اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 جولائی2025ء) گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ مالی سال ہماری مہنگائی کی شرح 4.5 فیصد رہی جو کہ حکومت اور سٹیٹ بینک کے مقرر کردہ ہدف سے معمولی کم تھی۔ بدھ کو زری پالیسی کمیٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ترسیلات زر میں اضافے کے نتیجے میں ہی گزشتہ مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹس خسارہ جی ڈی پی کے مقابلے میں 4.

7 فیصد تھا، ہمارے اقدامات کے نتیجے میں 2023 میں یہ جی ڈی پی کے تقریباً ایک فیصد پر آگیا، 2024 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے مقابلے میں تقریباً نصف فیصد تھا اور گزشتہ مالی ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بجائے سرپلس پر ختم ہوا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ کرنٹ اکاؤنٹ 14 سال بعد سرپلس آیا ہے جوکہ پچھلے 22 سال کا بلندترین سرپلس ہے، اسی کی وجہ سے ہمارے بیرونی کھاتوں میں استحکام آیا ہے اور سٹیٹ بینک نے انٹربینک مارکیٹ میں سرگرمی کی اور زرمبادلہ کے ذخائر پر مثبت اثر آیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ گزشتہ سال ہم نے قرضوں کی تمام ادائیگیاں بروقت کیں اس کے باوجود ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ پچھلے سال کے 9.4 ارب ڈالر سے بڑھ کر اس 14.5 ارب ڈالر کے ہوگئے تھے اور اس میں ایک سال کے دوران تقریباً 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پچھلے سال ہم نے 26 ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں کرنی تھیں جن میں سے خاصی موخر ہوئیں، پھر بھی ہم نے تقریباً 10 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہمارے ذخائر میں 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور اسی کا ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ پر مثبت اثر پڑا۔

انہوں نے کہاکہ گزشتہ مالی سال زرعی شعبے کی نمو 0.6 فیصد خاصی کم رہی، رواں مالی سال میں زرعی شعبہ بہتر ہونے سے نمو بڑھے گی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قومی پیداوار کے صفر سے ایک فیصد رہے گا، بارشوں اور پانی کی دستیابی بہتر ہونے سے زرعی شعبہ بہتر کارکردگی دکھائے گا۔انہوں نے کہاکہ قرضوں کی ادائیگی کا دورانیہ بڑھا ہے، ہمارے زرمبادلہ ذخائر بڑھ رہے ہیں اور قرض برقرار ہے، ریٹنگ ایجنسیوں نے ہماری ریٹنگ بڑھائی ہے۔

زری پالیسی کمیٹی نے بدھ کو اجلاس میں پالیسی کی شرح 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی نے نوٹ کیا کہ جون 2025 ء میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر سال بسال 3.2 فیصد تک آ گئی، جس کی بنیادی وجہ غذائی قیمتوں میں کمی ہے، جبکہ مہنگائی میں بھی کچھ کمی آئی۔ تاہم، کمیٹی نے نوٹ کیا کہ توانائی کی قیمتوں، خاص طور پر گیس کے نرخوں میں توقع سے زیادہ ردوبدل سے مہنگائی کے منظرنامے میں کچھ بگاڑ آیا ہے۔

پھر بھی، توقع ہے کہ مستقبل میں مہنگائی ہدف کی حد میں آ کر مستحکم ہو جائے گی۔ مزید برآں، معاشی سرگرمیوں میں مزید تیزی آ رہی ہے جبکہ پالیسی ریٹ میں سابقہ کمی کے اثرات اب بھی سامنے آ رہے ہیں ۔ دریں اثنا ، کمیٹی نے توقع ظاہر کی کہ مالی سال 26ء میں تجارتی خسارہ مزید بڑھے گا، جس کی وجہ معاشی سرگرمی میں اضافہ اور عالمی تجارت میں سست روی ہے۔

اس میکرو اکنامک منظرنامے اور ابھرتے ہوئے خطرات کے پیش نظرزری پالیسی کمیٹی نے آج کے فیصلے کو قیمتوں کا استحکام یقینی بنانے کے لئے ضروری سمجھا۔ کمیٹی نے اپنے گذشتہ اجلاس کے بعد سے اب تک کی جو پیش رفت نوٹ کی وہ درج ذیل ہیں۔ سب سے پہلے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر مالی رقوم کی بہتر آمد اور کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہونے کی بدولت 14 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے۔

دوسرا، پاکستان کی ریاستی کریڈٹ ریٹنگ میں حالیہ بہتری یوروبانڈ کی یافت میں کمی اور بین الاقوامی مارکیٹوں میں سی ڈی ایس اسپریڈ میں کمی کا سبب بنی ۔ تیسرا، حالیہ سروے میں صارفین نے مہنگائی بڑھنے کی توقعات میں معمولی سا اضافہ ظاہر کیا جبکہ کاروباری اداروں نے مہنگائی میں کمی کی توقع ظاہر کی ۔ چوتھا، مالی سال 25 ء میں ایف بی آر کے ٹیکس محاصل 11.7 ٹریلین روپے رہے ، جو کہ نظرثانی شدہ تخمینے سے تقریباً 200 ارب روپے کم ہیں۔

آخر میں، تیل کی عالمی قیمتیں متغیر رہیں، جبکہ دھاتوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ اسی دوران، عالمی تجارت کے ٹیرف کے اثرات غیر یقینی رہے، جس کی وجہ سے مرکزی بینکوں نے محتاط زری پالیسی موقف برقرار رکھا۔ اس پیش رفت اور ممکنہ خطرات کے پیش نظر کمیٹی نے تجزیہ کیا کہ مہنگائی کو 5 – 7 فیصد کے ہدف کے اندر مستحکم کرنے کے لیے حقیقی پالیسی ریٹ کو مناسب طور پر مثبت رہنا چاہیے۔

کمیٹی نے معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے محتاط زری اور مالیاتی پالیسی کا امتزاج جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ نیز ، کمیٹی نے اپنی اس رائے کا اعادہ کیا کہ ساختی اصلاحات کے بغیر پائیدار بنیادوں پر بلند نمو حاصل کرنا مشکل ہوگا۔حالیہ بارشوں کی وجہ سے پانی کی بہتر دستیابی کے نتیجے میں اہم فصلوں کےامکانات سابقہ توقعات کے مقابلے میں کچھ بہتر ہوئے ہیں۔

اجناس پیدا کرنے والے شعبوں کے بہتر امکانات خدمات کے شعبے پر بھی مثبت اثرات مرتب کریں گے۔ مالی حالات میں بہتری ، مثبت کاروباری احساسات اور بتدریج مضبوط ہوتے کلّی معاشی حالات کے بل بوتے پر حقیقی جی ڈی پی کی نمو اس سال بڑھ کر 3.25 تا 4.25فیصد تک رہنے کی توقع ہے، جبکہ قبل ازیں مالی سال 25ء میں اس کے 2.7 فیصد تک رہنے کا عبوری تخمینہ لگایا گیا تھا۔

کرنٹ اکاؤنٹ جون میں328 ملین ڈالر سے سرپلس رہا ، جس سے مالی سال 25 ء میں مجموعی فاضل 2.1 ارب ڈالر (جی ڈی پی کا 0.5 فیصد) تک پہنچ گیا۔ کارکنوں کی ترسیلات زر اہم رہیں ، کیونکہ انہوں نے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کی بخوبی تلافی کر دی۔ فنانسنگ کے محاذ پر، تخمینہ شدہ سرکاری رقوم کی آمد کا ایک بڑا حصہ جون میں حاصل ہوا، جس سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر 14 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گئے۔

مالی سال 26 ءمیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے صفر تا ایک فیصد کی حد میں رہنے کی توقع ہے۔ فنانسنگ کے لحاظ سے ملک کی کریڈٹ ریٹنگ میں حالیہ بہتری کے بعد نجی رقوم کی آمد میں بہتری آنے کا امکان ہے۔ اس تجزیے کی بنیاد پر، اسٹیٹ بینک زرمبادلہ ذخائر دسمبر 2025 ء کے آخر تک بڑھ کر 15.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔حکومت کے نظرثانی شدہ تخمینے مالی سال 25ء کی مالی صورتِ حال میں بہتری کی نشاندہی کرتے ہیں، جس میں بنیادی اور مجموعی مالیاتی توازن (بطور جی ڈی پی کا فیصد) اپنے متعلقہ اہداف سے بڑھ گئے ۔

اس بہتر کارکردگی کی وجہ یہ تھی کہ ٹیکس اور نان ٹیکس محاصل دونوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔ تاہم، تقریباً 26 فیصد نمو حاصل ہونے کے باوجود، ایف بی آر محاصل کا نظرثانی شدہ ہدف تھوڑے سے فرق سے پورا نہ ہو سکا۔ مالی سال 26ء میں حکومت جی ڈی پی کے 2.4 فیصد بنیادی سرپلس کے ہدف کے ساتھ مزید مالیاتی یکجائی حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کا انحصار محاصل جمع کرنے کی مربوط کوششوں اور اخراجات میں کمی پر ہوگا۔

کمیٹی نے مالیاتی یکجائی کا سلسلہ جاری رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا تاکہ گذشتہ دو برسوں میں حاصل کردہ کُلّی معاشی فوائد کو برقرار رکھا جا سکے۔7۔ 11 جولائی تک زرِ وسیع (ایم 2) کی نمو بڑھ کر سال بسال 14.0 فیصد تک پہنچ گئی، جو زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے وقت 12.6 فیصد تھی۔ اس کی بنیادی وجہ بینکاری نظام کے خالص بیرونی اثاثوں (این ایف اے) میں اضافہ تھا، جو زرمبادلہ کے ذخائر کے بڑھنے کے باعث ممکن ہوا۔

اسی دوران، نجی شعبے کے قرضے کی شرح نمو بھی سال بسال بڑھ کر 12.8 فیصد ہو گئی، جسے مالی حالات میں نرمی اور معاشی سرگرمیوں میں بہتری سے تقویت ملی۔ بالخصوص، قرضوں میں اضافہ وسیع البنیاد تھا، جس میں جاری سرمائے کے قرضوں، معینہ سرمایہ کاری قرضوں اور صارفین کے قرضوں میں اضافہ شامل تھا۔ اہم قرض گیر شعبوں میں ٹیکسٹائل، ٹیلی مواصلات، اور تھوک اور خردہ تجارت شامل تھے۔

دریں اثنا، کرنسی اور ڈپازٹ کی شرح، جو جون میں کم ہوگئی تھی، اس میں جولائی کے دوران دوبارہ بڑھ گئی۔ نتیجتاً، اسٹیٹ بینک کو بین البینک شبینہ ریپو ریٹ کو پالیسی ریٹ سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے سیالیت کا ادخال بڑھانا پڑا، جس کی وجہ سے زرِ محفوظ کی نمو میں اضافہ ہوگیا۔جون 2025ء میں مہنگائی سال بہ سال 3.2 فیصد درج کی گئی، جو مئی میں 3.5 فیصد تھی۔

اس کمی کی بڑی وجہ غذائی قیمتوں میں اعتدال اور قوزی مہنگائی میں معمولی سی کمی ہونا ہے، جو 7.6 فیصد رہ گئی۔ مزید برآں، موٹر ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باوجود توانائی کی قیمتیں سال بہ سال بنیاد پر پست رہیں۔ آگے چل کر، گیس کے نرخوں میں نمایاں اضافے، بجلی کے نرخوں میں عارضی کمی کا سلسلہ ختم ہونے (مالی سال 2025ء کی چوتھی سہ ماہی سے)، اور موٹر ایندھن کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے باعث توانائی کی مہنگائی موجودہ سطح سے بڑھنے کی توقع ہے۔

زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیاکہ مالی سال 26ء کے بیشتر حصے میں مہنگائی 5 سے 7 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے، تاہم بعض مہینوں میں یہ اپنی بالائی حد سے تجاوز کرسکتی ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ مذکورہ منظرنامے کو متعدد خطرات درپیش ہیں، جن میں اجناس کی عالمی قیمتوں اور تجارتی رجحانات کی غیر یقینی صورتِ حال، توانائی کے سرکاری نرخوں میں غیر متوقع ردّوبدل، اور وسیع پیمانے پر سیلاب کے امکانات شامل ہیں۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے زری پالیسی کمیٹی نے زرمبادلہ ذخائر انہوں نے کہاکہ برقرار رکھنے کے نرخوں میں کرنٹ اکاؤنٹ میں مہنگائی ارب ڈالر سے جی ڈی پی کے اسٹیٹ بینک گزشتہ مالی قیمتوں میں کی توقع ہے کے باوجود میں اضافہ اضافہ ہوا سٹیٹ بینک میں بہتری کی وجہ سے مالی سال فیصد پر فیصد تک کی نمو کیا کہ کی شرح بڑھ کر آیا ہے

پڑھیں:

اگست میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 3 فیصداضافہ

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 ستمبر ۔2025 )اگست میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 3 فیصد تک بڑھنے کے بعد پاکستان میں ستمبر کے دوران ہیڈ لائن افراطِ زر میں نمایاں اضافہ متوقع ہے، جو حالیہ سیلاب کے باعث خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں 6.5 فیصد تک پہنچ سکتی ہے یہ بات بروکریج ہاﺅس ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے اپنی رپورٹ میں بتائی ہے.

رپورٹ کے مطابق پاکستان کا کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) ستمبر 2025 میں 6.5 سے 7 فیصد سالانہ رہنے کی توقع ہے، جو اگست 2025 میں 3 فیصد اور ستمبر 2024 میں 6.93 فیصد تھا ماہانہ بنیاد پر ستمبر کے لیے مہنگائی کا تخمینہ 3.1 فیصد ہے، جو گزشتہ 26 ماہ میں سب سے زیادہ اضافہ ہوگا.

(جاری ہے)

رپورٹ میں کہا گیا کہ سالانہ افراطِ زر کی شرح 11 ماہ کی بلند ترین سطح پر ہوگی جبکہ خوراک کی قیمتوں میں متوقع 8.75 فیصد اضافہ اب تک کا سب سے زیادہ ماہانہ اضافہ ہو سکتا ہے ٹاپ لائن کے مطابق خوراک کی مہنگائی میں یہ اضافہ ملک میں جاری شدید سیلاب کے سپلائی سائیڈ اثرات کا نتیجہ ہے حالیہ بارشوں اور طوفانی مون سون نے خاص طور پر پنجاب کے گنجان آباد علاقوں کو شدید متاثر کیا ہے گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ کو 11 فیصد پر برقرار رکھا اور حالیہ سیلاب کو قلیل مدتی معاشی منظرنامے کے لیے خطرہ قرار دیا.

اہم اشیائے خور و نوش میں نمایاں اضافہ یہ رہا جن میںٹماٹر (122 فیصد)، گندم (49 فیصد)، آٹا (39 فیصد) اور پیاز (35 فیصد) آلو 5.4 فیصد، چاول 4.3 فیصد، مرغی 4.1 فیصد، انڈے 3.5 فیصد اور چینی کی قیمتیں2.7 فیصد بڑھیں پھلوں کی قیمتیں تقریباً مستحکم رہیں جبکہ سبزیوں کی قیمتوں میں تقریباً 10 فیصد کمی ہوئی. رپورٹ کے مطابق بجلی کے نرخوں میں کمی کے باعث رہائش، پانی، بجلی اور گیس کی کیٹیگری میںمحض 0.24 فیصد کمی متوقع ہے تاہم ایل پی جی کی 2.75 فیصد مہنگائی نے اس کمی کو جزوی طور پر زائل کردیا ٹاپ لائن کا کہنا ہے کہ ستمبر کے لیے 6.5–7 فیصد افراطِ زر کے تخمینے کے ساتھ حقیقی شرح سود 400–450 بیسس پوائنٹس تک پہنچ جائے گی، جو پاکستان کی تاریخی اوسط (200–300 بیسس پوائنٹس) سے کہیں زیادہ ہے مزید یہ کہ عالمی اجناس کی قیمتوں میں اچانک تبدیلی مستقبل میں مہنگائی کے رجحان کو تبدیل کر سکتی ہے. 

متعلقہ مضامین

  • اگست میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 3 فیصداضافہ
  • اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان برقرار، انڈیکس میں 200 پوائنٹس سے زائد اضافہ
  • پالیسی ریٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ کاروباری ماحول کو متاثر کرے گا،فیصل معیز خان
  • شرح سود 11فیصد برقراررکھنے پر صنعت کاروں کا مایوسی کا اظہار
  • شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا مانیٹری پالیسی کا غلط فیصلہ ہے‘ گوہر اعجاز
  • سیلاب مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ‘ سٹیٹ بنک : شرح سود 11فیصدبرقرار
  •  صنعتکاروں کی پالیسی ریٹ 11فیصد برقرار رکھنے پر کڑی تنقید
  • اسٹیٹ بینک کا شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ
  • نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ
  • نئی مانیٹری پالیسی جاری، شرح سود 11 فیصد کی سطح پر برقرار