بھارت کے انتہاپسند ہندوتوا نظریے سے پورے خطے کو خطرات لاحق ہیں، صدر مملکت
اشاعت کی تاریخ: 9th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ بھارت کے انتہاپسند ہندوتوا نظریے سے پورے خطے کو خطرات لاحق ہیں۔
ایوانِ صدر پریس ونگ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری سے ایوان صدر میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے ملاقات کی، جس میں صدر مملکت نے سب کو عید کی مبارک باد پیش کی۔
صدر زرداری نے کہا کہ ہمارے کارکن ہماری قوت ہیں، یہ مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔ ہمیں اپنے ملک اور دھرتی سے وفا کرنی ہے، ترقی کے لیے كام کرنا ہے۔ ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے اور خود کفیل بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ترقی کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ زراعت ہماری معیشت کی بنیاد ہے۔ ملک کو زرعی شعبے کی بنیاد پر ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ کسانوں کو سپورٹ کرکے ملکی معیشت کو ترقی دے سکتے ہیں۔
بھارتی جارحیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو تعصب اور ظلم کا سامنا ہے۔ بھارت کے شدت پسندانہ ہندوتوا نظریے سے پورے خطے کو خطرات لاحق ہیں۔ مسلمان برصغیر میں تاریخی، مذہبی اور ثقافتی جڑیں رکھتے ہیں۔
انہوں نے ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
خواتین کو مردوں کے مساوی اجرت دینے کا عمل تیز کرنے کا مطالبہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) یکساں اجرت کے عالمی دن پر 'یو این ویمن' نے حکومتوں، آجروں اور محنت کشوں کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دینے کے مسئلے کو حل کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں۔
ادارے نے مساوی قدر کے کام کے لیے مساوی اجرت کو بنیادی انسانی حق اور پائیدار ترقی کا اہم ستون قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 30 سال پہلے، حکومتوں نے بیجنگ اعلامیہ اور 'پلیٹ فارم فار ایکشن' کے تحت مساوی اجرت کے لیے قانون سازی اور اس پر مؤثر عمل درآمد کا وعدہ کیا تھا جس کی توثیق پائیدار ترقی کے 2030 ایجنڈے میں بھی کی گئی ہے۔
Tweet URLتاہم، آج بھی دنیا بھر میں مردوں کے مقابلے میں خواتین اوسطاً 20 فیصد کم اجرت حاصل کرتی ہیں جب کہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی، جسمانی معذور اور تارک وطن خواتین کے لیے یہ فرق اور بھی زیادہ ہے۔
(جاری ہے)
ادارے کا کہنا ہے کہ غیر مساوی اجرت کا تسلسل خواتین کی آمدنی کے تحفظ کو کمزور کرتا ہے، امتیازی سلوک ان کی آوازوں کو دباتا اور جامع و پائیدار معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ 2030 کے ایجنڈے کی تکمیل میں پانچ سال سے بھی کم وقت باقی ہے اسی لیے یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے تیزرفتار اجتماعی اقدامات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔
مساوی اجرت کا فروغعالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) اور ادارہ معاشی تعاون و ترقی (او ای سی ڈی) کے تعاون سے بین الاقوامی مساوی اجرت اتحاد (ایپک) کی شریک قیادت کے طور پر یو این ویمن حکومتوں، آجروں، تجارتی انجمنوں اور محققین کی شراکت میں مساوی اجرت کو فروغ دینے کے لیے نمایاں کام کر رہا ہے۔
ادارے نے حکومتوں پر واضح کیا ہے کہ وہ قانون اور پالیسی سے متعلق مضبوط طریقہ کار متعارف کرائیں، آجر شفاف اجرتی نظام نافذ کریں، مساوات پر مبنی آڈٹ کرایا جائے اور کام کی جگہوں پر صنفی مساوات کے لیے حساس ماحول تشکیل دیا جائے۔
محنت کشوں کی انجمنیں سماجی مکالمے اور اجتماعی سودے بازی کو فروغ دیں جبکہ بین الاقوامی و تعلیمی ادارے اور نجی شعبہ اس فرق کو ختم کرنے کے لیے درکار احتساب اور رفتار فراہم کر سکتے ہیں۔
جراتمندانہ اقدامات کی ضرورتآئندہ ایام میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس سے قبل یو این ویمن نے عالمی رہنماؤں کو یاد دلایا ہے کہ مساوی قدر کے کام کے لیے مساوی اجرت 'آئی ایل او' کے کنونشن 100 میں بنیادی انسانی حق کے طور پر شامل ہے۔
یو این ویمن نے کہا کہ اجرت میں مساوات کی مخالفت، انصاف اور تعاون کے ان اصولوں پر حملے کے مترادف ہے جن کی اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی توثیق کی گئی ہے۔
مساوی اجرت کے عالمی دن پر یو این ویمن نے تمام متعلقہ فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے عہد کی تجدید کرتے ہوئے 'ایپک' میں شمولیت اختیار کریں اور صنفی بنیاد پر اجرتوں کے فرق کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے جرات مندانہ اقدامات اٹھائیں۔