سینئر سیاست دان جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو کوئی ملک کی سیاست سے مائنس کر ہی نہیں سکتا۔

راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان سے اظہار یکجہتی کیلئے اڈیالہ جیل آیا ہوں، یہاں آیا تو آگے پولیس کھڑی کردی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے موقف کو درست سمجھتا ہوں، ملک میں آئین کی بالادستی ہوگی تو ملک چلے گا، پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ سارا کنٹرول کرنا چاہتی ہے، بانی پی ٹی آئی رہائی نہیں مانگ رہا وہ رول آف لاء مانگ رہا ہے۔

جاوید ہاشمی نے کہا کہ جو بھی لیڈر اسٹیبلشمنٹ کے قریب گیا میں نے اسے فاصلہ کیا، موجودہ حکومت کے پاس اختیار ہی نہیں، اسی لئے بانی پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں کوئی سیاسی بندہ رہ ہی نہیں گیا، کون سی پارٹی ہے جس کو سیاسی پارٹی کہا جائے، جو آئین اور جمہوریت کی بات نہیں کرتا وہ سیاست نہیں کررہا، بانی پی ٹی آئی کو کوئی مائنس کر ہی نہیں سکتا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی ہی نہیں

پڑھیں:

ظہران ممدانی، قصہ گو سیاستدان

ظہران ممدانی کی جیت پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے، اس کے پس منظر، خاندان اور اس کی بیوی کے حوالے سے بھی۔ مگر جس پہلو پر کم گفتگو ہوئی، وہ ہے ظہران کی انتخابی مہم کا تخلیقی بیانیہ، اس کا کہانی سنانے کا ہنر، اور اس ہنر کے ذریعے عوام سے جڑنے کی صلاحیت۔ یہی وہ عنصر ہے جو ہماری سیاست میں شاذ و نادر دکھائی دیتا ہے۔

اپنی جیت کی تقریر میں جواہر لعل نہرو کا حوالہ دینے والا یہ نوجوان نیویارک شہر کی 130 سالہ تاریخ کا کم عمر ترین، پہلا مسلمان اور پہلا جنوبی ایشیائی نژاد میئر ہے۔ نیویارک کے 111ویں میئر کے طور پر اس کی جیت تاریخی تھی۔ 1969 کے بعد سب سے زیادہ عوامی ٹرن آؤٹ اسی انتخاب میں ہوا۔ یہاں تک کہ اسے اپنے حمایتیوں سے کہنا پڑا کہ اب چندے بھیجنا بند کریں، کیونکہ مہم کے تمام اخراجات پورے ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:آو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے

یہ وہی ظہران ممدانی ہے جو سال کے آغاز میں انتخابی دوڑ میں بالکل صفر پر کھڑا تھا، نہ سرمایہ، نہ اثر و رسوخ، اور اوپر سے وہ تمام شناختی ’لیبلز‘ جو نیویارک جیسے شہر میں کسی امیدوار کو کمزور بنا دیتے ہیں۔ مگر ظہران کی سیاست دراصل اُس نئے شہری بیانیے کی نمائندہ ہے جو نسل، مذہب یا قومیت سے آگے بڑھ کر تعلق، شناخت اور شمولیت کو مرکز بناتا ہے۔ اس نے امریکی سیاست کے اُس بیانیے کو چیلنج کیا جس میں طاقت، سرمایہ اور سفید فام شناخت مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔

ظہران ممدانی کے خلاف مخالفین اور طاقت ور طبقے کی طرف سے ایک نفرت انگیز، نسلی امتیاز پر مبنی مہم چلائی گئی۔ اونچے طبقے نے اسے اُنھی الزامات کا نشانہ بنایا جو وہ ہمیشہ تارکینِ وطن پر لگاتے ہیں۔ مگر ظہران نے اس نفرت آمیز پروپیگنڈے کو سمجھداری سے اپنا ہتھیار بنا لیا۔ جب مخالفین اس کی شناخت پر سوال اٹھا رہے تھے اور بین الاقوامی مسائل میں عوام کو الجھا رہے تھے، وہ صرف نیویارک کے باسیوں کی بات کر رہا تھا۔

اس نے اپنی شناخت کی کمزوری کو طاقت بنایا۔ اس نے سوشل میڈیا کو صرف بیانیہ پیش کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اپنی مہم کو ہی ایک کہانی میں بدل دیا، ایسی کہانی جس میں وہ خود ہیرو نہیں تھا۔ عام طور پر سیاستدان صرف اپنی کہانیوں کے ہی نہیں بلکہ عوام کی کہانیوں کے بھی ہیرو خود بننے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ظہران نے اُلٹا راستہ اختیار کیا۔ اُس نے خود کو عوام کی کہانیوں میں ضم کر دیا۔ اس کی ہر کہانی کا ہیرو وہ مزدور طبقہ ہے جو کرایوں کے دباؤ، صحت کی خرابی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل سے دوچار ہے، اور ظہران اس کہانی میں صرف ایک معاون کردار ہے، ہیرو کا دوست۔

یہ بھی پڑھیں:جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی

ظہران کی مہم اپنے لہجے اور عوامی انداز میں لندن کے میئر صادق خان اور امریکی سیاست دان الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز کی یاد دلاتی ہے، مگر اس میں جنوبی ایشیائی جذباتیت اور نیویارک کی ثقافتی روانی کا اپنا منفرد رنگ ہے۔ وہ کبھی عربی میں بات کرتا، کبھی اردو میں، کبھی ہسپانوی میں۔ کبھی کسی عوامی ریپر یا سڑک کنارے بینڈ کے ساتھ گاتا، کبھی بولی ووڈ کے مکالمے دہراتا۔

ایک ویڈیو میں وہ پوچھتا ہے:

’کیا تم نے کبھی کسی کو ووٹ دیا ہے؟‘

اور سامنے سے ہجوم گونجتا ہے: ’نہیں یں ں!‘

یہ منظر فوراً قرض فلم کے رشی کپور کی یاد دلاتا ہے، جو کچھ ایسے ہی سوال ہجوم سے کرتا ہے۔ یعنی ظہران بغیر محسوس کرائے عوام کی فلم میں معاون اداکار سے ہیرو بن جاتا ہے۔

ظہران نے اپنی انتخابی مہم کو ایک تھیٹر میں بدل دیا۔ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر وہ کبھی سمندر کنارے کھڑا سنگین مسائل پر بات کرتا ہے، پھر انگریزی میں کہتا ہے:

’ Let’s indulge in the details. ‘

اور یہ کہہ کر سوٹ پہنے سمندر میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ لوگ ہنستے ہیں، اور اسی ہنسی میں ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔

ظہران کی مہم میں توانائی، تحرک اور تاثر تینوں موجود تھے۔ وہ کبھی بھاگتا، کبھی کسی بس میں بیٹھ کر بات کرتا، کبھی ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ تصویر کھنچواتا۔ جب وہ بہتر ٹرانسپورٹ پالیسی کی بات کرتا تو کسی اسٹوڈیو میں نہیں بلکہ بس کے اندر سفر کرتے ہوئے۔ یہ سب علامتی اشارے تھے کہ وہ انہی میں سے ہے، ان ہی کے بیچ سے آیا ہے۔

جہاں دوسرے سیاست دان جلسوں میں دور سے ہاتھ ہلا رہے تھے، وہاں ظہران عوام کے بیچ گھوم رہا تھا، ان کی زبان بول رہا تھا، ان کے دکھ درد کو روز مرہ مناظر میں پیش کر رہا تھا۔ اس کے لہجے میں خوشی بھی تھی، غصہ بھی، درد بھی اور امید بھی۔

اس کی انسٹاگرام پوسٹس محض اعلانات نہیں بلکہ بیانیے کی توسیع تھیں۔ ایک پوسٹ میں وہ نیویارک کے بڑھتے کرایوں، سست بس سروس، مہنگی چائلڈ کیئر اور کرپشن پر بات کرتا ہے، مگر انداز ایک وکیل یا لیڈر کا نہیں بلکہ ایک عام شہری کا ہے:

‘The cost of living is the real crisis… a mayor could change this. And that’s why I’m running… Because this is New York. We can afford to dream.’

ظہران کی سیاست یہ ثابت کرتی ہے کہ جب سیاست کہانی بن جائے تو لوگ منشور نہیں بلکہ احساس کے رشتے میں جڑتے ہیں۔ اس نے سیاست کو پھر سے انسانی شکل دی، اور یاد دلایا کہ اگر کہانی سنانے کا فن ایمانداری، حساسیت اور تخلیقی جرات کے ساتھ استعمال کیا جائے تو صرف ووٹ نہیں، دل بھی جیتے جا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:طلاق اور علیحدگی کے بدلتے اصول: ’گرے ڈائیورس‘ کا بڑھتا ہوا رجحان

البتہ سوال یہ ہے کہ کیا سیاست کو کہانی بنا دینا اس کے پیچیدہ حقائق کو سادہ نہیں کر دیتا؟ کیا ظہران کی مہم جذباتی وابستگی کے بعد عملی گورننس میں بھی وہی تازگی برقرار رکھ سکے گی؟ وقت ہی اس کا جواب دے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

قرۃ العین حیدر

ظہران ممدانی قصہ گو نیوریارک نیویارک میئر

متعلقہ مضامین

  • مجوزہ ترامیم کے بعد اگر عمران خان الیکشن کے ذریعے اقتدار میں آ بھی جائیں تو کچھ نہیں کر پائیں گے،نجم سیٹھی
  • ایسا کوئی قانون نہیں ہوگا جس سے صوبوں کا اختیار کم ہوگا: ایمل ولی خان
  • ظہران ممدانی، قصہ گو سیاستدان
  • جاوید چوہدری کو نوکری سے کیوں اور کیسے نکالا، اینکر سے ساری تفصیل بتادی
  • ’مجھے ماریں گے تو نہیں؟‘ عمران خان کو سپر اسٹار قرار دیتے ہوئے اعظم خان ڈرگئے، ویڈیو وائرل
  • اس پارلیمان کے پاس آئین میں تبدیلی کا استحقاق نہیں: بیرسٹر گوہر 
  • امریکا بھارت دفاعی معاہدے سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا
  • لگتا ہےحکومت نےآئینی ترمیم کامسودہ نہیں دیکھا،وزیراعلیٰ پختونخو
  • لگتا ہے حکومت نے خود آئینی ترمیم کا مسودہ ابھی تک نہیں دیکھا،سہیل آفریدی
  • لگتا ہے کہ حکومت نے خود آئینی ترمیم کا مسودہ ابھی تک نہیں دیکھا،سہیل آفریدی