پاکستان کی سر زمین پر افغانستان سے لائے گئے غیر ملکی اسلحے کے استعمال کے ثبوت ایک بار پھر منظر عام پر
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
پاکستان فوج گزشتہ دو دہائیوں سے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں افغان سرزمین سے ہونے والے دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان سے دہشتگرد پاک افغان سرحد کے ذریعے دراندازی کی کوشش کرتے ہیں اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ معصوم شہریوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ سب پر یہ بات عیاں ہے کہ دہشتگردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ دستیاب ہے۔
دہشتگردوں کو ہتھیاروں کی فراہمی نے خطے کی سلامتی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔ ان آپریشنز کی تفصیلات مطابق 4 مارچ 2025 کو فتنتہ الخوارج نے بنوں کینٹ پر حملے کی کوشش کی مگر سیکیورٹی فورسز کے بر وقت ردعمل سے ان کے ناپاک ارادے ناکام ہو گئے۔ اپنی ناکامی کے خوف میں حملہ آوروں نے دو بارودی مواد سے لدی گاڑیاں کینٹ کی دیوار سے ٹکرا دیں۔
آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے حملہ آوروں کو نشانہ بنا کر 16 دہشتگردوں سمیت 4 خودکش بمباروں کو ہلاک کردیا۔ مارے گئے خوارجیوں سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا، جس میں 40mm VOG-25 Projected Grenades اور M4 Carbine سمیت دیگر ہتھیار شامل تھے۔ یہ دہشتگرد سیکیورٹی فورسز پر حملوں اور بے گناہ شہریوں کے قتل میں ملوث رہے۔
مزید پڑھیں: عالمی دباؤ کے بعد افغان طالبان نے برطانوی جوڑے کی گرفتاری کی وجہ ’غلط فہمی‘ قرار دیدی
اس سے قبل 28 فروری 2025 کو سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے علاقے غلام خان کلی میں خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیا۔ آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے فتنتہ الخوارج کے ٹھکانے کو مؤثر انداز میں نشانہ بنا کر 6 خوارج کو ہلاک کیا۔ ہلاک خوارج سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا جس میں M24 Sniper Rifle، M16A4 اور M4 شامل، یہ خوارج سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں اور بے گناہ شہریوں کے قتل میں ملوث رہے۔
15 فروری 2025 کو خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی فورسز کی 2 الگ جھڑپوں میں 15 خوارج انجام کو پہنچے۔ 15 فروری 2025 کو سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے ہتھالہ میں 9 خوارجیوں کو ہلاک کیا۔ 15 فروری 2025 کو ایک اور آپریشن میں سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں آپریشن کرکے 6 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا۔
ہلاک دہشتگردوں M16/A2 اور M4 Carbine with Scope سمیت دیگر اسلحہ اور بارودی مواد برآمد ہوا جو سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں اور بے گناہ شہریوں کے قتل میں استعمال ہوتا رہا۔ اس سے قبل یکم فروری 2025 کو ہرنائی میں سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کرکے گیارہ دہشتگردوں کو ہلاک اور متعدد ٹھکانے تباہ کر دیے۔ 31 جنوری اور یکم فروری کی شب سیکیورٹی فورسز نے قلات کے علاقے منگوچر میں دہشتگردوں کا روڈ بلاک بنانے کا منصوبہ ناکام بنا کر 12 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا۔
مزید پڑھیں:افغانستان میں طالبان انتظامیہ نے ’ کابل سرینا ہوٹل‘ پر قبضہ کرلیا
ہلاک دہشتگردوں سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا جس میں M24 Sniper Rifle اور M16A4 with Night Vision شامل تھے جو سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں اور بے گناہ شہریوں کے قتل میں استعمال ہوتا رہا۔ 11 جنوری 2025 کو ضلع شمالی وزیرستان کے ضلع دوسالی میں 2 الگ الگ انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کیے گئے، آپریشن کے دوران 6 خوارج کو جہنم واصل کردیا گیا، جبکہ 2 خوارج گرفتار ہوئے۔
انٹیلی جنس کی بنیاد پر ایک اور آپریشن شمالی وزیرستان کے علاقے ایشام میں کیا گیا۔ شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد سیکورٹی فورسز نے 3 خوارج کو جہنم واصل کر دیا جبکہ 2 خوارج زخمی ہو گئے۔ دہشتگردوں کے قبضے سے بھاری مقدار میں غیر ملکی اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکا خیز مواد سمیت AK-47،M4, Drangunov برآمد ہوئے۔
09 دسمبر 2024 کو، سیکورٹی فورسز نے خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کیا۔ آپریشن کے نتیجے میں 2 خوارج کو جہنم واصل کر دیا گیا جبکہ ایک خارجی زخمی حالت میں پکڑا گیا۔ بھاری مقدار میں غیر ملکی اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکا خیز مواد برآمد کیا گیا تھا جس میں M16-A2, M4,AK-47 شامل ہیں۔
10 نومبر 2024 کو ضلع شمالی وزیرستان میں 10 خوارج کو جہنم واصل کیا، سیکیورٹی فورسز کی جانب سے شمالی وزیرستان کے علاقے اسپن وام میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا گیا۔ بھاری مقدار میں غیر ملکی اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکا خیز مواد بھی برآمد کیا گیا تھا جس میں M16-A4, M4,AMV-65 برآمد ہوا۔
مزید پڑھیں: طالبان نے لڑکیوں سے تعلیم کا حق چھین رکھا ہے وہ خواتین کو انسان نہیں سمجھتے، ملالہ یوسفزئی
افغانستان سے جدید غیر ملکی اسلحے کی پاکستان سمگلنگ اور ٹی ٹی پی کا سیکیورٹی فورسز اور پاکستانی عوام کے خلاف غیر ملکی اسلحے کا استعمال افغان عبوری حکومت کا اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کے دعوؤں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
یورو ایشین ٹائمز کے مطابق پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی کارروائیوں میں غیر ملکی ساخت کے اسلحے کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق امریکا نے افغان فوج کو کل 427,300 جنگی ہتھیار فراہم کیے، جس میں 300,000 انخلا کے وقت باقی رہ گئے۔ اس بنا پر خطے میں گزشتہ 2 برس کے دوران دہشتگردی میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا۔
پینٹاگون کے مطابق امریکا نے 2005 سے اگست 2021 کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز کو 18.
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان امریکی اسلحہ پاکستان پینٹاگون طالبانذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان امریکی اسلحہ پاکستان پینٹاگون طالبان شمالی وزیرستان کے علاقے خوارج کو جہنم واصل سیکیورٹی فورسز کے سیکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کو میں غیر ملکی فروری 2025 کو گولہ بارود انٹیلی جنس اسلحہ اور بھی برآمد برآمد ہوا آپریشن کے کے دوران ٹی ٹی پی کو ہلاک کے خلاف کیا گیا
پڑھیں:
ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
اللہ بھلا کرے ہمارے ناخداؤں کا، صبح شام ہمیں یقین دلائے رکھتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے، گھبرانا نہیں۔ بلکہ ثبوت کے طور پر کئی دعوے اور مختلف معاشی اشاریے پیش کیے جاتے ہیں کہ لو دیکھ لو، جنگل کا جنگل ہرا ہے لیکن کیا کیجیے۔
زمینی حقائق سے واسطہ پڑتا ہے تو بندۂ مزدور کے اوقات اسی طرح تلخ اور سوہان روح ملتے ہیں۔ ہم عوام کی یہ دہائی کون سنتا ہے لیکن جب ان اعداد وشمار کو مختلف ترتیب سے کوئی عالمی ادارہ مرتب کر کے عوام کی دہائی اور تاثر کی تائید کرے تو اس پر اعتبار کرنا بنتا ہے۔
سالہا سال سے سن، پڑھ اور دیکھ رہے ہیں کہ ترقی کی دوڑ میں ایشیاء تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ، پیداوار، برآمدات اور ارب پتیوں کی تعداد میں دھڑادھڑ اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسے میں معاشی بدحالی کا دھڑکا تو اصولاً نہیں ہونا چاہیے لیکن معروف عالمی ریسرچ ادارے آکسفیم کی ایشیائی ممالک کی ترقی کی بابت تازہ رپورٹ کے مطابق ترقی ہو تو رہی لیکن اس کے ثمرات کا غالب حصہ چند ہاتھوں تک محدود ہے جب کہ عوام کے حصے میں ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ کا لالی پاپ ہی رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو رپورٹ کے چیدہ نکات سنئے اور سر دھنیے…
رپورٹ کا عنوان ہے ’’An Unequal Future‘‘ یعنی ’’غیر مساوی مستقبل‘‘۔ رپورٹ کا خلاصہ یہ کہ اگر ترقی کی یہ رادھا نو من تیل کے ساتھ اسی طرح ناچتی رہی تو پورے ایشیاء میں انصاف، مساوات اور خوشحالی کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔
آکسفیم کے مطابق، ایشیاء کے بیشتر ممالک میں دولت اور آمدنی کی تقسیم خطرناک حد تک غیر مساوی ہے۔ بظاہر ترقی کی شرح بلند ہے مگر سماجی انصاف، پائیدار روزگار اور روزمرہ کی پبلک سرورسز کی فراہمی کمزور تر ہو رہی ہے۔
یہ رپورٹ تین بڑے بحرانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ آمدنی و دولت کی ناہمواری، موسمیاتی تباہ کاری اور ڈیجیٹل خلاء (Digital Divide)۔
رپورٹ کے مطابق ایشیاء کے بڑے ممالک میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کے 60 سے 77 فیصد حصہ کے مالک ہیں۔
بھارت میں ایک فیصد اشرافیہ ملک کی کل دولت کا 40 فیصد جب کہ چین میں 31 فیصد کنٹرول کرتی ہے۔ یہ خوفناک تضاد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ معاشی ترقی کے اعداد و شمار اور رنگ برنگے اشاریے عوامی فلاح اور متناسب سماجی ترقی کے مترادف نہیں۔ ترقی کے باوجود 18.9 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر گزارا کرتی ہے اور 50 کروڑ سے زائد لوگ غربت یا اس کے دہانے پر ہیں۔
ٹیکس کا نظام بھی بالعموم غیرمنصفانہ ہے۔ ایشیاء میں اوسطاً ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 19 فیصد ہے جو ترقی یافتہ ممالک (OECD اوسط 34 فیصد) سے کہیں کم ہے۔ نتیجتاً حکومتوں کے پاس تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ کے لیے وسائل ناکافی رہتے ہیں۔اے آئی، انٹرنیٹ اور موبائلز فونز کے انقلاب کے باوجود ڈیجیٹل ناہمواری بھی بڑھ رہی ہے۔ شہری علاقوں میں 83 فیصد لوگ آن لائن ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 49 فیصد ہے۔صنفی پیمانے سے جانچیں تو خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
ماحولیاتی اعتبار سے بھی عدم مساوات نمایاں ہے۔ جن طبقات کا آلودگی میں حصہ سب سے کم ہے، وہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں امیر ترین 0.1 فیصد افراد ایک عام شہری کے مقابلے میں 70 گنا زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں جب کہ غریب ترین 50 فیصد طبقہ ماحولیاتی نقصانات کا سب سے بڑا شکار ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں معاشی نمو کے باوجود معاشی ناہمواری اور سماجی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ غربت میں گاہے وقتی کمی دیکھی گئی مگر عملاً امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ وسیع تر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کا تقریباً 62 فیصد حاصل کرتے ہیں جب کہ نچلے 50 فیصد عوام کے حصے میں صرف 10 فیصد آمدنی آتی ہے۔ یہ معاشی و سماجی ناہمواری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں طاقت کے ارتکاز کو ظاہر کرتی ہے۔
ٹیکس کا ڈھانچہ اس خلیج کو مزید گہرا کرتا ہے۔ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب محض 9.5 تا 10 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ یہ مایوس کن شرح پبلک سروسز کے لیے مالی گنجائش کو مزید محدود کر دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر محصولات بالواسطہ ٹیکسوں (پٹرول، بجلی، اشیائے ضروریہ) سے حاصل کیے جاتے ہیں، جس کا بوجھ بالآخر غریب اور متوسط طبقے پر آتا ہے۔
تعلیم اور صحت پر سرکاری خرچ بھی اسی عدم توازن کا تسلسل ہے۔ پاکستان اپنی قومی آمدنی کا صرف 2.2 فیصد تعلیم اور 1.5 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ یہ شرح بنگلہ دیش (تعلیم 2.6÷، صحت 2.4÷) اور نیپال (تعلیم 3.4÷، صحت 2.9÷) سے کم ہے جب کہ جنوبی کوریا جیسے ممالک تعلیم پر 4.8÷ اور صحت پر 5.1÷ خرچ کرتے ہیں۔
ماحولیاتی لحاظ سے پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں ماحولیاتی آفات کے باعث 3 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عالمی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد اگرچہ کچھ کم ہوئی، تاہم رپورٹ کے مطابق 22 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر زندہ ہے اور 50 فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو معمولی معاشی جھٹکے سے غربت میں جا سکتے ہیں۔
یہ تمام اعداد وشمار چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہیں کہ معاشی ترقی کے افسانوں میں ہم نے مساوات اور ہیومن ڈویلپمنٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کے لیے اصل چیلنج صرف معاشی نمو ہی نہیں بلکہ اس نمو کی منصفانہ تقسیم بھی ہے۔ اگروسائل، مواقع اور انصاف کی سمت درست نہ کی گئی تو دولت کے محلوں کے سائے میں غربت کی بستیاں مزید پھیلتی جائیں گی۔ فیصلہ سازوں کوتو شاید سوچنے کی مجبوری نہیں لیکن سماج کو ضرورسوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیسی ترقی چاہتے ہیں: اشرافیہ کے ایک محدود طبقے کے لیے یا سب کے لیے؟