پی ڈی پی و بی جے پی کا اتحاد نہ ہوتا تو دفعہ 370 کا خاتمہ نہیں ہوا ہوتا، تنویر صادق
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
نیشنل کانفرس کے ترجمان اعلٰی نے کہا کہ ہم قتل و غارتگردی کے واقعات میں براہ راست مداخلت نہیں کرسکتے لیکن ہم نے یہ معاملہ براہ راست بھارتی وزیر داخلہ کیساتھ اٹھایا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر نیشنل کانفرس کے ترجمان اعلٰی اور ممبر آف لیجسلیٹیو اسمبلی زڈی بل تنویر صادق نے کہا کہ وزیراعلی عمر عبدللہ نے وزیر داخلہ امت شاہ کو کھٹوعہ اور بارہمولہ واقعات سے آگاہ کیا یے اور کہا کہ ایسے واقعات جموں و کشمیر کے عوام کو دہلی سے دور کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان واقعات میں براہ راست مداخلت نہیں کرسکتے کیونکہ قانون و انتظام ہمارے دائرہ اختیار نہیں ہے لیکن ہم نے یہ معاملہ براہ راست بھارتی وزیر داخلہ کے ساتھ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں، لیکن ہم دوبارہ دہراتے ہیں کہ کوئی بھی بے گناہ مارا نہیں جانا چاہیئے۔ تنویر صادق نے التجا مفتی پر سخت طنز کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیئے اور سنجیدہ سیاستدان کی طرح برتاؤ کرنا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو سوال اٹھانے کا حق ہے لیکن انہیں غیر ضروری سیاست سے گریز کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے التجا مفتی کی والدہ محبوبہ مفتہ پارٹی کارکنوں کو ڈانٹ رہی تھیں اور اب یہ کام التجا مفتی نے سنبھال لیا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ ڈاکٹر فاروق عبدللہ ان کے دادا کی عمر کے برابر ہیں اور انہیں ایک سینیئر سیاستدان کی عزت کرنی چاہیئے۔ تنویر صادق نے مزید کہا کہ اگر مفتی خاندان نے 2014ء میں بی جے پی سے اتحاد نہیں کیا ہوتا تو جموں و کشمیر کو 5 اگست 2019ء کا دن نہ دیکھنا پڑتا جب دفعہ 370 کا خاتمہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار پی ڈی پی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ تنویر صادق براہ راست
پڑھیں:
تین سال پہلے کے نرخ اب؟
جس دن وزیراعظم نے بجلی کے بلوں میں ’’باتصویر‘‘ کمی کا اعلان کیا اس سے اگلے دن ہم اخبارات کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے کہ ’’لازم وملزوم‘‘ اس پر کیا بیان آئے گا؟
’’لازم وملزوم‘‘خیبر پختون خوا کے اخبارات کا وہ کام ہے جو معاون خصوصی برائے اطلاعات کو مستقل طورپر الاٹ کی جا چکی ہے یہ جگہ پہلے صفحے کے عین بیچوں بیچ دائیں طرف واقع ہے نہ ایک انچ ادھر نہ ایک انچ ادھر۔ سرکاری جگہ میں معاون خصوصی کے ’’عہدوں‘‘ ڈگریوں سے مزین گل افشانی ہوتی ہے ۔ عین ممکن ہے کہ وزیراعظم ، صدر ، گورنر ،وزیراعلیٰ کے بیانات میں ناغہ ہوجائے لیکن ڈگریوں، عہدوں اور تصویر سے مزین اس شاعری میں ناغہ نہیں ہوسکتا ہے اوراس دن بھی ناغہ نہیں ہوا تھا لیکن جو بیان آیا تھا اس نے ہمیں حیران پریشان ، ناطقہ سربگریبان اورخامہ انگشت بدندان کردیا تھا کہ ’’بجلی اورپٹرولیم کے نرخوں میں جس نے یہ کمی کی تھی وہ جیل میں پڑا ہے ‘‘
ظاہرہے کہ یہ بہت بڑا انکشاف بلکہ کشاف الاکشاف تھا، بجلی اورپٹرولیم وغیرہ میں ’’جس ‘‘ نے کمی کی تھی وہ سال ڈیڑھ سال سے جیل میں ہے ، اس سے پہلے بھی اسلام آباد پر چڑھائیوں میں مصروف تھے یعنیکل ملا کر اگر وہ نرخوں میں ’’کمی‘‘ کرچکے تھے تو اسے تین سال کا عرصہ تو یقیناً گزرا ہے تو یہ کمی اب تک کہاں تھی ؟ اتنی دیر سے کیوں پہنچی ، ہمارا خیال ہے یہ ’’کمی ‘‘ کسی خرگوش کی پیٹھ پر سوار کی گئی تھی اگر کچھوے کی پیٹھ پر ہوتی تو پھر بھی سال چھ مہینے میں اسے پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن سلسلہ مواصلات یقیناً ’’خرگوش‘‘ تھا جو کہیں کسی درخت کے سائے میں یاکسی اے سی کمرے میں سو گیا ہوگا ۔
اس پر ہمیں وہ شخص یاد آیا جس کا ذکر ہم نے کہیں کیا بھی ہے ۔ وہ پڑوس کے گاؤں سے ہمارے پاس اپنی شاعری سنانے آتا تھا کیوں کہ اس کاکہنا تھا کہ صرف ہم ہی اس کی شاعری کو سمجھتے ہیں ، ایک بات اس نے یہ بتائی تھی کہ اس نے بینظیر بھٹو پر ایک نظم لکھی تھی جس کے عوض پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے پانچ لاکھ روپے کی پیش کش کی تھی لیکن میں نے رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمہاری نظر میں بینظیر کی قیمت صرف پانچ لاکھ روپے کی ہے اورمیری نظر میں اس کی قیمت قارون کے سارے خزانوں سے بھی زیادہ ہے ۔دوسری بات یہ کہ جب ہم نے جان چھڑا نے کے لیے کہا کہ ہم ایک جنازے میں جارہے ہیں، دو نوجوان بھائی ایک روڈایکیسڈنٹ میں مرے ہیں اوریہ بات سچ تھی ۔ تو اس نے کہا اگر کوئی جیب میں ’’پریزیڈنٹ پن‘‘ رکھے تو اسے کوئی حادثہ پیش نہیں آسکتا۔لیکن اس کا تیسرا نظریہ یا دعویٰ ہم نے آپ کو نہیں بتایا ہے ، اس کا دعویٰ تھا کہ رحمان بابا کادیوان اصل میں میرا دیوان ہے ۔میں نے جب رحمان بابا اوراس کے زمانے کی بات کی تو اس نے کہا کہ وہ اس جنم سے پہلے رحمان بابا کے زمانے میں بھی پیدا ہوا تھا بلکہ رحمان بابا میرا شاگرد ہوا کرتا اورمجھ پر جب بھی ’’آمد‘‘ طاری ہوجاتی تھی،رحمان بابا اسے لکھنے لگتا تھا ۔پھر ایک خاتون کے عشق میں جب اس کے بھائیوں نے مجھے مرتبہ شہادت پر پہنچایا تو میرا کلام رحمان بابا کے پاس رہ گیا ۔ لیکن اس نے خود یہ خیانت نہیں کی تھی بلکہ جب وہ فوت ہوگیا تھا اوراس کے سامان میں چند تصویر بتاں کے ساتھ یہ کلام بھی نکل آیا تو لوگوں میں اس کا یہ کلام مشہورہوگیا۔دراصل کچھ غلطی میری بھی تھی کہ میں اپنے کلام میں تخلص نہیں استعمال کرتا تھا کیوں کہ ہم دونوں کا نام رحمان تھا۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ بجلی وجلی کے نرخوں کاچکر بھی کچھ ایسا ہی ہے کام بلکہ کارنامہ اس کا تھاجو جیل میں ہے اوربیچارا دیسی گھی میں دیسی مرغ کھانے پر مجبور ہے ۔خیر اس کا بدلہ تو ہم لے کر رہیں گے اوران مینڈیٹ چوروں کو اس سے ڈبل عرصہ دیسی مر غ اوردیسی گھی کھلائیں گے جو انھوں نے ’’بانی‘‘ کو کھلائے ہیں ۔
اوراس بیان پر ہمیں پکا پکا یقین اس لیے ہے کہ ہمارے معاون خصوصی برائے اطلاعات کبھی جھوٹ نہیں بولتے اورجو بھی بولتے ہیں سچ بولتے ہیں اوریہ صرف ہم نہیں کہہ رہے بلکہ صوبہ خیر پخیرکا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان کے بیانات ’’سچ‘‘ کاسرچشمہ ہوتے ہیں ، خاص طورپر وہ جو کچھ پنجاب اوروفاق کی مینڈیٹ چورحکومتوں کے بارے میں بولتے ہیں ۔
ویسے یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ ان کے بیانات پڑھ پڑھ کر اوراس میں حد سے زیادہ سچائی پاکر لوگ الٹیاں کرنے لگ گئے ہیں کیوں کہ ملاوٹ کے عادی معدے اتنی خالص سچائیاں ہضم نہیں کرپارہے ہیں
سچ بڑھے یاگھٹے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہیں نہیں