بھارت افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ رہا ہے: خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
ویب ڈیسک:وزیردفاع خواجہ آصف نے واضح کیا ہے کہ بھارت کابل میں افغان طالبان کی پشت پناہی کر رہا ہے، جنگ چھیڑ رہا ہے۔
العربیہ کو انٹرویو میں وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ طالبان بھارت کی پراکسی بنے ہوئے ہیں اور بھارت افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کم شدت کی جنگ چھیڑ رہا ہے۔
وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ نئی دہلی اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات کے ہمارے پاس شواہد موجود ہیں، جب طالبان کے ایک وزیر بھارت میں تھے اس وقت پاکستان اور افغانستان میں جھڑپیں ہوئیں۔ افغان طالبان کی جارحیت کا پاکستان نے بھرپورجواب دیا، افغان طالبان سے جھڑپوں میں ہمارے متعدد جوانوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔
لیسکو کا سموگ کے دوران بجلی بریک ڈاؤن سے بچاؤ کیلئے اقدامات کا آغاز
وزیردفاع نے انٹرویو کے دوران بھارت کے ساتھ جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چند ماہ قبل بھارت کو جنگ میں شکست سے دو چار کیا، جنگ میں بھارت کے 7 طیارے مار گرائے اور اس بات کا ذکر امریکی صدر بھی کئی بار کرچکے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ امریکی صدر نے گزشتہ روز بھی اس بات کا ذکر کیا کہ پاک بھارت جنگ میں 7 نئے اور خوبصورت طیارے گرائے گئے۔
یاد رہےکہ اس سے قبل بھی وزیردفاع نے طالبان رجیم کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر طالبان نے اپنی لگام دہلی کے حوالے کردی ہے تو پھر مشکل ہے، افغانستان کے کافی اندر جاکر بھی جواب دینا پڑا تو دیں گے۔
ماضی کی معروف اداکارہ سیمی زیدی کس حال میں اور کہاں؟
ان کا کہنا تھا کہ پورے خلوص سے کوشش کی کہ پاکستان اور افغانستان امن اور سکون سے رہیں لیکن کابل نے تصادم کا راستہ اپنایا ہے اگر ایسا ہے تو ایسا ہی سہی، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہوئی تو بھرپور جواب دیں گے۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: افغان طالبان کہا کہ رہا ہے
پڑھیں:
پاک افغان مذاکرات
حمیداللہ بھٹی
دوست ممالک پاک افغان قیادت کو اکٹھاتوبٹھاسکتے ہیں لیکن اپنے مسائل کو دونوں ممالک نے خود ہی حل کرناہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ قطراورترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے دونوں ممالک کے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے، جس سے مستقبل کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوتاہے۔ کیونکہ مذاکرات سے حل طلب مسائل جوں کے توں ہیں جس کی بناپر ایسے خیال کوتقویت ملتی ہے کہ دونوں طرف بداعتمادی کی فضاہے۔ یہ صورتحال خطے کے امن کے لیے ہرگز مثبت پیش رفت نہیں۔ قطرکی میزبانی میں مذاکرات کے پہلے دور میں سیز فائر جاری رکھنے پر اتفاق سے امن کی کچھ امیدبندھی مگر ترکیہ کی میزبانی میں ہونے والے بے نتیجہ مذاکرات نے مزید توقعات کی جگہ نہیں چھوڑی۔ اسی لیے کہہ سکتے ہیں کہ امن کے حوالے سے اب یقین سے کہناازحد مشکل ہے۔
پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان رجیم کی طرف سے دہشت گردی کی سرپرستی نامنظورہے۔ اِس لیے اُنھیں ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنا ہوں گے مگر اِس کے برعکس طالبان کا موقف غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کرہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں نہ تو اپنے ملک اور عوام کے مسائل کا کچھ احساس ہے اور نہ ہی وہ ہمسایہ ممالک کی بداعتمادی دورکرنے میں سنجیدہ ہیں۔ وہ بظاہر کسی اور ہی ایجنڈے پر عمل پیرالگتے ہیں جو پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں۔ بلکہ افغانستان اورخطے کے استحکام سے متصادم ہے۔ اسی لیے طالبان کے متعلق خدشات میں اضافہ ہورہاہے۔ مذاکرات میں مزید پیش رفت طالبان کے رویے پر منحصر ہے۔ اگر دہشت گردی کی سرپرستی جاری رکھتے ہیں توپاکستان کو خود کارروائی کرنے کا جوازملے گا جس سے افغانستان مزید غیر مستحکم اور غیر یقینی صورتحال کاشکارہوسکتاہے۔
پاکستان کا مطالبہ ہے کہ فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلاتفریق اور قابل تصدیق کارروائی کی جائے تاکہ اچھے ہمسایوں اور بھائی بندی پر مبنی تعلقات کو فروغ ملے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو مزید لچک دکھاناممکن نہیں رہے گا کیونکہ چار عشروں سے زائد لاکھوں افغانوں کی میزبانی ،افغانوں کو آزادی وخود مختاری دلانے اورتجارتی مراعات دینے کے باوجود طالبان کاپاکستان مخالف عناصر سے گٹھ جوڑ ناقابلِ فہم ہے ۔اسی گٹھ جوڑ نے آج دونوں ممالک کو اِس نہج پر لاکھڑا کیا ہے کہ مذہبی وثقافتی رشتوں کے باوجود ہتھیار اُٹھانے کی نوبت آئی جس کی زیادہ ذمہ دار افغان رجیم ہے جونہ توافغان عوام کی حقیقی نمائندہ ہے اورنہ ہی ملک پر مکمل رَٹ رکھتی ہے۔
افغان طالبان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کااعتماد ہر حوالے سے اُن کے لیے اہم ہے ۔یہ پاکستان ہی ہے جو افغانستان کے منجمد اربوں ڈالر واپس کرنے کا دنیا سے مطالبہ کرتا ہے ۔پاکستان کی حدود اور بندرگاہیں افغانستان کے لیے تجارتی حوالے سے ناگزیر ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی رٹ بھی پاکستان کی مدد سے بہترہو سکتی ہے۔ لیکن دولت کی ہوس نے اُن کی حدِ نظراِس حدتک کم کردی ہے کہ بھارت کے سوادنیا میں اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔اسی لیے پاکستان سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کی عملداری کے حصوں اورسرحدکو متنازع بنانے کی حماقت کرنے والے افغان یہ بھول جاتے ہیں کہ جوہری پاکستان اِس وقت مسلم اُمہ کی امید ہے ،جسے مقاماتِ مقدسہ کے دفاع کی سعادت بھی حاصل ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے میں تعاون کیا جاتامگراِس کی بجائے مسائل پیداکیے جا رہے ہیں اسی لیے ہونے والی دراندازی روکنے کے لیے پاکستان اپنے حفاظتی دستوں کوتحرک میں لانے پر مجبورہواہے۔ مزید افسوسناک امریہ ہے کہ اب بھی طالبان زمینی حقائق کے ادراک سے قاصرہیں ۔
افغان رجیم بضد ہے کہ اُس کی سرزمین کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہورہی اور نہ ہی اُس کی حدودمیں علیحدگی پسند دہشت گردوںیا شدت پسند گروہوں کے ٹھکانے ہیں۔ مگرپاکستان سرحد پار سے ہونے والی دراندازی کے ناقابلِ تردید ثبوت پیش کرچکا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بی ایل اے جیسے علیحدگی پسندوں اور ٹی ٹی پی و داعش جیسے شدت پسندوں کوبھارت کی سرپرستی اور طالبان کی سہولت کاری حاصل ہے مگر قطر مذاکرات میں جب پاکستان نے ایسے عناصر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تو طالبان نے تقاضاکیا کہ آپ دس ارب روپے دے دیں تو ٹی ٹی پی کو پاکستانی سرحدوں سے دور منتقل کردیتے ہیں جس سے طالبان کی ٹی ٹی پی سے تعاون و ہمدردی بے نقاب ہوگئی۔ مزیدچونکانے کاباعث بھارت سے ایک ارب ڈالر کی امداد لیکر دریائے چترال پر ڈیم بنا کر پاکستان کاپانی روکنے کا فیصلہ کرناہے۔ قبل ازیں ملا امیر متقی اپنے دہلی دورے کے دوران جموں وکشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملا قرار دے چکے ۔مذکورہ بالا واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان طالبان سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کے خلاف بھارتی پراکسی ہیں ۔
یہ صیغہ راز میں نہیں رہاکہ حالیہ پاک افغان جھڑپوں کے دوران اسلحہ و گولہ بارود کے بھارتی ماہرین افغانستان آئے جو روس اور امریکہ کا چھوڑا گیا اسلحہ دوبارہ قابلِ استعمال بنانے میں طالبان کی مددکرتے رہے سوال یہ ہے کہ جنونی بھارتی حکومت جو اسلام اور مسلمانوں کا دنیا سے نام و نشان مٹاناچاہتی ہے، وہ کیوں طالبان پرمہربان ہے؟اِس کا جواب یہ ہے کہ افغانستان کا امن و استحکام یا خوشحالی نہیں بھارت کے پیشِ نظر پاکستان سے نفرت ہے اور دوہمسایہ اسلامی ممالک کو لڑا نابھی اسلام دشمنی ہی ہے جوطالبان سمجھ نہیں پا رہے اور بھارت کا آلہ کار بن کرپاکستان سے اُلجھ رہے ہیں۔ حالانکہ اِس کی اُن میں سکت نہیں ہے ۔بھارت کو افغانوں سے پیار نہیں، اگر ہوتاتو افغان مہاجرین کوپاکستان سے اپنی سرزمین پر منتقل کرلیتا لیکن دولت کی ہوس میں طالبان سمجھ نہیں پا رہے اور پاک افغان عوام کولڑا کر احسان فراموشی پر اُترآئے ہیں۔ حالیہ سرحدی جھڑپوں سے دونوں ممالک کی عوام میں کدورت ونفرت کی جوخلیج طالبان حماقتوں سے پیدا ہوئی ہے اگر آج وہ اپنی سرزمین ہمسایوںکے خلاف استعمال نہ ہونے دیں تو دونوں ممالک کے تعلقات بہترہوجائیں۔
اسلامی ممالک میں برسرِ پیکار شدت پسند تنظیموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ،اگر ہوتا تو خلاف ہتھیار اُٹھاکر اسلامی ممالک کوکمزورنہ کرتیں۔ یہ شدت پسند گروہ محض مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اسلام کا نام لیتے ہیں۔ طالبان بھی ایسی ہی قسم ہیں اسی لیے پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں میں ہمرکاب ہیں۔ قطر،سعودی عرب اور ترکیہ کی کوششوں سے بات چیت کا عمل خوش آئند اور باعثِ اطمنان سہی مگر جب تک طالبان قیات پاکستان مخالف ایجنڈاترک نہیں کرتی تب تک دونوں ممالک میں خوشگواراور برادرانہ تعلقات کا خواب دیکھنامناسب نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔