بغیر ایف آئی آر گرفتاری ہو سکتی ہے نہ بغیر مجسٹریٹ آرڈر حراست میں رکھا جا سکتا ہے، جج آئینی بینچ
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
بغیر ایف آئی آر گرفتاری ہو سکتی ہے نہ بغیر مجسٹریٹ آرڈر حراست میں رکھا جا سکتا ہے، جج آئینی بینچ WhatsAppFacebookTwitter 0 15 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ ایف آئی آر کے بغیر نہ گرفتاری ہو سکتی ہے نہ ہی مجسٹریٹ کے آرڈر کے بغیر کسی کو حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ 20 منٹ تک اپنے دلائل مکمل کر لیں، وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ میں کوشش کرونگا آج دلائل مکمل کر لوں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اگر وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل آج مکمل ہوئے اٹارنی جنرل کل دلائل دیں گے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ میں بھی کچھ بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، رینجرز اور ایف سی اہلکار نوکری سے نکالے جانے کے خلاف سروس ٹربیونل سے رجوع کرتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا پولیس میں آئی جی اپیل سنتا ہے، یا ایس پی کیس چلاتا ہے، بھارت میں بھی آزادانہ فورم دستیاب ہے، ایف آئی آر کے بغیر نہ گرفتاری ہو سکتی ہے نہ ہی مجسٹریٹ کے آرڈر کے بغیر کسی کو حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کاہ کہ 9 مئی واقعات کے ملزمان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوئے، فوج نے براہ راست کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرائی، انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے ذریعے سویلین کی حوالگی فوج کو دی گئی، حراست میں دینا درست تھا یا نہیں یہ الگ بحث ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس کیس کے مستقبل کیلئے بہت گہرے اثرات ہونگے، ایف بی علی کیس پر آج بھی اتنی دہائیوں بعد بحث ہو رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی جواب الجواب کا سلسلہ جاری رکھیں گے، عدالت نے خواجہ حارث کو کل 30 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ خواجہ حارث کے بعد کل ہی اٹارنی جنرل کو بھی سنیں گے، خواجہ حارث نے کہا کہ ججز کے سوالات زیادہ نہ ہوتے تو آج ہی مکمل کر لیتا، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ کل کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دیں کسی کو سوال نہیں کرنے دوں گی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں اب کوئی سوال نہیں کروں گا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ نے فیصل صدیقی کو ایف بی علی کا نام لینے سے روکا تھا، اب ہر روز ایف بی علی کا نام لیا جاتا ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: حراست میں رکھا جا سکتا ہے ایف ا ئی ا ر
پڑھیں:
ٹرمپ کی اطلاع کے بغیر ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات
اسلام ٹائمز: ایک محدود اسرائیلی حملے پر تہران کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے اور خطے میں امریکی مفادات کو کسی ممکنہ فوجی تنازع سے دور رکھنے کیلئے جو اقدام ضروری ہے، ٹرمپ اس میں داخل ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مختلف منظرنامے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹرمپ اسرائیل کی ایران مخالف دھمکیوں کو مذاکرات میں اپنی بات منوانے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے گذشتہ دنوں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ ہوتا کون ہے، جو ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ افزودگی ہونی چاہیئے یا نہیں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے امکان کے بارے میں متعدد اطلاعات سامنے آئی ہیں اور ساتھ ہی کئی اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے یہ خبریں بھی دی ہیں کہ امریکا نے ان تنصیبات پر حملے کے منصوبے پر اسرائیل کے ساتھ تعاون بند کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اسں نے نیتن یاہو سے کہا ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کرے، جس سے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں خلل پڑے۔
کیا اسرائیل امریکہ کے علم میں لائے بغیر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا؟
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کا واقعہ حملے کی سطح پر منحصر ہے۔ اسرائیل کی طرف سے امریکہ کے تعاون اور یہاں تک کہ اس کی عوامی یا نجی شرکت کے بغیر بڑے اور وسیع پیمانے پر حملے کا امکان بہت کم ہے۔ تاہم، اسرائیل کی طرف سے "محدود حملے" کے دو امکانات ہیں۔ پہلا، امریکہ کو بتائے یا ہم آہنگی کے بغیر اور دوسرا، دونوں فریقوں کے علم اور ہم آہنگی کے ساتھ۔ ٹرمپ نیتن یاہو کے تعلقات کے نتائج پر غور کرتے ہوئے پہلا منظر نامہ اس وقت پیش آسکتا ہے، جب نیتن یاہو کو مکمل یقین ہو جائے کہ ایران اور امریکہ ایک ایسے معاہدے پر پہنچ جائیں گے، جو اسرائیل کے نقطہ نظر سے "ناگوار" ہوگا تو وہ اس صورت حال میں خلل ڈالنے اور دوسرے طریقوں سے مایوس ہونے کے بعد حملہ کرسکتا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ’’عارضی اور جزوی‘‘ معاہدے تک پہنچنے کے بعد بھی اس طرح کے حملے کا امکان موجود ہے۔
بلاشبہ، نیتن یاہو ایسا شخص نہیں ہے، جو بغیر حساب کتاب اور صرف غیر ضروری خطرات مول لے کر حملے کا رسک لے گا۔ ٹرمپ کے رویئے اور انتقام کے بارے میں اس کی تشویش کو دیکھتے ہوئے وہ کسی بھی غیر اعلانیہ حملے کا فیصلہ نہیں کرے گا، کیونکہ اس کا نتیجہ اسے غزہ کے تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔ غزہ کی جنگ سے نیتن یاہو کا سارا سیاسی مستقبل وابستہ ہے اور اس کا اقتدار اس جنگ سے جڑا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان ایران کے ساتھ تصادم کی نوعیت اور دیگر مسائل کے بارے میں اختلاف رائے اور "معمولی تناؤ موجود ہے، جس کے بارے میں حقیقت سے زیادہ مبالغہ آرائی ہے، کیونکہ اس طرح کے تناؤ کا ابھی تک کوئی قابل ذکر عملی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔"
لیکن فی الحال ایسا لگتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں غزہ کی صورتحال کے تناظر میں نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان ایک طرح سے سمجھوتہ اور سودے بازی کی صورت حال موجود ہے۔ ہعنی اسرائیل، ٹرمپ کی درخواست کی تعمیل کے بدلے میں ایران کے ساتھ مذاکرات میں خلل ڈالنے کے لیے کوئی اقدام نہ کرے گا اور ٹرمپ غزہ کی جنگ کو روکنے کے لیے کوئی عملی اقدام انجام نہ دے۔ اس کی ایک ٹھوس مثال وتکاف کی طرف سے جنگ بندی کے لیے پیش کیے گئے منصوبے میں دیکھی جا سکتی ہے، جو اسرائیل کے مطالبات کو مکمل طور پر پورا کرتا ہے اور یہی چیز نیتن یاہو کو فوری طور پر اس معاہدے کے خلاف کچھ اقدام سے روکے ہوئے ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ بالآخر کوئی معاہدہ نہیں کرے گا۔ چاہے ایران کے ساتھ ہو یا دوسرے علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ۔ امریکہ اسرائیل کے "بڑے مفادات" کو مدنظر رکھے بغیر کوئی مستقل اقدام نہیں کرے گا۔ البتہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وٹکوف نے بظاہر ٹرمپ کی مذاکراتی پالیسی سے متاثر ہو کر ایرانی فریق کے ساتھ مذاکرات میں ایسا مبہم اور متضاد رویہ اپنایا ہے۔ غزہ پر نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان کچھ دو اور کچھ لو کا عمل اس بات کا باعث بنے گا کہ اسرائیل امریکہ کے علم میں لائے بغیر ایران کی جوہری تنصیبات پر کسی قسم کا محدود حملہ بھی نہیں کرے گا۔ مجموعی طور پر، ایران کے خلاف کسی بڑے حملے کا فیصلہ امریکی گرین لائٹ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
اس طرح کے مفروضے کو درست مانتے ہوئے، ممکنہ محدود حملے کو مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک قسم کا دباؤ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ دنوں میں ایران پر مشترکہ حملے کے لیے واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان ہم آہنگی کے خاتمے کے بارے میں کچھ رپورٹس اور تبصرے سامنے آئے ہیں۔ ایک محدود اسرائیلی حملے پر تہران کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے اور خطے میں امریکی مفادات کو کسی ممکنہ فوجی تنازع سے دور رکھنے کے لیے جو اقدام ضروری ہے، ٹرمپ اس میں داخل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مختلف منظرنامہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹرمپ اسرائیل کی ایران مخالف دھمکیوں کو مذاکرات میں اپنی بات منوانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے گذشتہ دنوں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ ہوتا کون ہے، جو ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ افزودگی ہونی چاہیئے یا نہیں۔ رہبر انقلاب کے اس موقف نے ٹرمپ کو ایک نئے مخمصے میں ڈال دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ اب کس انداز سے نیتن یاہو کو اپنے اہداف کے لیے استعمال کرتی ہے یا نیتن یاہو ٹرمپ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مفادات کی اس جنگ میں ضامن کوئی نہیں۔ یہ دنگل کون جیتے گا، اس کے لئے کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔