Daily Mumtaz:
2025-12-04@22:02:10 GMT

پرینیتی چوپڑا کے ہاں شادی کے دو سال بعد ننھے مہمان کی آمد

اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT

پرینیتی چوپڑا کے ہاں شادی کے دو سال بعد ننھے مہمان کی آمد

نیو دہلی:بالی ووڈ کی مشہور اداکارہ پرینیتی چوپڑا کے ہاں ننھے مہمان کی آمد ہوئی ہے اور جوڑے نے سوشل میڈیا پر اس کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا۔

پرینیتی چوپڑا اور ان کے شوہر راگھو چڈھا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر خوشی کی خبرسنائی اور پوسٹ میں کہا کہ ‘بالآخر وہ آگیا، ہمارا بیٹا! اور ہمیں پہلی والی زندگی بالکل بھی یاد نہیں’۔

انہوں نے جذباتی انداز میں اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ‘بازو بھرے ہوئے ہیں اور ہمارے دل اس سے بھی زیادہ بھر گئے ہیں’۔

پرینیتی چوپڑا اور ان کے شوہر نے لکھا کہ ‘پہلے ایک دوسرے کے لیے صرف ہم تھے اور اب ہمارے پاس سب کچھ ہے’۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پرینیتی چوپڑا کو دہلی میں مقامی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں ان کے شوہر راگھو چڈھا اور دونوں میاں بیوی کے خاندان کے افراد موجود تھے۔

پرینیتی چوپڑا نے بیٹے کی پیدائش سے قبل زیادہ تر وقت دہلی میں گزارا جہاں راگھو چڈھا کا خاندان مقیم ہے اور حمل کے دوران انہوں نے مداحوں کے لیے سوشل میڈیا پر تصاویر بھی جاری کرتی رہی تھیں۔

یاد رہے کہ پرینیتی چوپڑا اور بھارت کے رکن اسمبلی راگھو چڈھا 13 مئی 2023 کو رشتے میں بندھ گئے تھے اور 24 ستمبر 2023 کو شادی ہوئی تھی۔

دونوں نے رواں برس اگست میں انسٹاگرام پر مداحوں کو خوش خبری سنائی تھی کہ وہ جلد ہی والدین بننے والے ہیں اور خوب صورت انداز میں اپنے نئے مہمان کی آمد کا حوالہ دیتے ہوئے کیک پر 1+1 درج کیا تھا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پرینیتی چوپڑا

پڑھیں:

غیرفطری اورغیر آئینی قوانین

پاکستان، ریاست مدینہ کے بعد دوسری ریاست ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ تحریک آزادی کے دوران پاکستان کا مطلب کیا "لا الہ الا اللہ" میں ہم نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان میں قرآن و سنت کا قانون نافذ ہوگا، قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہوگی۔

 اسی بنیاد پر 1973میں پاکستان کا اسلامی اور جمہوری آئین بنا۔ ملک کی تمام اکائیوں کے درمیان سماجی و عمرانی معاہدے کی توثیق تمام سیاسی جماعتوں اور تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ نے متفقہ طور پر کی۔ جس کا آغاز اس قومی و ملی میثاق سے ہوتا ہے کہ "اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم ہے، اس لیے اقتدار اعلیٰ خدائے بزرگ وبرتر کو حاصل ہے"، اس اقتدار اعلیٰ کے تحت پاکستان کے عوام کو حکمرانی کا اختیار ایک مقدس امانت کے طور پر عطا کیا گیا ہے۔

سورہ النساء آیت نمبر 58 میں اللہ تعالیٰ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ "بے شک تم کو اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کو پہنچادیا کرو"۔ آئین کے دیباچے میں بھی اس کی وضاحت کردی گئی ہے کہ حکمرانی کے اختیار کی یہ مقدس امانت عوام اپنے منتخب نمایندوں کے ذریعے بروئے کار لائیں گے، یعنی یہ ذمے داری عوام کو سونپ دی گئی ہے کہ وہ اپنے نمایندوں کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں وہ ایسے نمایندوں کا انتخاب تو نہیں کررہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئی امانت (ووٹ) کے اہل نہ ہوں یا ماضی میں خیانت کے مرتکب ہو چکے ہوں۔

آئین کے آرٹیکل 227 کے مطابق "اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا" لیکن یہ قومی المیہ ہے کہ مختلف ادوار میں کئی قوانین ایسے بنائے گئے جو مختلف کیسوں کے عدالتی فیصلوں میں پارلیمنٹ کو ایسے قوانین بنانے کی سفارش کی جاتی ہے جو شرعی معیار پر پورا نہیں اترتے۔

مارچ 2022 میں ایک 16 سالہ لڑکی کے کیس کے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا  18 سال سے کم عمر کی شادی پر عدالتی فیصلہ اگر اس کیس تک محدود ہوتا تو اضطراب کم ہوتا مگر عدالت نے مسلم فیملی آرڈیننس میں وضاحت نہ ہونے کا معاملہ کابینہ ڈویژن اور پارلیمنٹ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کر دی۔ یوں اس سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا۔اس فیصلے سے دور اندیش علماء مستقبل میں پیش آنے والے جس خطرے کو بھانپ چکے تھے۔

وہ خطرہ آج "اسلام آبادکیپیٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل" کی شکل میں حقیقت بن کر سامنے آیا۔ یہ بل سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین ممبران نے پیش کیا، قومی اسمبلی میں یہ بل شرمیلا فاورقی صاحبہ اور سینیٹ میں شیری رحمٰن صاحبہ نے پیش کیا تھا۔ دونوں ایوانوں سے یہ بل منظور اور صدرمملکت آصف علی زرداری کے دستخط کرنے کے بعد اب یہ قانون بن کر نافذ ہے جس کے مطابق 18 سال کی عمر کو بلوغت کی قانونی حد اور شادی کی کم از کم عمر 18 سال متعین کرتاہے۔ اس قانون کے مطابق اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی 18 سال سے کم عمر میں شادی کرتا ہے تو یہ قابل سزا جرم ہے۔ چاہے لڑکا اور لڑکی دونوں شرعی طور پر بالغ ہی کیوں نہ ہوں، اس قانون کے مطابق دونوں کوقید کی سزا ہوگی۔

اس قانون کے مطابق 18 سال سے بڑی عمر کے مرد کو کم عمر لڑکی سے شادی پر 3 سال تک قید بامشقت ہوگی، اسی طرح 18 سال کی عمر سے قبل ساتھ رہنے کو بچے سے زیادتی تصور کیا جائے گا، کم عمر دلہن یا دلہے کو شادی پر مجبور کرنے والے کو 7 سال تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، کم عمر بچوں کے والدین، شادی کے لیے معاونت، سہولت کاری اسے لانے اور لے جانے والوں کو 7 سال تک قید اور جرمانہ ہوگا، 18 سال سے کم عمر دلہا، دلہن کا نکاح پڑھانے کی ممانعت ہوگی، نکاح خواں یقینی بنائے گا کہ دونوں فریقین کے پاس شناختی کارڈ موجود ہے جب کہ خلاف ورزی کرنے پر نکاح خواں کو ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے۔ شریعت مطہرہ میں شادی کی شرط صرف بلوغت ہے، دونوں کی بلوغت اور ذہنی صلاحیت شادی کے لیے کافی ہے۔ فقہ کے چاروں مکاتب کا اجماع ہے کہ رخصتی اور حق زوجیت کے لیے شرط بلوغت ہے لیکن نکاح کے لیے یہ شرط بھی نہیں ہے۔ نکاح کسی بھی عمر میں ہوسکتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ موجودہ قانون کو کیا نام دیں؟

شریعت مطہرہ کے مطابق اولاد کی پرورش والدین کی ذمے داری ہے، والدین اپنے تجربے اور محبت کی بنیاد پر کم سن بچوں کے رشتوں کے بارے میں بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں۔ بلوغت کے ساتھ جب جسمانی تقاضے بیدار ہوتے ہیں تو یہ مسئلہ قانون، ریاست، معاشرے سے زیادہ انسانی حقوق کا بن جاتا ہے، سن بلوغت پر پہنچنے والے لڑکے اور لڑکی پر اس قسم کے غیر فطری قانون لاگو کرنا ان کے حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے۔ شادی میں تاخیر معاشرتی برائیوں کو جنم دیتی ہے اور فطری ضرورت کو جبری طور پر روکنے سے نفسیاتی و جنسی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس لیے یہ غیر فطری‘ انسانی حقوق اور آئین پاکستان سے متصادم یہ قانون مذہبی حلقوں کے لیے اضطراب کا باعث ہے

گزشتہ دنوں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی پریس کانفرنس میں اس قانون کی واشگاف الفاظ میں مذمت کی کہ 18 سال سے کم عمر نوجوان کو نابالغ کہنا کس شریعت میں ہے؟ کس مکتب فکر نے یہ بات کی ہے؟ پھر قانون کو یہاں تک سخت کرنا کہ 18سال سے پہلے شادی ہوئی یا نکاح ہوا تو اسے جنسی زیادتی کہا جائے گا اور اسے زنا بالجبر سے تعبیر کیا جائے گا اور اس کی سزا دی جائے گی۔

افسوس صد افسوس کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس قسم کا قانون پاس کیا گیا اس میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی نے ووٹ دیا تھا۔ آج بھی جائز نکاح کے لیے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔ اس پرقدغنیں لگائی جارہی ہیں اب عجیب بات یہ ہے کہ 18 سال سے پہلے نکاح کو جنسی زیادتی کہا جائے گا،اور اگر اس سے اولاد پیدا ہوگئی تو وہ اولاد جائز کہلائے گی۔

اس کے والد کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنے بچے کو نان و نفقہ دے۔ میرے خیال میں ان لوگوں کی مت ماری ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمان میں آخر ایسے قوانین کیسے بن جاتے ہیں؟ اس کا جواب دیا جاچکا کہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے مطابق ضروری تھا افسوس کہ حلف تو آئین پاکستان پر لیا ہے اور آئین پاکستان میں قوانین و ترامیم اقوام متحدہ یعنی مغرب کے چارٹر کے مطابق ہونگے؟

مگر جب قانون ساز اداروں میں مغرب پرست ممبران کی اکثریت اور ملک عالمی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر ہوگا تو پھر ایسے ہی ایجنڈے تھما دیے جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر غیر ملکی این جی اوز بکاؤمال کے خریدار بن کر بھی سامنے آتے ہیں۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے پر بڑی تیزی سے کام جاری ہے۔ اگر حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہیں لیے اور عوام نے محسوس کیا کہ وہ بے بس ہیں تو پھر عوام کو سڑکوں پر آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا، جس کا یہ ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کے سامنے مضبوط بند باندھنا ہوگا اس میں مزید تاخیر ملک کے لیے نقصان دہ ہو گی۔

متعلقہ مضامین

  • دہلی کی آلودگی پر سونیا گاندھی کی قیادت میں حزبِ اختلاف کا پارلیمنٹ کے احاطہ میں احتجاج
  • روسی صدر ولادیمیر پوتن اپنے ہندوستان دورے پر نئی دہلی پہنچے، نریندر مودی نے کیا استقبال
  • کرغز صدر کے اعزاز میں وزیراعظم ہاؤس میں استقبالیہ تقریب، گارڈ آف آنر پیش
  • غیرفطری اورغیر آئینی قوانین
  • مردہ زمین پر ترقی ممکن نہیں، بھارتی اداکارہ نے فضائی آلودگی پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے لیا
  • بزنس مین گروپ کے سربراہ زبیر موتی والا مہمان کو شیلڈ پیش کررہے ہیں
  • ’جوتا چھپائی‘ کی رسم، اطالوی مہمان نے جوتوں کی باقاعدہ نیلامی شروع کردی
  • شادی کی تقریب میں غبارے دھماکے سے پھٹ گئے، دلہا دلہن جھلس کر زخمی
  • کراچی نیپا چورنگی حادثہ؛ ننھے ابراہیم کی موت پر شوبز انڈسٹری سوگوار
  • افغان ہمارے مہمان نہیں، واپس چلے جائیں،دھماکے برداشت نہیں کر سکتے ، وزیر داخلہ