حکومت چیئرمین پی اے سی کیلئے میرے نام پر راضی نہیں تھی، ڈیڈلاک ختم کرنے میں اسپیکر نے کردار ادا کیا.جنیداکبرخان
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 جنوری ۔2025 ) چیئرمین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی جنید اکبر خان نے کہا ہے کہ کہ حکومت چیئرمین پی اےسی کیلئے میرے نام پر راضی نہیں تھی،عمران خان وزیراعظم تھے تو کھل کر اپنی رائے کا اظہارکرتا تھا، پارٹی میں سب لوگ جانتے ہیں کہ میں کیسا ہوں. قومی اسمبلی کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین کاکہنا تھاکہ پاکستان تحریک انصاف میں کوئی گروپ بندی نہیں، گنڈاپور پر بطور وزیراعلی بہت ذمہ داریاں ہیں.
(جاری ہے)
انہوں نے بتایا کہ کے پی میں امن وامان کی صورتحال سے متعلق ذمہ داریاں ہیں،عمران خان سے پارٹی ممبران کوآسانی سے ملنے دیاگیا، 6لوگ سابق وزیراعظم سے جیل میں ملاقات کےلئے گئے، 6میں سے5افرادکو ملنے دیا گیا،مجھے روک دیا گیا جنید اکبر نے کہا کہ جیل انتظامیہ سے گلہ نہیں،سب کوپتہ ہے کون ملنے نہیں دیتا،عمران خان نے ملاقات کےلئے میرانام بھی دیا تھا. ان کا کہنا تھا کہ پارٹی میں کس کا کس کے ساتھ رابطہ ہے یہ معلوم نہیں، عمران خان سے ملاقات نہ ہونے پر پارٹی میں کسی سے شکوہ نہیںچیئرمین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے کہا کہ ایک سے ڈیڑھ ماہ قبل صوبائی صدر سے متعلق پتہ چل گیا تھا، ذہنی طور پر پارٹی صدر کی ذمہ داری سنبھالنے کو تیار نہیں تھا اور میری ذاتی خواہش نہیں تھی کہ کے پی کاپارٹی صدر بنوں. انہوں نے بتایا کہ چیئرمین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی بننے کی بھی خواہش نہیں تھی، پارٹی کو تجویز دی تھی شیخ وقاص کا نام دیں تو وکیل کے ذریعے معلوم ہواکہ میرانام پی اےسی چیئرمین کیلئے دیا گیا ہے. جنید اکبر کا کہنا تھا کہ حکومت چیئرمین پی اےسی کیلئے میرے نام پرراضی نہیں ہورہی تھی، حکومت پہلے میرے نام پرراضی نہیں ہورہی لیکن چیئرمین پی اے سی کیلئے ڈیڈلاک ختم کرنے میں اسپیکر نے کردار ادا کیا انہوں نے کہا کہ اب بھی سمجھتاہوں چیئرمین شپ شیخ وقاص کودینی چاہیے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی چیئرمین پی نہیں تھی نے کہا
پڑھیں:
فلسطینیوں کی نسل کشی میں کردار ادا کرنیوالی بین الاقوامی کمپنیاں (2)
اسلام ٹائمز: رپورٹ کے مطابق کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کے خلاف غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہونے پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ یہ کارروائیاں بین الاقوامی اور ملکی عدالتوں میں چلائی جا سکتی ہیں، اور ایسے مقدمات کی متعدد تاریخی مثالیں موجود ہیں۔ رپورٹ میں قانونی دلیل کے طور پر بین الاقوامی قانون کے کردار کے حوالے سے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کی ذمہ داری کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے لیے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کو مجرمانہ کردار کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایگزیکٹوز کی ذمہ داری انفرادی بھی ہو سکتی ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ
سب برانڈ اس جرم میں شریک ہیں:
رپورٹ کے مطابق کمپنیوں کی کاروباری سرگرمیاں نہ صرف قابض صیہونی رجیم کے مظالم کے تسلسل کو ہوا دینے کا سبب ہیں بلکہ جنگوں اور محاصرے میں شدت آنے سے یہ عمل ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، جسے ساختیاتی بنیادوں پر فلسطینیوں کی نسل کشی کہا جا سکتا ہے۔ قابض اسرائیل کے سابقہ ہتھیار، جیسے فوجی سازوسامان، ٹیکنالوجی، پانی اور توانائی وغیرہ اب قتل کرنے، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے اور فلسطینی عوام پر ناقابل رہائش حالات مسلط کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ البانیز اس منظم کام کو ایک "مشترکہ مجرمانہ منصوبہ" قرار دیتے ہیں، جس میں کمپنیاں براہ راست یا بالواسطہ شریک ہیں۔ فلسطین پر قبضے کی غیر قانونی نوعیت اور اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے کے 2024 کے بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں کو دیکھتے ہوئے، کمپنیوں کیطرف سے قابض اسرائیل کیساتھ کسی بھی قسم کا تعاون بین الاقوامی جرائم میں ملوث ہونے کی مثال بن سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کمپنیوں کے لیے ذمہ داری کے 3 درجات کی وضاحت کی گئی ہے، یعنی کس طرح ان کمپنیوں نے 3 شعبوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں حصہ لیا ہے، اور ہر شعبے میں انہیں فوری طور پر اپنے رویے میں تبدیلی لانی چاہیے اور قابض حکومت کے ساتھ تعاون کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔ اقوام متحدہ کے نمائندے کا خیال ہے کہ کمپنیاں یا تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تخلیق میں براہ راست ملوث رہی ہیں، ایسی صورت میں وہ اپنی سرگرمیاں روکنے اور نقصان کی تلافی کرنے کی پابند ہیں، یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں حصہ لیا ہے، جن میں ایسے معاملات بھی شامل ہیں جہاں کمپنیوں نے خلاف ورزیوں کے لیے سہولتیں فراہم کی ہیں، یا آخر کار، ان کا انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے بالواسطہ تعلق ہے۔
کمپنیوں کیخلاف قانونی کاروائی ممکن ہے:
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کی نسل کشی میں ملوث کمپنیوں پر بھی بین الاقوامی اداروں کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟۔ رپورٹ کے مطابق کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کے خلاف غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہونے پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ یہ کارروائیاں بین الاقوامی اور ملکی عدالتوں میں چلائی جا سکتی ہیں، اور ایسے مقدمات کی متعدد تاریخی مثالیں موجود ہیں۔ رپورٹ میں قانونی دلیل کے طور پر بین الاقوامی قانون کے کردار کے حوالے سے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کی ذمہ داری کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے لیے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کو مجرمانہ کردار کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایگزیکٹوز کی ذمہ داری انفرادی بھی ہو سکتی ہے۔
یہ ذمہ داری نہ صرف جرم میں براہ راست شرکت کے لیے پیدا ہوتی ہے، بلکہ مدد کرنے، اُبھارنے، اور اکسانے کے لیے بھی (جیسے لاجسٹک، مالی، یا آپریشنل سپورٹ فراہم کرنا) بھی اس میں شامل ہے۔ اس ذمہ داری کو ثابت کرنے کے لیے، جرم کے بارے میں کمپنی کا علم اور آگاہی کافی ہے اور مخصوص ارادے کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ ہی کمپنیاں "ڈومیسٹک قانون کی تعمیل" یا "مستعدی کے اصول" کو استعمال کرنے جیسے عذر کے ساتھ خود کو ذمہ داری سے بری کر سکتی ہیں۔ اہم معیار ان کے اعمال کے حقیقی اثرات ہیں۔ ساتھ ہی، بین الاقوامی قانون کے تحت، بین الاقوامی جرائم سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں کے خلاف منی لانڈرنگ اور دیگر جرائم کے قوانین کے تحت کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔
مقدمات کی تاریخی مثالیں:
اقوام متحدہ کا نمائندہ واضح طور پر بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور قومی عدالتوں سے اس میں ملوث ڈائریکٹرز اور کمپنیوں کے خلاف تحقیقات اور مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اس حوالے سے تاریخی مثالوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے تاکہ اس طرح کے مقدمات کی فزیبلٹی ثابت ہو سکے۔ پہلی مثال میں، دوسری جنگ عظیم کے بعد نیورمبرگ ٹرائلز کا حوالہ دیا گیا ہے، جہاں کمپنیاں جیسے آئی جی فاربن اور کروپ پر دوسری جنگ عظیم کے بعد نازی جرائم میں حصہ لینے پر مقدمہ چلایا گیا۔ جنوبی افریقی سچائی اور انکوائری کمیشن نے نسل پرستی کے نظام میں کمپنیوں کے کردار کا بھی جائزہ لیا۔ یہ ریکارڈز بتاتے ہیں کہ اسی طرح کے حالات میں کمپنیوں اور ان کے ڈائریکٹرز پر مقدمہ چلانا ممکن ہے۔
اسپیشل رپورٹر کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے اور موجودہ حالات میں اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعاون کا مطلب بین الاقوامی جرائم میں جان بوجھ کر حصہ لینا ہے۔ لہذا، "معمول کے مطابق کاروبار" اب قابل قبول نہیں ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ طویل مدتی قبضہ ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں اس کا منافع تشدد اور کسی قوم کی تباہی پر مبنی ہے، لہٰذا اس صورت حال کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ قبضے اور نسل کشی کی حمایت کرنے والے معاشی میکانزم کو منظم طریقے سے بند کیا جائے۔
خصوصی نمائندے کی سفارشات:
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے البانیز نے بھی اس سلسلے میں متعدد فوری اقدامات کی سفارش کی ہے، جس میں صیہونی حکومت اور غزہ میں نسل کشی میں ملوث کمپنیوں کے خلاف ریاستی پابندیاں عائد کرنا شامل ہیں۔ انہوں نے سفارش کی ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں ان کمپنیوں پر پابندیاں عائد کریں، تجارتی معاہدوں کی معطلی، ہتھیاروں کی مکمل پابندی، اور اپنے ایجنڈے میں شامل کمپنیوں کے اثاثے منجمد کریں۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کام کرنے والی کمپنیاں فوری طور پر اسرائیل سے تعاون بند کریں، یہودی بستیوں میں سرگرمیاں بند کر دیں، اور فلسطینی عوام کو معاوضہ ادا کریں (بشمول ایک منصوبے کے ذریعے جس کا نام "اپارتھائیڈ ویلتھ ٹیکس" ہے)۔
البانیز نے نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں مینیجرز اور کمپنیوں کے خلاف تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کا بھی مطالبہ کیا ہے اور سول سوسائٹی کو ایک سفارش میں کہا ہے کہ قابض صیہونیوں کے معاشی ڈھانچے پر دباؤ ڈالنے کے لیے بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اور پابندیاں (BDS) مہموں کو جاری رکھنے پر غور کیا جانا چاہیے۔
کاروبار یا جرائم کی پشت پناہی کا ایک منافع بخش منصوبہ:
اس رپورٹ میں پیش کی گئی مجموعی تصویر، اسرائیلی معیشت کی نہ صرف فلسطین پر فوجی قبضے کی بنیاد پر، بلکہ عالمی سرمایہ داری کے ستونوں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی ملی بھگت کو بھی واضح کرتی ہے۔ اس ظالمانہ معاشی کاروباری ڈھانچے نے فلسطین پر صیہونی قبضے کو ایک منافع بخش منصوبے میں بدل دیا ہے، جو سرمائے، ٹیکنالوجی اور سائنس کے عالمی نیٹ ورک کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ البانیز کے الفاظ میں، غزہ اور مغربی کنارے میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک "مشترکہ مجرمانہ منصوبہ" ہے۔ یعنی فلسطینیوں کو ختم کرنے کا منصوبہ۔ اسرائیلی حکومت کے لیے جوابدہ ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ ان کمپنیوں، بینکوں، یونیورسٹیوں اور ان کے منتظمین کو بھی بین الاقوامی عدالتوں اور عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش ہونا چاہیے اور ان پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ اس قانونی عمل کا حتمی مقصد کارپوریٹ احتساب، نسل کشی کا خاتمہ اور فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی ہے۔