غزہ سے ایران اور ایران سے پاکستان صیہونی سازش کا نیا محاذ
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اسوقت پاکستان کے تمام طبقات، عوام، افواج اور اداروں کو اختلافات بالائے طاق رکھ کر متحد ہونا ہوگا۔ تمام غیر ضروری مباحث ترک کرکے صرف اور صرف پاکستان کے تحفظ کو اولین ترجیح دینی چاہیئے۔ پاکستان کو اب دفاع کی جنگ اپنی سرزمین سے باہر لڑنے کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ یہی وہ حکمتِ عملی ہے، جسکے تحت امریکہ اپنے دفاع کیلئے یوکرین، یورپ اور خلیجی ممالک میں اڈے قائم کرچکا ہے۔ ایران بھی اسی حکمت عملی پر گامزن رہا، یہی حکمت عملی پاکستان کو اپنانا ہوگی، تاکہ دشمن کو اپنے دروازے تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ پاکستان کو چاہیئے کہ وہ ایران کو اپنی بیرونی دفاعی فرنٹ لائن بنائے۔ یہ نہ صرف ایران کے دفاع کا تقاضا ہے، بلکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور عسکری استحکام کا دفاع بھی ہے۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی
معرکہ حق و باطل جو غزہ سے ایران تک پھیل چکا ہے، جو اسرائیل کا تن تنہا اقدام نہیں۔ اس کے پیچھے وہ ہاتھ ہے، جو برسوں سے دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے، یعنی امریکہ۔ امریکہ ہی ہے، جو اسرائیل کے ہاتھوں خطے میں آگ بھڑکا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند، گہری اور خونی سازش ہے، جو ایک طے شدہ عالمی اسٹریٹجی کا حصہ ہے۔ وہ اسٹریٹجی جو ٹرمپ نے واضح کی اور عربوں نے مال، تیل، غیرت، عزت، حتیٰ کہ اپنی وفاداریاں بھی واشنگٹن کے قدموں میں رکھ دیں اور ٹرمپ کو خطے سے مزاحمت ختم کرنے کا ٹھیکہ دیدیا گیا۔ یہ صرف سیاسی بیانات یا خفیہ دستاویزات کی بات نہیں، بلکہ اسرائیل کی توسیع کا نقشۂ ہے، جسے وہ "گریٹر اسرائیل" کا نام دے کر پوری دنیا کے سامنے لائے ہیں۔ اس نقشے میں شام، عراق، اردن اور حتیٰ کہ سعودی عرب کے بعض علاقے اسرائیل کے جغرافیے میں شامل کیے گئے ہیں۔
تین ہزار سالہ خرافات کی چادر میں لپٹے اس سامراجی خواب کو حقیقت میں بدلنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ غزہ کی حالیہ جنگ کے دوران، صیہونیوں نے اس نقشے کو دنیا بھر میں نمایاں کرکے یہ پیغام دیا کہ ان کا ہدف صرف بیت المقدس یا غزہ نہیں، بلکہ پورا مشرقِ وسطیٰ ہے۔ اگر کوئی آخری دیوار اس خواب کے راستے میں حائل ہے تو وہ ایران ہے، جو مزاحمت کا عظیم ترین مورچہ ہے۔ یہاں جو اہم بات ہے، وہ یہ کہ صہیونیون کے بنائے ہوئے نقشے کو مزید سمجھنا ہوگا۔ ان کی سوچ، ان کا خاکہ، ان کی کارروائیاں واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں۔ ایران کی سرزمین تک پہنچنا صہیونیوں کی باقاعدہ، سوچی سمجھی شیطانی منصوبہ بندی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ وہ ایران تک کیوں پہنچے۔؟ سوال یہ ہے کہ اب وہ وہاں سے آگے کہاں جائیں گے۔؟ ایران اس وقت ان کے نشانے پر ہے، کیونکہ وہ ایٹمی طاقت بننے کے دہانے پر کھڑا ہے۔
ایران کے پاس ایٹمی سائنس دان، ایٹمی تنصیبات اور سب سے بڑھ کر ارادہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کا مرکز خود بنے، کسی استعماری طاقت کا مرہونِ منت نہ رہے۔ یہی ارادہ امریکہ، اسرائیل اور خطے کے بعض مفاد پرست حکمرانوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ انہیں خوف ہے کہ اگر ایران ایٹمی طاقت بن گیا تو وہ نہ صرف اسرائیل کیلئے خطرہ بن جائے گا بلکہ پورے استکباری نظام کیلئے ایک چیلنج بن جائے گا۔ اسی لیے انہوں نے تاخیری حکمتِ عملی ترک کرتے ہوئے عملی اقدام شروع کر دیئے ہیں۔ بلا کسی جھجک، بلا کسی رکاوٹ کے۔ لیکن! ایران ابھی اس سفر کے آغاز میں ہے۔ پاکستان تو اس سفر کو مدتوں پہلے طے کرچکا ہے۔ پاکستان ایک پختہ، مستحکم اور تجربہ کار ایٹمی طاقت ہے۔ نہ صرف ایٹمی بم رکھتا ہے بلکہ اسے چلانے، سنبھالنے اور دشمن پر اثر انداز ہونے کی مکمل مہارت رکھتا ہے۔ اس کے سائنسدان، اس کی تنصیبات اور اس کی ایٹمی پالیسی ایک منظم اور مضبوط ڈھانچے پر قائم ہیں اور سب سے بڑھ کر، یہ ایٹمی طاقت اسلامی ریاست کی ملکیت ہے۔
کیا بھارت، اسرائیل یا امریکہ ایک اسلامی ایٹمی طاقت کو برداشت کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں! یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ان کی ترجیحات میں پاکستان کا غیر مسلح، کمزور اور داخلی خلفشار کا شکار ہونا ضروری ہے اور اب جب وہ ایران میں اپنی نفوذی فوج کے ذریعے کارروائیاں کر رہے ہیں تو ان کا اگلا میدان پاکستان ہی ہوگا۔ اسرائیل نے پہلے سے ہی پاکستان میں اپنی نفوذی قائم کر رکھی ہے اور یہ نفوذی کون ہیں۔؟ وہی جن کی بازگشت سب نے غزہ جنگ کے دوران سنی تھی۔ غزہ کی مظلومیت پر خاموشی اختیار کرنیوالے، اسرائیل کے مظالم پر پردہ ڈالنے والے، وہی پاکستانی وفود، اینکرز، سیاستدان، صحافی اور مذہبی رہنماء جو اسرائیل کے دفاع میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے پائے گئے۔ خود اسرائیلی اخبارات نے انکشاف کیا کہ پاکستان کی ایک مقبول اور طاقتور سیاسی جماعت کا مرکزی لیڈر اسرائیل کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہے، بلکہ اُس سے روابط بھی قائم کرچکا ہے۔ یہ روابط خاندانی اور سیاسی نوعیت تک شامل ہیں۔
اسرائیل کے یہ نفوذی پاکستان میں وہی کردار ادا کر رہے ہیں، جو ایران میں ادا کیا گیا۔ ملک کو اندر سے کمزور کرنا، باہر کے دشمن کیلئے راستہ ہموار کرنا اور یہ سب کچھ محض مفروضہ نہیں! بھارت نے جو حالیہ فوجی کارروائی پاکستان کیخلاف کی، وہ اسرائیل کیساتھ براہِ راست مشاورت سے کی گئی۔ اسرائیلی ڈرون، اسرائیلی میزائل، اسرائیلی انٹیلیجنس اور اسرائیلی جنگی مشیر بھارت کی مدد کو موجود رہے۔ جس طرح بھارت نے غزہ جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دیا تھا، اسرائیل نے پاکستان کے خلاف بھارت کا ساتھ دے کر احسان کا بدلہ چکا دیا، چونکہ دشمن کیلئے سب سے زیادہ آسانی اُس وقت ہوتی ہے، جب گھر کے دروازے اندر سے کھولے جائیں۔ ایسے نازک اور ناپائیدار حالات میں پاکستان اور اس کی ریاست کو غیر معمولی بصیرت، دور اندیشی اور جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنی بقا، تحفظ اور خود مختاری کیلئے کسی خارجی ریاست، اتحاد یا وعدے پر بھروسہ نہ کرے۔
ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیئے کہ عربوں کے امدادی وعدے اور پروگرام، جن سے ہم نے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، محض فریبِ نظر ہیں اور ان پر انحصار ہماری سب سے بڑی سادہ لوحی اور خطرناک غلط فہمی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہی عرب حکمران فلسطین، لبنان اور ایران کیخلاف دشمنوں کے آلہ کار بنے اور آئندہ بھی پاکستان کے خلاف اسی طرح استعمال ہوں گے۔ ان پر اعتماد خودکشی کے مترادف ہوگا۔ پاکستان کو اپنی بقاء، سالمیت اور دفاع کیلئے صرف ایک جگہ دیکھنی ہے، وہ ہے اپنے اندر۔ اس وقت پاکستان کے تمام طبقات، عوام، افواج اور اداروں کو اختلافات بالائے طاق رکھ کر متحد ہونا ہوگا۔ تمام غیر ضروری مباحث ترک کرکے صرف اور صرف پاکستان کے تحفظ کو اولین ترجیح دینی چاہیئے۔ پاکستان کو اب دفاع کی جنگ اپنی سرزمین سے باہر لڑنے کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ یہی وہ حکمتِ عملی ہے، جس کے تحت امریکہ اپنے دفاع کے لیے یوکرین، یورپ اور خلیجی ممالک میں اڈے قائم کرچکا ہے۔
ایران بھی اسی حکمت عملی پر گامزن رہا، یہی حکمت عملی پاکستان کو اپنانا ہوگی، تاکہ دشمن کو اپنے دروازے تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ پاکستان کو چاہیئے کہ وہ ایران کو اپنی بیرونی دفاعی فرنٹ لائن بنائے۔ یہ نہ صرف ایران کے دفاع کا تقاضا ہے، بلکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور عسکری استحکام کا دفاع بھی ہے۔ اسرائیل نے ایران پر بیک وقت کئی مقامات پر حملہ کرکے کئی اعلیٰ فوجی کمانڈرز کو ان کے گھروں میں شہید کر دیا۔ اسرائیل کے اس حملے کے بعد، پاکستان ان کے اگلے نشانے پر ہے، کیونکہ ان کے مطابق وہ فلسطین، لبنان، شام اور اب ایران کو عبور کرکے پاکستان تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کیخلاف اسرائیل اکیلا نہیں ہوگا۔ امریکہ، بھارت اور عرب ریاستیں اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں گی۔ ہمیں اس حقیقت سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔ پاکستان کے اندر پہلے ہی صہیونی ایجنٹ اپنی کارروائیاں کرچکے ہیں، ایٹمی راز افشا کیے، افواجِ پاکستان کو بدنام کیا۔ معیشت کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا، بیرونی دنیا کو پیغامات دیئے کہ پاکستان کمزور ہوچکا ہے۔
یہ سب کچھ مودی کو حملے پر اُکسانے کیلئے کیا گیا تھا، لیکن مودی کو شکست ہوئی۔ اگر یہی حماقت اسرائیل نے کی تو ان شاء اللہ اسے بھی وہی خفت نصیب ہوگی۔ اب وقت ہے کہ پاکستان کی افواج، حکمران، عوام، مذہبی طبقہ اور ادارے سنجیدگی سے متحد ہوں، بیان بازی سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کریں۔ دفاعی بجٹ اگرچہ بڑھایا گیا ہے، لیکن یہ موجودہ خطرات کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ ہمیں آنیوالے دنوں میں فوری طور پر اپنی دفاعی کمزوریاں دور کرنا ہوں گی، میدان میں عسکری مشقیں کرکے دشمن کو طاقت کا پیغام دینا ہوگا اور عوامی سطح پر دفاعی شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔ پاکستان کو چین سے امید ہے، چین چونکہ خود امریکہ کے خطرے سے دوچار ہے، وہ ضرور امریکہ مخالف قوتوں کا ساتھ دے گا۔ لیکن یہ سب عالمی برادری، مسلمان ملکوں سمیت، قابلِ اعتبار نہیں۔ ایران کے بعض لوگوں نے یہی غلطی کی اور ٹرمپ کی دھوکہ دہی کا شکار بنے۔ ہمیں اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
ڈپلومیسی ضرور کریں، لیکن دشمن پر اعتماد ہرگز نہ کریں۔ پاکستان میں نفوذ نہ ہونے دیں اور جو پہلے سے اسرائیلی نفوذ قائم ہوچکا ہے، اس کا صفایا کیا جائے۔ ایران نے جن عناصر کی وجہ سے نقصان اٹھایا، ہمیں ان سے بچنا ہے۔ اپنی ٹیکنالوجی کو محفوظ بنائیں، کمانڈ سسٹمز کو محفوظ بنائیں، ایٹمی اثاثے محفوظ بنائیں۔ یہ ملک کسی اشرافیہ کا نہیں، پاکستانی عوام کا ہے۔ لہٰذا عوام تھکن کا اظہار نہ کریں۔ اگرچہ حکومت اور سیاستدان نالائق ثابت ہوئے ہیں، لیکن اس قوم نے ہر بار ثابت کیا ہے کہ یہ قوم افواج کیساتھ کھڑی ہے۔ مودی کو یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ عوام افواج سے دور ہوچکے ہیں، لیکن بھارتی جہاز گرنے پر اس فضا کا رخ بدل گیا اور عوام نے اپنی افواج کیساتھ کھڑے ہو کر دشمن کو واضح پیغام دیا اور اب بھی عوام وطن عزیز پاکستان میں تمام دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے بیدار ہیں اور اپنی فوج کیساتھ ہے۔ مودی، ٹرمپ اور نیتن یاہو سب شیطانی لشکر ہیں، جو میدان میں ہیں، مگر اللہ کا وعدہ ہے کہ یہ شیطانی منصوبے باطل ہوں گے اور مومنین کا لشکر کامیاب ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پاکستان میں اسرائیل کے اسرائیل کی پاکستان کو ایٹمی طاقت اسرائیل نے کہ پاکستان پاکستان کی پاکستان کے حکمت عملی ایران کے وہ ایران کرچکا ہے رہے ہیں ہیں اور دفاع کی دشمن کو
پڑھیں:
ایٹمی جنگ اور تابکاری کا سایہ، کیا پاکستان کی فضا زہر آلود ہو رہی ہے؟
یہ سوال موجودہ دور کی بات نہیں رہا کہ اگر اسرائیل ایران پر ایٹمی حملہ کرے تو کیا ہوگا؟ اس کے عوض، یہ ایک فوری تشویش بن گیا ہے جو پورے خطے میں سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں جوہری تصادم ایران کی سرحدوں تک محدود نہیں رہے گا۔ اس کا ماحولیاتی، انسانی اور جغرافیائی سیاسی نتیجہ پاکستان اور بہت سے پڑوسی ممالک پر ان طریقوں سے اثر انداز ہو سکتا ہے جن کے لیے ہم مکمل طور پر تیار نہیں ہیں۔
نیوکلیئر فال آؤٹ: ایک علاقائی نہ صرف ایک قومی آفتجوہری ہتھیار سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ اگر اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات کو جوہری ہتھیاروں سے نشانہ بناتا تو یہ دھماکہ نہ صرف ایران میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاتا بلکہ تابکار ذرات ہوا کے ذریعے ہزاروں کلومیٹر تک پھیل سکتے ہیں۔
پاکستان، افغانستان، ترکمانستان، عراق، اور یہاں تک کہ خلیج کے ممالک تابکار آلودگی کی مختلف ڈگریوں کا تجربہ کر سکتے ہیں، یہ دھماکے کے سائز اور قسم، موسم کے نمونوں اور خطوں پر منحصر ہے۔
قطر اس خطے کا پہلا ملک ہے جس نے پیر کے روز باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ اس کے متعلقہ حکام کی جانب سے ہوا اور پانی کے معیار کی جانچ پڑتال کے بعد پتہ چلا ہے کہ ہوا اور پانی پر کوئی نیوکلیئر اثر نہیں ہوا اور ہر چیز معمول پر ہے۔
کویت نے بھی اپنے عوام کے لیے سرکاری سطح پر اعلان کر دیا، اطلاعات ہیں کہ دیگر خلیجی ممالک بھی اس کے اثرات کی جانچ کر رہے ہیں۔
جنوب مغربی پاکستان، خاص طور پر بلوچستان، جنوبی پنجاب، اور خیبر پختونخواہ کے کچھ حصے میں اگر ہوا مشرق کی طرف چلتی ہے تو براہ راست بے نقاب ہو سکتی ہے۔
کیا پاکستان تیار ہے؟ تابکاری کی نگرانی کے نظام کا کردارپاکستان کے پاس نیشنل نیوکلیئر ڈیٹیکشن سسٹم (NNDS) ہے، جو فضا میں تابکاری کی سطح کی نگرانی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ خطے میں جوہری حملے کی صورت میں، یہ نظام تابکار فال آؤٹ کو چالو اور ٹریک کرنے کے لیے سمجھا جاتا ہے۔
لیکن کیا یہ نظام کافی ہے؟ کیا ہمارے ادارے تکنیکی طور پر تیار ہیں یا مناسب طریقے سے فنڈز فراہم کر رہے ہیں اور عالمی سطح پر اس پیمانے کی جوہری ایمرجنسی کے لیے ہم آہنگ ہیں؟ اس سے پہلے کہ بحران پھوٹ پڑے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو فوری جوابات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
IAEA کی تصدیق اور ذمہ داریانٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) نے حال ہی میں تصدیق کی ہے کہ ایران نے نطنز جوہری تنصیب پر اسرائیل کے روایتی حملوں کے بعد تابکاری کی سطح میں کوئی اضافہ نہ ہونے کی اطلاع دی تھی۔
لیکن جوہری حملہ ایک بالکل مختلف منظر نامہ ہو گا، جس کے انسانی صحت، زراعت، پانی کی فراہمی اور ماحولیاتی نظام کے لیے وسیع نتائج ہوں گے۔
IAEA، WHO، اورUNE جیسی عالمی ایجنسیاں ممکنہ طور پر ایسی صورت حال میں تیزی سے جواب دیں گی، لیکن مقامی تیاری دفاع کی پہلی لائن ہے۔
پاکستان کو فوری طور پر کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟ تابکاری کی نگرانی کے نظام کو اپ گریڈ کریں۔ پاکستان کو اپنے جوہری سراغ رسانی کے بنیادی ڈھانچے کو جدید، وسعت اور یقینی بنانا چاہیے کہ یہ 24 گھنٹے مکمل طور پر کام کر رہا ہے۔ ریڈیولاجیکل ایمرجنسی کے لیے ہسپتالوں کو تیار کریں۔ بڑے ہسپتالوں کو تابکاری سے متاثر لوگوں کے علاج کے لیے مخصوص ہنگامی یونٹس قائم کرنے چاہئیں، جن میں مناسب طبی سامان اور تربیت یافتہ عملہ موجود ہو۔ عوامی بیداری کی مہمات، شہریوں کو بنیادی تعلیم کی ضرورت ہے کہ جوہری فال آؤٹ کے دوران کیا کرنا چاہیئے، تابکار بارش یا آلودگی کی صورت میں پانی، خوراک اور پناہ گاہ کی حفاظت کیسے کی جائے۔ سفارتی دباؤ اور علاقائی مصروفیت،پاکستان کو اسرائیل یا کسی بھی ریاستی اداکار کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کی مذمت کرتے ہوئے تحمل اور پرامن حل پر زور دیتے ہوئے اس مسئلے کو اقوام متحدہ، او آئی سی اور آئی اے ای اے کے پلیٹ فارمز میں اٹھانا چاہیے۔ نتیجہ: تابکاری کوئی سرحد نہیں دیکھتی، کوئی قوم نہیں۔ایٹمی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ اگر اسرائیل ایٹمی دہلیز کو عبور کرتا ہے تو وہ پورے خطے کو ماحولیاتی اور انسانی تباہی میں ڈال سکتا ہے۔ پاکستان نقشے پر میلوں دور ہو سکتا ہے لیکن ہوا، پانی اور تابکاری بغیر پاسپورٹ کے سفر کرتی ہے۔
خاموش رہنا اب کوئی آپشن نہیں ہے۔ پاکستان کو بدترین صورت حال سے نمٹنے کے لیے قومی اور سفارتی سطح پر فوری طور پر تیار رہنا چاہیے۔
غیر فعال ہونے کی قیمت، تیاری کی لاگت سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں راقم نے متعلقہ حکام سے واٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے درخواست کی لیکن یہ آرٹیکل فائل کرنے تک وہ جواب نہ دے سکے۔
بلکہ ترجمان نے مجھے بتایا کہ جواب مناسب چینل کے ذریعے دیا جائے گا۔ جو ابھی تک نہیں آیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس اہم معلومات کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ حکام عوام کو اعتماد میں لیں اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے آگاہ کریں۔
تحریر: عبید الرحمان عباسی
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
اسرائیل ایٹمی جنگ ایران پاکستان