پہلگام حملہ ایک منصوبہ بند کوشش معلوم ہوتی ہے، محبوبہ مفتی
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
پی ڈی پی کی سربراہ نے کہا کہ اگر تشدد کا ایک بھی عمل پورے نظام کو ہلا کر رکھ سکتا ہے، من مانی گرفتاریاں، مکانات کو مسمار کرنا اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانا، تو مجرموں نے اپنا مقصد پہلے ہی حاصل کر لیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کے کولگام ضلع میں ایک نوجوان پُراسرار حالات میں مردہ پایا گیا۔ پولیس اور مقامی لوگوں نے اتوار کو نوجوان کی لاش ویشو ندی سے برآمد کی۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ امتیاز احمد ماگرے کی لاش پولس نے اتوار کو ضلع کے واتو علاقے میں ویشو ندی سے برآمد کی۔ متوفی کولگام ضلع کے ٹنگمرگ گاؤں کا رہنے والا تھا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ امتیاز احمد ماگرے ایک مزدور تھا۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم کے بعد امتیاز ماگرے کی لاش اس کے اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی۔ تاہم پولیس نے ابھی تک اس واقعے کے حوالے سے کوئی باضابطہ بیان نہیں دیا ہے۔ دریں اثنا جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے اس معاملے میں گڑبڑی کا الزام عائد کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ مقامی لوگوں نے انہیں بتایا کہ امتیاز ماگرے کو ہفتہ کو فوج نے اٹھایا تھا۔
محبوبہ مفتی نے ایکس پر لکھا کہ کولگام میں ندی سے ایک اور کشمیری کی لاش برآمد ہوئی ہے، جس سے حالات مزید بدتر ہوئے ہیں۔ مقامی باشندوں کا الزام ہے کہ امتیاز ماگرے کو دو دن پہلے فوج نے اٹھایا تھا اور اب اس کی لاش پُراسرار طور پر ندی سے ملی ہے۔ محبوبہ مفتی نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ کشمیر میں نازک امن کو پٹری سے اتارنے، سیاحت کو متاثر کرنے اور پورے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی ایک منصوبہ بند کوشش معلوم ہوتی ہے۔ پی ڈی پی کی سربراہ نے کہا کہ اگر تشدد کا ایک بھی عمل پورے نظام کو ہلا کر رکھ سکتا ہے، من مانی گرفتاریاں، مکانات کو مسمار کرنا اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانا، تو مجرموں نے اپنا مقصد پہلے ہی حاصل کر لیا ہے۔ بانڈی پورہ انکاؤنٹر یا کولگام میں اس تازہ ترین واقعہ میں بدانتظامی کے الزامات انتہائی پریشان کن ہیں اور اس کی مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے۔
گزشتہ ماہ، گجر برادری کے تین نوجوان 'پراسرار طور پر' مردہ پائے گئے تھے اور ان کی لاشیں اسی ضلع میں ویشو ندی سے برآمد ہوئی تھیں۔ ان کے اہل خانہ نے ان کی موت کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کئی دنوں تک احتجاج کیا۔ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے دو دن بعد 25 اپریل کو، پولیس نے جیل میں بند عسکریت پسند کمانڈر طالب لالی کے بھائی الطاف لالی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ چنار کور نے 25 اپریل کو لکھا، "دہشت گردوں کی موجودگی کے بارے میں مخصوص انٹیلی جنس ان پٹ کی بنیاد پر، ہندوستانی فوج اور جموں و کشمیر پولیس نے بانڈی پورہ کے علاقے کولنار میں ایک مشترکہ تلاشی آپریشن شروع کیا تھا۔ دہشت گرد کا سیکورٹی فورسز سے مقابلہ ہوا اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا، تاہم الطاف لالی کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ اسے فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کیا گیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مقامی لوگوں نے محبوبہ مفتی کہ امتیاز بتایا کہ کی لاش
پڑھیں:
ہنگو میں پولیس قافلے پر آئی ای ڈی حملہ، ایس ایچ او سمیت 3 اہلکار زخمی، وزیراعلیٰ کا نوٹس
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہنگو: خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو کے علاقے دوآبہ میں پولیس قافلے پر آئی ای ڈی حملے کے نتیجے میں ایس ایچ او تھانہ دوآبہ عمران الدین سمیت تین اہلکار زخمی ہوگئے، دھماکہ اس وقت ہوا جب پولیس افسران سرچ آپریشن مکمل کرکے واپس آرہے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق زخمی ہونے والے اہلکاروں میں ایس ایچ او عمران الدین، ایک اے ایس آئی اور سب انسپکٹر شامل ہیں جنہیں فوری طور پر ڈی ایچ کیو اسپتال ہنگو منتقل کردیا گیا، دھماکے کے فوراً بعد پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کردیا گیا، سیکیورٹی فورسز نے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں جبکہ ضلع بھر میں سیکیورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق دھماکہ خیز مواد سڑک کنارے نصب کیا گیا تھا جسے پولیس قافلے کی گزرگاہ کے قریب ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکے سے اُڑایا گیا، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی شواہد دہشت گردی کے واقعے کی نشاندہی کرتے ہیں اور ممکنہ طور پر اس حملے میں کالعدم تنظیم ملوث ہو سکتی ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے ضلع ہنگو کے دوآبہ میں پولیس گاڑی پر حملے اور پشاور میں سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس سے تفصیلی رپورٹس طلب کر لی ہیں۔
وزیراعلیٰ نے ہدایت دی ہے کہ واقعے کی وجوہات کا تعین کیا جائے اور حفاظتی اقدامات مزید مؤثر بنائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پشاور دھماکے میں سی ٹی ڈی اہلکار کی شہادت افسوسناک ہے، جبکہ ہنگو دھماکے میں زخمی اہلکاروں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔
واضح رہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران دہشت گردی کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ نومبر 2022 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز، پولیس اور دیگر اداروں پر حملوں میں تیزی لانے کا اعلان کیا تھا۔
یاد رہے کہ 24 اکتوبر کو ہنگو میں ہونے والے دو دھماکوں میں سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) سمیت تین اہلکار شہید ہوگئے تھے، جبکہ 26 اکتوبر کو بھی ضلع ہنگو میں ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا تھا جس میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا اور جوابی کارروائی میں حملہ آور مارا گیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعات کے بعد صوبے بھر میں سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی ہے تاکہ ایسے حملوں کی روک تھام یقینی بنائی جا سکے۔