پروفیسر شاداب احمد صدیقی
دنیا میں اگر کسی ایک نام کو علم، انسانیت اور امن کے استعارے کے طور پر یاد کیا جائے تو وہ ہے الفریڈ نوبیل۔ ایک ایسا شخص جس نے اپنے سائنسی ذہن سے بارود کی تباہی کو ایجادات کی ترقی میں بدل دیا اور پھر اپنے ضمیر کی خلش سے انسانیت کو وہ تحفہ دیا جسے آج دنیا ”نوبیل انعام” کے نام سے جانتی ہے ۔ نوبیل انعام صرف ایک اعزاز نہیں بلکہ انسانی شعور اور اخلاقی ذمے داری کا عہد نامہ ہے ، جو ہر سال اُن افراد کو دیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے علم، فن یا خدمت سے بنی نوع انسان کے مستقبل کو روشن کیا۔
2025 کا نوبیل امن انعام عالمی سطح پر بہت زیادہ اہمیت حاصل کر گیا اور پوری دنیا کا تجسس بڑھ گیا تھا کہ اس مرتبہ امن کا نوبیل انعام کس کو ملے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی میدان میں اترے اور انہیں اپنی کامیابی پر پورا یقین تھا ان کی حمایت پاکستان سمیت دیگر ممالک نے کی تھی۔ٹرمپ مضبوط امیدوار تھے لیکن حیرت اس وقت ہوئی کہ جب قرعہ وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچادو کے نام نکلا۔امن کی تاج پوشی مچاڈو کے نام ہوئی۔
کُفْر ٹُوٹا خُدا خُدا کَر کے
اس نتیجے نے دنیا کو حیران کر دیا خاص طور پر ٹرمپ کو جو اپنے آپ کو امن کا سفیر کہتے ہیں۔دنیا کے سب سے معزز اور متنازع ترین عالمی اعزازات میں سے ایک ”نوبیل امن انعام” ہر سال انسانی وقار، آزادی، مساوات اور امن کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے دیا جاتا ہے ۔ 2025میں یہ اعزاز وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچادو کو دیا گیا، جنہوں نے اپنے وطن میں آمریت کے اندھیروں کے خلاف جمہوریت کا دیا جلایا۔ ان کا یہ انعام صرف ایک فرد کی فتح نہیں بلکہ ان لاکھوں مظلوم وینزویلین شہریوں کی آواز ہے جو برسوں سے بنیادی انسانی حقوق اور سیاسی آزادی کے لیے ترس رہے تھے ۔
نوبیل کمیٹی کے مطابق ماریا کورینا ماچادو کو ”پرامن جمہوری جدوجہد، شہری جرأت اور عوامی حقوق کے دفاع” پر یہ اعزاز دیا گیا۔ وہ لاطینی امریکا کی حالیہ تاریخ میں اُن چند خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے بندوق کے بجائے الفاظ، احتجاج اور جمہوری تحریک سے آمریت کو چیلنج کیا۔ ان کے مخالفین کے پاس طاقت تھی، مگر ماچادو کے پاس یقین، امید اور عوام کی تائید تھی۔وینزویلا طویل عرصے سے سیاسی اور معاشی بحرانوں کا شکار ہے ۔ 1999سے شروع ہونے والا چاویز ازم (Chavismo) ابتدا میں عوامی نجات کا پیغام بن کر آیا، لیکن وقت کے ساتھ یہ نظام آمرانہ کنٹرول، میڈیا کی پابندی، عدلیہ کی مداخلت اور اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں بدل گیا۔
چاویز ازم (Chavismo)وینزویلا کے سابق صدر ہیگو چاویز (Hugo Chvez)کی سیاسی، معاشی اور سماجی فکر و پالیسیوں کا مجموعہ ہے ، جو 1999سے 2013تک ان کے اقتدار کے دوران تشکیل پائیں۔ اسے ایک نظریاتی تحریک کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے جو سوشلسٹ خیالات، قوم پرستی، عوامی فلاح اور مغربی (خاص طور پر امریکی) اثرات سے آزادی پر مبنی ہے ۔2013میں نکولس مادورو کے اقتدار میں آنے کے بعد حالات مزید بگڑ گئے ۔ ہزاروں لوگ جیلوں میں ڈالے گئے ، سینکڑوں کارکن غائب کر دیے گئے اور لاکھوں شہری غربت سے تنگ آ کر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ ایسے میں ماریا کورینا ماچادو ایک ایسی آواز بن کر ابھریں جو خاموشی کے اندھیروں میں روشنی کا اشارہ تھی۔
ان کا سیاسی سفر آسان نہیں تھا۔ وہ نیشنل اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں مگر مادورو حکومت نے ان کا رکنیت ختم کر دی۔ انہیں کئی بار گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، مگر وہ ڈٹی رہیں۔ 2024کے صدارتی انتخابات میں جب انہوں نے اپوزیشن اتحاد کی نمائندہ حیثیت سے حصہ لینا چاہا تو الیکشن کمیشن نے انہیں نااہل قرار دیا۔ اس کے باوجود انہوں نے جدوجہد جاری رکھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ ”جمہوریت کوئی تحفہ نہیں، یہ مسلسل قربانی مانگتی ہے ”۔یہی وہ عزم تھا جس نے انہیں نوبیل کمیٹی کے فیصلے تک پہنچایا۔نوبیل انعام ملنے کے بعد ماچادو نے ایک جذباتی بیان دیا کہ "یہ اعزاز میرا نہیں، وینزویلا کے عوام کا ہے جو آزادی اور انصاف کے مستحق ہیں۔”حیرت انگیز طور پر انہوں نے یہ انعام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام بھی کیا، جنہیں وہ وینزویلا کی جدوجہد میں فیصلہ کن حمایت کرنے والا عالمی رہنما قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”میں یہ انعام اپنے عوام اور صدر ٹرمپ کے لیے وقف کرتی ہوں، جنہوں نے آمریت کے خلاف ہماری آواز سنی”۔اس اعلان کے بعد واشنگٹن میں سیاسی ہلچل مچ گئی۔ وائٹ ہاؤس نے نوبیل کمیٹی پر سخت تنقید کی کہ اس نے ”سیاست کو امن پر ترجیح دی”۔ ترجمان کے مطابق صدر ٹرمپ نے عالمی سطح پر جنگوں کے خاتمے اور اسرائیل عرب تعلقات کی بحالی جیسے تاریخی اقدامات کیے ، مگر کمیٹی نے انہیں مسلسل نظرانداز کیا۔ ٹرمپ نے خود کہا کہ ”میں نوبیل انعام کے لیے نہیں، انسانوں کی جان بچانے کے لیے کام کرتا ہوں”۔تاہم نوبیل ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی America First پالیسی نوبیل کے امن کے نظریے سے مطابقت نہیں رکھتی، کیونکہ امن کا مفہوم عالمی انسانی مفاد سے جڑا ہوتا ہے ، کسی ایک قوم کے سیاسی ایجنڈے سے نہیں۔نوبیل کمیٹی کے ارکان کا موقف ہے کہ ماچادو کی جرات مندانہ جدوجہد نے لاطینی امریکا میں شہری تحریکوں کو نئی روح بخشی ہے ۔ انہوں نے نہ صرف سیاسی آزادی کے لیے لڑائی لڑی بلکہ خواتین کے کردار کو بھی طاقت دی۔ آج وینزویلا کی نوجوان نسل انہیں ” Madre de Libertad ”یعنی ”آزادی کی ماں”کہہ کر پکارتی ہے ۔ ان کے جلسوں میں ہزاروں خواتین اپنے بچوں کے ساتھ شریک ہوتی ہیں، جو اپنے وطن کو دوبارہ آزاد دیکھنے کی خواہش رکھتی ہیں۔
ماریا کورینا ماچادو نے ہمیشہ عدم تشدد کی سیاست اپنائی۔ وہ کہتی ہیں ”طاقت سے جمہوریت نہیں، اصول سے آزادی آتی ہے” ۔یہی فلسفہ انہیں دیگر سیاسی رہنماؤں سے ممتاز بناتا ہے ۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق ان کی جدوجہد نیلسن منڈیلا، آنگ سان سوچی اور ملالہ یوسف زئی جیسی پرامن تحریکوں کی کڑی ہے ۔ دوسری جانب نوبیل انعام کی سیاسی نوعیت پر تنقید کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے چند برسوں میں نوبیل کمیٹی کے فیصلے بعض اوقات مغربی جغرافیائی سیاست سے متاثر نظر آتے ہیں۔ تاہم اس بار معاملہ مختلف ہے ، کیونکہ وینزویلا کی عوامی جدوجہد عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تحریک بن چکی ہے ۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکی کانگریس نے ماچادو کی قید اور دھمکیوں کی مذمت کی تھی۔ نوبیل کمیٹی کا فیصلہ اس عالمی یکجہتی کا تسلسل سمجھا جا رہا ہے ۔انعام کے اعلان کے بعد وینزویلا میں جشن کا سماں ہے ۔
کاراکس (Caracas)وینزویلا کا دارالحکومت ہے اور ملک کا سب سے بڑا، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔دارالحکومت کاراکس کی سڑکوں پر عوام نے ماچادو کے حق میں نعرے لگائے ، پھول برسائے اور قومی پرچم لہرایا۔ ان کی ایک تصویر میں وہ وینزویلا کے جھنڈے کو تھامے آنکھوں میں آنسو لیے مسکرا رہی ہیں۔ یہ تصویر آج پوری دنیا میں جمہوریت کے استعارے کے طور پر دیکھی جا رہی ہے ۔
اس سارے منظرنامے میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ نوبیل امن انعام نے ایک مرتبہ پھر یاد دلایا ہے کہ طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے حکمران نہیں، بلکہ اصولوں پر ڈٹے عوامی رہنما ہی تاریخ بدلتے ہیں۔ ماریا کورینا ماچادو نے دکھایا کہ اگر نیت صاف ہو تو قید، دھمکی، اور جلاوطنی کی تلواریں بھی راستہ نہیں روک سکتیں۔
دنیا بھر کے لیے یہ لمحہ سبق آموز ہے ۔ پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک جہاں جمہوریت کو آئے دن خطرات لاحق ہوتے ہیں، وہاں یہ کہانی امید کا پیغام دیتی ہے ۔ عوامی شعور، منظم سیاسی تربیت اور شہری جرات ہی وہ ہتھیار ہیں جن سے آمریتوں کو شکست دی جا سکتی ہے ۔
آخر میں یہ سوال سب کے لیے ہے کہ کیا دنیا واقعی امن کو ترجیح دے رہی ہے یا سیاسی مفادات کے دائرے میں ہی محدود ہے ؟ مگر ایک بات طے ہے کہ ماریا کورینا ماچادو کا نام اب ان رہنماؤں میں شامل ہو گیا ہے جنہوں نے ظلم کے مقابلے میں جمہوریت کی مشعل تھامی۔
عالمی برادری وینزویلا جیسے ممالک میں جمہوری عمل کی حمایت کے لیے شفاف انتخابی مشاہدہ نظام قائم کرے ۔اقوام متحدہ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کرے ۔ لاطینی امریکا میں خواتین قیادت کی تربیت اور سیاسی شرکت کو فروغ دینے کے لیے خصوصی پروگرامز شروع کیے جائیں۔ عالمی میڈیا ایسے رہنماؤں کی جدوجہد کو اجاگر کرے تاکہ عوامی تحریکوں کا حوصلہ بلند رہے۔ امن کو انعام نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری سمجھا جائے ، کیونکہ جمہوریت کا سفر تبھی مکمل ہوتا ہے جب ہر شہری آزادی کے ساتھ سانس لے سکے۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ماریا کورینا ماچادو نوبیل کمیٹی کے وینزویلا کی نوبیل انعام کی جدوجہد جنہوں نے انہوں نے جاتا ہے کے نام کے بعد کے لیے
پڑھیں:
نوبیل امن انعام جیتنے والی ماریہ ماچاڈو نے فون کر کے کیا کہا؟ ٹرمپ نے بتا دیا
نوبیل امن انعام جیتنے والی ماریہ ماچاڈو نے فون کر کے کیا کہا؟ ٹرمپ نے بتا دیا WhatsAppFacebookTwitter 0 11 October, 2025 سب نیوز
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ نوبیل امن انعام جیتنے ماریا کورینا ماچاڈو نے ان سے کہا کہ نوبیل انعام کے اصل حقدار تو آپ تھے۔
گزشتہ روز ناویجن نوبیل کمیٹی نے نوبیل امن ایوارڈ کے لیے وینزویلا کی جمہوریت نواز رہنما ماریا کورینا ماچاڈو کے نام کا اعلان کیا تھا، ماریا کورینا ماچاڈو کو وینزویلا میں جمہوریت کے فروغ اور آزادی کے لیے خدمات پر نوبیل امن انعام سے نوازا گیا تھا۔
وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اس حوالے سے سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا جنھیں نوبیل امن انعام دیا گیا انھوں نے مجھے فون کیا اور کہا اسے آپ کے نام کر رہی ہوں، اس انعام کے اصل حقدار تو آپ تھے۔
ٹرمپ کا خواب پورا نہ ہوا، امن کا نوبیل انعام وینزویلا کی جمہوریت نواز رہنما کو مل گیا
امریکی صدر کا کہنا تھا نوبیل انعام دینے کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں، میں نے کبھی نہیں کہا کہ بونیل انعام مجھے دیا جائے، میں نے پاک بھارت سمیت 8 جنگیں رکوائیں اور خوش ہوں کہ اربوں لوگوں کی جانیں بچائیں۔
دوسری جانب ماریا کورینا ماچاڈو کا کہنا تھا یہ ایوارڈ وینزویلا کے مصیبت زدہ لوگوں اور صدر ٹرمپ کی ہمارے مقصد کی فیصلہ کن حمایت کے نام کرتی ہوں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکی صدر ٹرمپ کا چینی درآمدات پر اضافی 100 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان امریکی صدر ٹرمپ کا چینی درآمدات پر اضافی 100 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان طیفی بٹ کی ہلاکت پر سی سی ڈی کا موقف سامنے آگیا امیربالاج قتل کیس کامرکزی ملزم طیفی بٹ پولیس مقابلےمیں ماراگیا مذہبی جماعت کے احتجاج کا معاملہ، پنڈی اسلام آباد میں معمولات زندگی دوسرے روز بھی بری طرح متاثر جنگ بندی: فلسطینیوں نے بچا کھچا سامان اٹھا کر تباہ حال گھروں کا رخ کرلیا خون کا حساب لینے کے لیے افغانستان میں داخل ہونا ہمارا حق ہے: خواجہ آصفCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم