WE News:
2025-11-03@14:07:28 GMT

خواتین عید کے لیے آن لائن سستے کپڑے کہاں سے خرید سکتی ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

خواتین عید کے لیے آن لائن سستے کپڑے کہاں سے خرید سکتی ہیں؟

گزشتہ چند برسوں کے دوران آن لائن شاپنگ کے رجحان میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے، بلکہ اب تو 90 فیصد افراد آن لائن شاپنگ کو ہی ترجیح دیتے ہیں، اور جب رمضان ہو تو ہر کوئی بازاروں کے چکر کاٹنے سے بہتر آن لائن خریداری کو ہی سمجھتا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت میں وقت جب مہنگائی اپنے عروج پر ہو۔ پاکستان میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی شاید ضرور ہوئی ہو، لیکن کپڑے، جوتے اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں کسی قسم کی رعایت نظر نہیں آتی۔

مغلیاز:

یہ انسٹاگرام کا ایک ایسا پیج ہے جہاں سے خواتین کے آن لائن کپڑے بہت ہی مناسب قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں۔ صرف مناسب قیمت میں ہی نہیں بلکہ یہاں کے زیادہ تر کپڑے پاکستان کے بڑے برانڈز خاص طور پر ‘باٹک’ کے کپڑوں کی کاپیاں یہاں دستیاب ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں مریم نواز شاپنگ کرنے بازار پہنچ گئیں، خواتین کی وزیراعلیٰ کے ساتھ سیلفیاں

اس پیج کی تمام ورائٹی نہ صرف کوالٹی میں پیسوں کے حساب سے بہترین ہوتی ہی، بلکہ ان کپڑوں پر کڑھائی اور ان کی سلائی بہت ہی نفاست سے کی گئی ہوتی ہے۔ اور اگر برانڈڈ سوٹ اور اس کاپی کا موازنہ کیا جائے تو دونوں میں فرق کرنا بھی اتنا آسان نہیں ہوگا۔

قیمتوں کی بات کی جائے تو برانڈڈ سوٹ کے مقابلے میں یہاں آدھی قیمت پر کپڑے دستیاب ہوتے ہیں، جو خواتین کی قوت خرید میں بھی ہوتے ہیں اور ان کا شوق بھی بآسانی پورا ہو جاتا ہے۔

پشما خان:

یہ بھی انسٹاگرام پر ایک آن لائن لوکل کپڑوں کا برانڈ ہے، جہاں پر مختلف برانڈز کی کاپیاں دستیاب ہوتی ہیں، اور وہ کاپیاں بھی نہایت ہی سستے میں فروخت ہو رہی ہوتی ہیں۔ کپڑا، رنگ اور سلائی تینوں ہی کوالٹی اور معیار کے مطابق ہوتے ہیں۔

اس پیج پر خواتین کو ان کی خواہش کے مطابق کپڑے کسٹمائز بھی کر کے دیے جاتے ہیں، حتیٰ کہ بہت سے آرٹیکلز پر سیل بھی دستیاب ہے۔

کرن کلیکشن:

کرن کلیکشن فیس بک کا ایک پیج ہے، جہاں پر برانڈڈ کپڑے ری سیل کیے جاتے ہیں، یعنی لیفٹ اوور آرٹیکل فروخت کیے جاتے ہیں، جس میں سفائر، کھاڈی، جنریشن، جے ڈاٹ اور دیگر برانڈز شامل ہیں۔

ان کپڑوں میں اکثر ایسی چھوٹی چھوٹی شکایات ہوتی ہیں، جو ظاہری آنکھ سے بعض اوقات واضح نہیں ہوتی، اس لیے دیکھنے میں کپڑے ہر طرح سے درست ہی نظر آ رہے ہوتے ہیں، لیکن وہی آرٹیکل اگر آؤٹ لیٹ پر 10 ہزار کا مل رہا ہوتا ہے تو یہاں پر بآسانی 4 سے 5 ہزار میں دستیاب ہوتا ہے۔

لبنا آفیشل:

یہ بھی انسٹاگرام کا ایک پیج ہے، جہاں پر خواتین کے خوبصورت کپڑے دستیاب ہوتے ہیں لیکن یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ لوکل برانڈ ہے، ان کے ڈیزائن بالکل بھی برانڈڈ کپڑوں جیسے نہیں ہوتے۔ یہاں پر فروخت ہونے والے کپڑوں کے ڈیزائن قدرے مختلف ہوتے ہیں لیکن کوالٹی پر کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جاتی۔

یہاں پر بھی کپڑے نہایت ہی مناسب اور معیار کے مطابق دستیاب ہوتے ہیں۔

سجفی:

آج کل سوشل میڈیا پر فرشی شلوار قمیض کی خوب دھوم مچی ہوئی ہے، ہر دوسری لڑکی وہی پہنے نظر آرہی ہے اور عید پر بھی کچھ بڑے برانڈز نے ویسی ہی کلیکشن لانچ کی ہے۔ بالکل سادی شلوار قمیض کی قیمت ان برانڈز پر 15 سے 20 ہزار روپے میں ملنا معمولی بات ہے لیکن وہی ڈیزائن وہی کپڑا اور وہی نفاست سے سلی شلوار قمیض اس پیج پر تقریباً 4 سے 5 ہزار روپے میں باآسانی دستیاب ہے۔

سلک رنگ پاکستان:

یہ انسٹاگرام پیج بھی اپنے اچھے معیار کی وجہ سے مشہور ہے، یہاں پر بھی خوبصورت پرنٹس، ڈیزائننگ، کڑھائی اور اچھی سلائی کے ساتھ کپڑے نہایت ہی مناسب قیمت میں دستیاب ہوتے ہیں۔

یہاں پر بھی موجود کپڑوں کی قیمتیں برانڈڈ کپڑوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں، یعنی 5 سے 6 ہزار روپے میں اچھے کپڑے عید کے لیے دستیاب ہیں۔ یہاں موجود کپڑے فیشن، ٹرینڈ اور قیمتوں میں باقی مارکیٹ کے مقابلے میں بہترین ہیں۔

خواتین اس طرح کے آن لائن اسٹورز سے بآسانی کپڑے خرید کر اپنی عید کو بھرپور طریقے سے منا سکتی ہیں کیونکہ برانڈڈ کپڑے آج کے دور میں شاید ہر کسی کی قوت خرید میں نہیں رہے۔

برانڈڈ کپڑوں اور جوتوں کی قیمتیں پہنچ سے باہر ہیں، رابیل جمشید

رابیل جمشید کا تعلق راولپنڈی سے ہے، عید کی تیاریوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ عید کے کپڑوں کے لیے بازار کے بہت چکر لگائے مگر تمام برانڈز کپڑوں اور جوتوں کی قیمتیں قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پہلے 5 ہزار روپے تک کس بھی برانڈ کا سوٹ آرام سے آجایا کرتا تھا، لیکن اب تو 5 ہزار روپے میں صرف شرٹ بھی مشکل سے مل رہی ہے۔

‘ٹھیک ہے کہ ملک میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، مگر برانڈڈ کپڑوں کی قیمتیں حد سے زیادہ ہیں، ان کپڑوں کی ٹیگ پر لکھی قیمت اس آرٹیکل سے اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ آرٹیکل اس قیمت کے قابل نہیں ہوتا اور مڈل کلاس کے لیے تو اب برانڈڈ کپڑے پہننا ناممکن ہو چکا ہے۔’

مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مارکیٹس مسلسل گھومنے کے بعد انسٹاگرام پر انہیں ایک ایسا آن لائن اسٹور نظر آیا جس پر پاکستان کے ایک بہت مہنگے اور معروف برانڈ کی کاپیاں موجود تھیں۔ جب اس آن لائن اسٹور کو میں نے مزید ایکسپلور کیا تو اس پر ویسے ہی کپڑے بہت ہی کم قیمت میں دستیاب تھے۔

’بس وہ دیکھتے ہی میں نے جلدی سے اپنے لیے ایک سوٹ آرڈر کیا جو مجھے پرسوں ہی ڈیلیور ہوا ہے، اور واقعی اس کی کوالٹی بھی بہت اچھی ہے اور اس پر جو کڑھائی ہوئی ہے وہ تو بلکل ویسی ہی ہے، وہ جوڑا اس برانڈ کی شاپ پر تقریبا 14 ہزار 500 کا تھا لیکن آن لائن مجھے وہ 5 ہزار 950 کا مل گیا۔’

کورونا کے بعد سے آن لائن شاپنگ کررہی ہوں، عارفہ نیازی

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی عارفہ نیازی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ کرونا وبا کے بعد سے وہ زیادہ تر شاپنگ آن لائن ہی کرتی ہیں کیونکہ وہ ورکنگ ویمن ہیں اور ان کے لیے نوکری کے ساتھ خاص طور پر رمضان میں باہر نکلنا بہت مشکل ہے۔

وہ کہتی ہیں ’میں نے کرونا وبا کے دوران پہلی بار آن لائن شاپنگ شروع کی تھی اور اس وقت سے اب تک میں آن لائن شاپنگ کو ہی ترجیح دیتی ہوں، کیونکہ اب اتنے زیادہ لوکل برانڈز آ چکے ہیں، فیس بک اور انسٹاگرام پر بے تحاشا اور بہت اچھے برینڈز بھی ہیں جو بڑے برانڈز کی نسبت بہت کم پیسوں میں بہت اچھی کوالٹی کی چیزیں دیتے ہیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس عید پر بھی اپنی اور اپنے بچوں کی خریداری تقریباً آن لائن ہی کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں مہنگائی نے خواتین کی عید شاپنگ کو بری طرح متاثر کیا ہے

کہتی ہیں کہ مجھ سمیت میری 2 بیٹیوں کے کپڑے تقریباً 15 ہزار روپے میں آگئے ہیں، اگر یہی کپڑے میں کسی مال یا کسی برانڈ سے لینے جاتی تو شاید اتنے کا مجھ اکیلی کا ہی جوڑا آتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آن لائن شاپنگ برانڈڈ سوٹ خواتین عید وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: آن لائن شاپنگ خواتین وی نیوز ہزار روپے میں ن لائن شاپنگ کی قیمتیں ہوتی ہیں ا ن لائن کی قیمت آن لائن یہاں پر ہوتی ہی یہ بھی اور ان پر بھی کے لیے

پڑھیں:

مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان

 

 

بہاولپور(نامہ نگار)25 اکتوبر کو استنبول میں شروع ہونے والے پاک افغان مزاکرات طالبان کی طرف سے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی تحریری ضمانت نہ دینے اور غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر 28 اکتوبر کی رات کو بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اب میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر دو دن بعد پاکستان نے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 30 اکتوبر کو مزاکرات کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔اطلاعات کے مطابق طالبان اپنے رویئے میں لچک دکھانے کی حامی بھری ہے اس لئے اس بار دوست ممالک کی مداخلت کے باعث بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔تاہم مزاکرات کے اس تیسرے سیشن کے نتائج کا کچھ دن تک انتظار کرنا پڑے گا۔

اس سے قبل پاکستان نے استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔ یاد رہے کہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو ہونے والی عارضی جنگ بندی کے نتیجے میں قطر دوحہ میں پاک افغان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں قطر اور ترکیہ نے ثالث کے طور پر کردار ادا کیا۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی اور دیگر امور کا مکینیزم طے کرنے کیلئے 25 اکتوبر کو استنبول میں مزاکرات کی اگلی نشست منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔استنبول میں تین روز جاری رہنے والے ان مزاکرات کے دوران طویل نشتیں ہوئیں جس میں افغانستان کے وفد کی ہٹ دھرمی کے باعث کئی بار مزاکرات کے بلا نتیجہ خاتمے کی صورت حال پیدا ہوئی۔ لیکن میزبان ترکیہ کی درخواست پر پاکستان مذاکرات کو مزید وقت دینے پر تیار ہوتا رہا لیکن بالآخر 28 اکتوبر کی رات یہ مزاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔تاہم اسی دوران تہران میں ECO وزراء کی کانفرنس میں پاکستانی اور افغان وزیر داخلہ کی سائیڈ لائین ملاقات ہوئی ہے جس میں محسن نقوی نے اپنے ہم منصب کو باہمی اختلافات کو مزاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔اسی دوران ایران کے صدر نے بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔

استنبول مذاکرات کی ناکامی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔رواں ماہ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل 25 اکتوبر سے ہوا تھا جس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی تھیں جن پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے خاتمے کے بعد تاحال کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا قطر کے بعد استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی کوئی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے استنبول میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔انھوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔

پاکستانی وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔لیکن کابل میں قیادت سے رابطے کے بعد وہ اس موقف سے منحرف ہوتے رہے۔عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد بھی فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپناحتمی مؤقف پیش کیا تھا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس سرپرستی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر رہے۔ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے اور مستقبل میں مذاکرات افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

ادھر بی بی سی پشتو کے مطابق افغان طالبان کی تجاویز میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور امریکہ سمیت کوئی بھی گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے۔

افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے میکینزم یعنی طریقہ کار وضع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ مذاکراتی عمل کے دوران افغان طالبان کا موقف رہا کہ پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر ہو رہی ہیں تو اسے کیسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ شدت پسند افغانستان سے آتے ہیں۔جس کے ثبوت افغان وفد اور میزبان ممالک کے سامنے رکھے گئے۔میزبان ممالک نے پاکستان کے اس موقف کی تائید بھی کی۔

معلوم ہوا ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران پاکستان کی طرف سے جو حل پیش کیے گئے وہ افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں تھے کیونکہ بقول ان کے یہ ان کے نظریات کے خلاف تھے۔ افغان طالبان کا موقف تھا کہ وہ ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ہی نہیں سمجھتے تو اگر وہ اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو انھیں مقامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا کہ آئندہ جب بھی افغان زمین سے پاکستان پر کوئی حملہ ہو گا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔انہوں نے کہا مجھے دوحہ میں ہونے والی مزاکرات کی پہلی نشست میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ افغان وفد کے پاس فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور افغان طالبان قیادت بھارت کے اشاروں پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے مزاکرات کے نتیجہ کی امید نہیں تھی۔دوسری جانب طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ دنوں سرکاری نشریاتی ادارے کو جاری کیے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان بات چیت کے حق میں ہے تاہم اگر افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی تو جواب دیا جائے گا۔

افغان عوام حق دفاع رکھتے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی اس یقین دہانی پر منحصر تھی کہ افغانستان سے شدت پسندوں کی دراندازی کو روکا جائے اور ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی حمایت ختم کی جائے۔ پاکستان نے افغان طالبان کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ تھا کہ وہ بتائیں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔ پاکستان کا گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ رہا ہے۔دیکھا جائے تو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے یہ بیان کہ مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے کوئی انفرادی موقف نہیں۔ بلکہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت نے کافی عرصے سے واضح کیا ہوا ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کے حملے نہیں روکے گئے تو وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں گے۔اور کابل و قندھار پر ٹارگٹ حملوں کیذریعے اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ موقف تب سے واضح ہے جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 2023 میں تحریکِ جہادِ پاکستان کے ایک بڑے حملے کے بعد یہ دھمکی دی تھی۔

 

متعلقہ مضامین

  • سونا عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں ایک بار پھر مہنگا، فی تولہ قیمت کہاں پہنچ گئی؟
  • کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
  • ایکسکلیوسیو سٹوریز اکتوبر 2025
  • امریکا، 4 لاکھ 55 ہزار خواتین رواں سال ملازمتیں چھوڑ گئیں
  • حیدرآباد: اینٹوں کے بھٹے کے لیے پرانے کپڑوں کو جلانے کے لیے لے جایاجارہاہے
  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان
  •  تاجروں کے بعد غیر قانونی جائیداد اور گھروں کی خرید و فروخت کرنے والوں کیخلاف بھی شکنجہ سخت 
  • وقار یونس نے مجھے نئی گاڑی خریدنے اور برانڈ کے کپڑے پہننے پر ٹیم سے نکالا، عمر اکمل کا الزام
  • امریکا اپنے نئے نیوکلئیر دھماکے کہاں کرے گا؟