ریاستی وظائف، سرکاری ملازمت سے فائدہ اٹھانے والا دہشت گردی نیٹ ورکس کو سہولت دے تو یہ مظلوم یا دانشور کیسے ہو سکتا ہے‘ سکیورٹی ذرائع
اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT
اسلام آباد(خبر نگار خصوصی )سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عثمان قاضی جس کو ایک معزز تعلیمی شخصیت اور دانشور کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے وہ دہشتگردوں کا سہولت کار نکلا سکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیا ہے عثمان قاضی (عرف امیر) محض یونیورسٹی پروفیسر نہیں بلکہ کالعدم تنظیم بی ایل اے اور اس کے خودکش ونگ، مجید بریگیڈ کے کلیدی کارندے اور ہینڈلر تھے۔ ذرائع کے مطابق عثمان قاضی BUITEMS یونیورسٹی کے پلیٹ فارم کو نوجوان طلبہ کو انتہاپسندی کی طرف مائل کرنے اور بھرتی کرنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ افسوسناک بات یہ ہے یونیورسٹی کا کلاس روم صرف تعلیم کے لیے نہیں بلکہ دہشت گرد نظریات پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہا تھا۔ اس کے باوجود عثمان قاضی نے اپنی ساری تعلیم ریاست کے خرچ پر مکمل کی۔ سرکاری سکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کی، QAU سے پی ایچ ڈی کی، اور گریڈ 19 کا سرکاری عہدہ حاصل کیا۔ ان کی اہلیہ بھی گریڈ 17 کی سرکاری ملازم ہیں۔ وہ اور ان کا خاندان مکمل طور پر ریاستی سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس کے باوجود عثمان قاضی نے ریاست سے غداری کی۔ وہ دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مل گئے، حملوں کو سہولت دی، اور ایسے نیٹ ورکس کی پشت پناہی کی جنہوں نے بے گناہ لوگوں سمیت سکیورٹی فورسز کو نقصان پہنچایا۔وہ بی ایل اے کمانڈرز بشیر زیب، رحمان گل اور ڈاکٹر ہیبتان بلوچ کے احکامات پر کام کرتا رہا۔ ذرائع کے مطابق یہ ثابت ہو چکا ہے اس نے دہشت گرد بابر رفیق کو 9 نومبر 2024 کو کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خودکش حملے کے لیے بھیجا جس میں 32 عام شہری اور 22 سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے جبکہ 55 سے زائد زخمی ہوئے۔ وہ 14 اگست کو کوئٹہ میں ایک اور حملے کی تیاری کر رہا تھا تاکہ دہشت گرد شیر دل (بہاؤالدین مری) کو پناہ دے سکے اور فورسز کی کارروائیوں سے بچا سکے۔ اب سوشل میڈیا پر بی ایل اے سے وابستہ گروہ اس کو "عوام کی فکری آواز" کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے یہ نہ تو کوئی غلط فہمی ہے اور نہ ہی کسی اور کی شناخت کو اس کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ بلکہ یہ بیانیہ وار فیئر ہے تاکہ ایک انتہاپسند کو علمی لبادہ پہنا کر بچایا جا سکے۔ یہاں چند سوالات بہت اہم ہیں۔ اگر ایک شخص جس نے مکمل طور پر ریاستی وظائف، سکالرشپس اور سرکاری ملازمت سے فائدہ اٹھایا ہو، پھر بھی دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو سہولت دیتا ہے تو ایسے شخص کو مظلوم یا دانشور کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے۔ صحافیوں اور دانشوروں سے سوال ہے جب ایسے افراد کے حق میں لکھتے یا بولتے ہیں، تو کیا آپ کو یہ احساس نہیں ہوتا آپ ایک ایسے نیٹ ورک کو تقویت دے رہے ہیں جس نے درجنوں بے گناہوں کو شہید کیا ہو یہ دراصل "بیانیہ کی جنگ" ہے جس میں دہشت گردی کو نظریاتی جدوجہد کا نام دیا جا رہا ہے؟ اگر جواب ہاں ہے تو پھر آپ کس کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں؟ اگر کوئی شخص ریاست کے پیسوں پر تعلیم حاصل کرے، سرکاری عہدے پر فائز ہو اور پھر انہی وسائل کے خلاف بغاوت کرے تو کیا یہ صریحاً ریاستی دھوکہ دہی اور غداری نہیں؟ میڈیا اور سوشل میڈیا کے کردار کے حوالے سے بھی سوال بنتا ہے میڈیا پر ایسے افراد کو "فکری رہنما" یا "ریاستی جبر کا شکار" دکھانا عوام کو گمراہ کرنے اور دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے کے مترادف نہیں؟
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایوان میں چوہا گھوم رہا ہے: کامران مرتضیٰ
—فائل فوٹوسینیٹ اجلاس کے دوران ا یوان میں چوہا نکل آیا۔ جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے چوہا نکل آنے پر پوائنٹ آؤٹ کیا۔
اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایوان میں چوہا گھوم رہا ہے۔
جس پر پریزائیڈنگ افسر دنیش کمار نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ یہ چوہا ہے یا چوہیا ہے جس پر خوب قہقہے لگ گئے۔
اپوزیشن نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کی منظوری کے خلاف احتجاج کیا۔
اس موقع پر سینیٹر طلال چوہدری نے کہا کہ ایوان کا ماحول کتنا خوشگوار ہے۔
واضح رہے کہ سینیٹ میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل منظور کر لیا گیا ہے۔ بل وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے ایوان میں پیش کیا۔
اپوزیشن نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کی منظوری کے خلاف احتجاج کیا۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ کی انسداد دہشت گردی ترمیمی بل میں ترمیم مسترد کر دی گئی۔