حضرت عثمانؓ تیسرے خلیفۂ راشد تھے۔ آپؓ قریش کی مشہور شاخ بنی امیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کے خاندان کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ ایام جاہلیت میں قریش کا قومی علم ’’عقاب‘‘ بہ وقت جنگ اس کی تحویل میں ہوتا تھا۔ آپؓ کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت پر عبد مناف سے اور آنحضور ﷺ سے جا ملتا ہے۔ آپؓ کی والدہ کا نام اروی بنت کریز ہے۔ حضرت عثمان ؓ عام الفیل کے چھٹے برس اور عیسوی سن کے اعتبار سے 576 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ اس اعتبار سے آپؓ عمر میں حضور ﷺ سے چھے برس چھوٹے تھے۔

ابن عساکر کی روایت میں ہے: ’’میں نے مردوں میں حضرت عثمان ؓ سے زیادہ کسی کو خوب صورت نہیں پایا۔ آپؓ درمیانہ قد کے اور خوب رُو تھے۔ رنگ میں سفیدی کے علاوہ سرخی بھی شامل تھی، داڑھی گھنی تھی، جسم کی ہڈیاں مضبوط اور چوڑی تھیں۔‘‘

آپؓ کا شمار قریش کے چند پڑھے لکھے افراد میں ہوتا تھا۔ جب حضور ﷺ پر نزول وحی کا سلسلہ شروع ہُوا تو آپ ﷺ نے حضرت عثمانؓ کا انتخاب بہ طور کاتب وحی فرمایا۔ آپؓ کا شمار حضرت ابوبکر صدیقؓ کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا ہے۔ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آپؓ کو دعوت اسلام دی تو آپؓ نے فوراً قبول کرلی اور مسلمانوں کی ترقی اور اسلام کی اشاعت اور ترویج کے لیے مصروف ہوگئے۔ جب جوان ہوئے تو معززین قریش کی طرح آپؓ نے بھی تجارت میں غیر معمولی کام یابی حاصل کی۔ آپؓ مکہ میں ممتاز اور دولت مند تاجر کی حیثیت سے مشہور تھے۔ حضرت عثمان ؓ کے اسلام قبول کرنے پر آپؓ کے چچا حکم بن ابی العاص نے آپؓ کو ایک کمرے میں بند کرکے کہا: ’’جب تک تم اس نئے مذہب کو نہیں چھوڑو گے میں تمہیں آزاد نہیں کروں گا۔‘‘ مگر آپؓ اس دھمکی میں نہ آئے اور اسلام پر مستحکم اور مستقل رہے تو انہوں نے حضرت عثمانؓ کو آزاد کردیا۔

حضرت عثمانؓ کو حضور ﷺ کا دہرا داماد ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ آپؓ کا پہلا نکاح سیّدہ رقیہؓ سے ہُوا۔ یہ وہ دور تھا جس میں قریش مکہ کی ایذا رسانیاں عروج پر تھیں اور مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا تھا۔ تب آنحضور ﷺ نے حکم دیا کہ مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ چلے جائیں۔ مسلمانوں کو مکہ میں رہ کر اسلام کی تبلیغ کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا، حبشہ ہجرت کرنے کا یہ فائدہ ہوتا کہ اسلام کی کرنیں وہاں بھی پھیل جاتیں۔

چناںچہ رسول پاک ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں پہلی مرتبہ گیارہ مرد اور چار عورتوں نے ہجرت کی جن میں سر فہرست حضرت عثمانؓ اور ان کی زوجہ سیّدہ رقیہؓ تھے۔ ایک دوسری روایت میں لکھا ہے کہ بارہ مرد اور چار خواتین نے پہلی ہجرت حبشہ کی جانب کی اور حضر ت عثمان ؓ اس قافلے کے سردار یا امیر تھے۔ جب حالات میں کچھ بہتری آئی تو چار سال بعد مہاجرین واپس مکہ آگئے۔

غزوۂ بدر کے موقع پر سیدہ رقیہؓ سخت بیمار تھیں، اس لیے آپؐ نے اپنی پیاری بیٹی کی تیمارداری کی خاطر حضرت عثمان ؓ کو گھر پر ہی رکنے کا حکم فرمایا۔ فتح بدر سے واپسی پر سیدہ رقیہؓ انتقال فرما چکی تھیں۔ چناں چہ نبی کریم ﷺ نے بدر کے مال غنیمت میں سے حضرت عثمانؓ کو پورا حصہ دیا اور انہیں اصحاب بدر میں شمار فرمایا۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ کی دوسری صاحب زادی سیدہ ام کلثومؓ کا نکاح عثمان غنیؓ سے ہُوا، مگر نو ہجری میں وہ بھی انتقال فرما گئیں۔

حضرت عثمان ؓ کو ذوالنورین بھی کہا جاتا ہے۔ اس لقب کے چند پہلو ہیں۔ ایک تو جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ عثمانؓ، حضور پاکؐ کے دہرے داماد تھے۔ پھر جنگ بدر میں استثنیٰ ملا اور جنگ سے واپسی پر مال غنیمت میں پورا حصہ ملا اور اصحاب بدر میں بھی شامل فرمایا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپؓ کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا گیا۔ آپؓ کو واپس آنے میں تاخیر ہوگئی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ عثمان ؓ کو قریش مکہ نے قتل کردیا ہے۔ یہ سن کر حضور اکرم ﷺ ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے اور خون عثمان ؓ پر بیعت لی کہ ہم عثمان ؓ کا قصاص لیں گے یا خود بھی لڑکر شہید ہوجائیں گے۔ یہ بیعت (بیعت رضوان) ان کے لیے ابدی سعادتوں کا سرمایہ بن کر ظاہر ہوئی۔

ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’اﷲ مسلمانوں سے راضی تھا جب کہ وہ تیرے ہاتھ پر درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے، سو اﷲ نے جان لیا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا تو اﷲ نے ان پر تسلی نازل کی اور فتح دی۔‘‘ ( سورۃ الفتح )

اس موقع پر 1400صحابہ کرام ؓ نے درخت کے نیچے حضرت عثمانؓ کے لیے حضور نبی کریمؐ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ حضرت عثمان ؓ کا شمار سابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ آپؓ عشرۂ مبشرہ میں بھی شامل ہیں۔ غنی آپؓ کا لقب ہے۔ آپؓ نے دو بار اﷲ کی راہ میں اپنا وطن چھوڑا اور دوسری ہجرت مکہ سے مدینہ کی جانب کی۔

آپؓ مال دار تاجر اور حد درجے فیاض تھے۔ سخاوت میں آپؓ کا بڑا مقام تھا۔ آپؓ کا مال ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں میں خرچ ہوتا تھا، خصوصاً غزوات کے موقع پر۔ مدینہ منورہ میں پانی کی شدید قلت تھی، آپؓ نے ’’بیررومہ‘‘ نامی کنواں ایک یہودی سے تیس ہزار درہم میں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا، جس پر آنحضرت ﷺ نے آپؓ کو جنّت کی بشارت فرمائی تھی۔ آپؓ نے اور بھی بہت سے کنویں کھدوائے اور وقف بھی کیے۔

عہد نبویؐ میں مسلمانوں کی اکثریت مسجد نبویؐ میں نماز ادا کرتی تھی تو وہ گنجائش کے اعتبار سے چھوٹی پڑنے لگی۔ اس پر حضرت عثمان ؓ نے مسجد کے قریب زمین خرید کر اسے مسجد کے لیے وقف کردیا۔ غزوۂ تبوک قحط سالی کے وقت پیش آیا تھا۔ اس موقع پر آپؓ نے بڑھ چڑھ کر امداد فراہم کی۔ اس لشکر کو جیش العسرہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ حضرت عثمانؓ نے سامان رسد کے لیے ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار دینار حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیے، جس پر آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’آج کے بعد عثمانؓ کچھ بھی کریں، انہیں کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘

جناب عثمان غنیؓ نے بدر کے علاوہ تمام غزوات میں حصہ لیا۔ اس کے علاوہ غزوات ذات الرقاع اور بنی غطفان میں آپؓ کو مدینہ میں حضور ؐ نے اپنا قائم مقام فرمایا۔ آپؓ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مشیر بھی رہے۔

حضرت عمرؓ کی شہادت کے تین دن بعد حضرت عثمان غنیؓ خلیفہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس موقع پر آپؓ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’میرے نازک کندھوں پر بارِگراں ڈال دیا گیا ہے جسے میں نے قبول کرلیا۔ سن لیجیے! کہ میں کتاب و سنت کی اتباع کرنے والا ہوں۔ دنیا ایک سبز باغ ہے جو لوگوں کو بھاگئی ہے، پس تم اس سے دل نہ لگاؤ اور نہ ہی اسے مضبوط پکڑو۔‘‘

آپؓ کے زمانے میں کئی اصلاحات اور فتوحات ہوئیں۔ تہذیب و تمدن، صنعت و حرفت، تجارت اور علوم و فنون کو زبردست ترقی ملی۔ دولت اور فارغ البالی کا دور دور ہ تھا۔ آپؓ نے دس سال تک امیر الحج کے فرائض انجام دیے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ ایک روز نبی کریمؐ کے ساتھ ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ کوہ احد پر چڑھے تو احد حرکت کرنے لگا۔ یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے احد پر ایک ٹھوکر لگائی اور ارشاد فرمایا: ’’احد ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘

حضرت عثمان ؓ غنی پر اس وقت قاتلانہ حملہ کیا گیا جب آپؓ قرآن حکیم کی تلاوت فرما رہے تھے، جو آپؓ کی گود میں تھا اور خون کی وجہ سے رنگین ہوگیا تھا۔ حملے کے وقت آپؓ کی اہلیہ حضرت نائیلہؓ بھی موجود تھیں جنہوں نے حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی اور اس دوران آپؓ زخمی بھی ہوگئی تھیں اور آپ کی دو انگلیاں کٹ کر دور جاگری تھیں۔ جس وقت آپ ؓپر حملہ کیا گیا اس وقت آپؓ کی عمر 82 برس اور ایک اور جگہ 88 برس لکھی ہے۔ تاریخ شہادت 18ذی الحج بروز جمعہ 35 ہجری لکھی گئی ہے۔ اس سال لوگوں کو عبداﷲ ابن عباسؓ نے حج کروایا تھا۔ آپؓ کی نماز جنازہ جبیر بن مطعمؓ نے پڑھائی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے  لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات

اسلام آ باد:

این سی سی آئی اے  کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔

لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔

ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا  ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے  اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔

جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔

وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے  تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔

درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں  ہے۔ اگر  اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔

وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔

ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت  لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

متعلقہ مضامین

  • این سی سی آئی اے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان کا مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
  • دیر لوئر، نامعلوم افراد کی فائرنگ سے کالج لیکچرر جاں بحق
  • تیسرا ٹی ٹوئنٹی: پاکستان کا جنوبی افریقا کیخلاف ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ
  • ولادت حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے مدرسہ امام علی قم میں نشست کا انعقاد
  • دیر لوئر: نامعلوم افراد کی فائرنگ سے کالج لیکچرر جاں بحق
  • موضوع: حضرت زینب ّمعاصر دنیا کی رول ماڈل کیوں اور کیسے
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
  • این سی سی آئی اے کے لاپتہ ڈپٹی ڈائریکٹر پر 15 کروڑ روپے رشوت لینے کا الزام
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے  لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات