رواں مالی سال میں پاکستان کے لیے 38 ارب ڈالر کی متوقع ترسیلات زر کی آمد کے باوجود، پاکستان کی فی تارکین وطن ترسیلات خطے کے ہم مرتبہ ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پالیسی ریسرچ اینڈ ایڈوائزری کونسل (پی آر اے سی) کی جانب سے پیر کے روز جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2013 سے 2023 کے درمیان ترسیلات زر میں سالانہ اوسط 6.

1 فیصد کی کمپاؤنڈ شرح سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا، مگر فی فرد ترسیلات کا حجم اب بھی دیگر ممالک سے کم ہے۔

2023 میں پاکستان کی فی تارکین وطن ترسیلات زر 2 ہزار 529 ڈالر رہیں، جو کہ فلپائن (16 ہزار 780 ڈالر)، تھائی لینڈ (9 ہزار 709 ڈالر)، میکسیکو (5 ہزار 914 ڈالر)، چین (4 ہزار 626 ڈالر) اور بھارت (3 ہزار 906 ڈالر) کے مقابلے میں خاصی کم ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی شدید اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا ہے، جس کی بڑی وجوہات میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں عدم استحکام، سیاسی غیر یقینی صورتحال اور ملکی معیشت کے اندرونی ساختی مسائل شامل ہیں۔

مثال کے طور پر، 2016 میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 23 ارب 5 کروڑ ڈالر تھے، جو کم ہو کر 2023 میں 11 ارب 3 کروڑ ڈالر تک آگئے، جو بمشکل تین ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی تھے۔

پی آر اے سی نے اس اتار چڑھاؤ کو ساختی چیلنجز سے منسلک کیا جن میں ٹیکسٹائل سیکٹر پر حد سے زیادہ انحصار، محدود برآمدی تنوع، بڑھتی ہوئی درآمدات، روپے کی قدر میں تیزی سے کمی اور معمولی ترسیلات زر شامل ہیں۔

رپورٹ میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس (آر ڈی اے) اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹس جیسے حالیہ اقدامات کے اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اگرچہ ان اقدامات نے ترسیلات زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو جزوی طور پر بڑھایا ہے، مگر ان کے فوائد زیادہ تر رئیل اسٹیٹ جیسے غیر پیداواری شعبوں تک محدود رہے ہیں، جس سے صنعتی یا زرعی پیداوار میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔

پی آر اے سی نے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہدفی اصلاحات تجویز کی ہیں، جن میں نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پر پیداوار کو گھریلو مالیاتی پالیسی سے ہم آہنگ کرنا، ترسیلات زر کی منتقلی پر اخراجات میں کمی، آر ڈی اے فنڈز کی خصوصی اقتصادی زونز اور ایگرو پروسیسنگ شعبوں میں ترسیل اور کارپوریٹ فارن کرنسی اکاؤنٹس پر ضابطوں کو آسان بنانا شامل ہیں۔

مزید برآں، رپورٹ میں زرمبادلہ کے ذخائر کے بہتر انتظام کے لیے ایک منظم فلوٹ یا ’پیگ اینڈ ریویلیو‘ نظام کی سفارش کی گئی ہے، جو کرنسی کو حقیقی مؤثر شرح مبادلہ سے منسلک کرتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فکسڈ اور فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ نظام کے درمیان بار بار کی تبدیلیوں نے روپے کی قدر کو متاثر کیا، جس کے باعث تجارتی خسارہ بڑھا، درآمدات مہنگی ہوئیں اور اقتصادی استحکام کو دھچکا پہنچا۔

نتیجتاً، رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ پاکستان کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کے انتظام کے لیے ایک زیادہ مستحکم اور حکمت عملی پر مبنی فریم ورک اپنانا ہوگا، تاکہ کرنسی کے اتار چڑھاؤ سے بچا جاسکے، اقتصادی لچک پیدا کی جاسکے، اور برآمدات کی بنیاد پر پائیدار ترقی حاصل کی جاسکے۔

اگرچہ ترسیلات زر نے خود کو ایک حد تک لچکدار ذریعہ ثابت کیا ہے، تاہم رپورٹ کے مطابق یہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے واحد بفر کے طور پر کافی نہیں ہیں۔

روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹس جیسے اقدامات نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانے میں مدد ضرور دی ہے، مگر ان کے فوائد زیادہ تر رئیل اسٹیٹ جیسے غیر پیداواری شعبوں تک محدود رہے ہیں، اور صنعتی و زرعی ترقی پر ان کا اثر انتہائی معمولی رہا ہے۔

ڈائیسپورا کیپیٹل یعنی سمندر پار پاکستانیوں کے سرمایے سے بہتر استفادے کے لیے، رپورٹ میں متعدد اقدامات کی سفارش کی گئی ہے، جن میں نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پر دی جانے والی پیداوار کو ملکی مالیاتی پالیسی سے ہم آہنگ کیا جائے، ترسیلات زر کی منتقلی کے اخراجات میں کمی کی جائے، آر ڈی اے میں جمع ہونے والے فنڈز کو خصوصی اقتصادی زونز اور ایگرو پروسیسنگ انڈسٹریز جیسے زیادہ مؤثر اور پیداواری شعبوں کی طرف منتقل کیا جائے۔

رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان کی پالیسیوں میں فکسڈ اور فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ کے درمیان بار بار کی تبدیلیوں نے حالیہ برسوں میں روپے کی قدر میں کمی کو ہوا دی۔ اس مسلسل گراوٹ کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا، درآمدی اشیا کی لاگت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا اور معاشی استحکام بری طرح متاثر ہوا ہے۔

ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے رپورٹ میں زرمبادلہ کے ذخائر کے انتظام کے لیے ایک زیادہ حکمت عملی پر مبنی، مستحکم اور منظم فریم ورک اپنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ کرنسی کی قدر میں غیر ضروری اتار چڑھاؤ سے بچا جاسکے اور معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کیا جاسکے۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: زرمبادلہ کے ذخائر کے پاکستان کی اتار چڑھاؤ ترسیلات زر رپورٹ میں کے لیے کی قدر گیا ہے کی گئی

پڑھیں:

پاکستانی زرمبادلہ ذخائر میں گزشتہ ہفتے کے دوران بڑا اضافہ

زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں گزشتہ ہفتے کے دوران ایک ارب 77 40 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کی مالیت 14 ارب 50 کروڑ 22 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئی۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر میں گزشتہ ہفتے کے دوران بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور مجموعی ذخائر مارچ 2022ء کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے جاری اعداد و شمار کے مطابق زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں گزشتہ ہفتے کے دوران ایک ارب 77 40 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کی مالیت 14 ارب 50 کروڑ 22 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئی۔ اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی مالیت 20 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی ہے اور 4 جولائی کو زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی مالیت 20 ارب 2 کروڑ 87 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئی۔ اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 52 کروڑ 65 لاکھ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایس آئی ایف سی کے 2 برس؛ ترسیلات زر، سرمایہ کاری اور برآمدات میں نمایاں اضافہ
  • برطانیہ اور فرانس کا غیر قانونی تارکین وطن کو فوری واپس بھیجنے کا معاہدہ
  • پاکستانی روپے کے مقابلے امریکی ڈالر کی قدر میں معمولی کمی
  • پاکستانی زرمبادلہ ذخائر میں گزشتہ ہفتے کے دوران بڑا اضافہ
  • پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے
  • زرمبادلہ کے ذخائر میں گزشتہ ہفتے کے دوران بڑا اضافہ
  • پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر 20 ارب ڈالر ہو گئے
  • پاکستان میں آج ڈالر اور دیگر ممالک کی کرنسی ریٹ
  • ریکارڈ ترسیلات زر‘ مالی سال 2025ء میں 38.3 ارب ڈالر پاکستان منتقل
  • ترسیلات زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر