کے خاتمے، شہری تنصیبات کو تحفظ دینے اور انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گی۔
(جاری ہے)
اس کا بنیادی مقصد غیر محفوظ آبادیوں کو بڑھتے ہوئے تشدد سے تحفظ فراہم کرنا اور جبری نقل مکانی کو روکنا ہے۔
فورس کی تعیناتی کے لیے سکیورٹی کونسل کی قرارداد پاناما اور امریکہ کی جانب سے مشترکہ طور پر پیش کی گئی تھی جو گزشتہ چند برس سے ہیٹی میں بڑھتے کثیرالجہتی بحران سے نمٹنے کے معاملے پر وسیع بین الاقوامی حمایت کی عکاسی کرتی ہے.
مسلح گروہوں کو ختم کرنے کے لیے خفیہ معلومات کی بنیاد پر کارروائیاں کرنا، اہم تنصیبات کا تحفظ یقینی بنانا اور انسانی امداد کی رسائی کو برقرار رکھنا اس فورس کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔
اس دوران شہریوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔'جی ایس ایف' ہیٹی کے حکام اور پولیس کے ساتھ قریبی تعاون کرے گی تاکہ ملک کو اپنا تحفظ خود کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔
اس مشن کا مقصد ہیٹی کے قومی اداروں کو مضبوط کرنا اور طویل المدتی امن وترقی کے لیے حالات کو سازگار بنانا بھی ہے۔ اس مقصد کی خاطر انصرامی اور عملی معاونت کے لیے اقوام متحدہ کا ایک معاون دفتر بھی قائم کیا جائے گا۔
جی ایس ایف کس کا متبادل؟'جی ایس ایف' سلامتی میں معاون کثیر الملکی مشن (ایم ایس ایس) کی جگہ سنبھالے گی۔ یہ اقدام ہیٹی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی حکمت عملی میں تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔
کینیا کی قیادت میں 'ایم ایس ایس' کا بنیادی ہدف ہیٹی کی پولیس کو مدد دینا تھا جبکہ اس مشن کے وسائل اور افرادی قوت محدود تھی۔ اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والے اس مشن کا پہلا دستہ گزشتہ سال جون میں ہیٹی پہنچا۔
تاہم اس مشن کو مالی مسائل کا سامنا رہا اور اس کے تحت مطلوبہ ڈھائی ہزار اہلکاروں کی تعیناتی کبھی عمل میں نہ آ سکی۔اس سے برعکس 'جی ایس ایف' ایک بڑی اور زیادہ مضبوط فورس ہوگی جس کی ذمہ داریاں بھی پہلے مشن سے کہیں زیادہ وسیع ہیں۔
ہیٹی میں سلامتی کے حوالے سے غیر معمولی خطرناک حالات کے پیش نظر مسلح گروہوں پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیاد پر ایک فورس کی ضرورت ہے۔
اطلاعات کے مطابق، مسلح گروہ اب ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ او پرنس کے 90 فیصد حصے پر قابض ہیں۔ یہ گروہ سڑکیں بند کر رہے ہیں، تنصیبات پر حملے کر رہے ہیں اور شہریوں کو اغوا برائے تاوان، جنسی زیادتی اور قتل جیسے جرائم کے ذریعے خوفزدہ کر رہے ہیں۔
ہیٹی میں گزشتہ سال ہی 5,600 سے زیادہ لوگوں کو قتل کیا گیا تھا۔
مارچ 2025 سے تشدد کا سلسلہ دارالحکومت پورٹ او پرنس کے علاوہ ملک کے ان حصوں تک بھی پھیل گیا جو اس سے پہلے محفوظ تھے۔
نتیجتاً آرٹیبونائٹ میں 92,000 اور سینٹرل ڈپارٹمنٹس میں ایک لاکھ 47 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔تشدد سے جان بچا کر نقل مکانی کرنے والوں کی مجموعی تعداد 13 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ طبی خدمات اور خوراک کی فراہمی کا نظام منہدم ہو چکا ہے۔
ہیٹی کی پولیس کے پاس ان حالات سے موثر طور پر نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
ہیٹی کیوں ناکام؟ریاستی اداروں کی نااہلی، پولیس کے لیے وسائل کی کمی اور حد سے زیادہ تشدد کی وجہ سے ہیٹی کے لیے ان مسلح گروہوں سے اکیلے نمٹنا ممکن نہیں ہے۔
ان مسلح گروہوں نے بچوں کے استحصال اور اسلحہ و منشیات کی سمگلنگ کے جرائم پر مبنی متوازی حکمرانی قائم کر رکھی ہے۔۔
اقوام متحدہ بارہا واضح کر چکا ہے کہ عدم احتساب، بدعنوانی اور اداروں کی ناکامی سے ہیٹی میں عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے حکام نے واضح کیا ہے کہ صرف امن و امان کی بحالی کے اقدامات سے ہی ہیٹی کے بحران کو حل نہیں کیا جا سکتا۔
ملک متعدد بحرانوں سے گزر رہا ہے۔ زلزلوں جیسی قدرتی آفات اور عدم تحفظ کی وجہ سے انسانی امداد کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ معیشت تیزی سے گر رہی ہے، غربت اور پسماندگی عام ہے اور صدر جووینل موز کے 2021 میں قتل کے بعد کوئی منتخب حکومت وجود نہیں رکھتی۔
اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے واضح کیا ہے کہ 'جی ایس ایف' کو ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ بنایا جانا چاہیے جس میں حکومتی اصلاحات، انسانی امداد اور طویل المدتی ترقی شامل ہوں۔
جی ایس ایف کی تشکیل ایک ضروری مگر ناکافی اقدام ہے۔ ہیٹی کی حقیقی بحالی کے لیے بین الاقوامی حمایت صرف سکیورٹی تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔
جی ایس ایف کب کام شروع کرے گی؟'جی ایس ایف' متوقع طور پر 2 اکتوبر 2025 کو 'ایم ایس ایس' کی ذمہ داری ختم ہونے کے بعد اپنا کام شروع کرے گی۔ تاہم، نئی فورس کے لیے 5,550 سکیورٹی اہلکار اور غیرفوجی عملے کے 50 ارکان کی بھرتی کرنے اور اس کی مدد کے لیے اقوام متحدہ کا دفتر قائم کرنے میں وقت درکار ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ کون سے ممالک اس فورس کے لیے اہلکار فراہم کریں گے۔ تاہم، سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق اس فورس کے لیے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی رضاکارانہ مالی شراکت سے مالی وسائل فراہم کیے جائیں گے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مسلح گروہوں اقوام متحدہ جی ایس ایف کر رہے ہیں ہیٹی میں اس فورس ہیٹی کے فورس کے کرے گی کے لیے
پڑھیں:
ثوب الفرح: متحدہ عرب امارات کا غزہ میں اجتماعی شادیوں کے انعقاد کا اعلان
متحدہ عرب امارات کے انسانی ہمدردی کے منصوبے ’آپریشن گیلنٹ نائٹ 3‘ نے اپنی پہلی اجتماعی شادی کی خصوصی مہم ’ثوب الفرح‘ (خوشی کا لباس) کا آغاز کر دیا ہے۔
یہ اقدام امارات کی 54ویں قومی دن کی تقریبات کے موقع پر کیا گیا ہے، جس کا مقصد غزہ کی پٹی میں مشکل حالات کا سامنا کرنے والے نوجوانوں اور ان کے خاندانوں کا بوجھ کم کرنا اور انہیں خوشی اور استحکام فراہم کرنا ہے۔ مہم کے تحت مجموعی طور پر 54 جوڑے اس سوشل ویلفیئر پروگرام سے فائدہ اٹھائیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پہنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
انتظامیہ کے مطابق اس اجتماعی شادی کے لیے رجسٹریشن کا عمل صرف سرکاری ویب سائٹ پر موجود ’پروجیکٹس اینڈ اسسٹنس‘ سیکشن میں فراہم کردہ خصوصی لنک کے ذریعے ہی مکمل کیا جا سکے گا، تاکہ درخواستوں کا اندراج منظم، شفاف اور مؤثر طریقے سے ہو سکے۔
انتظامیہ نے بتایا کہ اجتماعی شادی کے لیے درخواست دینے والے افراد کے پاس فلسطینی قومیت اور غزہ کی پٹی میں مستقل رہائش ضروری ہے۔
اس کے علاوہ دلہے کی عمر کم از کم 27 سال ہونا ضروری ہے، تاہم جن خاندانوں میں صرف ایک ہی مرد بچا ہو اُن کے لیے عمر کی شرط میں نرمی کی جائے گی۔ درخواست گزار غیر شادی شدہ ہو، اور طبی، ذہنی اور سماجی طور پر شادی کے قابل بھی ہو۔
یہ بھی پڑھیے: دھی رانی پروگرام: بہاولپور میں 174 مستحق جوڑوں کی اجتماعی شادی، سلامی بھی دی گئی
مزید برآں، امیدوار کا کسی سرکاری ادارے میں ملازم نہ ہونا اور کم آمدنی والے یا جنگ سے متاثرہ خاندان سے تعلق رکھنا بھی لازمی ہے۔ مہم میں شامل ہونے والے نوجوانوں کو پروگرام کی تمام ہدایات پر عمل درآمد، کمیٹیوں کے فیصلوں کی پابندی، سرکاری سرگرمیوں میں باقاعدہ شرکت اور میڈیا دستاویزات کا حصہ بننے کی مکمل رضامندی بھی فراہم کرنا ہوگی۔
یہ اجتماعی شادی کی پہل غزہ میں سماجی استحکام کو فروغ دینے، نوجوانوں کو نئی امید فراہم کرنے اور مشکلات سے دوچار خاندانوں میں خوشی بانٹنے کی جاری انسانی ہمدردی کی کوششوں کا ایک اور نمایاں سنگِ میل ثابت ہو رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اجتماعی شادی غزہ فلسطین متحدہ عرب امارات