میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، جسٹس جمال مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں، کسی سے آپ زبردستی کام نہیں لے سکتے
سوال ہے کہ کیا میں بحیثیت جج اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہوں؟ خطاب
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہاہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، آپ حیران ہوں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ انصاف تو اللہ کا کام ہے ہم تو بس فیصلہ کرتے ہیں، ہم اپنے سامنے موجود دستاویز کو دیکھ کر فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں۔اسلام آباد میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے سنا ہو گا کہ ججز بولتے نہیں لکھتے ہیں، سوچا تھا لکھی ہوئی تقریر پڑھ لوں گا مگر اب دل کی اور آئین کی بات کروں گا۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا ہے کہ صدیقی صاحب نے مشکل میں ڈال دیا کہ میں بالکل اچھا مقرر نہیں مگر بات کرنا ہو گی، آئین کے مطابق تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں، آئین کے مطابق کسی سے آپ زبردستی کام نہیں لے سکتے ، ہم نے قوم کے حقوق کے تحفظ کے لیے حلف لیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پالیسی فیصلوں پر میں بات نہیں کر سکتا، ہمارا کلچر ہے کہ مل بیٹھ کر جرگے کی صورت میں بات کریں، میرا کوئی کمال نہیں کہ میں جج ہوں، سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے کام کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟ سوال ہے کہ کیا میں بحیثیت جج اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہوں؟ صرف آپ کو مزدور اور مجھے جج کا نام دیا گیا ہے ، میرا کوئی کمال نہیں کہ میں اس عہدے پر بیٹھا ہوں۔سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ جو میرا حلف ہے کہیں میں اس کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہا؟ کوئی فریق کہے گا کہ میرا حق ہے مگر میں تو وہی فیصلہ کروں گا جو میرے سامنے دستاویز ہے ، اللّٰہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو حلف کی پابندی کرنے کی توفیق دے ، مجھیجو اتنے پرتعیش دفاتر اور وسائل ملے ہیں وہ مزدور اور آپ کے توسط سے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا ہے کہ جب ہم آپس میں بیٹھیں گے تو یقین ہے کہ مسائل حل ہوں گے ، کسی بھی ادارے کے ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ یونین بنائے ، یہی بہتر طریقہ ہے کہ مسائل بات چیت سے حل کیے جائیں، بہت سارے چھوٹے چھوٹے مسائل مل بیٹھ کر حل ہو سکتے ہیں، جس صوبے سے میرا تعلق ہے وہاں کان کنی کا کام ہے جو مزدور کرتے ہیں، جو کان کے اندر جاتے ہیں ان مزدوروں کے حوالے سے قوانین حکومت کو بنانے چاہئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین میں درج حقوق سب کو ملنا چاہئیں، کوئی مزدور کسی کا غلام نہیں ہوتا، آئین کے مطابق ہم فیصلہ کرتے اور اس کا تحفظ کرتے ہیں، آئین میں درج پوری قوم کے حقوق کے تحفظ کا ہم نے حلف لیا ہے ، ہم نے جو بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ کسی کے دباؤ، خوف اور لالچ میں آئے بغیر کرنا ہے ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنے اور ساتھی ججز کی جانب سے یقین دلاتا ہوں ہم انصاف اور حقوق کا تحفظ کریں گے ، آئیں جو بھی مسئلہ ہے اس پر مل بیٹھیں، ججز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ میل جول نہ رکھیں، ہم جب کسی کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے ، معلوم نہیں صدیقی صاحب نے تعریف کی یا غیبت کہ میں صبح سویرے نہیں اٹھتا۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل فیصلہ کر کے حقوق نہیں کر نے کہا کہا کہ کہ میں
پڑھیں:
کچی آبادی اگر کچے گھر ہیں تو 90 فیصد بلوچستان کچی آبادی ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کچی آبادیوں سے متعلق کیس میں چیئرمین سی ڈی اے اور سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔
آئینی بینچ نے ممبر پلانگ سی ڈی اے کو بھی طلب کرتے ہوئے کچی آبادیوں سے متعلق قائم ورکنگ کمیٹی کے میٹنگ منٹس بھی مانگ لیے ہیں، کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ سی ڈی اے کی کچی آبادیوں کے لیے پالیسی کیا ہے، سندھ میں کچی آبادی ایکٹ موجود ہے، سی ڈی اے کا کام ہے کہ وفاقی حکومت کو کبھی آبادیوں سے متعلق قانون سازی تجویز کرے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا سی ڈی اے کو وائلڈ لائف بورڈ کے دفاتر واپس کرنے کا حکم
جسٹس حسن اظہر رضوی بولے؛ ڈپلومیٹک انکلیو کے پاس بھی کچی آبادی ہے، یہ کتنی خطرناک بات ہے، وکیل سی ڈی اے منیر پراچہ نے بتایا کہ کچھ کچی آبادیوں کو تو ہم تسلیم کرتے ہیں، وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے متعلق قانون سازی کرے۔
آئینی بینچ نے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت سی ڈی اے کچھ کچی آبادیوں کو تسلیم کرتا ہے کچھ کو نہیں، جس پر وکیل سی ڈی اے نے بتایا کہ قانون کوئی نہیں ہے بس کچھ کو ہم ویسے ہی تسلیم کرتے ہیں۔
سی ڈی اے کے وکیل منیر پراچہ کو مخاطب کرتے ہوئے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کچی آبادی کہتے کس کو ہیں، کچی آبادی اگر کچے گھر ہیں تو 90 فیصد بلوچستان کچی آبادی ہے۔
مزید پڑھیں: بغیر اجازت کسی کا ڈی این اے ٹیسٹ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے : سپریم کورٹ
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ 2016 سے سپریم کورٹ نے کچی آبادیوں سے متعلق قانون سازی کی حکم دے رکھا ہے، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ 2015 سے مقدمہ زیر التوا ہے اور آج تک 10 سال ہوگئے کچھ نہیں ہوا۔
وکیل سی ڈی اے کا موقف تھا کہ عدالت کے حکم امتناع کی وجہ سے اسلام آباد میں کچی آبادیاں اور تجاوزات بڑھتی جارہی ہیں، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سی ڈی اے کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوتی۔
وکیل سی ڈی اے منیر پراچہ کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے قانون انصاف کمیشن میں قائم کمیٹی کے ہر اجلاس میں سی ڈی اے شریک ہوتا ہے، اس موقع پر عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کو ذاتی حیثیت میں عدالت طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل جسٹس حسن اظہر رضوی حکم امتناع سپریم کورٹ قانون انصاف کمیشن قانون سازی کچی آبادی منیر پراچہ وکیل سی ڈی اے