Nawaiwaqt:
2025-12-09@16:10:00 GMT

برطانیہ نے رجب بٹ کا ویزا منسوخ کردیا

اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT

برطانیہ نے رجب بٹ کا ویزا منسوخ کردیا

پاکستانی یوٹیوبر رجب بٹ کو برطانیہ سے ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے اور وہ آج صبح کی پرواز سے پاکستان روانہ ہو گئے۔رجب بٹ کی ملک بدری کی وجہ ان کا برطانوی ویزے کی منسوخی بنا، رجب بٹ کے خلاف حالیہ قانونی مقدمات کو ویزا اپلیکیشن میں ظاہر نہ کرنے پر ان کا ویزا منسوخ کیا گیا۔برطانیہ کے ہوم ڈپارٹمنٹ نے یوٹیوبر رجب بٹ کا ویزہ منسوخ کر دیا ہے، جو پاکستان میں درج مقدمات کے سبب مہینوں سے روپوش تھے۔اب یہ واضح نہیں کہ رجب بٹ پاکستان واپس آئیں گے یا کسی اور ملک کا رخ کریں گے کیونکہ وہ مبینہ طور پر ایک جوا ایپ کی تشہیر کے الزام میں مقدمے کا سامنا کر سکتے ہیں۔ 

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

ہزاروں طلبہ کے خواب خطرے میں: برطانوی یونیورسٹیوں میں عارضی پابندی کی وجہ کیا ہے؟

برطانیہ کی متعدد یونیورسٹیوں کی جانب سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کے داخلوں کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا ہے، جس کے بعد یقینی طور پر دونوں ممالک کے ہزاروں طلبہ متاثر ہوں گے۔

واضح رہے کہ ستمبر 2025 سے برطانوی حکومت نے طلبہ کے ویزا قوانین سخت کر دیے تھے، جن کے تحت یونیورسٹیوں کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ وہ صرف ان ممالک سے طلبہ کو داخلہ دیں جہاں اسٹوڈنٹ ویزا ریفیوزل ریٹ 5 فیصد سے کم ہو۔

مزید پڑھیں: آسٹریلیا کی جانب سے اسٹوڈنٹ ویزا فیس میں آج سے حیران کن اضافہ، آخر وجہ کیا ہے؟

یاد رہے کہ اسٹوڈنٹ ویزا ریفیوزل ریٹ پاکستان کا قریباً 18 فیصد ہے، جس کے باعث یوکے کی کئی یونیورسٹیوں نے پاکستان کو بھی ہائی رسک کیٹیگری میں شامل کیا ہے۔

برطانوی حکومت کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ پر داخلوں کی پابندی امتیازی فیصلے کے تحت نہیں بلکہ اسٹوڈنٹ ویزا نظام کی شفافیت اور قانونی تقاضوں کو برقرار رکھنے کے لیے عائد کی گئی ہے۔

برطانوی حکومت نے وضاحت کی ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کے داخلے روکنے کا فیصلہ کسی امتیاز کی وجہ سے نہیں بلکہ طلبہ کے ویزا نظام کو شفاف اور محفوظ بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔

حکام کے مطابق ان ممالک سے درخواستوں کے مسترد ہونے کی شرح کافی زیادہ تھی، اسی لیے حکومت نے یونیورسٹیوں کے لیے یہ شرط سخت کر دی کہ ان کا ویزا مسترد ہونے کا تناسب 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔

’چونکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی شرحیں اس حد سے کہیں زیادہ تھیں، اس لیے بعض یونیورسٹیوں نے انہیں زیادہ خطرے والے ممالک قرار دے کر عارضی طور پر داخلے روک دیے۔‘

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ پابندی وقتی ہے اور حالات بہتر ہونے پر دوبارہ داخلے بحال ہو سکتے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی پالیسی میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد جب یونیورسٹیوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش سے طلبہ کی بھرتی کو عارضی طور پر روک دیا ہے۔ ان میں چند نمایاں ادارے جیسا کہ یونیورسٹی آف چیسٹر، وولورہیمپٹن، ایسٹ لندن، ہیرٹفورڈشائر، سَنڈر لینڈ اور کوونٹری شامل ہیں۔

کچھ یونیورسٹیوں کی جانب سے یہ پابندی 2026 تک عائد کی گئی ہے۔ جبکہ بعض نے صرف مخصوص شعبوں یا داخلہ سیشن کے لیے وقتی طور پر یہ قدم اٹھایا ہے۔

یاد رہے کہ یہ پابندیاں حکومت کی جانب سے ستمبر 2025 میں نافذ کیے گئے نئے ضابطوں کے بعد عملی طور پر لاگو ہوئیں۔ حکومتی مؤقف کے مطابق جیسے ہی متعلقہ ممالک کی ویزا کامیابی کی شرح بہتر ہو گی، یہ پابندیاں نرم یا ختم ہو سکتی ہیں۔

یونیورسٹیوں کا مؤقف ہے کہ سخت حکومتی قوانین کے بعد اگر وہ زیادہ ریفیوزل والے ممالک سے طلبہ لیں گی تو ان کا اسپانسر لائسنس منسوخ ہونے کا خطرہ ہے۔

اس فیصلے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے طلبہ شدید پریشانی کا شکار ہیں، کیونکہ بڑی تعداد نے پہلے ہی سے انٹیک 26-2025 کے لیے فیسیں، ڈاکومنٹس اور ٹیسٹ مکمل کر رکھے تھے۔

یہ فیصلہ پاکستانی طلبہ کو کتنا متاثر کرے گا؟ اور طلبہ کی جانب سے کون سی ایسی غلطیاں کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ویزا ریفیوزل شرح میں اضافہ ہوتا ہے؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

’غلط معلومات کی فراہمی کے باعث غیرملکی یونیورسٹیاں سخت فیصلوں پر مجبور ہوئیں‘

تعلیمی امور کے ماہر اور ایجوکیشن کنسلٹنٹ عادل رئیس کا کہنا ہے کہ پاکستانی طلبہ کی جانب سے جعلی کاغذات، غلط بیانی اور غیر مستند دستاویزات جمع کرانے کے بڑھتے ہوئے واقعات نے غیر ملکی یونیورسٹیوں اور امیگریشن اداروں کو سخت فیصلے کرنے پر مجبور کیا ہے۔

ان کے مطابق بہت سے درخواست گزار بغیر کسی مناسب تعلیمی بنیاد، غلط معلومات یا غیر شفاف طریقوں کے ذریعے داخلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے باعث اصل طلبہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔

عادل رئیس کے مطابق کئی ممالک کی یونیورسٹیاں رواں سال ابتدائی جمع شدہ رقم کی پالیسی ختم کرکے مکمل سالانہ فیس پہلے ادا کرنے کی شرط عائد کر رہی ہیں، تاکہ جعلی یا کمزور درخواستوں کو روکا جا سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے سخت فیصلوں کی بڑی وجہ ان طالب علموں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے جو بیرون ملک پہنچ کر تعلیم چھوڑ دیتے ہیں، غیر قانونی قیام اختیار کر لیتے ہیں یا ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں جن سے میزبان ممالک کو نقصان پہنچتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بعض کیسز میں کم عمر طلبہ سے رابطے، ممکنہ اسمگلنگ اور غیر قانونی رہائش جیسے مسائل میں اضافہ بھی سامنے آیا ہے، جس کے بعد کئی ممالک نے نہ صرف برطانیہ بلکہ بھارت سمیت دیگر ریاستوں میں بھی داخلہ پالیسیاں بدلنا شروع کردی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ یہ وہ تمام مسائل ہیں، جو طلبہ کی ایک بڑی تعداد کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اور ان طلبہ کے لیے مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔ جو بیرون ممالک جاکر نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہاں پر وائٹ کالر جابز کرنے کے خواہشمند بھی ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام ممالک پڑھے لکھے، محنتی اور اسکلڈ افراد کو نہ صرف تعلیم کے لیے ویلکم کرتے ہیں، بلکہ وہ ممالک چاہتے ہیں کہ ایسے طلبہ وہیں رہ کر ان کے ملک کی معیشت اور ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کریں، اس لیے اب ہمیں ان تمام چیزوں پر سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔

عادل رئیس کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی طلبہ مکمل شفاف، قانونی اور مستند دستاویزات کے ساتھ درخواست دیں تو انہیں کسی قسم کی پابندی یا مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، لیکن جعلی درخواست گزاروں کی وجہ سے اصل طلبہ بھی مشکلات کی زد میں آ جاتے ہیں۔

ہمارے اپنے رویے اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں، ثاقب ذیشان

ایجوکیشن کنسلٹنٹ ثاقب ذیشان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کے لیے داخلوں کی معطلی کوئی اچانک قدم نہیں بلکہ کئی برسوں سے جاری غیر شفاف اور غلط پریکٹسز کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہاکہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے رویے بھی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔

ثاقب ذیشان کے مطابق جعلی بینک اسٹیٹمنٹ، غیر مستند تعلیمی اسناد، غلط معلومات اور بے بنیاد فنانشل ڈاکومنٹس کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جس نے برطانوی یونیورسٹیوں اور امیگریشن حکام کو زیادہ سنجیدہ اور سخت بنا دیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ بہت سے درخواست گزاروں کی اصل نیت تعلیم نہیں بلکہ کام تلاش کرنا، قیام بڑھانا یا نظام کو کسی نہ کسی طرح بائی پاس کرنا ہوتی ہے، جس سے مجموعی طور پر ملک کی ویزا ساکھ متاثر ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یوکے کی یونیورسٹیاں اس وقت سخت دباؤ میں ہیں کیونکہ اگر وہ زیادہ ریفیوزل والے ممالک سے طلبہ لیتی رہیں تو ان کا اسپانسر لائسنس تک متاثر ہوسکتا ہے، اسی لیے وہ احتیاطی طور پر ہائی رسک ممالک کی فہرست میں پاکستان اور بنگلہ دیش کو شامل کر رہی ہیں۔

’مزید یہ کہ غیر پیشہ ور ایجنٹس اور کچھ کنسلٹنٹس کی غلط رہنمائی نے بھی صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔ پاکستانی طلبہ کو چاہیے کہ وہ صرف اور صرف لائسنس شدہ کنسلٹنٹس کو ہی اپنے مستقبل کے لیے چنیں، اور اس معاملے میں نہایت احتیاط برتیں، کیونکہ اگر ان کا ویزا ایک بار ریجیکٹ ہو جاتا ہے، تو پھر اس لسٹ سے ان کے لیے نکلنا بھی تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ریفیوزل ویزوں کی مزید کڑی جانچ کی جاتی ہے۔ تو جس بھی کنسلٹنٹ سے رابطہ کریں، اس کی مکمل معلومات لیں، اور کنسلٹنٹ کی ہر رہنمائی کو کراس چیک ضرور کریں۔‘

ثاقب ذیشان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی طلبہ مکمل شفافیت، درست فنانشل پروف، اصل دستاویزات اور تعلیمی سنجیدگی کے ساتھ اپلائی کریں تو انہیں کسی پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

ایک مزید سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی بہت سی یونیورسٹیوں کے دروازے یوکے میں پاکستانی طلبہ کے لیے کھلے ہیں، مگر قوانین بہت سخت ہو چکے ہیں۔

’خدارا اب کنسلٹنٹ اور طلبہ کو چاہیے کہ ہر قسم کی احتیاطی تدابیر کو مد نظر رکھیں، تاکہ پاکستان کا ایک اچھا امیج جائے اور ہم اس پابندی سے جلد نکل آئیں۔ امید ہے کہ 2026 میں یہ عارضی پابندی ختم ہو جائے گی، کیونکہ کچھ یونیورسٹیوں کی جانب سے ٹائم پیریڈ واضح کر دیا گیا ہے۔‘

واضح رہے کہ ستمبر سے زیادہ تر یونیورسٹیوں کے داخلے شروع ہو جاتے ہیں، اور اس سے قبل تمام طلبہ کی کو شش ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف کنسلٹنٹ کو ہائیر کر لیں، بلکہ لینگویج ٹیسٹ اور دیگر ڈاکومنٹس بھی مکمل کر لیں، جس پر اچھی خاصی رقم خرچ ہو جاتی ہے۔

والدین اور طلبہ کا کہنا ہے کہ بغیر پیشگی اطلاع کے اچانک پابندی نے ان کے تعلیمی مستقبل کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔ بہت سے طلبہ کو خدشہ ہے کہ ان کا پورا سال ضائع ہو جائے گا یا انہیں دوسرے ممالک کا رخ کرنا پڑے گا۔

علی رضوی کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ گزشتہ ایک سال سے یونیورسٹی آف چیسٹر میں ایم ایس سی انٹرنیشنل بزنس کے داخلے کی تیاری کر رہے تھے۔

علی کا کہنا ہے کہ اس پابندی نے ان کی تمام محنت ایک لمحے میں غیر یقینی صورتحال میں بدل دی ہے۔

’میں نے پچھلے سال ہی سے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ چیسٹر ہی میرا ٹارگٹ ہوگا، اس کے مطابق میں نے آئیلٹس کی تیاری کی، ٹیسٹ دیا اور اچھی بینڈ اسکور حاصل کی۔

’چونکہ میں جانا صرف یوکے ہی چاہتا تھا، اور پھر مجھے وہاں چیسٹر یونیورسٹی سے بہتر اور کوئی آپشن نہیں ملا، اس کے بعد ایچ ای سی سے اپنی ڈگری اور ٹرانسکرپٹس تصدیق کروائیں، جو ایک لمبا اور مہنگا عمل تھا۔ میں نے مختلف کنسلٹنٹس سے ملاقاتیں کیں، ان سے رہنمائی کی، ان کی فیسیں ادا کیں، یہاں تک کہ بینک اسٹیٹمنٹ اور دیگر مالی دستاویزات بھی تیار کر کے رکھیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ سب کچھ مکمل ہو چکا تھا اور اب صرف اپلائی کرنا تھا، لیکن اچانک یہ پابندی لگ گئی۔ اب مجھے ڈر ہے کہ میرا پورا سال ضائع نہ ہو جائے، کیونکہ زیادہ تر یونیورسٹیوں کے داخلے ستمبر سے شروع ہو جاتے ہیں، اور اپلائی کرنے کی تاریخ جنوری یا فروری تک رہتی ہے، اب دوبارہ سے سارا ہوم ورک کرنا، کونسا ملک، کونسی یونیورسٹی بہتر ہے، کہاں میرا مستقبل زیادہ سیکیور ہے، اس سب میں بہت وقت لگتا ہے۔

’خود کو اس سب کے لیے تیار کرنا بھی آسان نہیں ہے، یوکے کے حوالے سے سب سوچ چکا تھا، ذہن بنا چکا تھا، اب دوبارہ نئے سرے سے سب کرنا ناممکن سا لگ رہا ہے۔‘

مہرین فاطمہ نے ماسٹر ریسرچ کے لیے یونیورسٹیوں میں اپلائی کیا تھا۔ انہوں نے کئی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز سے رابطے کیے اور اپنا تحقیقی منصوبہ بھی بھیجا۔ دو جگہوں سے انہیں مثبت جواب ملا اور ایک پروفیسر کے ساتھ بات قریباً طے ہو چکی ہے۔

مہرین کا کہنا ہے کہ نئی پابندیوں اور ویزا قوانین کے بعد انہیں خدشہ ہے کہ یہ فیصلے ان کے ریسرچ پروگرام پر اثر نہ ڈالیں، کیونکہ وہ پہلے ہی اپنی تیاری مکمل کر چکی ہیں۔

کہتی ہیں کہ اب یہاں تک پہنچ جانے کے بعد کوئی بھی ایسا فیصلہ جو ان کے اس پورے تحقیقی پروگرام کو خراب کر سکتا ہے، ان کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں: جرمنی نے اسٹوڈنٹ ویزا قوانین میں کیا اہم تبدیلیاں کی ہیں؟

واضح رہے کہ حکام نے وضاحت کی ہے کہ پابندی تمام برطانوی یونیورسٹیوں پر لاگو نہیں ہوتی، صرف وہ ادارے متاثر ہوئے ہیں جن کا ویزا کامیابی کا ریکارڈ حکومت کے نئے معیارات پر پورا نہیں اترتا۔ کئی یونیورسٹیاں اب بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کو داخلے دے رہی ہیں، لیکن وہ پہلے سے زیادہ سخت جانچ اور مالی ثبوت طلب کر رہی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ممالک اپنے ویزا ریفیوزل ریٹ کو کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ پابندیاں آئندہ برسوں میں نرم یا ختم ہو سکتی ہیں، تاہم موجودہ صورت حال نے دونوں ممالک کے ہزاروں نوجوانوں کے اعلیٰ تعلیم کے خواب کو وقتی طور پر شدید متاثر کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews برطانوی یونیورسٹیاں بیرون ملک تعلیم پابندی پاکستان اور بنگلہ دیش طلبا و طالبان کنسلٹنٹ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • برطانیہ میں مقیم پاکستانی یوٹیوبر رجب بٹ کا ویزا منسوخ، ڈی پورٹ کردیا گیا
  • پاکستان میں توہین مذہب اور سائبر کرائم مقدمات میں ملوث یوٹیوبرکو برطانیہ نے ملک بدرکردیا
  • برطانیہ، پاکستانی یوٹیوبر رجب بٹ کا ویزہ منسوخ، ملک بدر کر دیا
  • برطانیہ نے پاکستانی یو ٹیوبر رجب بٹ کو ڈی پورٹ کر دیا،ویزہ منسوخ
  • برطانیہ نے پاکستانی یوٹیوبر رجب بٹ کو ملک بدر کر دیا
  • انگلینڈ نے پاکستانی یوٹیوبر  کو ملک بدر کر دیا
  • یوٹیوبر رجب بٹ کا برطانوی ویزہ منسوخ، کیا اب وہ پاکستان واپس آئیں گے؟
  • یوٹیوبر ڈکی بھائی نے 100 دن بعد خاموشی توڑنے کا اعلان کردیا
  • ہزاروں طلبہ کے خواب خطرے میں: برطانوی یونیورسٹیوں میں عارضی پابندی کی وجہ کیا ہے؟