اسپیکر قومی اسمبلی کی اسلام آباد ہائیکورٹ جج کے ریمارکس پر رولنگ
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے ریمارکس پر رولنگ دے دی۔
قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ میڈیا میں ایک جج صاحب نے پارلیمنٹ کے بارے بیان سامنے آیا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کا بیان پارلیمنٹ پر حملہ ہے۔
اپنی رولنگ میں اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ کسی کو پارلیمنٹ سے متعلق بیان بازی کا حق نہیں، یہ ناقابل قبول ہے۔
قومی اسمبلی میں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافے کا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
یاد رہے کہ آج ایک کیس کی سماعت میں جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا تھا کہ عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ سمیت تمام ستون گِر چکے ہیں۔
دوسری طرف قومی اسمبلی میں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافے کا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کیا گیا ہے۔
اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ جو بڑھی ہوئی تنخواہ نہیں لینا چاہتا لکھ کر دے دے، آپ لوگ پارلیمنٹ کو جعلی بھی کہتے ہیں اور خود سنجیدہ بھی نہیں ہوتے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا
پڑھیں:
کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکلا حافظ احسان، شاہنواز میمن اور اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہوگئے، درخواست گزار کے وکیل راشد انور کل دلائل کا آغاز کریں گے۔سماعت کے اختتام پر ایڈیشنل اٹارنی جزل اور کمپینز کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دلائل نہیں دیں گے، تحریری معروضات جمع کروائیں گے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ جب تک تحریری معروضات جمع نہیں ہوں گی، میں دلائل کیسے دوں گا، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دو دن تک تحریری معروضات جمع کروا دیں گے۔کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔