نا م نہاد بلوچ نیشنل موومنٹ کا برطانیہ میں بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
اسلام آباد(آئی این پی )نام نہاد بلوچ نیشنل موومنٹ کا برطانیہ میں بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب ہوگیا۔بھارتی خفیہ ایجنسی ’را ‘کی ایما پر نام نہاد بلوچ نیشنل موومنٹ کے بیرون ملک احتجاج کی حقیقت آشکار ہوگئی، بلوچستان کے علاقے زہری میں حقائق کے برعکس پروپیگنڈا کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی۔پروپیگنڈا کرنے والوں سے خاتون صحافی کے سوالات پر مظاہرین زہری کے موجودہ حالات سے لاعلم پائے گئے، مظاہرے میں شریک افراد خاتون صحافی کے سوالات پر جواب دینے سے کتراتے رہے۔خاتون صحافی نے سوال کیا کہ مظاہرین اور غیر مقامی باشندوں کو اس مظاہرے کے لئے غیر ملکی لابیز کے ذریعے کرایے پر خریدا گیا؟ خاتون صحافی نے بتایا کہ مظاہرین نے جن افراد اور بچوں کی تصویریں اٹھائی تھیں، انہیں ان کے نام تک معلوم نہیں۔مظاہرین نے اعتراف کیا کہ وہ بلوچستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے حتی کہ وہ کبھی وہاں گئے ہی نہیں، یہ مظاہرہ جھوٹے نعروں، مصنوعی جذبات اور پروپیگنڈا پر مشتمل تھا۔درحقیقت بلوچستان کے علاقے زہری میں فتن الہندوستان کے دہشتگردوں کے حوالے سے عوامی شکایات موصول ہو رہی تھیں، ابتدائی طور پر بعض حلقوں نے سوشل میڈیا پر جعلی تصاویر اور سکیورٹی فورسز کے حوالے سے گمراہ کن دعوے پھیلائے، یہ فتن الہندوستان کے مسنگ پرسن اور احساس محرومی جیسے پروپیگنڈا کا تسلسل تھا۔مقامی آبادی کی مدد سے سکیورٹی فورسز نے زہری کو دہشت گرد عناصر سے پاک کر کے مکینوں کو امن و تحفظ فراہم کیا، آج زہری بلوچستان کی سڑکیں کھلی ہیں، بازار آباد ہیں اور بچے بلا خوف و خطر سکول جا رہے ہیں۔بلوچ عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد اور تعاون کے باعث علاقے میں پرامن اور خوشحال ماحول اس پروپیگنڈا کی نفی ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: خاتون صحافی
پڑھیں:
کالعدم گروپ بلوچستان کے نوجوانوں کو ورغلاتے کے لیے کیا وعدے اور جھانسے استعمال کرتے ہیں؟
کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) جیسے گروپس نوجوانوں کو مبینہ طور پر اپنے جال میں پھنسانے کے لیے نوکری، مالی امداد، تعلیم اور تحفظ کے فریب آمیز وعدے کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ سی ٹی ڈی کی کارروائیوں، ضبط شدہ پیغامات اور گرفتاریوں سے سامنے آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچ عسکریت پسند گلزار امام عرف امام شنبے کی گرفتاری کا ایک سال، بلوچستان کے حالات پر کیا اثر پڑا؟
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ گروپس سماجی رابطوں، ذاتی روابط اور پروپیگنڈے کے ذریعے تعلیم یافتہ اور کمزور مالی پس منظر کے حامل نوجوانوں کو بھرتی کرتے ہیں جب کہ گرفتار شدہ رہنماؤں کی خودی وضاحتیں اور افسوس کے بیانات ان حکمت عملیوں کی تصدیق کرتے ہیں۔
سرکاری تفتیش اور زیر حراست افراد کے بیانات سے معلوم ہوا ہے کہ نوجوانوں کو پہلے حکومت مخالف جذبات سے بھڑکایا جاتا، پھر انہیں روزگار، بیرونِ ملک یا داخلی اسکالرشپس، ماہانہ معاوضے اور خاندان کے تحفظ کے عوض گروپ میں شامل ہونے کی پیشکش کی جاتی۔ جب نوجوان راضی ہو جاتے ہیں تو انہیں پہاڑوں یا خفیہ ٹھکانوں میں لے جایا جاتا۔ اکثر صورتوں میں وہاں انہیں مسلح کارروائیوں یا ہتھیار بردار رولز کے لیے استعمال کر لیا جاتا ہے جبکہ کچھ کی تصویروں کو لاپتا دکھا کر رشتہ داروں کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔
09 نومبر 2024 کو باضابطہ پریس کانفرنس میں پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم طلعت عزیز نے اعتراف کیا کہ وہ کالعدم تنظیم کے زیر اثر آ گیا تھا۔
طلعت نے بتایا کہ پہاڑوں پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گمراہ کرکے انہیں پانچوں اور نہتے لوگوں کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا۔ اس نے واضح کیا کہ میں ایک پڑھا لکھا نوجوان ہوں لیکن ان کی وجہ سے اپنا مستقبل گنوا دیا۔
اسی طرح 23 مئی 2023 کو گلزار امام شنبے جو ماضی میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی بی این اے کا سربراہ تھا اپنے ایک اطرافی بیان میں اس بات کی وضاحت کر چکا ہے کہ مسائل کا حل پرامن بات چیت سے نکالا جائے اور مسلح جدوجہد کے راستے کو غلط قرار دے کر معافی کا اظہار کیا۔ اس کے بیانات نے اس بات کی عکاسی کی کہ گروہی رہنما بھی جذبہ و حکمت عملی کے بارے میں دوبارہ غور کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیے: پاکستان سے لڑائی افغان طالبان کی تنہائی میں اضافہ
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق دوران تفتیش یہ بھی انکشاف ہوا کہ گروہ طلبہ، اسکولوں اور کالجوں کے نوجوانوں کو 50 ہزار روپے تک دے کر بھرتی کرتے تھے اور بعض معاملات میں چھوٹے بچوں کو ہتھیار کی ترسیل میں استعمال کیا گیا۔
سماجی کارکن اور امن کے محققین کا کہنا ہے کہ مسئلے کا حل صرف سیکیورٹی آپریشنز نہیں ہو سکتے۔ ان کے بقول کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے روزگار کے فوری متبادل پروگرام، تعلیمی اداروں میں نفسیاتی مدد اور شعوری تربیت، آن لائن پلیٹ فارمز پر مونیٹرنگ اور عوامی شعور بیدار کرنے والی مہمات، گرفتاری شدہ افراد کی شفاف تفتیش اور عدالتی کارروائی تاکہ سزا اور بازگشت کا تاثر پیدا ہو۔
سی ٹی ڈی اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی کارروائیاں اور رہنماؤں کے اعترافات وقتی طور پر گروہوں کی بھرتی کی رفتار کم کر سکتے ہیں مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر معاشی اور سماجی خلا کو پر نہیں کیا گیا تو گروہ نئی تکنیکس سے دوبارہ نوجوانوں کو نشانہ بنائیں گے۔
طلعت عزیز اور گلزار امام شنبے جیسے معاملات بتاتے ہیں کہ کچھ نوجوان واپس آ رہے ہیں مگر اس لیے کہ نظامی اصلاحات اور بامعنی متبادل مواقع فراہم کیے جائیں ورنہ بھرتی کا عمل جاری رہے گا۔
ضبط شدہ پیغامات، گرفتاریوں اور خود گروہی رہنماؤں کے بیانات نے ایک واضح نقشہ دیا ہے۔ کالعدم تنظیمیں نوجوانوں کی کمزوریوں کو جان کر انہیں لالچ، دھوکہ اور جبراً شمولیت کے ذریعے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
مزید پڑھیں: کالعدم بی ایل اے کو بیرونی ایجنسیاں فنڈنگ کرتی ہیں، سرفراز بنگلزئی
حکومت، تعلیمی ادارے، کمیونٹی لیڈرز اور شہری معاشرہ مل کر ہی اس زنجیر کو توڑ سکتے ہیں بصیرت، مواقع اور شفاف انصاف کے بغیر نوجوانوں کو محفوظ رکھنے کا خواب ادھورا رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بی ایل اے بی ایل اے اور بلوچ نوجوان بی وائی سی