Express News:
2025-09-18@13:16:45 GMT

اسرائیل غزہ کی پٹی جنگ کے بعد امریکا کے حوالے کرے گا، ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

واشنگٹن:

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کو جنگ کے بعد امریکا کے حوالے کرے گا۔

ٹرمپ نے وضاحت دی کہ غزہ کی سرزمین پر امریکی فوجی اتارنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ لڑائی کے بعد اسرائیل علاقے کو فلسطینیوں سے خالی کرانے میں کامیاب ہو جائے گا۔

اسرائیلی وزیر دفاع نے ٹرمپ کے منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ اس تجویز نے کچھ ریپبلکنز ارکان کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

ٹرمپ کے اس اعلان کی دنیا بھر میں مذمت کے ایک دن بعد کہ وہ غزہ کی پٹی کو مشرق وسطیٰ کا ریویرا بنانا چاہتے ہیں، اسرائیل نے اپنی فوج کو غزہ کے رہائشیوں کے رضاکارانہ انخلا کی اجازت دینے کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔

ٹرمپ جنہوں نے اس سے قبل غزہ میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا تھا، نے اپنے ٹروتھ سوشل ویب پلیٹ فارم پر تبصروں میں اپنے منصوبوں کی وضاحت کی۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کو اسرائیل جنگ کے اختتام پر امریکہ کے حوالے کر دے گا۔ فلسطینیوں کو پہلے ہی اس خطے میں نئے اور جدید گھروں کے ساتھ زیادہ محفوظ اور زیادہ خوبصورت برادریوں میں آباد کیا جا چکا ہوتا، انہوں نے کہا کہ امریکا کے کسی فوجی کی ضرورت نہیں ہوگی۔

قبل ازیں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی جانب سے ٹرمپ کی تجویز کی حمایت میں اضافے کے درمیان اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا تھا کہ انہوں نے فوج کو ایک منصوبہ تیار کرنے کا حکم دیا ہے جس کے تحت غزہ چھوڑنے کے خواہشمند افراد کو رضاکارانہ طور پر غزہ چھوڑنے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ میں صدر ٹرمپ کے جرات مندانہ منصوبے کا خیرمقدم کرتا ہوں، غزہ کے رہائشیوں کو ملک چھوڑنے اور ہجرت کرنے کی آزادی دی جانی چاہیے، جیسا کہ دنیا بھر میں معمول ہے۔

کاٹز نے کہا کہ ان کے منصوبے میں لینڈ کراسنگ کے ذریعے باہر نکلنے کے آپشنز کے ساتھ ساتھ سمندر اور ہوائی راستے سے روانگی کے لئے خصوصی انتظامات شامل ہوں گے۔

ٹرمپ کا غیر متوقع اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور حماس غزہ کے لیے جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے پر دوحہ میں مذاکرات کا آغاز کریں گے جس کا مقصد اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار کرنا ہے۔

سعودی عرب نے اس تجویز کو یکسر مسترد کردیا اور اردن کے شاہ عبداللہ، جو اگلے ہفتے وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے ملاقات کریں گے، کہا کہ وہ زمین کو ضم کرنے اور فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں۔

غزہ میں اپنے چار بچوں اور خاندان کے ہمراہ گھر کے کھنڈرات میں رہنے والے عبدالغنی نے کہا کہ ہم اپنی زمین فروخت نہیں کریں گے۔

عبدالغنی نے مزید کہا کہ ہم بھوکے، بے گھر اور مایوس ہیں اگر ٹرمپ واقعی ہماری مدد کرنا چاہتا ہے تو وہ یہاں آ کر ہمارے ساتھ غزہ کی تعمیر نو میں حصہ لے۔

واضح رہے کہ فلسطینیوں کی نقل مکانی خطے میں ایک دیرینہ اور حساس مسئلہ رہا ہے، اور بہت سے لوگ ٹرمپ کی تجویز کو جبری منتقلی کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں، جس پر 1949 کے جنیوا کنونشن کے تحت پابندی عائد ہے۔

کچھ اسرائیلی سیاست دانوں بشمول سابق جنرل جیورا ایلنڈ نے منتقلی کے خیال کی حمایت کرتے ہوئے اسے منطقی قرار دیا تھا لیکن دوسروں کی جانب سے اس نقطہ نظر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور بہت سے فلسطینی علاقے کے اندر تحفظ حاصل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ تاہم، مستقل نقل مکانی کا وسیع پیمانے پر خوف ہے، 1948 میں "نقبہ" اسرائیلی ریاست کے قیام کو فلسطینی آج تک نہیں بھولے ہیں۔

بین الاقوامی تنقید کے جواب میں کاٹز نے تجویز پیش کی کہ اسپین، آئرلینڈ اور ناروے جیسے ممالک جنہوں نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کی مخالفت کی ہے، انہیں بے گھر فلسطینیوں کو پناہ دینی چاہیے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممالک اسرائیل کے خلاف الزامات عائد کرنے کے بعد غزہ کے رہائشیوں کو پناہ دینے کے قانونی طور پر پابند ہیں۔

ٹرمپ کی جانب سے جنگ زدہ غزہ کی پٹی کا کنٹرول امریکہ کے حوالے کرنے کی تجویز نے کچھ ریپبلکنز میں الجھن اور شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے جبکہ دیگر نے ان کے جرات مندانہ اور فیصلہ کن نقطہ نظر کی حمایت کی ہے۔

اس تجویز کی بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے اور بعض ریپبلکن قانون سازوں نے اختلاف رائے کا اظہار کیا ہے، جنہوں نے بڑے پیمانے پر ٹرمپ کے سابقہ اقدامات کی حمایت کی ہے، جس میں غیر ملکی امداد روکنا اور وفاقی ملازمین کی تعداد میں کمی کرنا شامل ہے۔

قانون سازوں نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے دیرینہ دو ریاستی حل کی حمایت پر زور دیا اور کچھ لوگوں نے امریکی ٹیکس دہندگان کے فنڈز کے استعمال یا ایک سال سے زائد عرصے سے جاری تنازعے سے تباہ حال خطے میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی مخالفت کی۔

ریپبلکن سینیٹر رینڈ پال نے ایکس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں ہم نے پہلے امریکا کو ووٹ دیا ہے، ہمیں مزید فوجی مہم پر غور کرنے کا کوئی حق نہیں جس سے ہمارا خزانہ اور خون دونوں ضائع ہوں گے۔

کانگریس میں محدود اکثریت رکھنے والے ریپبلکنز کو ڈیموکریٹس کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے اور سینیٹر کرس وان ہولین نے اس تجویز کو دوسرے نام سے نسلی صفائی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

ریپبلکن سینیٹر جیری مورن نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل کو یکطرفہ طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا یکطرفہ فیصلہ کیا جا سکے۔

سینیٹر لیزا مرکووسکی نے اس تجویز پر قیاس آرائیاں کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے طویل عرصے سے افراتفری سے دوچار خطے میں امریکی افواج بھیجنے کے خطرات کو اجاگر کیا۔.

تاہم ایوان نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن نے ٹرمپ کے منصوبے کی تعریف کرتے ہوئے اسے خطے کے امن کو محفوظ بنانے کی کوشش کے لیے ایک جرات مندانہ اور فیصلہ کن اقدام قرار دیا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کے حوالے کر غزہ کی پٹی کی جانب سے کرتے ہوئے اس تجویز کی حمایت کی فوجی ٹرمپ کے کے بعد جنگ کے غزہ کے دیا ہے

پڑھیں:

چارلی کرک کا قتل

رواں ستمبر کی 10 تاریخ کو امریکا میں ایک سیاسی قتل ہوا، چارلی کرک کا قتل۔ اس کیس میں ٹائلر رابنسن نام کا ایک 22 سالہ نوجوان پولیس کی تحویل میں ہے۔ اور قتل بظاہر سیاسی انتہا پسندی کا نتیجہ دکھتا ہے۔ ہم منتظر ہی رہ گئے کہ امریکا کے تعلیمی نصاب پر کب یہ کہہ کر حملہ کیا جائے گا؟

’انتہا پسندی تعلیمی نصاب کی وجہ سے فروغ پاتی ہے‘

مگر آہ! وہ فارمولہ صرف ہم پر مسلط کرنے کے لیے ہی گھڑا گیا تھا۔ امریکا میں وہ اس کے باوجود نظر انداز کردیا گیا کہ چارلی کا قتل ایک یونیورسٹی کے ہی سبزہ زار پر ہوا۔

سی این این پر ایک خاتون صحافی نے انتہا پسندی کی ذمہ داری ویڈیو گیمز کے سر تھوپنے کی کوشش کی مگر اسے بھی یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ ویڈیو گیمز تو سب سے زیادہ جاپانی کھیلتے ہیں اور وہ انتہا پسند نہیں ہیں۔

ہم یہ سطور اس یقین کے ساتھ لکھ رہے ہیں کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ ذکر اسی امریکا کا چل رہا ہے جو ساری دنیا کو یہ باور کراتا تھا کہ ’اصلی والی جمہوریت‘ صرف ہماری دکان پر دستیاب ہے، اور آپ سب نے بس ہم سے ہی امپورٹ کرنی ہے۔ نہیں کریں گے تو ہم آپ کا جینا حرام کردیں گے۔

خود ہمارے ہاں بھی ان کے فرنچائزر دن رات یہ سودا بیچا کرتے کہ ہمیں مہذب اقوام سے سیکھنا چاہیے۔ صدشکر کہ ان لبرل دانشوروں کے انتقال پر ملال سے قبل ہی وہ گھڑیاں آگئیں جن میں امریکی اداروں کی سروے رپورٹس بتا رہی ہیں کہ 2016 سے 2024 کے دوران امریکا میں انتہا پسندی 360 فیصد اضافہ پاچکی۔ اور یہ اضافہ اس کے باوجود ہوا کہ نائن الیون کے بعد والے 20 برسوں میں امریکا نے دنیا بھر میں جو ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ اس میں ایک اہم ہدف انتہا پسندی کا خاتمہ بھی تھا۔

سو سوال تو بنتا ہے کہ آخر اسی جنگ کے دوران خود امریکا کیسے اس کی لپیٹ میں آگیا؟ اگر آپ یاد کریں تو امریکا میں سیاہ فاموں کو حقوق بیسویں صدی کے آخری حصے میں آکر ہی حاصل ہوئے تھے۔

بظاہر یوں لگتا تھا کہ یہ مسئلہ حل ہوا، اور نسلی تعصب مٹ گیا۔ مگر ایسا تھا نہیں۔ ہوا فقط اتنا تھا کہ جب مارٹن لوتھر کنگ مالکم ایکس کے قتل بھی سیاہ فاموں کی حقوق کی جدوجہد نہ روک سکے تو سفید فاموں نے ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت جانی۔ مگر دلوں میں تعصب وسیع پیمانے پر موجود رہا۔ اور یہ وقتاً فوقتاً اپنا اظہار کرتا تھا۔ مثلا 90 کی دہائی والا اوکلوہاما سٹی کا ہولناک دھماکا۔

نسلی تعصب کو پوری طاقت کے ساتھ پھر سے سر اٹھانے کا موقع تب ملا جب 2008 کے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی نے سیاہ فام باراک اوباما کو امیدوار نامزد کردیا۔

اوباما کی جیت میں اس چیز نے اہم کردار ادا کیا تھا کہ سیاہ فام اور ایشین ووٹ قریباً سارے ہی وہ لے اڑے تھے۔ اس معاملے میں سیاہ فام اتنے جذباتی تھے کہ بش دور کے سیاہ فام وزیر خارجہ جنرل کولن پاؤل، اوباما کی جیت پر اس کے باوجود فرط جذبات سے رو پڑے تھے کہ کولن پاؤل خود ریپبلکن تھے۔ کولن پاؤل نے اوباما کی جیت کو ناقابل یقین تاریخی لمحہ قرار دیا تھا۔

باراک اوباما نے اقتدار سنبھالا تو امریکی سینیٹ میں مشہور زمانہ سینیٹر جان مکین نے فلور پر کہا ’اب میرا ہر لمحہ اس صدر کو ناکام کرنے میں گزرے گا‘۔

اگر آپ بغور جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ اگلے 3 برس میں وائٹ سپرمیسی کی تحریک امریکا میں از سرنو نمایاں ہونا شروع ہوچکی تھی۔ مگر اس کا کوئی باضابطہ قائد نہ تھا۔ اس خلا کو ڈونلڈ ٹرمپ نے یوں پر کرنا شروع کیا کہ ان کی جانب سے وقتاً فوقتاً تعصب بھرے بیانات سامنے آنے لگے اور جب ماحول بنتا نظر آیا تو برتھ سرٹیفیکیٹ والا معاملہ اٹھا کر باراک اوباما کو باقاعدہ نشانے پر رکھ لیا۔

امریکی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ تحریکوں کی مضبوط اور مستحکم بنیادیں ڈلنے میں کئی سال لگتے ہیں۔ سو ٹرمپ اور وائٹ سپرمیسی کی تحریک نے کوئی جلد بازی نہیں دکھائی۔ انہوں نے 2012 کے صدارتی انتخابات میں اوباما کو چیلنج نہیں کیا۔ ان کی توجہ اب بھی اپنی تحریک کو مضبوط کرنے پر رہی۔

یہ 2016 کا انتخاب تھا جس میں وائٹ سپرمیسی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ سامنے آئی۔ اگر آپ پرانے اخبارات نکال کر دیکھیں تو ٹرمپ کی نامزدگی کے ساتھ ہی ہمارے ہاں انہیں ایک انتہا پسند لیڈر کے طور پر رپورٹ کیا گیا تھا۔ اور اس لیڈر نے اپنی انتخابی مہم میں 2 کارڈ کھل کر استعمال کیے تھے۔ ایک مذہب کا کارڈ جس کا استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ نے یہاں تک کہا کہ وہ منتخب ہوا تو نعوذباللہ حرمین پر بمباری کروائے گا اور دوسرا ایمیگرنٹس کارڈ۔

اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی طرح کی پولیٹیکل کریکٹنس پر یقین نہیں رکھتے لیکن یہ ایمیگرنٹس والی اصطلاح ہے ایک طرح کی پولیٹیکل کریکٹنس ہے۔ سیاہ فاموں کا تو وہ کچھ بگاڑ نہیں سکتے کیونکہ انہیں امریکا میں صدیاں بیت گئیں۔ سو نسلی تعصب کے اظہار کے لیے ایمیگرنٹس کی اصطلاح ہی واحد آپشن بچتی ہے۔

ایمیگرنٹس کون ہیں؟ یہ امریکا آنے والے غیر سفید فام لوگ ہی تو ہیں۔ جن میں مسلمان، لاطینی اور چائنیز بطور خاص ٹرمپ کا ہدف رہے ہیں۔ یاد ہے ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں 7 مسلم ممالک کے شہریوں کے داخلے پر بھی پابندی لگائی تھی؟ ان کے 2 مشیر سٹیو بینن اور سٹیون ملر تب بھی اور آج بھی بطور خاص مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔

سٹیو بینن کے تعصب کا اندازہ اس سے لگایئے کہ اس نے پچھلے ہفتے ہی ایک پوڈکاسٹ میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف اپنا زہر یوں اگلا ’بینجمن نیتن یاہو اسرائیل کو نقصان پہنچا رہا ہے، وہ اسرائیل کو یہودیوں کا پاکستان بنا رہا ہے‘۔

اس انتہا پسند سیاست کا ایک اہم موڑ وہ تھا جب 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ نے شکست ماننے سے انکار کردیا۔ وہ ماحول کو اس اسٹیج تک لے گئے جہاں کیپٹل ہل پر ہی حملہ ہوگیا۔

سمجھنے والا نکتہ یہ ہے کہ جب ٹرمپ اپنے پہلے دور اقتدار کا حلف اٹھا رہے تھے تو عین اسی دن امریکا میں لبرلز نے بھی بہت پرتشدد ہنگامہ آرائی کی تھی۔ تب بھی صورتحال پر قابو پانے کے لیے نیشنل گارڈز کو طلب کرنا پڑ گیا تھا۔ یہ انتہا پسندی کا وہ جن تھا جو گویا ہر امریکی بوتل سے نکلا تھا۔

بات کیپٹل ہل والے حملے پر کہاں رکی۔ بائیڈن کی قیادت میں ڈیموکریٹک پارٹی نے امریکی سیاسی روایات روندتے ہوئے ٹرمپ کے خلاف اپنے سیاسی انتقام کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح عدالتوں کا استعمال شروع کردیا۔

ٹرمپ کے گھر پر چھاپا مار کر اس انداز سے تلاشی لی گئی کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق خاتون اول میلانیہ ٹرمپ کے زیر جامے بھی لہرا لہرا کر ان پر تبصرے کیے گئے۔ انتخابی جلسے میں قاتلانہ حملے کا تڑکا بھی لگ گیا۔

یوں گویا 2011 میں انتہا پسندی کا آغاز بیشک ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے حامیوں نے کیا تھا مگر اس تالی کے لیے اب انہیں ڈیموکریٹس کا ہاتھ بھی میسر تھا۔

اس پورے پس منظر کے ساتھ آج کی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری ٹرم کے پہلے سال میں ہیں۔ اپنے انتخابی وعدوں بلکہ دعوؤں پر انہیں بڑی سبکی کا سامنا ہے۔ جان ایف کینیڈی اور مارٹن لوتھر کنگ قتل کیسز کی رپورٹس وہ پبلک نہیں کرپائے۔ ایپسٹین فائلز کی وہ موجودگی سے ہی انکاری ہوچکے۔

جو 2 جنگیں انہوں نے 24 گھنٹوں میں بند کروانی تھیں وہ ان کے اقتدار کے 9ویں مہینے میں بھی گھن گرج کے ساتھ جاری ہیں۔ اور تو اور ان کا ٹیرف کارڈ کی بھی کسی راشن کارڈ جتنی وقعت باقی نہیں رہی لیکن وہ جنگ پورے زوروں پر ہے جسے لڑنے کے لیے انہوں نے ٰیوٹیوبرز کی پوری فوج تیار کر رکھی ہے۔ چارلی کرک ان کی اسی فوج کا ایک اہم ترین کمانڈر تھا۔

جواب میں لبرلز بھی اسی طرح کی فورس رکھتے ہیں۔ جانبین کی ان فورسز نے ہی تو انتہا پسندی کو پورے عروج تک پہنچایا ہے، اس کی شدت کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ چارلی کرک کے قتل کے لیے ’ڈسپلے اساسنیشن‘ کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔

گویا اسے محض قتل کرنا مقصود نہ تھا بلکہ اس کے کیمپ کے باقی یوٹیوبرز کے لیے ڈراؤنی مثال بنانا بھی پلان میں شامل تھا۔ ردعمل کیا آیا؟ امریکی سوشل میڈیا ان ویڈیوز سے بھر گیا جن میں لبرلز نوجوان اس قتل کی خوشی میں رقص کرتے نظر آئے۔

جواب میں سرکار نے دھمکی دی کہ ان لوگوں کے پاسپورٹ کینسل کیے جائیں گے۔ یہاں تک وارننگ جاری کی گئی کہ اگر کسی نے چارلی کرک کے طرز عمل پر تنقیدی گفتگو کی تو اس کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کردیا جائے گا۔ اور ہزاروں کے اکاؤنٹس حکومت کے کہنے پر بند ہو بھی چکے۔

ٹرمپ کا کیمپ اقتدار میں ہوکر بھی طبل جنگ بجا رہا ہے۔ ایک عجیب ٹرینڈ یہ نظر آیا کہ ٹرمپ کے اہم وزیر اور مشیر ایک تواتر کے ساتھ کچھ اس طرح کے دعوؤں کے ساتھ سامنے آگئے ’اس نے موت سے قبل مجھے جو آخری میسج کیا تھا اس میں فلاں خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ہم اس کی یہ خواہش پوری کریں گے‘۔

قابل غور پہلو یہ ہے کہ ایک مردے کی جانب منسوب ہر خواہش لبرلز پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی ہی کوئی نہ کوئی اسکیم ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ اب ٹرمپ کو اپنے کسی بھی انتہا پسند اقدام کے لیے بطور جواز بس اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ یہ چارلی کرک کی آخری خواہش تھی۔

اس پورے معاملے کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب اس امریکا میں ہو رہا ہے جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے۔ جو 36 کھرب ڈالرز کے قرضے تلے ڈوبتی سلطنت ہے، جس کا لگ بھگ ہر شہری مسلح ہے۔

سو اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا کہ جب یہ سلطنت خانہ جنگی کا شکار ہوگی تو اس کے مناظر و نتائج کتنے تباہ کن ہوں گے۔ کیا اقبال کا یہ مصرع منظر ہونے کو ہے ؟ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی!

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

اوباما ٹائلر رابنسن ٹرمپ چارلی کرک

متعلقہ مضامین

  • یورپی یونین کی اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات محدود کرنے اور وزرا پر پابندیوں کی تجویز
  • چارلی کرک کا قتل
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کے حوالے سے اہم مذاکرات ناکام
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان
  • مسلم ممالک کو نیٹو طرز کا اتحاد بنانا چاہیے، خواجہ آصف نے تجویز دیدی
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا نیویارک ٹائمز پر 15 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
  • روس پر پابندیاں لگانے کیلیے تیار ہیں، امریکا کے قطر کیساتھ خاص تعلقات ‘ اسرائیل کو محتاط رہنا ہوگا‘ ٹرمپ
  • قطر امریکا کا بہترین اتحادی، اسرائیل کو محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا، ٹرمپ
  • پاکستان کی اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کی حمایت