کراچی(نیوزڈیسک)ممبئی پولیس نے پووائی کے ہیرانندانی علاقے میں ایک ہائی پروفائل سیکس ریکٹ بے نقاب کر کے 60سالہ شیمسندر اروڑا کو گرفتار کر لیا اور چار ماڈلز کو بازیاب کرا لیا۔

پولیس کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ ایک مشہور ہوٹل میں غیر قانونی سرگرمیاں ہو رہی ہیں، جس پر ایک اسٹنگ آپریشن کیا گیا۔

اہلکاروں نے جعلی گاہک بن کر اروڑا سے رابطہ کیا، جس نے 26سے 35سال کی ماڈلز کی خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کی، جن کے لیے 70 ہزار سے 1لاکھ روپے تک معاوضہ طلب کیا جا رہا تھا۔جیسے ہی اروڑا لڑکیوں کو لے کر ہوٹل پہنچا، پولیس نے چھاپہ مار کر چار خواتین کو بازیاب کرایا، 8 موبائل فون اور 3لاکھ روپے برآمد کیے، جبکہ اروڑا کو گرفتار کر لیا گیا۔

پوچھ گچھ میں ملزم نے انکشاف کیا کہ اس کاروبار میں چڑکوپ کا ایک اور شخص بھی ملوث ہے، جس کی تلاش جاری ہے۔

پووائی پولیس نے بامبے نارکوٹک ڈرگز اینڈ سائیکو ٹروپک سبسٹنس ایکٹ کی دفعہ 143(2) اور امورا ٹریفک (انسداد) ایکٹ 1956 کی دفعہ 4 اور 5 کے تحت اروڑا کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

بازیاب کی گئی خواتین کو شیلٹر ہوم منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ انہیں ضروری مدد اور تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

کیا یہ واقعی خاتون ہیں؟ ووگ میں اے آئی ماڈل کی موجودگی نے معیار حسن پر سوالات اٹھا دیے

فیشن کی دنیا میں ایک نئی ’ماڈل‘ نے دھوم مچا دی ہے۔ وہ حسین، پرکشش اور دلکش ہے لیکن حقیقت میں وجود نہیں رکھتی۔

یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت اور ملازمتوں کا مستقبل: خطرہ، تبدیلی یا موقع؟

بی بی سی کے مطابق ماہ اگست کے ووگ میگزین میں شائع ہونے والے گیس (Guess) کے اشتہار میں ایک خوبصورت سنہری بالوں والی ماڈل کو کمپنی کے گرمیوں کے ملبوسات پیش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ تاہم اشتہار کے ایک کونے میں چھوٹے سے الفاظ میں انکشاف کیا گیا کہ یہ ماڈل درحقیقت مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے تیار کی گئی ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ کسی عالمی شہرت یافتہ فیشن میگزین میں ایک AI ماڈل کو شامل کیا گیا ہے خواہ وہ اشتہار کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو اور اسی وجہ سے اس اشتہار نے سوشل میڈیا پر بحث چھیڑ دی ہے۔

کیا اے آئی ماڈلنگ حقیقت کو نگل لے گی؟

مذکورہ اشتہار کے پیچھے سیرافین ویلارا نامی کمپنی ہے جس کی بانیان ویلنٹینا گونزالیز اور آندریا پیٹریسکو کا کہنا ہے کہ گیس کے شریک بانی پال مارسیانو نے انہیں انسٹاگرام پر پیغام بھیج کر 2 اے آئی ماڈلز بنانے کا کہا۔ ان میں سے ایک سنہری بالوں والی ماڈل کو ووگ کے اشتہار کے لیے منتخب کیا گیا۔

مزید پڑھیے: مصنوعی ذہانت ڈرون اور روبوٹس کو کیسے زیادہ مہلک بنا دے گی؟

یہ ماڈلز صرف ’کمانڈ‘ دینے سے تیار نہیں ہو جاتیں بلکہ کمپنی کے مطابق ایک مکمل اے آئی ماڈل کو بنانے میں ایک ماہ تک کا وقت اور 5 ماہرین کی ٹیم درکار ہوتی ہے۔ ان کے کلائنٹس کی فیس لاکھوں ڈالر تک جا سکتی ہے۔

تاہم ماڈلنگ کی دنیا سے جڑی معروف پلس سائز ماڈل فیلِسٹی ہیوارڈ کا کہنا ہے کہ فیشن انڈسٹری میں اے آئی ماڈلز کا استعمال ’سستی اور سُست حکمتِ عملی‘ ہے جو ان ہزاروں ماڈلز کی محنت کو نظر انداز کرتا ہے جنہوں نے فیشن کو متنوع اور جامع بنانے کے لیے برسوں جدوجہد کی۔

اے آئی ماڈلنگ، ایک اور زخم

ہیوارڈ کے مطابق سنہ 2010 کی دہائی میں ماڈلنگ انڈسٹری نے تنوع کی طرف پیش قدمی کی۔ پہلی اوپنلی ٹرانس ماڈل ویلینٹینا سمپائیو، حجاب پہننے والی ماڈل حلیمہ عدن اور پلس سائز ماڈلز کا فیشن شوز میں شرکت کرنا، یہ سب اہم سنگ میل تھے۔

مگر حالیہ برسوں میں ان کی بکنگ میں نمایاں کمی آئی ہے اور اب اے آئی ماڈلز کی آمد کو وہ ایک اور زخم قرار دیتی ہیں۔

کیااے آئی خوبصورتی کے ناقابلِ حصول معیار کو مزید آگے بڑھا رہی ہے؟

گونزالیز اور پیٹریسکو کا دعویٰ ہے کہ ان کا مقصد ناقابل حصول حسن نہیں، بلکہ حقیقت سے قریب تر تصاویر بنانا ہے۔ تاہم وہ یہ بھی مانتی ہیں کہ جب وہ مختلف نسلوں یا رنگت کی خواتین کی اے آئی تصاویر پوسٹ کرتی ہیں تو انہیں صارفین سے کم رسپانس ملتا ہے اسی لیے وہ وہی تصاویر پوسٹ کرتی ہیں جن پر زیادہ لائکس آئیں۔

ان کے مطابق ابھی تک وہ پلس سائز (ایک لحاظ سے نمایاں جسم) اے آئی ماڈل تیار نہیں کر سکے کیونکہ ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ نہیں۔

یہی تعصبات 2024 میں Dove کے ایک اشتہار نے بھی بے نقاب کیے جس میں ایک اے آئی جنریٹر سے دنیا کی سب سے خوبصورت عورت بنانے کو کہا گیا اور نتیجہ ہمیشہ گوری، پتلی اور سنہری بالوں والی خواتین کی تصاویر کی صورت میں نکلا۔

جسمانی خوداعتمادی اور ذہنی صحت پر اثرات

ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ایسے غیرحقیقی اے آئی چہرے اور جسم نوجوانوں کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔

بیٹ (Beat) نامی ایٹنگ ڈس آرڈر چیریٹی کی سی ای او وینیسا لانگلے کہتی ہیں، ’جب لوگ ایسے جسم دیکھتے ہیں جو حقیقت میں ممکن ہی نہیں تو وہ اپنے جسم کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں اور اس سے کھانے کی نفسیاتی بیماریاں بڑھ سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: گوگل کا مصنوعی ذہانت کا ماڈل انٹرنیشنل میتھمیٹیکل اولمپیاڈ میں گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب

مزید برآں اے آئی ماڈلز کو واضح لیبل نہ دینا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگرچہ گیس نے اے آئی ماڈل کا انکشاف کیا لیکن بہت باریک حروف میں۔ اگر قاری توجہ نہ دے تو یہ تصویر ایک حقیقی ماڈل کی لگتی ہے۔

کیا اے آئی ملازمتوں کے لیے خطرہ ہے؟

سیرافین ویلارا کی بانیان کہتی ہیں کہ ان کی کمپنی اصل ماڈلز یا فوٹوگرافروں کو ختم نہیں کر رہی بلکہ یہ متبادل راستہ پیش کر رہی ہے۔ ان کے مطابق  اے آئی ماڈل بنانے کے عمل میں بھی حقیقی ماڈل، فوٹوگرافر اور فیشن ایکسپرٹ شامل ہوتے ہیں تاکہ ڈیزائنز حقیقی انسانی جسم پر دیکھے جا سکیں۔

لیکن ان کی ویب سائٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ طریقہ مہنگے سیٹ اپ، ماڈلز، میک اپ آرٹسٹس، اور فوٹوگرافرز کی ضرورت کو ختم کر دیتا ہے جو فیشن انڈسٹری میں سینکڑوں افراد کی روزی کا ذریعہ ہے۔

فیشن کی سپریم کورٹ پر سوالیہ نشان؟

ووگ جیسے عالمی میگزین پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ ’جیسے خوبصورتی کے معیارات پہلے ہی ناقابل حصول تھے، اب اے آئی نے انہیں ناممکن بنا دیا۔ یہاں تک کہ اصل ماڈلز بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں‘۔

فیشن انڈسٹری کی سابق ماڈل اور ٹیک ماہرہ سینیڈ بوویل کہتی ہیں کہ ووگ کو فیشن انڈسٹری کی سپریم کورٹ سمجھا جاتا ہے اور جب وہ ایسا اشتہار شامل کرتے ہیں تو گویا وہ اس رجحان کو جائز قرار دے رہے ہوتے ہیں۔

مستقبل کی جھلک: کیا ہر کوئی اے آئی ماڈل بنے گا؟

اگرچہ خدشات موجود ہیں مگر کچھ ماہرین جیسے سینیڈ بوویل کو امید ہے کہ اے آئی کے ذریعے عام لوگ اپنی ذاتی اے آئی ماڈل بنا کر خود پر لباس کا تجربہ کر سکیں گے جو صنعت کو جمہوری بنا سکتا ہے۔

تاہم وہ خبردار بھی کرتی ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب لوگ  اے آئی ماڈلز سے اکتا جائیں کیونکہ وہ جانتے ہوں گے کہ وہ حقیقی نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: مصنوعی ذہانت محنت کشوں کی جان کے لیے بھی خطرہ، مگر کیسے؟

اے آئی ٹیکنالوجی بلاشبہ فیشن انڈسٹری کو نئی جہات دے رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم سوال بھی اٹھا رہی ہے کہ کیا ہم ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں خوبصورتی صرف کوڈ میں محفوظ ہو گی اور حقیقت میں کوئی خود کو خوبصورت محسوس نہیں کرے گا؟

یہ سوال صرف ماڈلز کے روزگار یا اشتہارات کی شفافیت تک محدود نہیں بلکہ ہماری خودی، اعتماد اور ذہنی صحت پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اے آئی اے آئی ماڈل خوبصورتی کا معیار مصنوعی ذہانت معیار حسن ووگ میگزین

متعلقہ مضامین

  • کراچی: پاپوش نگر تھانے سے فرار کی کوشش میں ملزم ہلاک
  • عمرکوٹ: جج کا تھانے پر چھاپہ، نوجوان بازیاب
  • معروف امریکی سیاستدان محمد عارف نے نیویارک میں مسلح شخص کی فائرنگ سے مسلمان پولیس افسر سمیت 5 افراد کے قتل کی شدید مذمت
  • بھارتی کرکٹرز کی لاکھوں روپے مالیت کی جرسیاں چوری ہوگئیں
  • لاہور، کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر رواں ماہ اب تک 163ملزمان گرفتار
  • کراچی، ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ہوٹل ملازم جاں بحق
  • کیا یہ واقعی خاتون ہیں؟ ووگ میں اے آئی ماڈل کی موجودگی نے معیار حسن پر سوالات اٹھا دیے
  • نیشنل ہائی وے پر کوسٹر کی چھت پر سفر کرنے والے 2 افراد گرکر جاں بحق
  • لاہور سے اغوا کی گئی 11 سالہ بچی کراچی سے بازیاب
  • کراچی، نیشنل ہائی وے پر کوسٹر کی چھت سے گر کر 2 افراد جاں بحق