اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل کے جانب سے ایران پر کیے گئے فضائی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایسی کارروائیاں خطے کو تباہ کن کشیدگی کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔
اپنے جاری کردہ بیان میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فریقین پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر تحمل اور دانشمندی کا مظاہرہ کریں اور ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہیں جو مشرقِ وسطیٰ کو مزید عدم استحکام کی طرف لے جائے۔
انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ پہلے ہی سنگین بحرانوں سے دوچار ہے اور موجودہ تناؤ میں اضافہ نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن و سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
انتونیو گوتریس نے واضح کیا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ایک بڑے تنازع میں تبدیل ہو سکتی ہے جس کے اثرات دور رس اور تباہ کن ہوں گے، اس وقت خطے کو امن، مذاکرات اور سفارتی حل کی ضرورت ہے، نہ کہ جنگ اور تصادم کی۔
اقوام متحدہ کی یہ پریشانی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات سمیت متعدد مقامات پر حملے کیے، جس کے بعد خطے میں غیرمعمولی تناؤ اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ عالمی قوتیں صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ
پڑھیں:
غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-19
عمان/برلن( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غزہ پلان’ کے تحت جنگ بندی کے بعد علاقے میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی تجاویز پراردن اور جرمنی، نے واضح کیا ہے کہ اس فورس کی کامیابی اور قانونی حیثیت کے لیے اسے لازماً اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔تاہم، اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا۔ الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزرخارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نہ صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔