Jasarat News:
2025-06-27@09:41:57 GMT

کراچی کا المیہ

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایک عالمگیر سروے میں کراچی کو ایک بار پھر ناقابل رہائش شہروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے عالمی ادارے میں کراچی کا دنیا کے آخری پانچ شہروں میں شامل ہونا کراچی کو درپیش گہرے اور مسلسل بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ سروے کے مطابق کراچی دنیا کے 173 شہروں کی فہرست میں 170 ویں نمبر پر موجود ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ کراچی شام کے شہر دمشق، لیبیا کے شہر طرابلس اور بنگلا دیش کے دارالحکومت ڈھاکا سے کچھ ہی بہتر ہے۔ یہ درجہ بندی، صحت، شہر کے بنیادی ڈھانچے، تعلیم، ماحول اور استحکام جیسے پانچ بنیادی شعبوں میں کارکردگی کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ 173 شہروں میں کوپن ہیگن نے پہلا، ویانا نے دوسرا اور زیورخ نے تیسرا نمبر حاصل کیا ہے۔ گزشتہ سال اکانومسٹ کے ایسے ہی ایک سروے میں کراچی کا نمبر 169 واں تھا۔
میر تقی میر نے کبھی دلّی کے اجڑنے کا ماتم کرتے ہوئے کہا تھا
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنوں
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی کے ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیار کے
میر تقی میر کے یہ تینوں شعر کراچی کے حالات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ کراچی کے لوگ لاہور یا اسلام آباد جاتے ہیں تو لوگ ہنس ہنس کے پوچھتے ہیں اچھا آپ کراچی سے آئے ہیں۔ جہاں بارہ بارہ چودہ چودہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، جہاں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں، جہاں کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، جہاں جگہ جگہ کچرا پڑا نظر آتا ہے۔ جہاں ہر تیسری گلی میں گٹر اُبل رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کراچی میر کے دوسرے شعر کا بھی مصداق تھا۔ کراچی اہل کمال کا شہر تھا، پورا ہندوستان اُجڑا تھا تو کراچی آباد ہوا تھا۔ شعر و ادب، تعلیم و تعلّم، تاریخ، فلسفے، مصوری، سائنس اور طب کے شعبوں کے بڑے بڑے لوگوں سے کراچی بھرا ہوا تھا۔ دلّی کے اُجڑنے اور کراچی کے برباد ہونے میں بھی ایک مماثلت ہے۔ فرق یہ ہے کہ دلی کو واقعتا فلک نے لوٹ کے برباد کیا تھا اور کراچی کو ناپاک پنجابیت، ناپاک سندھیت اور ناپاک مہاجریت نے تباہ کیا ہے۔
پاکستان وجود میں آیا تھا تو قائداعظم نے ڈھاکا، لاہور، پشاور یا کوئٹہ کو ملک کا دارالحکومت نہیں بنایا تھا۔ انہوں نے کراچی کو ملک کا دارالحکومت بنایا تھا۔ مگر جنرل ایوب خان نے کراچی کے خلاف پہلی سازش کی۔ انہوں نے پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا۔ اس پر اعتراض کیا جاتا ہے تو ناپاک پنجابیت کے علمبردار کہتے ہیں کہ جنرل ایوب تو پٹھان تھا، پنجابی تھوڑی تھا۔ چنانچہ دارالحکومت کی تبدیلی کا مجرم ناپاک پنجابیوں کو نہ ٹھیرایا جائے، پشتونوں کو ٹھیرایا جائے، لیکن جنرل ایوب اگر واقعتا پشتونوں کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے تو پھر انہیں پاکستان کا دارالحکومت پشاور منتقل کرنا چاہیے تھا پنجاب نہیں۔ اوّل تو پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے کہیں منتقل کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اس لیے کہ کراچی کو بانیِ پاکستان نے ملک کا دارالحکومت بنایا تھا لیکن اگر کراچی سے کہیں دارالحکومت منتقل ہونا چاہیے تھا تو وہ جگہ ڈھاکا تھی اسلام آباد نہیں۔ مگر ڈھاکا کو تو خود ناپاک پنجابیت کے علمبرداروں نے 1971ء میں اپنے وجود سے کاٹ کر پھینک دیا اور اسے بنگلا دیش کا دارالحکومت بننے پر مجبور کردیا۔
ناپاک پنجابیت، ناپاک سندھیت اور ناپاک مہاجریت کے علمبرداروں نے کراچی سے اس کا اصل مقام تو چھین لیا مگر کراچی پاکستان کی معیشت اور صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کراچی آج بھی پاکستان کو اس کی مجموعی قومی آمدنی کا 67 فی صد کما کر دیتا ہے۔ پاکستان کی برآمدات کا 54 فی صد آج بھی کراچی پیدا کرتا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں کراچی نے ملک کو 3 ہزار ارب روپے صرف ٹیکسوں کی مد میں کما کر دیے ہیں۔ پورا لاہور پاکستان کو جتنا ٹیکس کما کر دیتا ہے اتنا ٹیکس کراچی کے علاقے لیاقت آباد کی مارکیٹ سے جمع ہوجاتا ہے۔ اب اگر کراچی نے ملک کو 3 ہزار ارب روپے کما کر دیے ہیں تو وفاق یعنی پنجاب کو چاہیے کہ وہ ان تین ہزار ارب روپے میں سے صرف 300 ارب روپے تو کراچی کی ترقی کے لیے فراہم کرے۔ سندھ حکومت کا رواں مالی سال کا بجٹ 3 ہزار 451 ارب روپے ہے۔ اس رقم کا 95 فی صد صرف کراچی سے مہیا ہوا ہے۔ چنانچہ سندھ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس بڑی رقم سے صرف 500 ارب روپے کراچی کو مہیا کرے لیکن نہ وفاق کی ناپاک پنجابیت کراچی پر نظر کرم کرتی ہے نہ پیپلز پارٹی کی ناپاک سندھیت کراچی پر مہربان ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کراچی پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے۔ کراچی کو یومیہ 1200 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے۔ مگر کراچی کو صرف 650 ملین گیلن پانی فراہم ہورہا ہے۔ چنانچہ آدھا شہر پیاس سے مرا جارہا ہے۔ ہم کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں رہتے ہیں جسے کراچی کا ’’پوش علاقہ‘‘ سمجھا جاتا ہے مگر ہمارے علاقے کی صورت حال یہ ہے کہ نارتھ ناظم آباد کے بلاک K میں گزشتہ 17 سال سے پانی موجود نہیں۔ چنانچہ ہم گزشتہ 8 سال سے بورنگ کے انتہائی کھارے پانی پر گزارا کررہے ہیں۔ اس سے پہلے سات سال تک ٹینکروں کے پانی پر گزر بسر کیا گیا۔ جب ہم نے ٹینکر لینا شروع کیا تو ٹینکر ایک ہزار
روپے کا تھا لیکن جب ٹینکر کے نرخ بڑھ کر پانچ ہزار اور ساڑھے چار ہزار ہوگئے تو وہ ہماری قوت خرید کے دائرے سے نکل گیا۔ ہمارے بلاک میں جو لوگ آج بھی میٹھے پانی پر گزارا کررہے ہیں وہ پانی خریدنے پر ایک ماہ میں 15 ہزار روپے خرچ کرتے ہیں۔ اگرچہ ہم بورنگ کے کھارے پانی پر گزارا کررہے ہیں مگر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا بل ہر ماہ ادا کررہے ہیں۔ یہ بل ساڑھے چار سو روپے کے لگ بھگ ہوتا ہے۔
کراچی ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کا شہر ہے مگر کراچی میں نہ زیر زمین ریلوے کا نظام ہے، نہ سرکلر ریلوے ہی ابھی تک بحال ہوسکی ہے۔ سندھ حکومت اعلان کرتی رہتی ہے کہ وہ شہر کو 50 بسوں اور 100 بسوں کا تحفہ دے رہی ہے حالانکہ شہر کی ضرورت کم از کم 10 ہزار بسیں ہیں۔ دنیا کا کوئی بڑا شہر ماس ٹرانزٹ سے محروم نہیں مگر کراچی میں ماس ٹرانزٹ کا کوئی تصور موجود نہیں۔
کراچی میں نکاسِ آب کا نظام پچاس ساٹھ سال پرانا ہے چنانچہ کراچی کے سیکڑوں علاقوں میں جگہ جگہ گٹر اُبل رہے ہیں۔ دنیا بھر میں صاف اور نکاسِ آب کا نظام بلدیاتی اداروں کے پاس ہوتا ہے مگر پیپلز پارٹی کی ناپاک سندھیت میں ڈوبی ہوئی حکومت نے کچرا اٹھانے اور نکاسِ آب کے نظام تک پر قبضہ کیا ہوا ہے اور کراچی کے بلدیاتی ادارے اس سلسلے میں سندھ حکومت کے محتاج ہیں۔ کراچی میں سوئی سدرن گیس کمپنی نے چار ماہ قبل کراچی میں گیس کی نئی پائپ لائنیں ڈالی ہیں اور اس کام کی وجہ سے کراچی کے اکثر علاقوں کی سڑکیں عرصے سے ادھڑی پڑی ہیں۔ اگر حالیہ مون سون میں کراچی میں تیز بارش ہوگئی تو ساڑھے تین کروڑ لوگوں کے لیے گھروں سے نکلنا دشوار ہوجائے گا۔ مگر اس جانب نہ ناپاک سندھیت میں ڈوبی ہوئی سندھ حکومت کی توجہ ہے نہ ناپاک مہاجریت میں ڈوبی ہوئی ایم کیو ایم اس سلسلے میں کچھ کررہی ہے۔
کراچی کی گزشتہ پچاس سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ حقیقی معنوں میں اگر کسی جماعت نے کراچی کی خدمت کی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ کراچی میں میئر عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کا دور ایک شاندار دور تھا۔ نعمت صاحب جب میئر بنے تھے تو بلدیہ کراچی کا بجٹ 7 ارب روپے تھا اور نعمت صاحب نے میئر شپ چھوڑی تو بلدیہ کراچی کا بجٹ ٹیکس لگائے بغیر 42 ارب روپے تھا مگر بدقسمتی جماعت اسلامی کی قیادت نے بھی کراچی کے مقدمے کو اس طرح نہیں لڑا جس طرح لڑنے کا حق تھا۔ لیکن اس کمی کو حافظ نعیم الرحمن نے اس طرح پورا کیا کہ ساری شکایات دور ہوگئیں۔ حافظ نعیم نے کراچی کے لیے آواز اٹھانے کے عمل کو ایک باضابطہ اور مستقل مہم بنادیا۔ اس مہم نے لاکھوں لوگوں کو شعور دیا ہے اور اس مہم سے جماعت اسلامی کراچی کی واحد مقبول جماعت بن کر ابھری ہے۔ یہ مہم جماعت اسلامی کراچی کے لیے کتنی اہم ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ آج حافظ نعیم نہیں ہیں تو منعم ظفر اس مہم کی علامت بن کر ابھرے ہیں۔
کراچی کے سلسلے میں ناپاک پنجابیت بظاہر دور کی آواز محسوس ہوتی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جنرل باجوہ آرمی چیف کی حیثیت سے کراچی آئے تو کراچی کے صنعت کاروں اور تاجروں سے ان کی ملاقات ہوئی۔ صنعت کاروں اور تاجروں نے جنرل باجوہ سے کہا کہ کراچی میں دس دس بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ فراہمی و نکاسی آب کی صورت حال ابتر ہے۔ سرکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ آپ اس سلسلے میں کچھ کریں۔ بجائے اس کے کہ جنرل باجوہ مسائل کے حل کی یقین دہانی کراتے انہوں نے کہا تو یہ کہا کہ آپ پنجاب میں صنعتیں لگائیں اور کاروبار کریں وہاں آپ کو سب سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایسی پنجابیت نے کراچی کے ساتھ کیا نہیں کیا ہوگا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کا دارالحکومت جماعت اسلامی سندھ حکومت میں کراچی کررہے ہیں کراچی میں سلسلے میں مگر کراچی کراچی کے کراچی کا سے کراچی کراچی سے کہ کراچی ارب روپے کراچی کو کراچی کی نے کراچی یہ ہے کہ کراچی ا پانی پر ہوتی ہے اور اس کے لیے ہے مگر

پڑھیں:

پنجاب بجٹ میں عوام کیلئے کچھ بھی نہیں، یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے: جاوید قصوری

---فائل فوٹو 

جماعتِ اسلامی پنجاب کے امیر جاوید قصوری نے کہا ہے کہ پنجاب کے بجٹ میں عوام کے لیے کچھ بھی نہیں، یہ عوام کا نہیں آئی ایم ایف کا بجٹ ہے۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جاوید قصور ی نے کہا کہ پنجاب حکومت نے 803 ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے، بجٹ میں کیے گئے دعوے پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے۔

انہوں نے کہا کہ کسان کارڈ کے نام پر کسانوں کو دھوکا دیا جارہا ہے، گندم کے سیزن میں کسانوں کو 799 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

پنجاب اسمبلی نے 5300 ارب روپے سے زائد مالیت کے بجٹ کی منظوری دے دی

وزیر پارلیمانی امور میاں مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مثالی اور متوازن بجٹ پیش کیا ہے۔

جاوید قصوری کا کہنا ہے کہ وزراء کی کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی، ساری حکومت ٹک ٹاک بنانے میں مصروف ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جماعتِ اسلامی سودی معیشت کا خاتمہ چاہتی ہے کیونکہ اسی میں کامیابی ہے۔ 

متعلقہ مضامین

  • پنجاب بجٹ میں عوام کیلئے کچھ بھی نہیں، یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے: جاوید قصوری
  • غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت ایک عظیم انسانی المیہ ہے، سردار ایاز صادق
  • بجٹ: کراچی میں ایک ٹاؤن کا بارش اور وضو کے پانی کو قابل استعمال بنانے کیلیے اقدامات کا فیصلہ
  • کراچی: ڈیفنس میں 5 کروڑ روپے چوری کرنے کے الزام میں ملازمہ گرفتار
  • نیپرا نے کراچی سمیت ملک بھر کے بجلی صارفین کو خوشخبری سنا دی
  • بلدیہ عظمیٰ کا 55 ارب کا بجٹ پیش۔کراچی کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا،سیف الدین
  • کراچی؛ گرفتار کروڑ پتی ماسی کی مزید جائیداد سامنے آگئی، ملازم بھی گرفتار
  • کے ایم سی کا 55 ارب روپے کا بجٹ برائے 26-2025 منظور، ترقیاتی منصوبوں کے لیے کتنی رقم مختص؟
  • کراچی: 14 لاکھ روپے ڈکیتی کی واردات 24 گھنٹوں کے اندر حل