Express News:
2025-11-02@21:04:21 GMT

سیلاب

اشاعت کی تاریخ: 31st, August 2025 GMT

اس بات کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا یہ خطہ ایک بہت بڑی ماحولیاتی تبدیلی سے دوچار ہے۔ ہندوستان، پاکستان ، بنگلہ دیش، افغانستان اور چین ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے زیرِ اثر ہیں اور ہم سب ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں۔ چین کی دسترس ہندوستان کے پانی پر ہے، ہندوستان کا کنٹرول ہمارے اور بنگلہ دیش کے پانی پر ہے۔

افغانستان سے بھی پانی پاکستان آتا ہے، وہاں بھی ماحولیاتی تباہی عروج پر ہے۔ دنیا کی مجموعی آبادی میں سے چالیس فیصد سے زائد آبادی ان ممالک میں آباد ہے اور ان میں سے تین ملک ایسے ہیں جن کا وجود اٹھہتر سال قبل ایک تھا۔ یہ جدا ہو کر پہلے دو پھر یہ تین ممالک بنے۔

اس وقت ہمارا ملک شدید سیلابوں کی زد میں ہے اور اس پر ہندوستان کی ہٹ دھرمی یہ ہے کہ پاکستان کی طرف پانی چھوڑنے سے قبل سندھ طاس معاہدے کے تحت کوئی اطلاع نہ دی بلکہ سفارتی دی ہے، جو سندھ طاس معاہدے کے یک طرفہ طور پر معطل ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ جو پانی کی تقسیم کے حوالے سے دنیا کا بہترین معاہدہ سمجھا جاتا ہے، دو ممالک کے درمیان اس معاہدے کے پیشِ نظر ایک مکینزم ہے، ایک کمیشن کا وجود ہے جس کے ذریعے ایک ثالث یعنی ورلڈ بینک کو بٹھا کر افہام و تفہیم کی بات کی جا سکتی تھی، ہندوستان نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمیں پیشگی اطلاع ، سندھ طاس معاہدے کے تحت نہیں دی بلکہ اپنے سفارتی ذرائع کا استعمال کیا جو خبر ہم تک بہت دیر سے پہنچی۔

ایک طرف ہندوستان نے پانی چھوڑا اور دوسری طرف بارش کا ایک بہت بڑا اسپیل آیا۔ تین سو سے چار سو ملی میٹر تک بارش لگا تار برستی رہی۔ لگ بھگ نصف پنجاب پانی میں ڈوب گیا،کروڑوں لوگ متاثر ہوئے۔ چھوٹے بڑے شہر اورگاؤں ڈوب گئے۔

لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے۔ لوگوں کے مال مویشی پانی میں بہہ گئے۔ میری سمجھ یہ کہتی ہے کہ ہندوستان نے ایسا جان بوجھ کرکیا ہے۔ ماضی میں بھی ہندوستان کا رویہ پاکستان کے ساتھ ایسا ہی رہا ہے، مگر اس دفعہ کا یہ عمل انتہائی خود غرضی کا تھا جب ہم خود سیلابوں اور بارشوں کی تباہ کاریوں سے گزر رہے تھے۔ ہندوستان میں بنے تین دریائوں پر ڈیم ہمارے خلاف ہتھیارکے طور پر استعمال ہوئے۔

تین دریا اس وقت اپنی گہرائی سے زیادہ بھرگئے ہیں۔ اتنا طاقتور بہاؤ بیراجوں سے گزر نہیں سکتا کیوں کہ یہ بیراج کو نقصان پہنچا سکتا ہے، لٰہذا بیراجوں کو بچانے کے لیے بہت سی جگہوں پر شگاف ڈالے جا رہے ہیں۔ مسئلہ یہاں یہ ہے کہ جو فطری برساتی نالے سیکڑوں برس سے چلے آرہے تھے، وہاں ہاؤسنگ سوسائیٹز بن گئی ہیں۔ دریائے راوی کے لیے یہ کہا جا رہا تھا کہ راوی ختم ہو چکا ہے اور اس کے اوپرآبادیاں قائم کرنے کا سلسلہ جاری تھا، جن کی تشہیر بھی زور شور سے جاری ہے۔

اس دفعہ گلگت ، بلتستان میں شدید گرمی بھی پڑی اور تباہ کن بارشیں بھی ہوئیں اور پھر وہاں گلیشیئر پگھلنے کی خبریں بھی آئیں۔ بادل پھٹنے (Cloud Burst) ہونے کی اطلاعات بھی ملیں، جیسا کہ ہم پہلے سنتے تھے کہ بجلی گری۔ آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کے نان پشتو علاقوں خصوصاً چترال، کوہستان، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور ہر ی پور میں بھی طوفانی بارشیں ہوئیں جب کہ کے پی کے پشتو بولنے والے اضلاع جن میں مہمند، باجوڑ، دیر اور بونیر وغیرہ میں بھی شدید بارشیں ہوئی ہیں۔

یقیناً اب ہم ایک مختلف دور میں داخل ہوچکے ہیں کہ جہاں سردیاں بہت شدید ہوںگی اور اسی طرح گرمیاں بھی، بارشیں بھی شدید ہوںگی، پھر ایک طویل زمانہ گزرے گا، خشک سالی کے ساتھ۔ پھر شاید اگلے بیس سالوں میں گلیشیئر بھی برائے نام رہ جائیں گے۔ سندھ بھی متاثر ہوگا، کراچی آلودہ ہوچکا ہے ، آبادی کا دباؤ شہر کی گنجائش سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے ، جتنی بارش پنجاب کے شہروں میں ہوئی ، اتنی بارش اگر کراچی میں ہوتی تو کیا المیہ ہوتا، اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ادھرسمندر ٹھٹھہ اور بدین کی زمینوں کو نگل رہا ہے۔ ہر سال کئی فٹ تک اندر داخل ہو رہا ہے۔ انڈس ڈیلٹا تباہ ہو چکا ہے اور ہمارا بیانیہ یکساں نہیں۔ سندھ کا بیانیہ الگ ہے، پنجاب کا الگ اور خیبر پختونخوا میں پشتو بیلٹ کی نمائندگی کرنے والی قوم پرست جماعتوں کا جدا بیانہ۔ حقیقت کہیں دفن ہو چکی ہے۔ ابھی مون سون تھما نہیں ہے۔ ہماری معیشت کا پچیس فیصد زراعت پر منحصر ہے اور روزگار کے حوالے سے پچاس فیصد لوگ زراعت سے وابستہ ہیں۔ ہماری زراعت، ہندوستان کے مقابلے میں ماڈرن نہیں۔ ہمارے پنجاب کی زراعت سے فی ایکڑ زراعت ہندوستان کے پنجاب کی بہتر ہے۔

پانی کی تقسیم کے حوالے سے سب ہمسایہ ممالک میں تعاون کا ہونا بہت ضروری ہے۔ نہ صرف پانی بلکہ اور شعبوں میں بھی ان ممالک کا آپسی تعاون ان چاروں ممالک کی ترقی کے لیے بہترین مواقعے پیدا کرسکتا ہے۔ اسی ایجنڈے پر چینی وزیرِ خارجہ نے بات کی جب انھوں نے ہندوستان میں کچھ وقت گزارنے کو بعد پاکستان کا حال ہی میں دورہ کیا۔

چین اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ امریکا یا امریکی انتظامیہ ایسے دیرینہ تنازعات سے مستفیض ہوتی ہے جو اس خطے میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہیں جیسا کہ تنازعہ کشمیر۔ کلدیپ نیر لکھتے ہیں کہ کس طرح ان دونوں ممالک کے درمیان تضادات ان دو ممالک کے شہریوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس خطے میں چین جیسے جیسے اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے وہ ان دو ممالک کے درمیان صلح کے لیے کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنا۔ یہی کردار چین نے سعودی عرب اور ایران کے تنازعات کو کم کرنے کے لیے بھی نبھانے کی کوشش کی کہ کسی طرح ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہو جائے۔ چین کی ان کاوشوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ ایک عرصے بعد بیجنگ میں ٹیبل ٹاکس کے لیے بیٹھے۔

ہمارا آبپاشی کا نظام انگریزوں نے بنایا۔ پنجاب میں اس سسٹم کو مزید ماڈریٹ کیا گیا لیکن سندھ کا آبپاشی نظام زبوں حالی کا شکار ہے۔ کے پی اور بلوچستان میں سسٹم کی بات ہی کیا کرنی ہے۔وہاں کی صوبائی حکومتیں صرف بیانات پر زندہ رہتی ہیں۔ سندھ میں ایک عرصے سے سکھر بیراج کے دو دروازے خراب تھے لیکن ان پرکوئی توجہ نہیں دی گئی، وہ اب تک اسی حالت میں ہیں اور جو دروازے نئے بنائے گئے ہیں وہ درست نہیں بنائے گئے جس کی وجہ سے سو سالہ سکھر بیراج کے اسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔

1922 میں سکھر بیراج کے پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔ سر جیمز اس پراجیکٹ کے انچارج تھے۔ اس پراجیکٹ کا کام 1932 میں مکمل ہوا اور اس کی عمر تھی پچاس سال۔ یعنی 1982 میں یہ پراجیکٹ اپنی مدت پوری کرچکا ہے۔ کیا کہا جائے اگر یہ کوئی معجزہ ہے؟ 2019  اور2020  جو سیلاب آئے تو سکھر بیراج کو بچانے کے لیے گدو بیراج میں شگاف ڈالے گئے، جس کے نتیجے میں دائیں طرف کا حصہ جس کو ہم رائٹ بینک کہتے ہیں ڈوب گیا۔

وہاں تمام زمینیں اور شہر ڈوب گئے۔ اس دفعہ حالات مزید خراب ہیں۔ پہلے سکھر بیراج کو بچانے کے لیے اگر شگاف ڈالنے کے بعد بھی لگ بھگ گیارہ لاکھ کیوسک کا بہاؤ تھا اور اب اس سے بھی بڑا ہوگا جو سکھر بیراج کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سکھر بیراج اپنی مدت مکمل کرچکا ہے اور پھر بری حکمرانی نے اس کو مزید نقصان پہنچایا ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائے۔

ہم نے اپنے دریاؤں ستلج ، راوی اور بیاس کے بدلے ورلڈ بینک سے تربیلا ڈیم لیا، وہ بھی اپنی مدت پوری کرچکا ہے۔ جب یہ نہ تھا تو لاکھوں ٹن سلٹ آتی تھی، انڈس ڈیلٹا تک۔ بس اسی وجہ سے فطری طور پر سمندر اندر داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ سیکڑوں میل تک جنگلات تھے جن کا وجود اب نہیں رہا۔ یہ سب ماحولیاتی تباہی ہے۔ سطح سمندر کا بڑھنا، سیلابوں کا آنا، طوفان و بارشیں،گلیشیئرز کا پگھلنا اور اگر یہ تباہی ایسے ہی جاری رہی تو آنے والے پندرہ سالوں میں ہم کہاں ہونگے؟
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ممالک کے درمیان اس معاہدے کے سکھر بیراج بیراج کو میں بھی سکتا ہے اور اس رہا ہے ہے اور کے لیے

پڑھیں:

سیلاب سے متاثرہ خاندانوں میں چیک کی تقسیم کی تقریب کا انعقاد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کندھکوٹ(نمائندہ جسارت)حکومت سندھ کے اعلان کے مطابق کندھکوٹ میں ڈپٹی کمشنر کشمور آغا شیر زمان اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سید غضنفر علی شاہ نے ضلع کشمور میں سال 2025 میں سیلاب اور بارشوں کے باعث جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثاء میں سندھ حکومت کی جانب سے امدادی چیک تقسیم کیے۔ ڈپٹی کمشنر کشمور نے متوفی کے ورثاء میں 20 لاکھ روپے فی کس کے چیک تقسیم کئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں مائی بے نظیر، گل خان اور علی محمد شامل ہیں۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ سندھ حکومت نے سیلاب اور بارشوں سے جاں بحق ہونے والے افراد میں 20 لاکھ روپے فی کس تقسیم کرنے کا سلسلہ جاری کیا ہے تاکہ سیلاب اور بارشوں کے دوران جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء کو مالی امداد فراہم کی جا سکے۔

نمائندہ جسارت گلزار

متعلقہ مضامین

  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • تاریخ کی نئی سمت
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • فلسطین کے حق میں کیے گئے معاہدے دراصل سازش ثابت ہو رہے ہیں، ایاز موتی والا
  • دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا
  • بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو لیکر اسلامی تعاون تنظیم کے ریمارکس کو مسترد کر دیا
  • سیلاب سے متاثرہ 1 لاکھ 89 ہزار افراد کے بینک اکاؤنٹس کھل چکے ہیں: عرفان علی کاٹھیا
  • سیلاب بحالی پروگرام کے تحت 6 ارب 39 کروڑ تقسیم، امن و امان کی صورتحال کنٹرول میں، انتشار کی اجازت نہیں دی جائے گی: مریم نواز
  • سیلاب سے متاثرہ خاندانوں میں چیک کی تقسیم کی تقریب کا انعقاد