شوہر کے ظالمانہ طرزعمل پر خلع لینے والی خاتون کا حقِ مہر ساقط نہیں ہوتا، لاہور ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT
لاہور ہائیکورٹ سے متعلق ایک اہم فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ شوہر کی بدسلوکی کی وجہ سے شادی ٹوٹنے سے اس خلع لینے والی خاتون کا حق ختم نہیں ہوتا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران نے مؤخر شدہ طلاق کے ایک اہم پہلو پر کو واضح کیا کہ اسلامی قانون اور نکاح نامہ کے تحت شوہر پر حق مہر اس وقت تک واجب ہے، جب تک کہ بیوی اس کی جانب سے کسی غلطی کے بغیر خلع (شادی توڑنے) کی درخواست نہ کرے۔
اسی کیساتھ ہی جسٹس راحیل کامران نے نوٹ کیا کہ عدالت میں زیر سماعت خصوصی معاملے میں خاتون نے اپنے شوہر کی طرف سے ظلم اور توہین آمیز رویے کے قابل اعتماد ثبوت فراہم کیے، جس کی وجہ سے اسے علیحدگی کی درخواست کرنا پڑی۔
وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہجسٹس راحیل کامران نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ خلع کا تصور سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 228 اور 229 پر مبنی ہے۔ انہوں نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر بیوی صرف اپنے شوہر سے ناپسندیدگی کی بنیاد پر خلع حاصل کرتی ہے تو اسے ملنے والا حق مہر قابل واپسی ہے۔
وصول شدہ رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنا جائز نہیںلاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ اگر بیوی شوہر کی غلطی کی وجہ سے معقول جواز فراہم کرکے خلع طلب کرتی ہے، تو اس سے پہلے سے وصول شدہ رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں قرار دیا گیا ہے ایسی صورتحال میں یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ کیس کے حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے کہ بیوی کو کتنی رقم واپس کرنی چاہیے۔
نکاح نامہ ایک جائز اور پابند معاہدہجسٹس راحیل کامران کے مطابق نکاح نامہ بیوی اور شوہر کے درمیان ایک جائز اور پابند معاہدہ ہے، اور مؤخر کرنا شوہر کی جانب سے کیا جانے والا معاہدہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی قرار دیا کہ جب تک اس معاہدے کی شرائط سے انحراف کرنے کی قانونی بنیاد نہ ہو، شوہر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا پابند ہے۔
خلع مانگنے کی وجہجسٹس راحیل کامران کہا کہ صرف یہ حقیقت کہ بیوی نے خلع مانگی ہے، خود بخود اس معاہدے کی ذمہ داری کو ختم نہیں کرتا ہے، مؤخر شدہ حق مہر کے دعوے پر خلع مانگنے والی بیوی کے حق کا تعین کرنے کے لیے اہم غور و خوض اس کے خلع مانگنے کی وجہ ہے۔
جسٹس راحیل کامران نے وضاحت کی کہ جب بیوی اس بنیاد پر خلع طلب کرتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہے تو شوہر کی جانب سے کسی غلطی کے بغیر وہ مؤخر کرنے کا حق اسی طرح کھو دیتی ہے، جس طرح فوری طور پر طلاق دینے کے معاملے میں ہوتی ہے۔
جسٹس راحیل کامران نے کہا کہ اس کے برعکس اگر شوہر کا طرز عمل بیوی کو طلاق لینے پر مجبور کرتا ہے تو وہ مؤخر شدہ مہر کا حق برقرار رکھتی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں بیوی نے خلع کی بنیاد پر شادی توڑنے کا حکم نامہ حاصل کیا، شوہر پر بدسلوکی اور توہین آمیز رویے کے الزامات لگائے۔
مہر کی ادائیگی سے انکار ناانصافی ہوگیجسٹس راحیل کامران نے قرار دیا کہ چونکہ شادی 9 سال پر محیط ہے، اور بیوی نے اپنی ازدواجی ذمہ داریاں پوری کیں، لہٰذا اسے مؤخر کیے گئے مہر کی ادائیگی سے انکار ناانصافی ہوگی۔
انہوں نے اس کیس کو درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے پیش کیے گئے سابقہ فیصلوں سے الگ کر دیا، جہاں شوہر کی جانب سے ظلم ثابت نہیں ہوا تھا۔
شوہر کی درخواست مستردعدالت عالیہ نے ساہیوال کی ضلعی عدالتوں کی جانب سے سابق اہلیہ کے حق میں دیے گئے فیصلے کے خلاف شوہر کی درخواست مسترد کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس راحیل کامران نے لاہور ہائیکورٹ کی درخواست کی جانب سے قرار دیا شوہر کی کرتی ہے کی وجہ
پڑھیں:
کیا آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے؟
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) کیا آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے، اُس کے بارے میں یہ افواہ بھی ہے کہ اُسے حرام جانور کے مادّہ منویہ سے حاملہ کرایا جاتا ہے تاکہ اس سے دودھ کی زیادہ مقدار حاصل ہو، ایسی گائیوں کا شرعی حکم کیا ہے ؟
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے، فقہی رائے کا مدار اَفواہوں یاسنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا، صرف اُن باتوں پر ہوتا ہے جو قطعی ثبوت یا مشاہدے سے ثابت ہوں، چنانچہ مُسلّمہ اصول ہے :’’ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا‘‘۔
تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو ، تب بھی یہ گائیں حلال ہیں، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پیناجائز ہے، اس لیے کہ جانورکی نسل کا مَدار ماں(یعنی مادہ) پر ہوتا ہے۔
علامہ برہان الدین المرغینانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اور پالتو (Pet)اور جنگلی(Wild) جانورکے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ ماں (مادہ)کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے، یہاں تک کہ اگر بھیڑیے نے بکری پر جفتی کی، تو اس ملاپ سے جو بچہ پیداہوگا، اس کی قربانی جائز ہے ‘‘۔
اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود ’’عنایہ شرحِ ہدایہ ‘‘ میں لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ کیونکہ بچہ ماں کاجزء ہوتا ہے اور اسی لئے آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے (یہ اُس دور کی بات ہے جب غلامی کا رواج تھا)۔
یہ اس لیے کہ نَر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتا ہے اوروہ قربانی کا محل نہیں ہے اور ماں کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے، پس اُسی کا اعتبار کیا گیا ہے، (فتح القدیر ،جلد9،ص:532)‘‘۔
علامہ علاؤالدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ: قربانی پالتو جانوروں کی تین جنسوں میں سے کسی ایک جنس سے ہوسکتی ہے اور وہ یہ ہیں: بکری، اونٹ اور گائے، بیل، اس میں ہر نوع کا نَر اور مادہ، خصی اور آنڈو سب شامل ہیں، کیونکہ اُس جنس کا اطلاق اِن سب پر ہوتا ہے اور وجوبِ زکوٰۃ کے حوالے سے بھیڑ بکری اور بھینس گائے کی جنس میں شامل ہے، وحشی جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے کیونکہ قربانی کا وجوب شریعت سے معلوم ہوا اور شریعت مانوس چیز کی قربانی واجب کرتی ہے۔
اگر جانور وحشی اور پالتو کے ملاپ سے پیدا ہو تو اعتبار ماں یعنی مادہ کا ہے، سو اگر ماں پالتو ہے تو قربانی جائز ہے، ورنہ نہیں ، یہاں تک کہ اگر پالتو گائے پر وحشی بیل جفتی کرے تو اس سے پیدا ہونے والے بچے کی قربانی جائز ہے اور اس کے برعکس اگر جنگلی گائے پر پالتو بیل جفتی کرے تو اس سے پیدا ہونے والے بچے کی قربانی جائز نہیں ہے، کیونکہ جانوروں کی نسل میں ماں کا اعتبار ہے، کیونکہ وہ ماں کے وجود سے جدا ہوتا ہے اور وہ قیمت رکھنے والا حیوان ہے، جس کے ساتھ احکام متعلق ہوتے ہیں اور نَر سے صرف نطفہ خارج ہوتا ہے اور اس کے ساتھ احکام متعلق نہیں ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ غلامی اور آزادی میں بچہ ماں کے تابع ہوتاہے ، سوائے اس کے کہ بنی آدم میں بچے کی شرافت اور ضائع ہونے سے بچانے کے لیے وہ باپ کی طرف منسوب ہوتا ہے، ورنہ اصل یہی ہے کہ وہ ماں کی طرف منسوب ہو، اور کہا گیا: جب نَر ہرن پالتو بکری پر جفتی کرے اور اس سے بکری پیدا ہو تو اُس کی قربانی جائز ہے اور اگر ہرن پیدا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں، اگر گھوڑی پر وحشی گدھا جفتی کرے اور گدھا پیدا ہو تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا اور اگر گھوڑا پیدا ہو تو اس کا حکم گھوڑے کے گوشت کا ہوگا۔
اگر وحشی ہرن کو مانوس کیا یا جنگلی بیل کو مانوس کیا اور ان کی قربانی دی، تو جائز نہیں ہوگی، کیونکہ یہ اصل اور جوہر کے اعتبار سے وحشی ہیں اور کسی نادر عارض کی وجہ سے اصل کا حکم باطل نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمانے والا ہے ،(بدائع الصنائع، جلد 5،ص:103-104)‘‘۔
آج کل مغرب میں انسانوں کو اسی حیوانی درجے میں پہنچا دیاگیا ہے، اِسی لیے پاسپورٹ، تعلیمی اَسناد اور دیگر دستاویزات میں باپ کے بجائے ماں کا نام پوچھا جاتا ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں کو اپنے باپ کا پتاہی نہیں ہوتا، جبکہ اسلامی تعلیمات کی رُو سے انسانوں میں نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے، میں نے ایک آرٹیکل میں پڑھا تھا کہ ڈنمارک میں ہوٹل میں مہمانوں کے نام ہدایت نامے میں یہ درج ہوتا ہے کہ آپ عملے کے کسی فرد سے باپ یا شوہر کا نام نہیں پوچھیں گے۔
قربانی کیلئے زیادہ تعداد میں جانور لینے چاہئیں یا بہت قیمتی جانور ؟ کیا افضل ہے؟
مزید :