غزہ امن معاہدہ: فلسطینی قیدیوں کے بدلے تمام 20 اسرائیلی یرغمالی رہا
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
غزہ امن معاہدے کے تحت فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا جب کہ اسرائیل کی جانب سے 1700 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جارہی ہے۔
عرب میڈیا رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ حماس نے آج مرحلہ وار تمام 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا ہے، پہلے مرحلے میں 7 اورہ دوسرے مرحلے میں 13 یرغمالیوں کو رہا کیا گیا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس آج 28 یرغمالیوں کی لاشوں کو بھی اسرائیل کے سپرد کرے گی جب کہ 1700فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں سے بسوں میں سوار ہو کر غزہ اور مغربی کنارے کےلیے روانہ ہورہے ہیں۔
???? LIVE: Preparations underway for exchange of Israeli captives, Palestinian abductees under Gaza ceasefire.
— Live Stream (@video_streamz) October 13, 2025
عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل سے رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کو جنوبی غزہ کے النصراسپتال میں لایا جائے گا جہاں انہیں طبی امداد دی جائےگی۔
دوسری جانب مصر کے شہر شرم الشیخ میں آج غزہ امن معاہدے پر دستخط کی باقاعدہ تقریب منعقد کی جائے گی، امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سمیت مختلف ممالک کے سربراہان غزہ امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کے لیے مصر پہنچ رہے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
فلسطینی نژاد امریکی بچے محمد ابراہیم کو 9 ماہ بعد اسرائیلی جیل سے رہائی مل گئی
یہ کیس مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی حکومت کے امتیازی سلوک کی بھیانک داستان بن کر سامنے آیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق 15 سالہ محمد ابراہیم کو رواں برس فروری میں گرفتار کیا گیا تھا اور انھوں نے اپنی 16 ویں سال گرہ قید تنہائی میں اسرائیلی مظالم سہتے ہوئے منائی۔
امریکی قانون سازوں اور شہری حقوق کی تنظیموں کے کئی ماہ سے جاری مسلسل دباؤ کے نتیجے میں اسرائیل آج معصوم بچے کو رہا کرنے پر مجبور ہوا۔
محمد ابراہیم فلسطین میں پیدا ہوا تھا اور والدین کے ہمراہ امریکی ریاست فلوریڈا منتقل ہوا تھا۔ وہ اپنے دیگر رشتے داروں سے ملنے آبائی قصبے المزعرہ الشرقیہ آیا تھا۔
جہاں سے اُسے رواں برس فروری میں آنکھوں میں پٹی باندھ کر والدین کے سامنے جبری طور پر گرفتار کیا گیا تھا۔
محمد ابراہیم کے والدین نے بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں نے چھاپے کے دوران اُسے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔
حراست کے دوران بھی 15 سالہ بچے کو ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی گئیں جس کے نتیجے میں اس کا وزن خطرناک حد تک کم ہوا۔
محمد ابراہیم نقاہت اور کمزوری کے ساتھ ساتھ جلد کے انفیکشن میں مبتلا ہوگیا تھا اور پھول جیسا بچہ مرجھا کر رہ گیا تھا۔
اس دوران محمد ابراہیم کو اپنے گھر والوں سے رابطے یا ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی البتہ امریکی حکام وقتاً فوقتاً والدین کو ابراہیم کی خیریت سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔
اہلخانہ کو صرف امریکی حکام کے ذریعے اس کی حالت کے بارے میں معلومات ملتی تھیں۔
اسرائیلی حکام نے گرفتاری کے بعد سامنے آنے والے دباؤ پر یہ کمزور مؤقف اپنایا کہ محمد ابراہیم نے یہودی آباد کاروں پر پتھر پھینکے تھے۔
فلسطینی بچے نے اسرائیلی فوج کے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیا تھا۔ اسرائیلی پولیس بھی اس واقعے میں کسی ایک بھی شخص کے زخمی ہونے کا ثبوت پیش نہیں کرسکی تھی۔
اس کے باوجود اسرائیلی فوج نے روایتی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی دباؤ پر بھی محمد ابراہیم کو رہا کرنے میں جان بوجھ کر تاخیر سے کام لیا۔
یہاں جیل میں 16 سالہ فلسطینی نژاد امریکی بچے کی حالت دن بدن خراب ہوتی رہی اور جب یہ اطلاع منظر عام پر آنا شروع ہوئیں تو امریکا نے دباؤ میں اضافہ کردیا۔
گزشتہ ماہ 27 امریکی قانون سازوں نے خط لکھ کر ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ اسرائیل سے محمد ابراہیم کی رہائی کی کوشش کرے۔
جس کے بعد صدر ٹرمپ کی مداخلت کام آئی اور اسرائیل محمد ابراہیم کو رہا کرنے پر مجبور ہوا۔ اپنے بچے کے بے چینی سے منتظر اہل خانہ نے سکھ کا سانس لیا۔
محمد ابراہیم کے والدین نے بتایا کہ یہ اعصاب شکن جنگ تھی۔ ہم اپنے بچے کی 16 ویں سالگرہ تاخیر سے منائیں گے اور والدہ اس کی پسندیدہ ڈش بنانے میں مصروف ہیں۔
فلسطینی خاندان نے محمد ابراہیم کی رہائی کے لیے تعاون کرنے والے ہر ایک شخص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب کوئی بھی والدین یا بچہ وہ مصیبت نہیں جھیلیں جو ہم نے برداشت کی ہے۔