ڈونلڈ ٹرمپ کی کرسیٔ صدارت پر براجمانی نیک شگون ثابت نہیں ہو رہی۔ جس دھوم دھڑکے، ڈینگ بازی اور سبھی کو للکار نے، دھمکانے، دنیا الٹ کر رکھ دینے کے زعم کا ہر جملے ہر آن اظہار تھا، وہ پے در پے اسی پر الٹ کرآن پڑا۔ مشرق وسطیٰ میں جہنم بھڑک اٹھے گی۔ اس کاجواب کیلی فورنیا میں 3 ہفتے پر محیط، وسیع علاقے پر (150 مربع کلو میٹر) بھڑک اٹھنے والے غضبناک شعلوںکی جہنم زار سے مل گیا۔ یہ ایک بڑھک امریکہ کو 275 ارب ڈالر کے نقصان کی پڑی۔ پھر اپنے ہمسایوں کو للکارنا شروع کر دیا۔ پاناما کینال ، امریکی کنٹرول میں لینے کی دھمکی دے دی۔ پاناما کے صدر نے مضبوط مدبرانہ لب ولہجے میں جواب دیا کہ یہ پاناما کی ملکیت ہے اور رہے گی اور ہم نے عالمی تجارت ذمہ دارانہ انداز میں نبھائی ہے۔ پھر باری تھی میکسیکو پر دھونس جمانے کی۔ ’گلف آف میکسیکو‘ کا نام بدل کر خلیج امریکہ رکھنے کی۔ میکسیکو کی صدر کلاڈ یا شین بام نے بے ساختہ اپنی تقریر میں اسے لطیفہ جان کر بر طرف کرتے کہا: ہمارے لیے اور پوری دنیا کے لیے یہ بدستور خلیج ِمیکسیکو ہے ۔میکسیکو، کیوبا دوسرے قریبی ممالک نے صدر ٹرمپ کا یہ حکم نامہ جاری کرنے کو محض ایک بڑھک جانا۔ اسے ناراضگی ،حیرت زدگی اور جھٹک دینے کے انداز میں لیا۔ پھر باری تھی میکسیکو، برازیل اور کو لومبیا کے غیر قانونی تارکین کو مجرم ، Aliens) (Criminal کہہ کر سخت تذلیل کے ساتھ نظر بند کرنے اور واپس بھیجنے کی۔ جس نے شدید غم و غصہ پیدا کیا۔ پہلے 3 امریکی فوجی جہازوں کو تو میکسیکو نے اترنے کی اجازت نہ دی۔ بمشکل تمام مسئلہ حل کیا گیا۔ برازیل اور کولومبیا کے شہریوں کو بھی ہتھکڑیوں، زنجیروں میں بندھے شدید گرمی میں بے ہوش ہوتے، چیختے، روتے بچوں کے ساتھ جہازوں میں ٹھونس دیا گیا۔ مسافروں نے ایمر جنسی لیورکھینچ کر ہنگامی دروازے کھول کر جہاز کے پروں پر بیٹھ کر ہنگامہ کھڑا کیا۔ حکومتِ برازیل کی شدید خفگی پربرازیلی ایئر فورس جاکر بے دخل کیے جانے والے مسافر با عزت واپس لائی جس پر خطے بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ٹرمپ نے بے دخل کیے جانے والوں کو مجرمانہ القابات سے نوازا جس پر حکومتیں بپھر اٹھیں۔ادھر 20 سال ہر جائی امریکہ پر جانیں لٹاتے، ان کے مدد گار 40ہزار افغانوں کو بھی ٹرمپ نے لینے سے انکار کر دیا! پاکستان سمیت کئی بیرونی ممالک میں جانے کے منتظر بیٹھے اپنی قربانیاں یوں رد ہوتے دیکھ کر رو دھو رہے ہیں۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم!یہ رہا کر سیٔ صدارت پر ٹرمپ کا پہلا ہفتہ!
اسی دوران اسرائیل کو 2 ہزار پائونڈ بموں کی کھیپ بھیجی۔ مغربی کنارے پر قابض آباد کاروں پر لگائی پابندیاں ہٹائیں اور بائیڈن کی طرف سے روکی گئی 24 ہزار رائفلیں بھجوانے کا فرمان بھی صادر کیا۔ روکنے کی وجہ یہ خدشہ تھا کہ آباد کار یہودی اور
اسرائیلی پولیس اسے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرے گی۔ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنا کتا غزہ اور مسلمانوں پر جو کھلا چھوڑا تھا، ٹرمپ بھنبھوڑ نے کی اس لہر میں سب سے بے رحم اور وحشی ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔ اسی کے تحت اجڑے تباہ حال فلسطینی، معاہدے کے بعد اب جب خوشی خوشی گھروں کو (کھنڈروں میں) لوٹ رہے ہیں تو ٹرمپ غزہ خالی کروانے کا نیا پلان بنا بیٹھا ہے۔ کہتا ہے: غزہ کو بس صاف کردو۔ مصر اور اردن مزید فلسطینی لیں۔ اردن میں پہلے ہی 23 لاکھ فلسطینی ہیں۔ مصر قبل ازیں بھی منع کر چکا ہے کہ انہیں غزہ سے صحرائے سینا نہیں بھیجا جاسکتا۔ یورپین یونین، امریکہ کے عرب پارٹنر، یواین سبھی کا کہنا ہے کہ فلسطینی آبادی غزہ سے نہیں نکالی جا سکتی۔ غزہ کسی طرح بھی اسرائیل کے ہاتھوں دوبارہ کالونائز نہ ہو۔ اسرائیلی، شہ پا کر مغربی کنارے کو غزہ ہی کی طرح تباہ کر رہے ہیں۔ گھروں پر قبضے، گھیراؤ، جلاؤ، گرفتاریاں۔ حماس، اسلامی جہاد اور فلسطینی سیاسی قیادت نے ٹرمپ کے اس ارادے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا،فلسطینی ٹرمپ کی ایسی ہر کوشش ناکام بنا دیں گے کیونکہ یہ ایک اور نکبۃ کی تیاری ہے۔ قتلِ عام اور بے دخلی کی۔ بحمد اللہ عرب وزرائے خارجہ کانفرنس قاہرہ میں (یکم فروری) مصر، اردن ،سعودی عرب، قطر، امارات، فلسطینی اتھارٹی، عرب لیگ نے مشترکہ موقف اختیار کیا کہ فلسطینیوں کو کسی دوسرے ملک میں شفٹ کرنا ہر حال میں خارج از امکان ہے۔ یہ خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہوگا۔ ہم فلسطین کے ناقابلِ تنسیخ حق (اپنی سرزمین پر) پر دست اندازی کی ہر کوشش مسترد کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کی کوشش پر مصری سڑکوں پر نکل آئیں گئے۔ (اور ایک زبردست مظاہرہ ٹرمپ پر لعن طعن کرتا ہو بھی چکا!) عرب وزراء نے بین الاقوامی کانفرنس، یواین کے ساتھ بلانے کا ارادہ ظاہر کیا جو غزہ کی تعمیرِ نو پر بات کرے گا۔ سوٹرمپ کے اس غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔ رپورٹروں نے جب پوچھا کہ غزہ کیونکر خالی ہوگا تو ٹرمپ نے تکبر سے گردن اکڑا کر 3 مرتبہ زور دے کر کہا:( مصر، اردن) وہ ایسا ہی کریں گے! حالانکہ قدس کی سرزمین چھوڑنا تو دو سالہ فلسطینی بچے کی لغت میں بھی نہیں۔ یہ نا ممکن ہے! مگر عرب ممالک، اخوانی جہادی مر مٹنے والے فلسطینی حافظوں، اسلام پسندوں کو اپنے ہاں کیونکر لا بسائیں گے؟ مصر سارے اخوانی، جیلوں، عقوبت خانوں میں ٹھونس کر بھی لرزاں و ترساںرہتا ہے! اندازہ تو کیجئے ان شیروں کی عزیمت کا !لا زوال قربانیوں پر بھی مسکراتے چہرے! ملبوں، کھنڈروں میں واپسی پرشکر گزاریوں سے پُر اور مسرور ہیں!
اسرائیل نے کہا تھا، ’جنگ کے بعد کا دن حماس کے بغیر ہو گا اور حماس کا وجود باقی نہ رہے گا!‘ اور ادھر؟ پھول ہیں صحرا میں یا ’شہزادے‘ قطار اندر قطار! معجزہ ہے کہ بشاش مضبوط مجاہدینِ قسام قیدیوں کی حوالگی کے لیے آئے تو (اسرائیل سے طوفانِ اقصٰی میں چھینی) شاندار گاڑیوں کے قافلے، چمکتے یونیفارم، صحت مند مسرور قیدی جو ’دشمن ‘کے حسن سلوک اور اخلاق کی بلندیوں پر متمکن حماس کے گواہ تھے! دہشت گردی کے نام پر 20 سال دنیا کے دماغوں میں بھوسہ بھر کر مسلمانوں کو بدنام کرنے والے، اپنے گریبان میں جھانکیں۔ غزہ، شام کے ملبوں، قبرستانوں، قیدیوں سے بدسلوکی میں درندگی! دنیا نے سب دیکھ، جان لیا۔ مغرب میں ہر ایک فلسطینی کی شہادت کے عوض 5 افراد مسلمان ہونے کی اطلاع ہے! سات عظیم شہداء قائدین کے نام اور احوال ’القسام‘ نے جاری کیے۔ ان کی زندگیاں صحابہؓ سے مشابہ اور اسلامی تاریخ کی لازوال انمول شخصیات ہی کا تسلسل ہیں۔ ایسے ہی قائدین غزہ کی ماؤں کی گود میں پلتے ہیں شیخ احمد یٰسین ؒتا ابو خالد محمد الضیفؒ و یحییٰ سنوارؒ! مقابلہ کر دیکھئے ہٹلر سلوٹ کرنے والے سفید فام برتری والے قارون اور فرعونِ دوراں، ڈونلڈ ٹرمپ سے یا نتین یاہو جنہیں دجال کی گھٹی ملی لگتی ہے!
ٹرمپ کا ایک اور اقدام، جو اسی پر الٹ گیا، یہ تھا کہ میکسیکو، کینیڈا، چین سے درآمدات پر یکایک بھاری محصول (ٹیکس) عائد کر دیا۔ میکسیکو اور کینیڈا کے جواباً امریکی درآمدات پر ٹیکس کے بعدٹرمپ نے فیصلہ مؤخر کر کے مذاکرات! چین نے ا مریکی کاروائی کے چند منٹ اندر جوابی ٹیکس اور پابندیاں عا ئد کر دیں۔امریکہ پہلے ہی ان تین ممالک کا 36 کھرب ڈالر کا مقروض ہے! یورپ بھی جوابی اقدامات کر رہا ہے۔امریکہ میں مہنگا ئی اور عالمی تجارتی جنگ کا سلسلہ چل پڑا ہے! ٹرمپ اب چینی صدر سے بات کرنے کو ہے تاکہ….
پاکستان کو ہمہ وقت سوئے امریکہ دیکھنے کی بجائے سورۃ القلم 16 – 10، پڑھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک کردار اللہ دکھاتا ہے اور اس کے آگے دبنے، جھکنے سے منع فرماتا ہے۔ یہ کہہ کر کہ: ’ایسے آدمی کی دھونس قبول نہ کرو!‘ اس کے اوصاف؟ مال و اولاد والا ہے، سخت بخیل، حقیر و ذلیل، بے وقعت، بھلائی سے روکنے والا، ظلم و زیادتی میں حد سے گزرنے والا، بد اعمال، جفا کار!
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ٹرمپ کا
پڑھیں:
چند دنوں میں 29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے زندگی کی بازی ہار گئے، رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ بیت المقدس: غزہ کی پٹی ایک بار پھر انسانی بحران کی بدترین صورت اختیار کر چکی ہے جہاں خوراک کی شدید کمی کے باعث درجنوں معصوم بچے اور بزرگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غذائی قلت کی صورت حال پچھلے چند ہفتوں کے دوران نہ صرف سنگین ہو چکی ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے فلسطینی عوام خاص طور پر بچے اور ضعیف افراد براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
خبر رساں اداروں کے مطابق عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ مہینے میں صرف چند دنوں کے اندر اندر 29 فلسطینی شہری، جن میں اکثریت بچوں اور ضعیف افراد کی تھی، بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
یہ المناک اعداد و شمار ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی رسائی پر شدید اور سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان پابندیوں کے باعث نہ صرف خوراک، بلکہ طبی سہولیات کی فراہمی بھی متاثر ہے اور کئی اہم مراکز جن میں شدید متاثرہ بچوں کا علاج کیا جاتا تھا، اب بند ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ’’نیوٹریشن کلسٹر‘‘رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 5سال سے کم عمر کے بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ مئی کے وسط میں کیے گئے ایک تازہ سروے کے مطابق غزہ میں 5.8 فیصد بچے ایسی حالت میں پائے گئے جو نہ صرف ان کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے بلکہ فوری طبی مداخلت نہ ہو تو موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ یہ شرح فروری میں محض 2 فیصد کے لگ بھگ تھی، جب عارضی جنگ بندی کے دوران امداد کی فراہمی ممکن ہو سکی تھی۔
اس انسانی بحران کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ امدادی مراکز جو متاثرین کے لیے واحد امید بن چکے تھے، اب نشانہ بننے لگے ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکی تعاون سے بنائے گئے امدادی مقامات کے قریب فائرنگ کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں امداد کے منتظر شہری شہید ہوئے۔ ان واقعات پر دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے اور اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاتا ہے کہ حماس امدادی سامان کو اپنی ضروریات کے لیے ضبط کرتی ہے، تاہم حماس ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ زمینی حقائق اس دعوے کے برخلاف ایک اور ہی تصویر دکھا رہے ہیں، جہاں بھوک سے بلکتے بچوں کی آہیں، کمزور اور مایوس والدین کی نظریں اور بند اسپتالوں کے دروازے اس بات کے گواہ ہیں کہ امداد کی رسائی کو محدود کرنے کا خمیازہ براہ راست عام فلسطینی عوام بھگت رہے ہیں۔
شمالی غزہ اور جنوبی رفح جیسے علاقے اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہیں، جہاں وہ مراکز بند ہو چکے ہیں جو بچوں کی غذائی کمی اور دیگر طبی پیچیدگیوں کا علاج کرتے تھے۔ ان علاقوں میں شدید قلت کے شکار بچوں کو اب فوری طبی امداد کی سہولت میسر نہیں، جس سے اموات کی شرح مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ یہ رپورٹ عالمی برادری کے لیے ایک الارم ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امدادی راستوں کو فوری طور پر کھولا جائے اور خوراک و دوا کی ترسیل کو کسی سیاسی یا عسکری حکمت عملی سے مشروط نہ کیا جائے۔ بچوں کی زندگیاں کسی بھی تنازع سے بالاتر ہیں، اور اگر دنیا نے فوری اقدام نہ کیا تو صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔