اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ گلوبل جی ڈی پی گروتھ 2025 میں 2.8فیصد ہے۔ ہم استحکام کی جانب گامزن ہیں، کامیابی سے مہنگائی پر قابو پا لیا ہے۔ معیشت درست سمت میں گامزن ہے۔ قومی اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پوری اکنامک ٹیم کو عیدالاضحیٰ مبارک! عالمی مجموعی پیداوار کی شرح میں کمی آئی ہے اور گلوبل جی ڈی پی نمو 2.

8 فیصد ہے تاہم ملکی مجموعی پیداوار میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور جی ڈی پی میں اضافہ معاشی ترقی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معاشی ریکوری کو عالمی منظرنامے میں دیکھا جائے گا۔2023  میں ہماری جی ڈی پی گروتھ منفی تھی اور مہنگائی کی شرح 29 فیصد سے زائد ہوچکی تھی۔ اس کے بعد معیشت میں بتدریج بہتری آرہی ہے اور افراط زر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی۔ 2023 میں دوہفتوں کے لیے ذخائر موجود تھے۔ 2023 کے بعد جو ریکوری شروع ہوئی وہ درست سمت میں گئی۔ 2023 میں مہنگائی 29  فیصد سے کراس کر گئی تھی۔ ابھی مہنگائی کی شرح 4.6 فیصد ہے ، 2023ء میں جی ڈی پی منفی میں تھی رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ 2.7فیصد رہی، ہدف 3.6 تھا۔ پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آ گیا۔  پاکستان پر قرض 75 ہزار ارب روپے سے زائد ہو گیا۔ جی ڈی پی میں اضافہ معاشی ترقی کی علامت ہے۔ پاور سیکٹر ریفارمز میں ریکوریز ریمارک ایبل ہیں۔ معاشی ریکوری کو عالمی منظر نامے میں دیکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اچھے کاموں کی بنیاد وزیراعظم شہبازشریف نے رکھی۔  رواں مالی سال زرمبادلہ کے ذخائر میں شاندار اضافہ ہوا۔ ہم نے معیشت کے ڈی این اے کو بدلنا ہے جس کے لیے سٹرکچرل ریفارمز ضروری ہیں۔ ہم کئی وزارتوں کو ڈیل کر چکے ہیں اور کئی محکموں کو ضم کرچکے ہیں۔ توانائی اصلاحات آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہم نے اپنا فٹ پرنٹ ٹھیک کرنا ہے۔ جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح 68 سے کم ہو کر 65 فیصد پر آگئی۔ پبلک فنانس پر بہت بات ہوتی ہے، پچھلے سال پالیسی ریٹ نیچے آیا۔ آئی ایم ایف پروگرام سے ہمارا اعتماد بحال ہوا۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کا مقصد پائیدار معاشی استحکام کا حصول ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی 5 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوا۔ شعبہ توانائی میں شاندار اصلاحات ہوئیں۔ ڈسکوز میں پیشہ ور بورڈز لگائے جس سے ڈسٹری بیوشن لاسز میں کمی آئے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ہر ٹرانسفارمیشن کیلئے دو سے تین سال درکار ہوتے ہیں۔ پاور سیکٹر اصلاحات میں ایک سال میں تاریخی ریکوری ہوئی ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی گورننس میں بہتری آئی ہے ۔ انرجی اصلاحات کو اویس لغاری اور علی پرویز ملک تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ڈیسکوز کے بورڈ نجی شعبے سے لائے ہیں، اس سے کارکردگی بہتر ہو رہی ہے۔ 1.27 ٹریلن روپے کے گردشی قرضے کے حل کے لیے بینکوں سے معاہدہ بھی ہوا ہے۔ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ پچھلے سال پالیسی ریٹ نیچے آنے سے ڈیبٹ سروسنگ کی مد میں کافی بچت ہوئی۔ پنشن ریفارمز کے تحت ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم کی طرف جا چکے ہیں۔ لیکیج کا روکنا بہت ضروری ہے، اس سلسلے میں رائٹ سائزنگ کی جارہی ہے۔ 43 وزارتیں اور 400  اٹیچ ڈیپارٹمنٹس کی رائٹ سائرنگ کی جارہی ہے۔ بجٹ میں بتاؤں گا کہ اسے آگے کیسے لے کر جائیں گے۔ اسے مرحلہ وار آگے لے کر جارہے ہیں۔ ہم وزارتوں اور محکموں کو ضم کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال ترسیلات زر 38 ارب ڈالر ہونے کا امکان ہے۔ ریٹیل رجسٹریشن 74 فیصد ہوئی ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جولائی تا اپریل 1.9 ارب ڈالر سرپلس رہا۔ امپورٹس ہماری ساڑھے 16 فیصد بڑھی ہیں۔ آئی ٹی میں فری لانسرز نے 400 ملین ڈالرز کمائے ہیں۔  بھارتی جارحیت پر افواج پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا۔ اکنامک محاذ پر بھی ایک جنگ چل رہی تھی۔ ہماری افواج پاکستان نے اپنا لوہا منوایا۔  بیرونی شعبے میں دوہرے بحرانوں کا المیہ رہا ہے۔  لوکل انویسٹرز آئیں گے تو فارن انویسٹرز آئیں گے۔ 800 ارب قرضوں کی ادائیگی میں بچائے۔  عالمی مالیاتی ادارے ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں قرضوں کی ادائیگیوں میں جتنا بھی بچے گا اس کو دیگر سیکٹر میں لے جائیں گے۔ صنعتوں کی گروتھ میں 6 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ خدمات کے شعبے میں دو فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔ رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تین فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ زرعی شعبے کا اضافہ محض 0.6 فیصد تک بڑھا ہے۔ لائیو سٹاک کی وجہ سے زراعت کے شعبے میں ترقی ہوئی۔ برآمدات 6.8 فیصد اضافے سے 27 ارب 30 کروڑ ڈالر پر پہنچ گئیں۔ معیشت کا حجم 372 ارب ڈالر کے مقابلے میں 411 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ فی کس آمدنی 162 ڈالر اضافے کے بعد 1824 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت پرائیویٹ سیکٹر سے آئندہ اپنی شرائط پر قرض لے گی، رواں مالی سال انفرادی فائلرز کی تعداد میں دوگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، بیرون ملک پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے انویسٹ کررہے ہیں،  اکاؤنٹس 8 لاکھ سے تجاوز کر گئے۔ پاسکو کرپشن کا گڑھ ہے اسے ختم کرنے جارہے ہیں۔ 2 سال کے دوران ترسیلات زر میں تقریباً 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔  اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.49 فیصد کمی ہوئی، آلو کی فصل میں 11.5 فیصد، پیاز میں 15.9 فیصد اضافہ ہوا جبکہ مکئی میں 15.4 فیصد،چاول میں 1.4 فیصد کمی ہوئی، اسی طرح کپاس میں 30 فیصد، گندم میں 8.9 فیصد، گنے کی پیداوار میں 3.9 فیصد کمی ہوئی ہے ۔ آئی ٹی تیزی سے ترقی کرنے والا نمایا شعبہ قرار دیا گیا۔ اس کی برآمدات میں 23.7 فیصد اضافہ ہوا۔ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی گروتھ اضافہ کے ساتھ 4.5 فیصد رہی ، کیمیکل گروتھ کمی کے ساتھ 5.5 فیصد رہی، فارماسوٹیکل میں گروتھ اضافہ کے ساتھ 2.3 فیصد رہی، کان کنی اور کھدائی کی گروتھ کم ہو کر 3.4 فیصد رہی۔  رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی سے مارچ کے دوران تعلیم پر جی ڈی پی تناسب سے 0.8 فیصد خرچ ہوا، اعلیٰ تعلیم کے لیے 61.1 ارب روپے مختص کیے گئے، پاکستان میں 269 یونیورسٹیاں ہیں جن میں 160 سرکاری اور 109 نجی ہیں، اسکل ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 60 ہزار سے زائد نوجوانوں کو آئی ٹی، زراعت، کان کنی، تعمیرات کے شعبوں میں تربیت دی گئی۔رپورٹ میں لکھا ہے کہ عالمی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، سیلاب نے 3.3 کروڑ افراد کو متاثر کیا اور 15 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، پاکستان میں سال 2024 کا اوسط درجہ حرارت 23.52 ڈگری رہا، پاکستان میں سال 2024 میں 31 فیصد زائد بارشیں ہوئیں۔کل آمدن 13.37 کھرب رہی، ٹیکس آمدن میں 25.8 فیصد اضافہ ہوا، ٹیکس آمدن 9.14 فیصد رہی، نان ٹیکس آمدن میں 68 فیصد اضافہ ہوا، نان ٹیکس آمدن 4.23 کھرب رہی، ٹوٹل اخراجات 16.34 کھرب روپے رہے، کرنٹ اخراجات میں 18.3 فیصد اضافہ رہا،کرنٹ اخراجات 14.59 فیصد رہے،  ترقیاتی اخراجات میں 32.6 فیصد اضافہ ہوا، 1.54 کھرب روپے رہا، مالیاتی خسارہ 2.6 فیصد رہا، پرائمری سرپلس 3 فیصد رہا۔ مشینری اور ٹرانسپورٹ کی گروتھ بڑھی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے 37 سے 38 ارب ڈالر اس سال ترسیلات زر رہنے کا امکان ہے عالمی مہنگائی میں اضافے کے باوجود ہماری مہنگی میں کمی ریکارڈ ہوئی ہے رواں سال تک شرح سود میں خاطر خواہ  کمی ریکارڈ ہوئی ہے این ایف سی ایوارڈ کا اجلاس اگست میں ہوگا۔ این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کا فارمولا تبدیل کرنے پر غور ہوگا۔ صوبوں سے مشاورت ہوگی۔ انکم ٹیکس فائلرز37لاکھ سے تجاوز کرگئے۔ ہائی ویلیو فائلرزمیں178فیصداضافہ ہوا۔ اس عرصے کے دوران سکوک اور طویل مدتی قرضوں کی میچورٹی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہم   قرض بہ لحاظ جی ڈی پی کو 65فیصد سے نیچے لانا چاہتے ہیں، ڈیبٹ منیجمنٹ آفس کو بہتر بنارہے ہیں۔انہوں  نے بتایا کہ مالی سال کے دوران انڈسٹری کی گروتھ4.8فیصد رہی، کیمیکلز،آئرن اسٹیل کے شعبے نیچے گئے ہیں۔ سروسز کے شعبے نے2.9فیصد پر گروتھ کی۔  پچھلے سال یہ2.2فیصد تھا، انفارمیشن اور کمیونیکیشن شعبے نے6.5فیصد پر گروتھ کی۔ اسی طرح کنسٹرکشن اور رئیل اسٹیٹ3.5فیصد،فوڈ سروسز4.1فیصد اضافہ ہوا۔ ٹرانسپورٹ بھی بڑھی ہے۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ زراعت نے0.6فیصد گروتھ کی، لائیواسٹاک نے4.7فیصد پر گروتھ کی جب کہ ہدف 3فیصد تھا۔ رواں مالی سال کے دوران چاول، مکئی سمیت بڑی فصلوں میں حکومتی مداخلت ختم کی، زرعی شعبہ کے قرضوں میں بھی اضافہ ہوا، زرعی قرضے2 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔  معاشی سکیورٹی قومی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ  لوکل سرمایہ کار آئیں گے تو غیرملکی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔  ایس آئی ایف سی پر توجہ ہے،یہ گیم چینجر ثابت ہوگا۔ ہمارامقامی وسائل پر دارومدار ہونا چاہئے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 14 فیصد تک لے کر جانا ہے۔ ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 18 فیصد ہے۔بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے  کہا کہ جہاں لوگ بل نہیں دیں گے وہاں لوڈ شیڈنگ تو ہوگی۔ آئی ایم ایف کی حالیہ قسط میں مشکل کا سامنا تھا بھارتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے اس میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کیساتھ کھڑے ہیں ۔  ہم معاشی استحکام کی طرف گامزن ہیں،آئی ایم ایف پروگرام سے ہمارا اعتماد بحال ہوا، آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد میکرو اکنامک استحکام تھا، عالمی گروتھ کی نسبت پاکستان نے جی ڈی پی گروتھ میں ریکوری کی۔ہم نے اب جی ڈی پی کے استحکام کی طرف بڑھنا ہے، ہم اس وقت بہتر سمت میں چل رہے ہیں،  پی ایس ڈی پی کی رقم سٹر یٹیجک منصوبوں پر خرچ کی جائے گی ، آبادی کا بڑھنا بڑا چیلنج ہے۔ جاری کھاتوں کا خسارہ اب سرپلس میں ہے، اکاؤنٹس 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں، گزشتہ 20 سال میں پہلی بار پرائمری بیلنس سرپلس ہوا۔بی آئی ایس پی کے لیے بجٹ میں مختص رقم میں اضافہ کیا گیا، 2024 میں بی آئی ایس پی بجٹ ایلوکیشن 593 ارب روپے تک پہنچ گئی، بی آئی ایس پی کفالت پروگرام کے ذریعے 99 لاکھ خاندانوں کی معاونت جاری ہے، اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام میں 16 ہزار افراد کو آئی ٹی تربیت دی جاری ہے، معیشت کا حجم 372 ارب ڈالر کے مقابلے میں 411 ارب ڈالر ہوگیا، فی کس آمدنی 162 ڈالر کے اضافے سے 1824 ڈالر تک پہنچ گئی۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم ائی ایم ایف کے پروگرام میں گئے جس کا مقصد مالیاتی استحکام کو ٹھوس بنانا تھا فنڈ میں جانے کا ایک دوسرا مقصد سٹرکچرل اصلاحات کو اگے بڑھانا تھا،ٹیکسیشن کے سلسلے میں اصلاحات پر عمل درامد جاری ہے اور وزیراعظم شہباز شریف اس سارے عمل میں رہنما کا کردار ادا کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ سارے عمل میں ٹیکنالوجی کا بڑا ہاتھ ہے ائندہ مالی سال میں بھی اصلاحات کے عمل کو اگے بڑھایا جاتا رہے گا اس سال کرنٹ اکاؤنٹ جولائی سے اپریل تک 1.9 بلین ڈالر سرپلس رہا ہے اور وہاں مالی سال کو ہم سرپلس کے ساتھ ہی مکمل کریں گے،انہوں نے کہا کہ برامدات میں سات فیصد کا اضافہ ہوا ہے اس میں ائی ٹی کے شعبہ کی برامدات کا حصہ کافی زیادہ ہے اور ملک میں کام کرنے والے فری لانسرز نے اس سال 400 ملین ڈالر کمائے ہیں امپورٹ میں اضافہ 12 فیصد رہا ہے اس میں ائل کا حصہ کم کم ہے جبکہ نان ائل کا حصہ زیادہ ہے اور امپورٹ میں کافی بڑی تعداد میں زرعی مشینری ائی ہے،وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں ترسیلات  وطنی اب تک 31 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں اور اس بات کی توقع ہے کہ مالی سال کے اختتام تک یہ 37 سے 38 ارب ڈالر کے درمیان ہو جائیں گی  ریونیو کلیکشن میں 26 فیصد کا اضافہ ہوا ہے 3.7 ملین فائلز ہیں ریٹیل کی سطح میں بھی گروتھ ائی ہے انہوں نے کہا کہ ڈیٹا کے بوجھ میں کمی کے لیے بھی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ بینکنگ سسٹم کو یہ میسج دے دیا گیا ہے کہ حکومت اگر قرضے لے گی بھی تو اپنی شرائط پر لے گی انہیں اب نجی شعبے کے لیے قرضوں کو بڑھانا ہوگا وزارت خزانہ  میں ڈیٹ سروسنگ کے افس کو ری سٹرکچر کیا جائے گا انڈسٹری کی گروتھ 4.8 فیصد رہی ہے تاہم ائرن اور سٹریٹ کے سیکٹر سمیت کچھ سیکٹرز میں کمی ائی ہے ائندہ مالی سال میں صنعت  کے سیکٹر میں بہت تیزی ائے گی زراعت میں لائیو سٹاک کا سیکٹر 4.7 فیصد کی گروتھ کے ساتھ ترقی یا ب ہوا ہے ملکی میجر فصلیں جن میں کپاس گندم اور مکئی شامل ہے ان میں 13 فیصد کی کمی ائی ہے حکومت چاول کی اچھی برامدات ہوئی ہیں تاہم عالمی سطح پر چاول کی قیمت کم ہوئی ہے حکومت میں سٹوریج کی سہولتوں کو بڑھایا جا رہا ہے اور اس میں نجی شعبہ بھی اگے ا رہا ہے صوبہ پنجاب نے اس سلسلے میں کام شروع کر دیا ہے،،انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کو یہ سہولت ملنی چاہیے کہ وہ اپنی فصلوں کو سٹور کر سکیں اور جب قیمت اچھی ہو تو اسے فروخت کرنے کے لیے لے ائیں بھارتی اور مڈل مین کا کردار ختم ہونا چاہیے اور سٹوریج کی بڑھنے سے کاشتکاروں کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کے لیے فنانسنگ میں اضافہ ہوا ہے،وزیر خزانہ نے کہا کہ بیرونی سیکٹر میں پاکستان کی ساکھ  میں بہت زیادہ اضافہ ہو بین الاقوامی دو طرفہ کثیر قومی اداروں کا اعتماد پاکستان پر بڑھا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض کی قسط مل گئی ہے جب آئی ایم ایف کے سامنے پاکستان کا معاملہ ٓا رہا تھا تو بہت سے مسائل پیدا ہوئے جن میں بھارت کی جارحیت بھی شامل ہے۔  اکنامک سیکیورٹی بہت اہم ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہٓ ائی سی ایف سی مختلف سیکٹرز پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور یہ ایک گیم چینجر معاملہ ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں مقامی وسائل پر بھی انحصار کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف سے ملنے والے پروگرام کی روشنی میں آئندہ مالی سال میں منصوبوں پر عمل درآمد شروع کیا جائے گا۔ عالمی بینک کی غربت میں اضافہ کے حوالے سے رپورٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عالمی  بینک کی رپورٹ کی وجہ سے غربت کی سطح میں تبدیلی ہوئی ہے وہ خود اس رپورٹ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں،انہوں نے بے روزگاری کے حوالے سے کہا کہ حکومت کا کام سسٹم دینا ہوتا ہے وہ اس بات کے حق میں نہیں ہیں کہ یہ اعلان کیے جائیں کہ ایک کروڑ یا دو کروڑ نوکریاں دی جائیں گی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایکو سسٹم دیں ، کم از کم اجرت کی عدم ادائیگی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ انفورسمنٹ کا مسئلہ ہے قوانین موجود ہیں وہ اس بارے میں متعلقہ اداروں سے بات کریں گے،وزیر خزانہ نے کہا کہ سٹرکچرل  اصلاحات کو جاری رکھا جائے گا، پائیدار گروتھ کی طرف لے جائیں گی،انہوں نے کہا کہ بڑی فصلوں کی پیداوار میں جو کمی ہوئی ہے اس میں موسمیاتی تبدیلی ایک عنصر ہو سکتی ہے تاہم اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں ائی  ایم ایف نے1.3 بلین ڈالر کا موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے جو پیکج دیا ہے اس سلسلے میں 13 اصلاحات کی جانا ہے ، سب وزارتوں کے ساتھ مل کر ان پر عمل کیا جائے گا عالمی بینک ائندہ 10 سال میں 20 ارب ڈالر دے گا اس میں ایک تہائی موسمیاتی تبدیلی کے لیے ہے اس لیے وہ کہہ سکتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے تاہم دیگر مسائل موجود ہیں انہوں نے کہا کہ ابادی کا بڑھنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے اس وقت ہم 24 کروڑ ہیں اگر یہ ابادی 300 سے 400 ملین پر چلی جائے تو اس ملک کا کیا حشر ہوگا، ملٹی لیٹر اور بائی لیٹر پارٹنر کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے تاہم ہم اپنے معاشی ایجنڈا کے تحت بات چیت کرتے ہیں مائیکرو اکنامک استحکام حاصل کیا ہے تاہم کنزیومر لیڈ گروتھ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سے بیلنس اف پیمنٹ کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور ہماری ترقی ڈی ریل  ہو سکتی ہے وزیر خزانہ نے کہا کہ اخراجات میں بہت کمی کی گئی ہے بجٹ میں اس کا اظہار بھی ہو جائے گا 20 22 کے خسارہ کو دیکھا جائے تو اج اس میں واضح فرق نظر ائے گا انہوں نے بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران اٹھنے والے اخراجات حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بجٹ میں پہلے سے دفاعی اخراجات کا کور ہوتا ہے ،محمد اورنگزیب نے کہا کہ برآمدات 6.8 فیصد اضافے سے 27 ارب 30 کروڑ ڈالر پر پہنچ گئیں، ایف بی آر ٹیکس وصولی 25.9 فیصد بڑھ کر 10 ہزار 234 ارب روپے تک پہنچ گئی، سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی سے اسٹاک مارکیٹ میں 52.6 فیصد اضافہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 46 ہزار 604 میگاواٹ ہے، 56 ہزار نوجوانوں کو آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں تربیت دی جارہی ہے اور نوجوانوں کو مقامی اور بین الاقوامی جاب مارکیٹ کے لیے تیار کیا جارہا ہے، صنعتی ترقی 4.8 فیصد، گاڑیوں کی صنعت میں 48 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اقتصادی سروے کے نمایاں نکات میں  بتایا گیا ہے کہ کل پبلک ڈیٹ میں جولائی  تا مارچ کے عرصہ میں 6.7فی صد کا اضافہ ہوا  ، قرضوں میں  گروتھ گذشتہ مالی سال  کے اسی عرصہ  میں 7.4فی صد  تھی ،ملک کے زمہ ایکسٹرنل ڈیٹ 87.4ارب ڈالر ہو  گیا  مالی سال کے پہلے 9ماہ میں اس میں883ملین ڈالر کا اضافہ ہوا، ایف ڈی آئی  اور افراط زر میں بھی کمی آئی ، فی کس آمدن  ڈالر  ,1824ڈالر ہو گئی ، گزشتہ سال کے مقابلے میں  جی ڈی پی میں  9.1فی صد کا اضافہ ہو ا  ر,واں مالی سال معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد تھا جو 2.7 فیصد رہی، زرعی شعبے کی ترقی 2 فیصد ہدف کے مقابلے میں 0.6 فیصد اور خدمات کے شعبے کی ترقی 4.1 فیصد ہدف کے مقابلے میں 2.9 فیصد ہے۔صنعتی شعبے کی ترقی 4.8 فیصد رہی،  جبکہ دیگر فصلوں کی پیداوار میں 4.8 فیصد کا اضافہ ہوا، سبزیوں کی پیداوار میں 7.8 اور پھلوں کی پیداوارمیں 4.1 فیصدکا اضافہ ہوا۔ رواں مالی سال لائیو اسٹاک کی پیداوار 4.4 فیصد سے بڑھ کر 4.7 فیصد ہوگئی، مویشیوں کی آبادی میں3.77 فیصد تک کا اضافہ ہوا۔رواں مالی سال مجموعی سرمایہ کاری 14.2 فیصد ہدف کے مقابلے میں 13.8 فیصد رہی، فکسڈ سرمایہ کاری 12.5 فیصد ہدف کے مقابلے میں 12 اور نجی سرمایہ کاری 9.7 فیصد کے مقابلے میں 9.1 فیصد رہی۔اس دورانیے میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر 9.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 11.4 ارب ڈالر ہوگئے، ایف بی آر کے محصولات میں جولائی تا اپریل 26.3 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ نان ٹیکس آمدنی میں 69.9 فیصد اضافہ ہو،اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ عالمی انفلیشن کی سطح 2024 میں 5.7 فیصد رہی ہے جبکہ 2025 میں یہ گر کر 4.3 فیصد رہنے کی توقع ہے اور ائندہ مالی سال میں یہ ست تھی.6 فیصد ہو سکتی ہے، جی ڈی پی کے تناسب سے بچتوں میں اضافہ 14.1 فیصد تھا یہ گزشتہ مالی سال میں 12.6 فیصد تھی ملک میں زراعت کی شرح ترقی 0.56 فیصد رہی کاٹن جننگ میں 19.03 فیصد کی کمی ائی ہے گزشتہ مالی سال میں اس کی گروتھ 47.23 فیصد تھی لائیو سٹاک سیکٹر زراعت کا 63.60 فیصد ہے اور چوٹی پی میں اس کا حصہ 14.97 فیصد ہے لائیو سٹاک میں ترقی کی شراف 4.72 فیصد رہی جنگلات کے سیکٹر میں گروتھ 3.03 رہی ہے فشریز کے سیکٹر میں یہ گروتھ فیصد رہی،سند کے سیکٹر میں ایل ایس ایم سیکٹر کی گروتھ منفی 1.5 فیصد رہی ٹیکسٹائل کی گروتھ 2.2 اپریل کی گروتھ 7.6 اور خوراک پر مبنی صنعتوں کی شرط رکھی منفی 0.5 فیصد رہی،مالیاتی سیکٹر میں حکومت نے مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 1896 ارب روپے کا سرپلس حاصل کیا جولائی سے مارچ کے عرصے میں ملک کا مالی خسارہ 2.6 فیصد رہا پر جولائی سے مارچ کے عرصہ میں پرائمری سرپلس جی ڈی پی کے تین فیصد کے مساوی سرپلس رہا،جولائی سے مارچ کے عرصے میں اخراجات میں 19.4 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے گزشتہ سال اسی عرصہ میں اخراجات 13 682 بلین رہے تھے،کرنٹ اخراجات میں 18 پوائنٹ تھری فیصد کا اضافہ ہوا جو 14588 ارب روپے رہے ملک پی ایس ٹی پی کے اخراجات میں 28.6 فیصد کا اضافہ ہوا یہ 413 ارب روپے رہے،ملک کے کل ریونیو میں 36.7 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا یہ جولائی سے مارچ تک کے عرصے میں 1367 ارب روپے رہے  نجی  شعبہ نے  767 ارب روپے کا قرضہ حاصل کیا،کراچی سٹاک ایکسچینج میں 50.2 فیصد کی گروتھ حاصل کی کہ ایس ای 100 انڈیکس ایک لاکھ 17 ہزار 807 پوائنٹ پر چلا گیا،قومی بچت کی سکینوں جن میں ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ سپیشل سیونگ سرٹیفکیٹ ریگولر انکم سرٹیفکیٹس اور پرائز بانڈز شامل ہیں ان میں ان فلو 171.3 بلین رہا جبکہ اؤٹ فلو 110 ارب روپے تھا،اس عرصے میں اشیاء  میں ٹریڈ بیلنس 21.3 ارب روپے خسارے کا رہا جبکہ سروسز کی سطح میں تجارتی خسارہ 2.5 بلین ڈالر رہا،ملک کے زمہ پبلک ڈیٹ کی سطح 76 ہزار سات ارب روپے ہو گئی،اس میں سے اندرونی قرضوں کا حجم 51518 ارب روپے ہے اور ایکسٹرنل ڈیٹ 24 89 4 ارب روپے ہے،جولائی سے مارچ تک کے عرصہ میں ملک نے 649 ارب روپے سود کی مد میں ادا کیے،حکومت نے اس عرصہ میں 2.4 ٹریلین روپے کے ٹریژری بل ادا کی ہے، اس عرصے میں حاصل ہوئے،اقتصادی  سروے میں بتایا گیا ہے پاکستان میں شرح خواندگی کی شرح 60.65 فیصد ہے جن میں مردوں کی شرح خواندگی 68 فیصد اور خواتین بھی شراء خواندگی 52.8 فیصد ہے ٹرانس جینڈر میں اس کی راہ 40.15 فیصد ہے اربن شرح خواندگی 74.09 فیصد ہے دیہی خواندگی 51.5 س فیصد ہے پنجاب میں سب سے زیادہ شرح خواندگی ہے جو 66.25 فیصد سندھ میں 57.54 فیصد کے پی کے میں 51.09 فیصد اور بلوچستان میں 42.01 فیصد ہے مالی سال کے دوران ایچ ای سی کے 129 منصوبوں کے لیے 61 بلین روپے مختص کیے گئے،اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے ملک میں صحت پر اخراجات 924.9 ارب روپے رہے جو جی ڈی پی کا 0.9 فیصد ہے ملک میں بیسک حل یونٹوں کی تعداد 5434 ہے اقتصادی سروے کے مطابق ملک کی ابادی 241.5 ملین ہے ملک میں مردوں کی ابادی 124.32 ملین جبکہ خواتین کی ابادی 117.15 ملین ہے خواتین کی تعداد کل ابادی کا 48.5 فیصد ہے, ملک میں 15 سے 29 سال کے بچوں کی ابادی کا تناسب 26 فیصد ہے 15 سے 59 سال تک کے افراد کا ابادی میں تناسب 53 فیصد ہے وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کے تحت 16ہزار ائی ٹی سٹوڈنٹس کو تربیت دی گئی, ٹرانسپورٹ کے سیکٹر میں بتایا گیا ہے کہ این ایچ اے کے نیٹ ورک کی لمبائی 14480 کلومیٹر ہے, بندرگاہوں پر کارگو کی ہینڈلنگ 74ہز572 ملین ٹن ہے پاکستان پوسٹ کا نیٹ ورک 984 9 ہے پی بی سی براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک کے 80 یونٹس ہیں, ملک میں بجلی کی پیداوار کی کل گنجائش 46605 میگا واٹ ہے, ملک میں گیس 31 ایم ایم سی ایف ڈی پیدا ہوتی ہے.اقتصادی سروے رپورٹ2024-25 کے مطابق وفاقی و صوبائی شعبہ ہائے تعلیم میں مجموعی قومی پیداوار کا محض 0.8فیصد خرچ کیا گیاجبکہ گذشتہ سال 1.5خرچ کیاگیا تھاگذشتہ مالی سال کے دوران تعلیمی بجٹ کیلئے 1251ملین روپے خرچ کئے گئے تھے جبکہ اس سال 891ملین روپے خرچ ہوئے اورمجموعی طور پر تعلیمی بجٹ351ملین روپے کم ہوا ہے  ملک بھر میں اس وقت یونیورسٹیوں کی کل تعداد 269ہے مجموعی یونیورسٹیوں میں سے 160سرکاری اور 109نجی یونیورسٹیاں ہیںہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحت اعلی تعلیم کے شعبے پر 61ارب 10کروڑ روپے خرچ کیے گئے یونیورسٹی سطح پر پی ایچ ڈی فیکلٹی ممبرز کی شرح 37.97فیصد ہے۔وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اورنگ زیب آج آئندہ مالی سال2025-26   کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی  پیش کریں گے ،   اجلاس شام 5 بجے طلب کیا گیا ہے ،بجٹ دستاویزات سینٹ میں بھی پیش کی جائیں گی ، اس سے قبل وفاقی کابینہ بجٹ کی منظوری دے گی ،، وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 17 ہزار 500 ارب روپے  رہے گا ، نئے مالی سال کے لیے ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 14 ہزار 100 ارب روپے ہوگا۔ جس کے لئے نئے ٹیسوں کا لگنا  نا  گزیر  ہے ، انکم ٹیکس ،سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسایز  کی کچھ ایگزشنز ختم ہوں گی ،بجٹ میں دفاع، ترقیاتی منصوبوں، سود کی ادائیگیوں، سبسڈی، گرانٹس اور محصولات کے اہداف کو حتمی شکل دے دی گئی ۔بجٹ میں سود کی ادائیگیوں کے لیے مجموعی طور پر 9 ہزار ارب روپے مختص کیے جانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جس میں مقامی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے لیے 7 ہزار 7 سو ارب روپے جبکہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ایک ہزار 300 ارب روپے شامل ہیں۔سبسڈی کی مد میں ایک ہزار 400 ارب اور گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 620 ارب روپے خرچ کیے جانے کا امکان ہے  جبکہ صوبائی حکومتوں سے ایک ہزار 200 ارب روپے سرپلس ملنے کی توقع ہے۔۔ وفاقی وزارتوں اور محکموں کیلئے نئی گاڑیاں خریدنے پر پابندی عائد رہے گی  ٹیکس نظام میں بھی اصلاحات متوقع ہیں، جن کے تحت چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس بڑھا کر 18 فیصد کیے جانے کا امکان ہے، جبکہ شیئرز پر منافع کی شرح میں بھی اضافہ متوقع ہے۔کابینہ ڈویژن کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 50 ارب 33 کروڑ روپے اور ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 50 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے جبکہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق منصوبوں کے لیے 2 ارب 78 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جائے گی۔حکومت نے ترسیلات زر کا ہدف 39 ارب 43 کروڑ ڈالر سے زائد رکھنے کی تجویز دی ہے، رواں مالی سال ترسیلات زر کا تخمینہ 37 ارب 45 کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔آئندہ مالی سال برآمدات کا ہدف 35 ارب 28 کروڑ ڈالر کی تجویز ہے جبکہ رواں مالی سال برآمدات 32 ارب 85 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔آئندہ مالی سال درآمدات کا ہدف 65 ارب 21 کروڑ ڈالر سے زیادہ رکھنے کا امکان ہے جبکہ رواں مالی سال درآمدات کا 58 ارب 30 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف 2 ارب 11 کروڑ ڈالر سے زائد رکھا گیا ہے جبکہ رواں مالی سال کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کا تخمینہ 1 ارب 52 کروڑ ڈالر ہے۔خدمات کی برآمدات کا ہدف 14 ارب ڈالر سے زائد رکھا گیا ہے، جو رواں مالی سال کے 11 ارب 48 کروڑ ڈالر کے تخمینے سے کہیں زیادہ ہے  ، مجوزہ بجٹ کے مطابق حکومت نے دفاعی بجٹ میں 18 فی صد اضافہ کیا ہے، قرض ادائیگی پر 6200 ارب روپے خرچ ہوں گے۔وفاقی بجٹ میں مجموعی آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 400 ارب روپے لگایا گیا ہے جب کہ ایف بی آر کے ذریعے ٹیکس وصولی کا ہدف 14 ہزار 130 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔  تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 5 سے ساڑھے 7 فیصد تک اضافے کی تجویز زیر غور ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے نسبتاً کم فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ تعلیم کے لیے صرف 13 ارب 58 کروڑ روپے اور صحت کے لیے 14 ارب 30 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ ڈیجیٹل معیشت اور آئی ٹی سیکٹر کے لیے 16 ارب 22 کروڑ روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

حکومت نے اقتصادی سروے 2025-26 جاری کردیا، جی ڈی پی میں اضافہ ریکارڈ

حکومت نے اقتصادی سروے 2025-26 جاری کردیا ہے، سروے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے جاری کردیا۔

اقتصادی سروے کے مطابق جی ڈی پی میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ جی ڈی پی گروتھ 2.7 فیصد ہے، سال 2023 میں جی ڈی پی گروتھ منفی میں تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • مہنگائی پر قابو پا لیا‘ ملکی معیشت درست سمت میں ہے‘وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے پیش کردیا
  • ہم درست سمت میں اور استحکام کی طرف گامزن ہیں،وزیر خزانہ
  • وفاقی وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے جاری کر دیا، معاشی استحکام کی جانب پیش رفت
  • مہنگائی پر قابو پا لیا، ملکی معیشت درست سمت میں ہے، وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے پیش کردیا
  • کس شعبے میں کتنے فیصد اضافہ ہوا؟وزیر خزانہ نے قومی اقتصادی سروے پیش کر دیا
  • مہنگائی پر قابو پا چکے ہیں، ملکی معیشت درست سمت میں ہے، وزیر خزانہ
  • وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب آج اقتصادی سروے پیش کریں گے
  • حکومت نے اقتصادی سروے 2025-26 جاری کردیا، جی ڈی پی میں اضافہ ریکارڈ
  • رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ 2.7فیصد رہی،وزیرخزانہ نے اقتصادی سروے میں اہم بیان