اسلام آباد:

اسٹیٹ بینک نے مناسب ریگولیٹری اور لائسنسنگ فریم ورک تیار ہونے تک ڈیجیٹل (کرپٹو) کرنسیوں کو قانونی قرار دینے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان ورچوئل ایسٹس ریگولیٹری اتھارٹی کے بورڈ کا پہلا اجلاس وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے بلاک چین اینڈ کرپٹو بلال بن ثاقب کی صدارت میں ہوا۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے خصوصی طورپر شرکت کی۔ اجلاس میں شریک حکام کے مطابق اجلاس میں ڈیجیٹل کرنسیوں کو فوری طور پر قانونی قرار دینے اور ڈیجیٹل کرنسی میں لین دین کی ممانعت سے متعلق اسٹیٹ بینک کا سرکلر واپس لینے پر غور کیا گیا تاہم اسٹیٹ بینک نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے ممانعت کا سرکلر قبل از وقت واپس لینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا جب تک مناسب ریگولیٹری اور لائسنسنگ فریم ورک قائم نہیں ہو جاتا اس وقت تک ڈیجیٹل کرنسی میں لین کی اجازت دینے سے سنجیدہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

عبوری قانون سازی کے تحت ورچوئل ایسٹ سروسز کیلیے ورچوئل ایسٹ اتھارٹی کا لائسنس ضروری ہے۔ اجلاس میں موجود بعض شرکا کا کہنا تھا کہ موثر ریگولیٹری اور لائسنسنگ رجیم کیلیے مزید 6 سے 8 ماہ لگ سکتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے 2018 کے جاری سرکلر میں تمام مالیاتی اداروں کو ورچوئل کرنسیوں اور ٹوکنز میں لین دین سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ان ہدایات میں نہ صرف کرپٹو کرنسیز کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے بلکہ مالیاتی اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایسی تمام ٹرانزیکشنز کومشتبہ قرار دیتے ہوئے فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ کو رپورٹ کریں۔

غیرقانونی قرار دی جانیوالی ورچوئل کرنسیوں میں بٹ کوائن، لائٹ کوائن، پاک کوائن، ون کوائن، ڈاس کوائن، پے ڈائمنڈ اور انیشیئل کوئن آفرنگ ٹوکن شامل ہیں۔

واضح رہے کہ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب گزشتہ ہفتے خبردار کرچکے ہیں کہ بے قاعدہ ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کی وجہ سے پاکستان کو دوبارہ فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل کئے جانے کا خدشہ ہے۔

وزارت خزانہ کے ہینڈ آؤٹ کے مطابق پاکستان ورچوئل ایسٹس ریگولیٹری اتھارٹی کے بورڈ کے پہلے اجلاس میں بورڈ نے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی(NCCIA) کے تعاون سے ایک کمپلینٹ پورٹل قائم کرنے کی منظوری دی، تاکہ ورچوئل اثاثہ جات سے متعلق مسائل اور شکایات کا بروقت ازالہ کیا جا سکے۔

بورڈ نے اتھارٹی کو بین الاقوامی اینٹی منی لانڈرنگ اینڈ کاؤنٹر فنانسنگ آف ٹیررازم کے معیارات سے ہم آہنگ بنانے اور اتھارٹی کے بنیادی فریم ورک کی تیاری کیلئے خودمختار اور ورچوئل اثاثہ جات کے ماہرین کو بورڈ میں شامل کرنے پر غور کیا۔

بورڈ نے سینڈ باکس تجربات، ٹیکسیشن پالیسی، ریگولیٹری ڈرافٹنگ اور بین الاقوامی تعلقات کیلئے کمیٹیاں تشکیل دینے پر اتفاق کیا۔ مجوزہ لائسنسنگ فریم ورک کا مسودہ مشاورت کیلئے بورڈ ارکان کو پیش کیا گیا جسے آٓنیوالے دنوں میں حتمی شکل دی جائیگی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ چھ ماہ تک اتھارٹی کا ہر مہینے دو بار اجلا س بلایا جائیگا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے اتھارٹی کے قیام کو پاکستان کی اقتصادی ترقی میں ایک اہم سنگ میل اور عالمی ورچوئل اثاثہ جات کی معیشت میں پاکستان کی قیادت کیلئے کلیدی قرار دیا۔

بلال بن ثاقب نے کہا کہ اتھارٹی مالی سالمیت کو برقرار رکھتے ہوئے ورچوئل اثاثہ جات کے شعبے میں جدت، سرمایہ کاری اور مواقع کو فروغ دے گی۔ ہمارا مقصد ملکی سطح پر اعتماد پیدا کرنا اور پاکستان کو عالمی سطح پر ورچوئل ایسٹس اکانومی میں ایک پیش رو ملک کے طور پر مستحکم کرنا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ورچوئل اثاثہ جات اسٹیٹ بینک اتھارٹی کے اجلاس میں کیا گیا

پڑھیں:

شرح سود 11فیصد برقراررکھنے پر صنعت کاروں کا مایوسی کا اظہار

کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 ستمبر ۔2025 ) اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود 11فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر صنعت کاروں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے ایف پی سی سی آئی کے سینئیر نائب صدر ثاقب فیاض کا کہنا ہے فیصلے سے پیداواری لاگت بڑھے گی اور برآمدات میں کمی ہوگی. کراچی چیمبر کے صدر جاوید بلوانی کے مطابق حکومت نے بارہا شرح سود میں کمی کے وعدے کیے مگر عملی اقدامات سامنے نہیں آئے انہوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی کی توقعات پر حالیہ سیلاب نے پانی پھیر دیا ہے ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر امام پراچہ نے کہا کہ مہنگائی کے تناسب سے شرح سود میں کمی کی گنجائش موجود ہے اور اسے سنگل ڈیجٹ میں لایا جانا چاہیے.

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ خطے میں پاکستان کا شرح سود سب سے زیادہ ہے جس سے کاروبار متاثر ہورہا ہے نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے چیئرمین نے تجویز دی کہ امریکا سے ٹیرف میں کمی کے ثمرات کاروباروں کو شرح سود میں کمی کے ذریعے منتقل کیے جاسکتے ہیں فیصل معیز خان کے مطابق ملک میں کوسٹ آف ڈوئنگ بزنس بہت زیادہ ہے اور اگر شرح سود میں کمی کی جائے تو پاکستانی برآمدکنندگان خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں فائدہ حاصل کرسکتے ہیں.

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک کو شرح سود میں کمی کا وعدہ پورا کرنا ہوگا تاکہ ملکی ایکسپورٹ بڑھ سکے ادھر ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سروے میں 72 فیصد مارکیٹ شرکا نے بھی یہی توقع ظاہر کی ہے کہ اس اجلاس میں پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور اس کی بڑی وجہ حالیہ تباہ کن سیلاب ہے. واضح رہے کہ گزشتہ روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کی زیر صدارت مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں ملکی اور غیر ملکی معاشی صورت حال کا جائزہ لیا گیا.

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ملک میں موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے، سیلاب کے باعث زرعی صورتحال کو نقصان پہنچاہے، فصلیں تباہی ہوئی ہیں اقتصادی ماہرین کے مطابق سیلاب سے زرعی شعبے کو نقصان پہنچا، کئی فصلیں تباہ ہوگئیں، ملکی طلب پوری کرنے کے لیے کچھ اجناس درآمد کرنا پڑ سکتی ہیں، جس سے نہ صرف درامدی بل بڑھت گا بلکہ مہنگائی میں بھی اضافے کا خدشہ ہے اسی صورت حال کے پیش نظر اسٹیٹ بینک نے آئندہ 2 ماہ کے لیے بنیادی شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھا ہے اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ مسلسل تیسری بار برقرار رکھا ہے ایک سروے رپورٹ میں 92 فیصد نے رائے دی تھی کہ شرح سود مستحکم رہے گی. 

متعلقہ مضامین

  • ایک سال میں بینکوں کے ڈپازٹس 3685 ارب روپے بڑھے گئے
  • اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے گورنر کی تنخواہ مقرر کرنے کا اختیار واپس لینے کی تیاری
  • شرح سود 11فیصد برقراررکھنے پر صنعت کاروں کا مایوسی کا اظہار
  • پاکستان کا کرپٹو کرنسی میں ابھرتا ہوا عالمی مقام، بھارتی ماہرین بھی معترف
  • سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک
  • اسٹیٹ بینک کے فیصلے پر صدر ایف پی سی سی آئی کا شدید ردعمل
  • بھارت سے میچ کے دوران تنازع، ردعمل دینے میں تاخیر پر ڈائریکٹر پی سی بی معطل
  • اسٹیٹ بینک کا شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ
  • نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ
  • نئی مانیٹری پالیسی جاری، شرح سود 11 فیصد کی سطح پر برقرار