گوہر اعجاز نے اقتصادی استحکام کا روڈ میپ دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, June 2025 GMT
سابق نگراں وزیر خزانہ گوہر اعجاز نے ملک میں اقتصادی استحکام اور برآمدات کی ترقی کا روڈ میپ پیش کردیا۔
سوشل میڈیا پر جاری 9 نکاتی روڈ میپ میں گوہر اعجاز نے کہا کہ صنعت کاری اولین ترجیح اور 5 سالہ مستقل صنعتی اور برآمدی پالیسی ضروری ہے۔
سابق نگراں وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ شرح سود 6 فیصد اور صنعت کےلیے توانائی کے نرخ 9 سینٹ فی یونٹ ہونا اہم ہے، تنخواہ دار افراد کےلیے زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح 20 فیصد تک ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ 10 ارب روپے سے زیادہ منافع کمانے والی کارپوریشنز پر سپر ٹیکس لگایا جائے ،ٹیکس فائلرپراپرٹی خریداروں پرودہولڈنگ ٹیکس واپس لیا جانا چاہیے۔
گوہر اعجاز نے یہ بھی کہا کہ زراعت کوجدید بنانا،پیداواری صلاحیت کو پیمانہ بنانا اوراسےیقینی بنانا ہوگا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: گوہر اعجاز نے
پڑھیں:
اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں عوامی مسائل کا علم ہونا چاہیے. جسٹس حسن اظہر رضوی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 ستمبر ۔2025 )سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں پتا ہونا چاہیے کہ عوامی مسائل کیا ہیں سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی.(جاری ہے)
ٹیکس پیئر کے وکیل خالد جاوید نے دلائل کا آغاز کیا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ میں بل لانے کا طریقہ کار کیا ہے وکیل ٹیکس پیئر نے موقف اپنایا کہ پالیسی میکنگ اور ٹیکس کلیکٹر دو مختلف چیزیں ہیں، ٹیکس کلیکٹر ایف بی آر میں سے ہوتے ہیں جو ٹیکس اکھٹا کرتے ہیں، پالیسی میکنگ پارلیمنٹ کا کام ہے، اگر میں پالیسی میکر ہوں تو میں ماہرین سے پوچھوں گا کہ کیا عوام کو اس کا فائدہ ہے یا نقصان. جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں انہیں پتا ہونا چاہیے عوامی مسائل کیا ہیں، کیا آج تک کسی پارلیمنٹرین نے عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے تجاویز دی ہیں، جس کمیٹی کی آپ بات کر رہے ہیں اس میں بحث بھی ہوتی ہے یا جو بل آئے اسے پاس کر دیا جاتا ہے . وکیلخالد جاوید نے موقف اپنایا کہ قومی اسمبلی میں آج تک کسی ٹیکس ایکسپرٹ کو بلا کر ٹیکس کے بعد نفع نقصان پر بحث نہیں ہوئی، وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ سپر ٹیکس کے حامی ہیں، قومی اسمبلی میں ایسی بحث نہیں ہو سکتی جو ایک کمیٹی میں ہوتی ہے. جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ یہی سوال ہم نے ایف بی آر کے وکلا سے پوچھا تھا، ایف بی آر کے وکلا نے جواب دیا تھا مختلف چیمبرز آف کامرس سے ماہرین کو بلایا جاتا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مختلف کمیٹیاں ہیں، لیکن کمیٹیوں کے کیا نتائج ہوتے ہیں یہ آج تک نہیں بتایا جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ اصول تو یہ ہے کہ ٹیکس نافذ کرنے سے پہلے ماہرین کی رائے ہونی چاہیے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ بات بھی سامنے ہونی چاہیے کہ اگر 10 فیصد ٹیکس لگ رہا ہے تو کتنے لوگ متاثر ہوں گے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت جمعہ کے روز ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی گئی.