ڈاکٹر جاوید اقبال۔۔۔ ایک شخصیت باکمال
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
زندہ معاشرے اپنے زندہ لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، اور زندہ دِل انسان ہی ترقی یافتہ معاشروں کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ، جو اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر معاشرے کی اجتماعی بہتری اور فلاح کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں، وہ عظمت کے مرتبے پر فائز ہوجاتے ہیں۔
ڈیجیٹل میڈیا ایسے ماڈرن راہ نماؤں کے افکار کو ہر عام و خاص تک پہنچانے میں نمایاں رہا ہے۔ میں علم و ادب اور تعلیم و تربیت کے لیے کوشاں ایسے نایاب ہیروں کی تلاش میں رہتا ہوں جو مثبت سوچ، علم کی روشنی اور اُمید کی شمع کو روشن رکھے ہوئے ہیں جن کی زندگی کا مقصد لوگوں کی زندگی میں بہتری لانا، آسانیاں پیدا کرنا اور حقیقی مقصد کی تلاش میں معاونت کرنا ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت، ملک کے نام ور اسپیکر ڈاکٹر جاوید اقبال ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال ایک ممتاز پاکستانی سرجن، طبی ماہرِتعلیم، سماجی اثرو رسوخ رکھنے والے انسپائرنگ اسپیکر اور شاعر ہیں، جنہیں صحت، تعلیم، والدین کی تعلیم و تربیت، اور سماجی فلاح و اصلاح کے لیے اپنی خدمات کی بدولت ممتاز مقام حاصل ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال، میڈیکل کی تعلیم اور سرجیکل پریکٹس میں 35 سال سے زیادہ کا تجربہ رکھتے ہیں۔
اپنے پورے کیریئر کے دوران، انہوں نے سرجری اور طبی تعلیم کے شعبوں میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے مختلف تعلیمی اور طبی خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان کا آخری عہدہ، قائداعظم میڈیکل کالج، بہاولپور کے پرنسپل کے طور پر تھا، جہاں انہوں نے طبی تعلیم اور ادارہ جاتی قیادت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ایم بی بی ایس (بیچلر آف میڈیسن اور بیچلر آف سرجری)، فیلو آف دی کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز، پاکستان)، فیلو آف دی رائل کالج آف سرجنز، امریکی کالج آف سرجنز کے فیلو)، انٹرنیشنل کالج آف لیپروسکوپک سرجنز کے فیلو)، اورہیلتھ پروفیشنز ایجوکیشن میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کے ممبر ہیں۔
ابتدائی تعلیم اور بچپن
ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتایا کہ وہ 1961 میں بہاول نگر کے قریبی شہر، ہارون آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں، جب کہ والد سرکاری ملازمت کرتے تھے، اس لیے وہ اسلام آباد میں مقیم رہے۔ ان کے ننھیال کا تعلق ہارون آباد سے تھا، جہاں ان کی پیدائش ہوئی۔ ڈاکٹرجاوید اقبال کی بہن سمیت ان کے والدین کی بس دو اولادیں ہیں۔
انہوں نے پرائمری سے ایف ایس سی تک تعلیم اسلام آباد میں حاصل کی، اور بعد ازآں ایم بی بی ایس کے لیے نشتر میڈیکل کالج، ملتان میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد زندگی انہیں مختلف شہروں اور مقامات تک لے گئی۔ اپنے بچپن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اگر کسی کا دُنیا میں آئیڈیل بچپن ہو سکتا ہے، تو وہ ان کا بچپن تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کے والدین کی دانش مندی، محبت، اور متوازن پرورش تھی۔ وہ بہت پیار کرنے والے تھے، مگر لاڈ بالکل نہیں کرتے تھے۔ والدین نے بچپن ہی میں انہیں خودمختاری اور ذمہ داری کا عادی بنایا تھا۔ وہ کہتے ہیں:
’’جس عمر میں، میں اپنے کپڑے خود دھو سکتا تھا، میں خود دھوتا تھا۔ جس عمر میں جھاڑو دے سکتا تھا، تو میں جھاڑو دیتا تھا۔ میں اپنی امی کے ساتھ آٹا گوندھتا تھا، اپنے جوتے خود پالش کرتا تھا۔ بہت چھوٹی عمر سے میں اسکول خود ہی جاتا تھا۔‘‘ انہیں یاد ہے کہ جب وہ ساتویں جماعت میں داخل ہوئے تو ان کے والد نے انہیں خود داخلہ لینے بھیجا۔
انہوں نے خود جا کر داخلہ فارم جمع کرایا اور فیس ادا کی، جو ان کے اعتماد اور خودمختاری کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ وہ اپنے اسکول، فیڈرل گورنمنٹ اسکول نمبر ون، اسلام آباد کو ایک بہترین درس گاہ قرار دیتے ہیں، جہاں سے کئی نام ور اور کام یاب شخصیات نکلیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انہیں ایک شان دار تعلیمی ماحول ملا اور ان کا بچپن بے حد خوش گوار گزرا۔
تدریسی سفر
ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ میڈیکل کا انتخاب میری اپنی پسند تھی، اور تدریس کا شوق میرے اندر ابتدا سے ہی موجود تھا۔ اگرچہ سوشل میڈیا نے میرے تدریسی پہلو کو نمایاں کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں ہمیشہ سے ہی تعلیم و تدریس سے وابستہ رہا ہوں۔
ہاؤس جاب کے دوران بھی میں طلبہ کو کلاسز پڑھایا کرتا تھا، اور بطور رجسٹرار، سنیئر رجسٹرار، اور اسسٹنٹ پروفیسر بھی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ سوشل میڈیا کے ظہور سے قبل ہی میں نے ماسٹرز ان میڈیکل ایجوکیشن مکمل کرلیا تھا اور پاکستان بھر میں سرجری سے متعلق ورکشاپس منعقد کراتا رہا۔ بعدازآں، میڈیکل ایجوکیشن کے تحت مختلف سماجی موضوعات پر بھی تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا۔ یوں میری شخصیت میں کوئی بنیادی تبدیلی (ٹرانسفارمیشن) نہیں ہوئی، کیوںکہ میں ابتدا سے ہی ایک استاد تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے میرے اس پہلو کو وسیع پیمانے پر متعارف کروا دیا ہے۔
پاکستانی نوجوانوں کا مستقبل
نوجوانوں کے مستقبل کے حوالے سے سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی موجودہ صورت حال صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یورپ میں بھی نوجوان بھٹکے ہوئے ہیں اور وہاں بھی مایوسی (Frustration) بہت زیادہ ہے، لہٰذا ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صرف پاکستان کو ہی اس چیلینج کا سامنا ہے۔ درحقیقت، پچھلے 10سالوں میں دُنیا بھر میں ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے، ’’پیسے کماؤ، پیسے کماؤ، پیسے کماؤ!‘‘ یہ رجحان صرف پاکستان میں نہیں، بلکہ دُنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہے، اور اسی کی وجہ سے نوجوان تیزی سے مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں اور شارٹ کٹس تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں اس مسئلے کو مزید سنگین بنانے والا عنصر یہ ہے کہ نہ تو ہمارا تعلیمی نظام نوجوانوں کی مناسب راہ نمائی کر رہا ہے، اور نہ ہی ہمارے ادارے انہیں بہترین رول ماڈلز فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، نوجوان الجھن کا شکار ہو رہے ہیں۔ تاہم، وہ نوجوان جو عقل و دانش سے کام لیتے ہیں، محنت پر یقین رکھتے ہیں، صحیح راہ نمائی (Mentorship) تلاش کر لیتے ہیں یا کوئی واضح حکمتِ عملی (Strategy) بنا لیتے ہیں، وہ پاکستان میں بھی اتنے ہی کام یاب ہو رہے ہیں جتنے دُنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں ہوسکتے ہیں۔
بین المذاہب ہم آہنگی اور سماجی رویوں میں تبدیلی
مذہبی اقلیتوں، بین المذاہب ہم آہنگی، اور معاشرتی بھائی چارے کے فروغ کے حوالے سے انہوں نے کہا۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام، مسیحیت، یا کوئی بھی مذہب نفرت کا درس نہیں دیتا۔ کسی بھی مذہب میں انسان سے نفرت کی گنجائش نہیں ہے۔ نظریاتی اختلاف ایک فطری امر ہے، جسے دلیل اور مکالمے کے ذریعے زیرِبحث لایا جا سکتا ہے، مگر انسانی برابری پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح کسی مسیحی کا خون ہے، ویسا ہی ہندو، سکھ، اور مسلمان کا خون بھی ہے۔ اگر کوئی معاشرہ مذہب کی بنیاد پر نفرت، امتیازی سلوک، یا کسی کو کم تر سمجھنے کا رجحان رکھتا ہے، تو یہ ایک بیماری ہے، نہ کہ کوئی صحت مند معاشرہ ہے۔ حقیقت میں، یہ کسی مذہبی معاشرے کی نشانی نہیں بلکہ غیرمذہبی رویے کی علامت ہے۔
اسی لیے، پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں کو آگے بڑھ کر اس پیغام کو عام کرنا چاہیے کہ مذہب کی بنیاد پر لڑائی جھگڑے نہیں ہونے چاہییں۔ نظریاتی اختلافات ہمیشہ رہیں گے، کیوںکہ اللّہ تعالیٰ نے کسی بھی دو افراد کے نظریات یکساں نہیں بنائے ہیں۔ اختلافِ رائے فطری ہے، اور اسے مہذب انداز میں گفت و شنید اور مکالمے کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک مسیحی کیمونٹی کا تعلق ہے، ان کے کئی افراد معاشرے میں بہترین خدمات سرانجام دے رہے ہیں، خاص طور پر صفائی اور دیگر لازمی خدمات میں ان کا کردار نمایاں ہے۔
ان کے اس کردار کو کمتر سمجھنے کے بجائے عزت دی جانی چاہیے، کیوںکہ جو شخص دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کر رہا ہے، وہ درحقیقت ان پر احسان کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے، ہمارے ہاں کچھ فرسودہ اصطلاحات اور رویے غلامی کے دور سے چلے آ رہے ہیں، جنہیں بدلنے کی ضرورت ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان کا مرتبہ اس کے کام سے نہیں، بلکہ اس کے اخلاق اور کردار سے بنتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ نوجوان نسل میں اب آگاہی اور شعور بڑھ رہی ہے، اور ان شاء اللہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مذہبی کشیدگی کم ہوگی اور ہم ایک زیادہ ہم آہنگ اور باہمی احترام پر مبنی معاشرہ تشکیل دے سکیں گے۔
جدید پیرنٹنگ کے چیلنجز اور ہمارے بچوں کا مستقبل
آج کے دور میں والدین کے لیے پیرنٹنگ پہلے سے کہیں زیادہ مشکل اور چیلنجنگ بن چکی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ آج کے والدین بعض بنیادی چیزیں نظر انداز کر رہے ہیں، جو ہمارے بچپن میں عام تھیں۔ جب ہم بچے تھے، تو ہماری معلومات (ڈیٹا) محدود اور فلٹرڈ ہوتی تھیں، اور یہی معلومات ہماری شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ ہمارے لیے علم کے بنیادی ذرائع والدین، اساتذہ، والدین کے دوست، گلی کے ساتھی، اخبارات، ریڈیو اور چند گھنٹوں کی ٹی وی نشریات تھے۔
ان ذرائع سے حاصل ہونے والا مواد انتہائی معیاری اور فطری تھا۔ ٹی وی اور ریڈیو پر آنے والا مواد فلٹرڈ اور سلیقے سے پیش کیا جاتا تھا۔ اس میں مشاعرے، کلاسیکی موسیقی، مذہبی پروگرام، اور سنجیدہ تفریحی مواد شامل ہوتا تھا، جو بچوں کے مزاج اور ذہنی نشوونما کو مثبت انداز میں تشکیل دیتا تھا۔ موجودہ دور میں سب سے بڑا مسئلہ ’’ان فلٹرڈ ڈیٹا‘‘ (Unfiltered Data) کی بھرمار ہے۔ والدین نے بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون دے دیا ہے، مگر اس پر آنے والے مواد کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
بچوں کے دماغ پر بے چھنی، متضاد اور بعض اوقات انتہائی نقصان دہ معلومات کا شدید اثر پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے ان کی ذہنی اور اخلاقی تربیت خطرے میں ہے۔ اسی لیے، آج پیرنٹنگ سیکھنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ خوش قسمتی سے، ہم نے پچھلے آٹھ سے دس سالوں کی محنت کے بعد پیرنٹنگ کا ایک جامع کورس تیار کیا ہے، جس میں میں نے اپنی تمام تحقیق اور تجربات شامل کیے ہیں۔ یہ کورس ہر والدین کے لیے بہترین راہ نمائی فراہم کرتا ہے، تاکہ وہ جدید چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اپنے بچوں کی بہتر تربیت کر سکیں۔
چھوٹے گھروں کے بڑے خواب نوجوانوں کے لیے کام یابی کا راستہ
ڈاکٹرجاویداقبال کہتے ہیں کہ دُنیا کے جتنے بھی بڑے لوگ ہیں، ان میں سے اکثر چھوٹے گھروں میں پیدا ہوئے تھے۔ کام یابی کا تعلق آپ کے وسائل یا پس منظر سے نہیں ہے، بلکہ آپ کی محنت، مستقل مزاجی، اور درست حکمتِ عملی سے ہے۔ اگر آپ کی منزل بڑی ہے تو یہ مت سوچیں کہ چھوٹے گھر یا محدود وسائل آپ کی کام یابی میں رکاوٹ بنیں گے۔ اگر آپ واقعی اپنے خوابوں کو حقیقت بنانا چاہتے ہیں تو چار بنیادی چیزوں پر کام کرنا ضروری ہے:
پہلی، محنت اور لگن: سستی اور کاہلی کو چھوڑ دو، کیوںکہ دُنیا میں کوئی بھی کام یاب شخص محنت کے بغیر آگے نہیں بڑھا ہے۔ جو بھی میدان چُنو، اس میں انتھک محنت کرو۔
دوسری، نوکری کے بجائے ہنر کو ترجیح دو: نوکری کے چکر میں پڑنے کے بجائے اپنی مہارتوں (Skills) کو بڑھاؤ اور کوئی بھی کام شروع کرنے سے نہ گھبراؤ۔ چاہے وہ چھوٹا کاروبار ہی کیوں نہ ہو، اگر آپ مہارت رکھتے ہیں، تو آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یاد رکھو، کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا ہے۔
تیسری، مسلسل سیکھنے کی عادت اپناؤ: دُنیا میں علم اور ہنر کی کوئی حد نہیں ہے، اس لیے ہمیشہ نئی چیزیں سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہو۔ جو شخص ہر دن کچھ نیا سیکھتا ہے، وہ ہمیشہ دوسروں سے آگے نکل جاتا ہے۔
چوتھی، ناکامی سے گھبرانا نہیں: آپ کے راستے میں ناکامیاں ضرور آئیں گی، لیکن اگر آپ دوبارہ اُٹھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، تو کوئی بھی آپ کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتا ہے۔ یاد رکھو، دُنیا میں کوئی بھی محنتی اور مستقل مزاج شخص ناکام نہیں ہوسکتا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، پاکستان اور پوری دُنیا کوئی بھی شخص جو سست نہیں، کاہل نہیں ہے وہ ناکام ہو ہی نہیں سکتا ہے، یہ ناممکن ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رکھتے ہیں د نیا میں انہوں نے کوئی بھی یہ ہے کہ کالج ا ف رہے ہیں سکتا ہے نہیں ہے اگر ا پ رہا ہے نے کہا کے لیے
پڑھیں:
ختم نبوت دین‘ ایمان
عیدالاضحی کے مقدس دن اپنی تمام تر خوبصورتیوں اور برکتوں سمیت رخصت ہو گئے ، اب ایک مرتبہ پھر روٹین کے لیل و نہار شروع ہوچکے ہیں،کاش کہ بھولے بھٹکے مسلمانوں نے جانوروں کو قربان کرتے ہوئے یہ عزم بالجزم بھی کیا ہوکہ اگر ضرورت پڑی تو وہ بھی اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے ، پیر کے دن اس خاکسار نے عید ملن پارٹی سے خطاب کرتے ہوے عرض کیا کہ ہر ہر مسلمان مردو عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنی آخری سانسوں تک اس عقیدے پر پختگی کے ساتھ قائم و دائم رہے کہ حضرت محمد مصطفیﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی تشریعی‘غیر تشریعی‘ ظلی‘ بروزی یا نیا نبی نہیں آئے گا۔ آپﷺ کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ کافر‘مرتد‘ زندیق اور واجب القتل ہے۔
قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیات مبارکہ اور حضور نبی کریمﷺ کی تقریباً دو سو دس احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور رحمت عالمﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس بات پر پختہ ایمان ’’عقیدئہ ختم نبوت‘‘ کہلاتا ہے۔قرآن مجیدایک سراپا اعجاز کتاب ہے اس کا ایک ایک لفظ علم و حکمت کا خزینہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر دور ہر خطہ کے ہر ایک انسان کی مکمل رہنمائی کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اسلام دشمنوں کی طرف سے اسلام کی بیخ وبن کو ہلا دینے والے خطرناک طوفانوں میں بھی اس کی عظمت و وقار میں رتی بھر فرق نہ آیااور نہ قیامت تک آئے گا۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ جس طرح قرآن مجید ہر مسئلہ میں انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے‘ اسی طرح وہ عقیدئہ ختم نبوت کو بھی بڑے واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیات مبارکہ ختم نبوت کے ہر پہلو کو کھول کھول کر بیان کرتی اور واشگاف الفاظ میں اعلان کر رہی ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ قیامت تک اللہ تعالی ٰکے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔
-1 حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے: ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہیں۔(الاحزاب40) اس آیت میں رسول اللہﷺ کو خاتم النبیین فرمایا ہے اور خاتم النبیین کی تفسیر خود آنحضرتﷺ نے ’’لانبی بعدی‘‘ کے ساتھ فرما دی یعنی خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور تفسیر نبوی کی روشنی میں تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد کسی شخص کو نبوت عطا نہیں کی جائے گی۔ جن حضرات کو نبوت و رسالت کی دولت سے نوازا گیا اور رسول و نبی کے منصب پر ان کو فائز کیا گیا ان میں سب سے آخری حضرت محمد رسول اللہﷺ ہیں۔
علامہ زرقائی شرح مواھب لدنیہ میں آیت مذکورہ کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں اور آنحضرتﷺ کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ سب انبیاء اور رسل کے ختم کرنے والے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’ ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین‘‘ یعنی آخر النبیین جس نے انبیا کو ختم کیا یا وہ جس پر انبیا ختم کئے گئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنی سے روایت کیا گیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ رسالت و نبوت منقطع ہو چکی‘نہ میرے بعد کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔
خلاصہ یہ کہ آنحضرتﷺ قیامت تک کے لئے پوری نوع انسانی کے لئے مبعوث فرما گئے ہیں۔ آنحضرتﷺ کی نبوت کا آفتاب عالم تاب قیامت تک روشن رہے گا۔ آپﷺ کے بعد نہ کسی نبی کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش۔
-1 ترجمہ: ’’ آج میں نے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام ہی کو پسند کیا۔‘‘(سورہ مائدہ)
یہ آیت نبی کریمﷺ کے آخری حج ‘حج الوداع میں جمعہ کے دن 9ذی الحج کو نازل ہوئی اور اس کے بعد آنحضرتﷺ80-81 دن دنیا میں رونق افروز رہے اور اس آیت شریفہ کے بعد حلت یا حرمت کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔اس آیت شریفہ میں دین کے بہمہ وجوہ کامل ہونے اور نعمت خداوندی کے پورا ہونے کا اعلان فرمایا گیا ہے اور چونکہ قیامت تک کے لئے دن کی تکمیل کا اعلان کر دیا گیا‘ اس لئے یہ اعلان آنحضرتﷺ کے خاتم النبیین ہونے کو بھی شامل ہے۔
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: ’’ یہ اس امت پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے کہ اس نے ان کے لئے دین کو کامل فرمایا‘لہٰذا امت محمدیہ نہ اور کسی دین کی محتاج ہے نہ اور کسی نبی کی اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو خاتم الانبیا بنایا اور تمام جن و بشر کی طرف مبعوث فرمایا۔‘‘ اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ قیامت تک کے لئے تمام انسانوں اور جنوں کے لئے رسول ہیں اور آپﷺ کی تشریف آوری کے بعد قیامت تک کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔
–3 حضرت آدم علیہ الصلوۃ و السلام سے سلسلہ نبوت شروع ہوا تو اعلان ہوا ‘ترجمہ: ’’اے اولاد آدم کی ! اگر تمہارے پاس میرے پیغمبر آویں جو تم ہی میں سے ہوں گے جو میرے احکام تم سے بیان کریں گے۔‘‘(الاعراف35)
اس آیت میں ایک نہیں متعدد رسولوں کے آنے کی خبر دی گئی لیکن حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام جو خاتم انبیا بنی اسرائیل ہیں‘ ان کی زبان مبارک سے یہ اعلان فرمایا گیا کہ میرے بعد ایک رسول آئے گا جن کا نام نامی اور اسم گرامی احمد ہوگا (صلی اللہ علیہ وسلم) جیسا کہ ارشاد باری ہے: ترجمہ:’’اور میرے بعد ایک رسول آنے والے ہیں جن نام(مبارک) احمد ہوگا میں ان کی بشارت دینے والا ہوں۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد صرف ایک رسول کا آنا باقی تھا اور وہ ہیں محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ‘ ان کی تشریف آوری کے بعد قیامت تک ان کے علاوہ کسی نبی و رسول کی آمد متوقع نہیں۔
-4قرآن کریم میں بار بار آنحضرتﷺ سے پہلے کے انبیاء کرام علہیم السلام کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن آپ کے بعد کسی رسول کے آنے کی طرف کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کیاگیا ۔ مثلا: -1 ترجمہ:’’اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا پیغمبر نہیں بھیجا۔(الانبیا52 )-2 ترجمہ: اور(اے محمدﷺ) ہم نے آپ کے قبل کوئی رسول اور کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا۔ (الحج65 )-3 ترجمہ: اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے۔ (الفرقان20: )
اس قسم کی آیات بہت ہیں ‘ میں اس نوع کی آیات بتیس ذکر کی گئی ہیں۔ظاہر ہے کہ اگر آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبوت مقدر ہوتی اور ان نبیوں کے انکار سے امت کی تکفیر لازم آتی تو محالہ وصیت و تاکید ہوتی کہ آنحضرتﷺ کے بعد بھی نبی آئیں گے ایسا نہ ہو کہ ان میں سے کسی کا انکار کرکے ہلاک ہو جائو۔پورے قرآن میں ایک بھی آیت ایسی نہیں جس میں بعد میں آنے والے کسی نبی کا تذکرہ ہو‘ معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔
ختم نبوت اور احادیث متواترہ: آنحضرت ﷺ نے تقریباً دو سو احادیث میں علی رئوس الاشہاد مسئلہ ختم نبوت کو بیان فرمایا کہ آپﷺ آخری نبی ہیں‘ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا لیکن کسی حدیث میں اس طرف اشارہ بھی نہیں فرمایا کہ آنحضرتﷺ کے بعد سلسلہ نبوت جاری رہے گا یا یہ کہ انبیا آتے رہیں گے۔