Jasarat News:
2025-11-18@03:08:58 GMT

چار محاذ، ایک ریاست؛ پاکستان کی بقا کی حقیقی لڑائی

اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں دہشت گردی کی نئی لہر محض ایک داخلی سیکورٹی چیلنج نہیں رہی، بلکہ یہ چاروں طرف سے آنے والے اسٹرٹیجک دباؤ، خطے کی طاقتوں کی نئی صف بندی، عالمی پروپیگنڈے، اور بیانیاتی جنگ کا حصہ بن چکی ہے۔ گزشتہ چالیس برسوں میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس نے اپنی سرزمین پر اتنا خون دیکھا ہو، اپنی نسلوں کو اتنی اذیت سے گزارا ہو، اور پھر بھی دنیا کے سامنے اپنے آپ کو مسلسل دفاع پر مجبور پایا ہو۔ افغانستان کی جنگ، عالمی طاقتوں کی پراکسی پالیسیاں، مشرقی سرحد کے تناؤ، دہشت گردی کے حملے، اور داخلی کمزوریوں نے پاکستان کو ایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جہاں اسے ایک ساتھ چار محاذوں پر کھڑے ہو کر دنیا کو بتانا پڑ رہا ہے کہ وہ جنگجو نہیں، جنگ کا زخمی ہے؛ مگر افسوس یہ ہے کہ دنیا کے طاقتور حلقے آج بھی پاکستان کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، جیسے وہ یہ سب کچھ اپنی مرضی سے برداشت کر رہا ہو، نہ کہ عالمی فیصلوں اور علاقائی سیاست کی قیمت کے طور پر۔
پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ 2001 سے نہیں، بلکہ 1979 سے شروع ہوتی ہے، جب سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا اور پاکستان کو ایک ایسی جنگ کا مرکز بنا دیا گیا جس میں شرکت ہماری اپنی ترجیح نہیں تھی۔ افغان جہاد کی دہائی میں امریکا اور مغربی طاقتوں نے پاکستان کو ایک فرنٹ لائن ریاست بنایا، مگر جب جنگ ختم ہوئی تو وہ یہاں بارود، اسلحہ، نظریاتی تقسیم، اور لاکھوں مہاجرین چھوڑ کر چلے گئے۔ 1990 کی دہائی میں افغانستان خانہ جنگی میں ڈوبا رہا اور پاکستان کو عسکریت پسندی، منظم گروہوں، ریاستی خلاؤں، اور بھارتی دباؤ کے درمیان سروائیو کرنا پڑا۔ پھر نائن الیون آیا اور پاکستان پر وہ فیصلہ تھوپ دیا گیا جو ہم نے خود نہیں کیا تھا: ’’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف؟‘‘ دو دہائیوں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اسی ہزار سے زائد زندگیاں کھو دیں، معیشت کو ایک کھرب ڈالر سے زیادہ نقصان پہنچا، قبائلی معاشرت اجڑ گئی، معصوم بچے، جوان، سپاہی شہید ہوئے اور ریاست ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں الجھ گئی۔ مگر دنیا نے کبھی سوچا نہیں کہ اس جنگ کی سب سے بھاری قیمت صرف پاکستان نے ادا کی۔
مگر پاکستان کو جو سب سے بڑا خطرہ آج درپیش ہے، وہ صرف بندوقوں کا نہیں، بلکہ چار مسلسل اور بیک وقت اسٹرٹیجک پریشر پوائنٹس کا ہے۔ ایسے پریشر پوائنٹس جن کا سامنا اس وقت شاید کسی اور ریاست کو نہیں ہے۔ پہلا دباؤ مشرقی سرحد پر ہے، جہاں بھارت کے ساتھ روایتی اسکیلیشن کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کا تعلق ہمیشہ ایک ’’کانیٹک تھریٹ‘‘ کے طور پر موجود رہا ہے، اور حالیہ برسوں میں اس فضا میں ہنگامی تناؤ مزید بڑھا ہے۔ دوسرا دباؤ اسی محاذ سے جڑا ہوا نیوکلیئر ڈیٹرنس ڈائنامک ہے، جو دونوں ریاستوں کی بقا کے لیے بنیادی ستون ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس ڈیٹرنس کو ذمے داری سے مینج کیا ہے، لیکن ماضی کے کچھ واقعات نے اس حساس توازن پر غیر معمولی دباؤ ڈالا ہے، اور بھارت کی جارحانہ حکمت عملی خطے کو مزید غیر مستحکم بنا رہی ہے۔ تیسرا محاذ افغانستان اور مغربی سرحد کا ہے، جو صرف دہشت گردی تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب براہِ راست کانیٹک آپریشنز کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سرحد پار گروہوں کی بڑھتی ہوئی فعالیت، ٹی ٹی پی کی ری گروپنگ، اور بدلتی ہوئی طالبان پالیسیوں نے پاکستان کی مغربی سرحد کو مستقل دباؤ کا مقام بنا دیا ہے۔ مگر چوتھا دباؤ باقی تینوں سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہے۔ وہ غیر رسمی اور غیر اقوام متحدہ منصوبہ جس کے تحت خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستانی دستے ممکنہ طور پر غزہ میں تعینات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تنازع ہے جو عالمی سطح پر نسل کشی سمجھا جا رہا ہے اور کسی ایسے مشن میں شرکت جس کا یو این مینڈیٹ نہ ہو پاکستان کو نہ صرف خطے میں سیاسی طور پر تنہا کر سکتا ہے بلکہ داخلی سطح پر بھی شدید ردِعمل پیدا کر سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب پاکستان پہلے ہی مشرق، مغرب، اندرونی دہشت گردی اور عالمی بیانیاتی جنگ کے دباؤ میں ہے تو کیا ہم اپنی سیکورٹی فورسز کو مزید وسعت دینے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اگر ہماری افواج کسی ایسے تنازعے میں ملوث ہو جاتی ہیں جس کا بلاواسطہ تعلق پاکستان سے نہیں، تو کیا یہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے، ٹی ٹی اے اور بھارت جیسی طاقتوں کے لیے ’’سنہری موقع‘‘ نہیں بن جائے گا کہ وہ پاکستان پر کئی سمتوں سے دباؤ بڑھا دیں؟ کیا پاکستان کی نیشنل سیکورٹی پالیسی میں ایسی کوئی بنیادی تبدیلی ہوئی ہے جس کا قوم کو علم ہو؟ اور کیا ہماری معیشت، سفارت کاری، اور داخلی سیاست اس نئے بوجھ کو برداشت کر سکتی ہے؟
اسی دباؤ کے بیچ ایک اور غلط فہمی ہے جس کا بوجھ پاکستان کو مسلسل اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کو ’’اسلام‘‘ اور ’’جہاد‘‘ کے ساتھ جوڑنا۔ مسلمان ریاستوں اور خاص طور پر پاکستان کے بارے میں دنیا کا ایک مخصوص بیانیہ طاقت کے ایوانوں میں بنایا اور پھیلایا گیا ہے، جس میں ’’جہاد‘‘ کو ایک عسکری اصطلاح کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ اسلامی روایت میں جہاد کا بنیادی مفہوم ظلم کے خلاف مزاحمت، اخلاقی ذمے داری، انسانی وقار کا دفاع، اور عدل و انصاف ہے۔ مگر طاقتور ریاستوں نے اس مذہبی اصطلاح کو سیاسی مفادات کی سطح پر اتنا مسخ کر دیا کہ آج ہر دہشت گردی کے واقعے کو اسلام کے ساتھ جوڑ دینا سب سے آسان پروپیگنڈا بن چکا ہے۔ یہی غلط تعبیر پاکستان کے بیانیاتی تشخص کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کبھی بھی اس لیے نہیں لگائے گئے کہ وہ عسکریت کو پالتا ہے، بلکہ اس لیے کہ عالمی طاقتیں ’’جہاد‘‘ کو ایک convenient narrative tool کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اور چونکہ پاکستان دنیا کی واحد مضبوط ایٹمی مسلمان ریاست ہے، اس لیے اسے کمزور کرنا عالمی سیاست میں ایک آسان ہدف سمجھا جاتا ہے۔
مگر پاکستان کا اصل دکھ اس غلط تعبیر سے بھی بڑھ کر ہے۔ پاکستان نے دنیا کو اپنی قربانیوں کے بارے میں سمجھانے کی ہزار کوششیں کیں، مگر وہ سنی نہیں گئیں۔ پاکستان نے اسی ہزار شہادتیں دیں، بیس سال تک خطے کی سب سے بڑی جنگ لڑی، چالیس برس افغان مہاجرین کو سہارا دیا، اپنے شہر جلتے دیکھے، مسخ شدہ لاشیں اٹھائیں، خودکش حملوں کا صدمہ برداشت کیا، اپنے اسکولوں کے بچوں کو خون میں نہاتا دیکھا، اور اپنے محافظوں کو روز قبروں کے حوالے کیا۔ اس سب کے باوجود دنیا آج بھی کہتی ہے کہ ’’پاکستان دہشت گردوں کو پالتا ہے‘‘۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟ یہ وہ مقام ہے جہاں بارود سے زیادہ بیانیہ جان لیتا ہے، اور حقیقت سے زیادہ پروپیگنڈا مضبوط ہو جاتا ہے۔
آج پاکستان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ صرف سیکورٹی نہیں، بلکہ ایک مضبوط، مربوط اور عالمی سطح پر قابل ِ قبول قومی بیانیہ ہے۔ پاکستان کو دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردی کا نہ صرف شکار ہے بلکہ اس کے خلاف سب سے مؤثر جنگ لڑنے والا ملک بھی ہے۔ ہماری قربانیاں، ہمارا خون، ہماری جدوجہد؛ یہ سب دنیا کے سامنے ایک نئی زبان، نئے انداز اور ایک متحد سیاسی آواز کے ذریعے لانا ہوں گی۔ داخلی اتحاد، معاشی استطاعت، سفارتی توازن، اور بیانیاتی جنگ کی مضبوط حکمت ِ عملی یہ سب آج پاکستان کی بقا کے ستون ہیں۔ دنیا چاہے کچھ بھی کہے، تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ تاریخ ہمیشہ یہ لکھے گی کہ پاکستان دہشت گردی کا ملک نہیں، دہشت گردی کا زخمی ہے۔ اور جب زخمی سچ بولتا ہے، تو اس کی آواز دیر سے سہی، مگر دنیا تک ضرور پہنچتی ہے۔

رمیصاء عبدالمھیمن سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: دہشت گردی کے پاکستان کو پاکستان نے پاکستان کی اور بھارت کے طور پر سے زیادہ دنیا کے رہا ہے کو ایک

پڑھیں:

دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد افغانستان سے معاملات ٹھیک ہوتے نظر نہیں آرہے، وزیر دفاع

 وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آرمی چیف اور سی ڈی ایم کی مدت ملازمت 27 نومبر سے شروع ہوگی، ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد افغانستان کے ساتھ معاملات ٹھیک ہوتے نظر نہیں آرہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے  پروگرام سینٹر اسٹیج  میں  گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے نوٹیفیکیشن  کے بعد آرمی چیف اور  سی ڈی ایف کی   ٹرم ایک ساتھ  شروع ہوں گی جو 27 نومبر2025 کو  شروع ہوگی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ  سی ڈی  ایف کا عہدہ ہر جگہ ہے، کیا یہ عہدہ  برطا نیہ اور  امریکا میں نہیں ہے؟  ہمارے لیے دونوں  چیفس قابل فخر ہیں ، انہو ں نے  جنگ  جیتی  ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ  ایک عہدے کو  بہت پاور فل کر دیا گیا ہے، آئندہ نئے آرمی چیف  کی تعیناتی کے حوالےسے  ساری سمریاں  وزارت دفاع کی طرف سے بھیجی جائیں گی۔

خواجہ آصف  نے کہا کہ وزارت دفاع کا ایک سویلین انچارج ہے جو  پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کو  جوابدہ ہے ۔ جو تاثر پھیلایا جا رہا ہے اس حوالے سے کوئی  تحریری ثبوت دکھائے جائیں  جبکہ ان کا یہ بھی  کہنا تھا کہ کمانڈ کی تعیناتی  جس طرح سے ہوتی ہے اسی طرح رہے گی ۔

پاکستان اور  افغانستان تعلقات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے  انہوں نے کہا کہ طالبان رجیم   کہتی ہے  کہ ہماری سر زمین پاکستان کیخلاف کبھی استعمال  نہیں  ہوئی جبکہ افغانستان سے ہماری سر زمین پر  حملے ہوئے  ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم  طالبان رجیم  سے  مذاکرات میں اسی  ضمانت   دینے کا ہی کہتے رہے ہیں، وہ ضمانت دے دیں کہ افغان سر زمین سے  پاکستان میں کبھی  دہشت گردی نہیں ہوئی اور نا آئندہ ہوگی تاکہ تحریری  طور پر بات  سامنے آ جائے ، تحریری   گارنٹی میں دیگر  دوست ممالک بھی بطور ضامن  آجائیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبا ضمانت دیں  کہ ہماری زمین کبھی بھی آپ کیخلاف استعمال نہیں ہو گی۔

انہوں  نے واضح کیا کہ اسلام آباد والا حملہ  بھی افغانستان سے ہی ہوا ہے، حالیہ پچھلے  دو حملوں میں 100 فیصد افغانی ملوث تھے، ایسی صورتحال میں کوئی سیٹلمنٹ ہوتے نہیں دیکھ رہا۔

 وزیر دفاع خواجہ آصف  نے کہا کہ افغانستان ہر لحاظ سے ایک دیوالیہ ملک ہے،  نہ عدالتی اسٹرکچر ہے ، طالبان رجیم بتائے کہ  افغان عوام کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی؟ سوائے اس کے  کہ  ساری دنیا کے دہشت گرد  افغانستان میں جمع ہو گئے ہیں۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں  نے کہا کہ تجارت کے لیے افغان بارڈر بند ہونا چاہیے، تجارت بند کی ہے تو ہم کیوں تجارت کھولنے کی اجازت  دیں ؟، وہ ہماری سر زمین پر حملے کر رہے ہیں ،تجارت بند ہونے سے  اسمگلنگ بھی بند ہو جائے گی، اگر  ڈالرز کی اسمگلنگ ہوتی ہے تو وہ بھی بند ہو جائے گی۔                

ججز کے استعفوں سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے  خواجہ آصف نے کہا کہ  استعفے  دینے والے  ججز استعفی اس لیے دے رہے ہیں کہ  وہ  پینشن اور مراعات کے لیے اپنی اپنی  مدت پوری کر رہے ہیں ۔ اگر کوئی  اصولی بات ہے تو  بتائیں اور گھر جائیں،  یہ صرف اس انتظار میں بیٹھے کہ  مراعات ساری عمر لیں۔

انہوں نے کہا کہ  ججز کو گاڑیاں ،  گارڈز پلاٹ ، پینشن  کی سہولت میسر ہے، مجھے  قطعی طور پر کوئی مراعات نہیں ملتیں ، مجھے بس مہینے کی  تنخواہ ملتی ہے ، میرے پاس کوئی گاڑیاں ، گارڈز  نہیں ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے عدلیہ کے اختیارات میں کوئی تجاوز نہیں کیا،  ہم نے کون سی  چیز ایسی کی جس  سے عدلیہ کے اختیارات  ایگزیکٹو  یا انتظامیہ کے پاس منتقل ہو  گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی  جانب سے ججز کو لگانے اور ٹرانسفر کی  بات  درست نہیں ہے، ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہوا جو پہلے تھا  ویسے ہی ہے، ویسے  ہی  تعیناتی کریں گے۔  مجھے بتائیں کہ وہ  کون سی ترمیم ہے جو  وزیر اعظم کو اختیار دے  کے جا کر ووٹ کریں۔

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی کی حالیہ لہر …نمٹنے کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے !!
  • ججز کے استعفے لمحۂ فکریہ، پاکستان محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا، سعد رفیق
  • دہشت گردی کی حالیہ لہر ...نمٹنے کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے !!
  • خیبر پختونخوا حکومت دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے بجائے بہانے بنا رہی ہے، احسن اقبال
  • اسلام آباد اور وانا حملے، اب کسی قسم کی نرمی کی گنجائش نہیں، ایاز میمن موتی والا
  • سرحد پار سے دہشت گردی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، وزیر داخلہ
  • افغانستان اور دہشت گردی
  • بدلتی ہوئی مسلم دنیا اور پاکستان
  • دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد افغانستان سے معاملات ٹھیک ہوتے نظر نہیں آرہے، وزیر دفاع