امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت WhatsAppFacebookTwitter 0 22 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ :اپریل 2025 میں ، ٹرمپ انتظامیہ نے ” مساوی محصولات” کے نام پر چین اور یورپی یونین سمیت دنیا کے بڑے تجارتی شراکت داروں پر بڑے پیمانے پر محصولات کا اعلان کیا ، جس میں سے امریکہ کو برآمد کی جانے والی چینی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو مزید بڑھا کر 125فیصد کردیا گیا اور یہاں تک کہ 245فیصد تک کے اسکائی ہائی ٹیرف کی بھی تجویز دی گئی۔ امریکہ کی نئی ٹیرف پالیسی کی اصلیت ” مساوات ” کی آڑ میں ، معاشی اور تجارتی شعبوں میں تسلط پسندانہ سیاست اور یکطرفہ غنڈہ گردی کو فروغ دینا ہے ، جو نہ صرف عالمی تجارتی نظام میں افراتفری پیدا کرتی ہے، اور عالمی معاشی کساد بازاری کے خطرے کو نمایاں طور پر بڑھاتی ہے، بلکہ عالمی معاشی نظام پر یکطرفہ غنڈہ گردی کے انتہائی تباہ کن اثرات کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔
امریکہ نے ” امریکہ فرسٹ ” کا نعرہ لگاتے ہوئے ، یکطرفہ طور پر ڈبلیو ٹی او کے قوانین کو ترک کیا ہے،اور من مانے طریقے سے ٹیکسوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں دوسرے ممالک کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے جوابی اقدامات کرنے پر مجبور کیا گیا ہے، جیسے یورپی یونین کی جانب سے امریکی درآمدات پر 25 فیصد محصولات عائد کرکے جوابی اقدامات کیے گئے، کینیڈا امریکی اسٹیل اور آٹوموبائل کی درآمدات پر 25 فیصد جوابی ٹیرف عائد کرے گا، چین نے بھی جوابی اقدامات کا ایک سلسلہ متعارف کرایا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی “طاقت ہی سچائی ہے” کی منطق کے تحت ویتنام، کمبوڈیا اور دیگر ممالک استثنیٰ کے بدلے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، بعض چھوٹے اور درمیانے درجے کے ممالک امریکہ کے اس کھیل کا شکار ہو چکے ہیں اور عالمی کثیر الجہتی تجارتی نظام افراتفری کا شکار ہو چکا ہے۔ عالمی بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر ٹیرف کی جنگ جاری رہی تو 2025 میں عالمی تجارت 12 فیصد تک سکڑ سکتی ہے، جو جرمن معیشت کے کل حجم کے برابر ہے۔ امریکہ خود بھی زیادہ ٹیرف سے متاثر ہو رہا ہے ۔ امریکی میڈیا نے نشاندہی کی کہ حکومت کی ٹیرف پالیسی عام امریکی گھرانوں کو متاثر کر رہی ہے، قیمتیں بڑھ رہی ہیں، اور عوام کے پیسے جلدی سے ختم ہو رہے ہیں.
تین بڑے امریکی سٹاک انڈیکس میں مسلسل گراوٹ آئی، ڈاؤ جونز انڈیکس 40 ہزار پوائنٹس کی حد سے نیچے گر گیا، ایس اینڈ پی 500 میں پانچ سال میں سب سے بڑی ایک روزہ گراوٹ ریکارڈ کی گئی، اور سونے اور خام تیل جیسے محفوظ اثاثوں کی قیمتوں میں تیزی سے اتار چڑھاؤ ریکارڈ کیا گیا۔امریکی حکومت کی جانب سے دوسروں اور خود کو نقصان پہنچانے کے اس اقدام پر امریکہ کے تمام حلقوں اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی ہے۔ معاشیات کے دو نوبل انعام یافتہ افراد سمیت تقریباً 900 ماہرین اقتصادیات، ماہرین تعلیم اور صنعت کے رہنماؤں نے اینٹی ٹیرف اعلامیے پر دستخط کیے، جس میں نشاندہی کی گئی کہ ٹرمپ کی تجارتی تحفظ پسندی ایک “گمراہ کن پالیسی” ہے جو امریکی معیشت کو “خود ساختہ کساد بازاری” کی کھائی میں دھکیل سکتی ہے۔
دنیا بھر سے مخالفت کی لہریں یکے بعد دیگرے آ رہی ہیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے تنقید کی کہ “امریکہ اب قابل اعتماد شراکت دار نہیں ہے” اور اس پر انحصار کم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یورپی یونین نے صنعتی چین کی خود مختاری کو تیز کرنے اور عالمی معیشت میں امریکہ کی غالب پوزیشن کو کمزور کرنے کے لئے” انسداد اقتصادی جبر ایکٹ ” کا آغاز کیا۔ 10 آسیان ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں دوٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ امریکی اقدام “بہت سے ممالک کے مفادات کو قربان کر رہا ہے”۔ چین نے امریکہ کے خلاف باضابطہ طور پر ڈبلیو ٹی او میں یکطرفہ محصولات کی شکایت درج کرائی ہے اور 23 تاریخ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر رسمی اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں تمام 193 رکن ممالک کو امریکہ کے محصولات کی وجہ سے عالمی تجارتی نظام کو پہنچنے والے سنگین نقصان پر بحث میں حصہ لینے کی دعوت دی گئی ہے۔محصولات کی بالادستی اور یکطرفہ تسلط کے ذریعے اپنی معیشت کو بچانے کا امریکہ کا ارادہ واقعی گمراہ کن ہے۔
یہ “ایک چمچ کے ذریعے سمندر کے پانی کو نکال کر خشک کرنے ” کی طرح ہے۔ بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کی ایک تحقیق کے مطابق، اگر امریکہ تمام محصولات کو بڑھا کر 25 فیصد کر دیتا ہے، تو اس سے مینوفیکچرنگ کے صرف 1.2 فیصد روزگار کے مواقع واپس آئیں گے، لیکن صارفین کو لاگت کا 90 فیصد برداشت کرنا ہے . اگر امریکہ موجودہ مخمصے کو حل کرنا چاہتا ہے تو اسے “زیرو سم گیم” کی ذہنیت کو ترک کرنا ہوگا اور کثیر الجہتی تعاون کی راہ پر واپس آنا ہوگا۔ ٹرمپ 1930 کے” سموٹ ہولی ٹیرف ایکٹ ” کی وجہ سے شروع ہونے والی عالمی تجارتی جنگ کے بارے میں سوچیں، جس نے بالآخر امریکی جی ڈی پی کو 30 فیصد تک کم کر دیا تھا اور بے روزگاری کی شرح 25 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
سب کہتے ہیں کہ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے، اور یہ کہ امریکہ کی ٹیکسوں میں اضافے کی موجودہ حکمت عملی تاریخ سے بہت ملتی جلتی ہے۔ اگر امریکہ عالمی برادری کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اسی راستے پر چلنے پر اصرار کرتا رہا تو اسے بالآخر اپنی غلطیوں کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایرانی وزیر خارجہ چین کا دورہ کریں گے ، چینی وزارت خارجہ چین نے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے تصور پر عمل کیا ہے، وزارت خارجہ ٹیرف جنگ کے تناظر میں اتحادیوں کا امریکہ پر اعتماد انتہائی کم ہو چکا ہے، چینی میڈیا آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کا خسارہ 7222ہزار ارب روپے رہنے کا امکان چائنا میڈیا گروپ کے ایونٹ “گلیمرس چائینیز 2025 ” کا کامیاب انعقاد چین، دنیا کی پہلی ہیومنائیڈ روبوٹ ہاف میراتھن کا انعقاد چین اور گبون نے سیاسی باہمی اعتماد کو گہرا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، چینی صدرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کی جانب سے امریکہ کی
پڑھیں:
امدادی کشتی پر اسرائیلی حملہ دہشت گردی ہے، اقوام متحدہ اور امریکی مسلم تنظیم کا شدید ردعمل
امریکہ میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے سرگرم سب سے بڑی تنظیم "کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز (CAIR)" نے غزہ کے لیے امداد لے جانے والی کشتی "مدلین" پر اسرائیلی حملے کو "بزدلانہ، غیر قانونی اور بین الاقوامی قزاقی" قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، CAIR کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نهاد عوض نے کہا: "ہم مدلین کشتی پر اسرائیل کے بزدلانہ اور غیر قانونی حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں، جو غزہ کے بھوکے عوام کے لیے انسانی امداد لے کر جا رہی تھی۔ یہ ریاستی دہشت گردی اور بین الاقوامی قزاقی کی کھلی مثال ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ: "اسرائیلی قبضے کو نہ صرف غزہ کے ساحل پر ناکہ بندی کرنے کا کوئی قانونی حق حاصل نہیں بلکہ امدادی کشتیوں پر کیمیکل ہتھیار پھینکنا اور بین الاقوامی پانیوں میں کارکنوں کو اغوا کرنا بھی سراسر غیرقانونی عمل ہے۔"
نهاد عوض نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ مدلین کے عملے کو فوری رہا کیا جائے، اور کشتی کو واپس جانے دیا جائے۔ انہوں نے مشہور ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور دیگر کارکنوں کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر بھوکے فلسطینیوں کی مدد کے لیے خطرہ مول لیا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ فرانچسکا البانیز نے بھی اسرائیلی کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے "مدلین" کشتی اور اس کے عملے کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے ایکس (ٹوئٹر) پر بیان دیا: "مدلین کو فوری رہا کیا جائے۔ ناکہ بندی توڑنا ممالک کی قانونی ذمہ داری اور ہم سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔"
البانیز کا کہنا تھا کہ ہر بحیرۂ روم کی بندرگاہ سے کشتیوں کو غزہ کی طرف روانہ کیا جانا چاہیے — "متحد ہو کر یہ امدادی مشن ناقابلِ رکاوٹ ہوگا۔"
انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ کشتی کے عملے کے ساتھ اس وقت رابطے میں تھیں جب اسرائیلی فورسز نے انہیں حراست میں لیا۔