Express News:
2025-09-17@23:50:31 GMT

سیلاب

اشاعت کی تاریخ: 31st, August 2025 GMT

اس بات کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا یہ خطہ ایک بہت بڑی ماحولیاتی تبدیلی سے دوچار ہے۔ ہندوستان، پاکستان ، بنگلہ دیش، افغانستان اور چین ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے زیرِ اثر ہیں اور ہم سب ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں۔ چین کی دسترس ہندوستان کے پانی پر ہے، ہندوستان کا کنٹرول ہمارے اور بنگلہ دیش کے پانی پر ہے۔

افغانستان سے بھی پانی پاکستان آتا ہے، وہاں بھی ماحولیاتی تباہی عروج پر ہے۔ دنیا کی مجموعی آبادی میں سے چالیس فیصد سے زائد آبادی ان ممالک میں آباد ہے اور ان میں سے تین ملک ایسے ہیں جن کا وجود اٹھہتر سال قبل ایک تھا۔ یہ جدا ہو کر پہلے دو پھر یہ تین ممالک بنے۔

اس وقت ہمارا ملک شدید سیلابوں کی زد میں ہے اور اس پر ہندوستان کی ہٹ دھرمی یہ ہے کہ پاکستان کی طرف پانی چھوڑنے سے قبل سندھ طاس معاہدے کے تحت کوئی اطلاع نہ دی بلکہ سفارتی دی ہے، جو سندھ طاس معاہدے کے یک طرفہ طور پر معطل ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ جو پانی کی تقسیم کے حوالے سے دنیا کا بہترین معاہدہ سمجھا جاتا ہے، دو ممالک کے درمیان اس معاہدے کے پیشِ نظر ایک مکینزم ہے، ایک کمیشن کا وجود ہے جس کے ذریعے ایک ثالث یعنی ورلڈ بینک کو بٹھا کر افہام و تفہیم کی بات کی جا سکتی تھی، ہندوستان نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمیں پیشگی اطلاع ، سندھ طاس معاہدے کے تحت نہیں دی بلکہ اپنے سفارتی ذرائع کا استعمال کیا جو خبر ہم تک بہت دیر سے پہنچی۔

ایک طرف ہندوستان نے پانی چھوڑا اور دوسری طرف بارش کا ایک بہت بڑا اسپیل آیا۔ تین سو سے چار سو ملی میٹر تک بارش لگا تار برستی رہی۔ لگ بھگ نصف پنجاب پانی میں ڈوب گیا،کروڑوں لوگ متاثر ہوئے۔ چھوٹے بڑے شہر اورگاؤں ڈوب گئے۔

لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے۔ لوگوں کے مال مویشی پانی میں بہہ گئے۔ میری سمجھ یہ کہتی ہے کہ ہندوستان نے ایسا جان بوجھ کرکیا ہے۔ ماضی میں بھی ہندوستان کا رویہ پاکستان کے ساتھ ایسا ہی رہا ہے، مگر اس دفعہ کا یہ عمل انتہائی خود غرضی کا تھا جب ہم خود سیلابوں اور بارشوں کی تباہ کاریوں سے گزر رہے تھے۔ ہندوستان میں بنے تین دریائوں پر ڈیم ہمارے خلاف ہتھیارکے طور پر استعمال ہوئے۔

تین دریا اس وقت اپنی گہرائی سے زیادہ بھرگئے ہیں۔ اتنا طاقتور بہاؤ بیراجوں سے گزر نہیں سکتا کیوں کہ یہ بیراج کو نقصان پہنچا سکتا ہے، لٰہذا بیراجوں کو بچانے کے لیے بہت سی جگہوں پر شگاف ڈالے جا رہے ہیں۔ مسئلہ یہاں یہ ہے کہ جو فطری برساتی نالے سیکڑوں برس سے چلے آرہے تھے، وہاں ہاؤسنگ سوسائیٹز بن گئی ہیں۔ دریائے راوی کے لیے یہ کہا جا رہا تھا کہ راوی ختم ہو چکا ہے اور اس کے اوپرآبادیاں قائم کرنے کا سلسلہ جاری تھا، جن کی تشہیر بھی زور شور سے جاری ہے۔

اس دفعہ گلگت ، بلتستان میں شدید گرمی بھی پڑی اور تباہ کن بارشیں بھی ہوئیں اور پھر وہاں گلیشیئر پگھلنے کی خبریں بھی آئیں۔ بادل پھٹنے (Cloud Burst) ہونے کی اطلاعات بھی ملیں، جیسا کہ ہم پہلے سنتے تھے کہ بجلی گری۔ آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کے نان پشتو علاقوں خصوصاً چترال، کوہستان، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور ہر ی پور میں بھی طوفانی بارشیں ہوئیں جب کہ کے پی کے پشتو بولنے والے اضلاع جن میں مہمند، باجوڑ، دیر اور بونیر وغیرہ میں بھی شدید بارشیں ہوئی ہیں۔

یقیناً اب ہم ایک مختلف دور میں داخل ہوچکے ہیں کہ جہاں سردیاں بہت شدید ہوںگی اور اسی طرح گرمیاں بھی، بارشیں بھی شدید ہوںگی، پھر ایک طویل زمانہ گزرے گا، خشک سالی کے ساتھ۔ پھر شاید اگلے بیس سالوں میں گلیشیئر بھی برائے نام رہ جائیں گے۔ سندھ بھی متاثر ہوگا، کراچی آلودہ ہوچکا ہے ، آبادی کا دباؤ شہر کی گنجائش سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے ، جتنی بارش پنجاب کے شہروں میں ہوئی ، اتنی بارش اگر کراچی میں ہوتی تو کیا المیہ ہوتا، اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ادھرسمندر ٹھٹھہ اور بدین کی زمینوں کو نگل رہا ہے۔ ہر سال کئی فٹ تک اندر داخل ہو رہا ہے۔ انڈس ڈیلٹا تباہ ہو چکا ہے اور ہمارا بیانیہ یکساں نہیں۔ سندھ کا بیانیہ الگ ہے، پنجاب کا الگ اور خیبر پختونخوا میں پشتو بیلٹ کی نمائندگی کرنے والی قوم پرست جماعتوں کا جدا بیانہ۔ حقیقت کہیں دفن ہو چکی ہے۔ ابھی مون سون تھما نہیں ہے۔ ہماری معیشت کا پچیس فیصد زراعت پر منحصر ہے اور روزگار کے حوالے سے پچاس فیصد لوگ زراعت سے وابستہ ہیں۔ ہماری زراعت، ہندوستان کے مقابلے میں ماڈرن نہیں۔ ہمارے پنجاب کی زراعت سے فی ایکڑ زراعت ہندوستان کے پنجاب کی بہتر ہے۔

پانی کی تقسیم کے حوالے سے سب ہمسایہ ممالک میں تعاون کا ہونا بہت ضروری ہے۔ نہ صرف پانی بلکہ اور شعبوں میں بھی ان ممالک کا آپسی تعاون ان چاروں ممالک کی ترقی کے لیے بہترین مواقعے پیدا کرسکتا ہے۔ اسی ایجنڈے پر چینی وزیرِ خارجہ نے بات کی جب انھوں نے ہندوستان میں کچھ وقت گزارنے کو بعد پاکستان کا حال ہی میں دورہ کیا۔

چین اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ امریکا یا امریکی انتظامیہ ایسے دیرینہ تنازعات سے مستفیض ہوتی ہے جو اس خطے میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہیں جیسا کہ تنازعہ کشمیر۔ کلدیپ نیر لکھتے ہیں کہ کس طرح ان دونوں ممالک کے درمیان تضادات ان دو ممالک کے شہریوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس خطے میں چین جیسے جیسے اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے وہ ان دو ممالک کے درمیان صلح کے لیے کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنا۔ یہی کردار چین نے سعودی عرب اور ایران کے تنازعات کو کم کرنے کے لیے بھی نبھانے کی کوشش کی کہ کسی طرح ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہو جائے۔ چین کی ان کاوشوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ ایک عرصے بعد بیجنگ میں ٹیبل ٹاکس کے لیے بیٹھے۔

ہمارا آبپاشی کا نظام انگریزوں نے بنایا۔ پنجاب میں اس سسٹم کو مزید ماڈریٹ کیا گیا لیکن سندھ کا آبپاشی نظام زبوں حالی کا شکار ہے۔ کے پی اور بلوچستان میں سسٹم کی بات ہی کیا کرنی ہے۔وہاں کی صوبائی حکومتیں صرف بیانات پر زندہ رہتی ہیں۔ سندھ میں ایک عرصے سے سکھر بیراج کے دو دروازے خراب تھے لیکن ان پرکوئی توجہ نہیں دی گئی، وہ اب تک اسی حالت میں ہیں اور جو دروازے نئے بنائے گئے ہیں وہ درست نہیں بنائے گئے جس کی وجہ سے سو سالہ سکھر بیراج کے اسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔

1922 میں سکھر بیراج کے پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔ سر جیمز اس پراجیکٹ کے انچارج تھے۔ اس پراجیکٹ کا کام 1932 میں مکمل ہوا اور اس کی عمر تھی پچاس سال۔ یعنی 1982 میں یہ پراجیکٹ اپنی مدت پوری کرچکا ہے۔ کیا کہا جائے اگر یہ کوئی معجزہ ہے؟ 2019  اور2020  جو سیلاب آئے تو سکھر بیراج کو بچانے کے لیے گدو بیراج میں شگاف ڈالے گئے، جس کے نتیجے میں دائیں طرف کا حصہ جس کو ہم رائٹ بینک کہتے ہیں ڈوب گیا۔

وہاں تمام زمینیں اور شہر ڈوب گئے۔ اس دفعہ حالات مزید خراب ہیں۔ پہلے سکھر بیراج کو بچانے کے لیے اگر شگاف ڈالنے کے بعد بھی لگ بھگ گیارہ لاکھ کیوسک کا بہاؤ تھا اور اب اس سے بھی بڑا ہوگا جو سکھر بیراج کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سکھر بیراج اپنی مدت مکمل کرچکا ہے اور پھر بری حکمرانی نے اس کو مزید نقصان پہنچایا ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائے۔

ہم نے اپنے دریاؤں ستلج ، راوی اور بیاس کے بدلے ورلڈ بینک سے تربیلا ڈیم لیا، وہ بھی اپنی مدت پوری کرچکا ہے۔ جب یہ نہ تھا تو لاکھوں ٹن سلٹ آتی تھی، انڈس ڈیلٹا تک۔ بس اسی وجہ سے فطری طور پر سمندر اندر داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ سیکڑوں میل تک جنگلات تھے جن کا وجود اب نہیں رہا۔ یہ سب ماحولیاتی تباہی ہے۔ سطح سمندر کا بڑھنا، سیلابوں کا آنا، طوفان و بارشیں،گلیشیئرز کا پگھلنا اور اگر یہ تباہی ایسے ہی جاری رہی تو آنے والے پندرہ سالوں میں ہم کہاں ہونگے؟
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ممالک کے درمیان اس معاہدے کے سکھر بیراج بیراج کو میں بھی سکتا ہے اور اس رہا ہے ہے اور کے لیے

پڑھیں:

سیلاب

نجمہ کی عمر تقریباً 25 سال ہوگی۔ وہ کم عمری میں چار بچوں کی ماں بن گئی۔ اس کی بیوہ ماں کراچی کے معروف علاقے پی ای سی ایچ ایس میں گھروں میں کام کرتی تھی۔ پی ای سی ایچ ایس کی ایک معزز خاتون استاد نے نجمہ کو اپنے ساتھ اپنے اسکول لے جانا شروع کیا، یوں اس نے میٹرک پاس کر لیا۔ ماں نے اپنے بھتیجے سے نجمہ کی شادی کردی، یوں وہ کراچی سے اپنے گاؤں جلال پور پیر والا میں منتقل ہوگئی تھی۔

نجمہ کا شوہر کا کوئی مستقل روزگار نہیں تھا اور بیوی پر تشدد کرنے میں زیادہ وقت گزارتا ہے۔ پی ای سی ایچ ایس کی معزز استانی اپنی شاگرد نجمہ کی گاہے بگاہے مدد کرتی رہتی تھی۔ اسے مزید تعلیم کا شوق تھا مگر شوہر کی مرضی نہ ہونے اور گھریلو مصروفیات کی بناء پر اس کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ نجمہ کا آخری ایس ایم ایس یہ ملا تھا کہ اس کا گاؤں سیلابی پانی میں ڈوب گیا ہے اور گھرکا سامان سیلابی پانی ساتھ لے گیا ہے اور کوئی مدد کو نہیں آرہا ہے، پھر نجمہ اور اس کے بچوں پر کیا گزری کوئی نہیں جانتا۔

نجمہ ہی نہیں بلکہ ہزاروں افراد سیلابی سانحہ سے گزرے۔ ایک عورت نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے چھوٹی سی لکڑی کی کشتی بنالی، عورت ڈوب گئی، امدادی کارکنوں نے بچوں کو بچا لیا۔ ایک شخص اپنی پانچ سالہ بچی کو کندھے پر بٹھائے کئی گھنٹے تک ایک درخت کی ٹہنی سے لٹکا رہا، امدادی کارکن اس کی مدد کو پہنچ گئے۔

جلال پور پیر والا ملتان کی ایک تحصیل ہے۔یہ ملتان شہر سے 98 کلومیٹر فاصلہ پر ہے اور ملتان سے جلال پور پیر والا آنے میں ایک گھنٹہ سے زائد کا وقت لگتا ہے۔ اس کا دوسرا قریبی شہر بہاولپور ہے جو 69.5 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور یہاں تک آنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ جلال پور پیر والا کی آبادی 6 لاکھ 8 ہزار افراد اور 15 یونین کونسلز ہیں۔ لوگوں کا روزگار زراعت اور زرعی اشیاء کی تجارت ہے۔ یہاںکے بہت سے افراد نے روزگار کے لیے خلیجی ممالک کا رخ کیا اور زیادہ تعلیم یافتہ افراد امریکا اور کینیڈا بھی منتقل ہوئے۔

 2023کی مردم شماری کے مطابق جلال پور پیر والا تحصیل کا مکمل رقبہ 978 مربع کلومیٹر اور خواندگی کی شرح 48 فیصد ہے جب کہ عورتوں میں خواندگی کا تناسب 28.60 فیصد ہے۔ ان اعداد و شمار کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 3 لاکھ4 ہزار 65 افراد میں سے 1 لاکھ 75 ہزار 919 خواتین ناخواندہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یونانی بادشاہ اسکندر اعظم اور اس کے لشکر نے اس علاقے میں قیام کیا تھا مگر بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ جلال پور پیر والا کا نام یہاں کے معروف بزرگ جلال الدین سرخ پوش بخاری کے نام پر رکھا گیا تھا، یوں یہ ایک تاریخی شہر کہلاتا ہے۔

یہ سی پیک کے منصوبہ کے تحت تعمیر ہونے والے موٹروے کے انتہائی نزدیک ہے مگر حقیقی طور پر اس پورے علاقے کو سی پیک کے کسی بھی منصوبے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ جلال پور پیر والا کا جغرافیائی محل وقوع بہت اہم ہے۔ جنوبی پنجاب اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ چار دریا اس علاقے سے گزرتے ہیں جن میں مشرق میں دریائے ستلج، شمال مشرق میں دریائے راوی، مغرب میں دریائے چناب اور دریائے سندھ بہتا ہے۔ دریائے ستلج اور دریائے چناب پیر والا کے خان بیلہ کے مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں اور وہاں سے 27 کلومیٹر دور دریائے چناب کا پانی ہیڈ پنجند میں دوسرے دریا سے مل جاتا ہے۔

 گلوبل وارمنگ پر تحقیق کرنے والے ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ پاکستان کے عوام اگلے کئی برسوں تک ماحولیاتی تباہ کاریوں کا شکار رہے گا۔ اس سال پہلے گلگت بلتستان میں تباہ کن بارشیں ہوئیں۔ اس کے ساتھ کوہِ ہندو کش کے پہاڑی سلسلے میں گلیشیئر پگھلنے کا سلسلہ شروع ہوا، یوں گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں زبردست تباہی آئی۔ گلیشیئرز اور بارشوں کا پانی دریائے سندھ میں شامل ہوا۔ خیبر پختون خوا میں طوفانی بارشوں نے ریکارڈ تباہی مچائی۔ بونیر میں جو تباہی مچائی، یہ ایک انسانی المیے میں تبدیل ہوگئی۔

سیاحتی مقام سوات میں بارش نے الگ تباہی مچائی۔ بھارتی ریاست ہماچل پردیش اور مقبوضہ کشمیر میں زبردست بارشوں نے دریائے راوی ، چناب اور جہلم میں طغیابی پیدا کی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کی ریاستوں پنجاب، ہریانہ، مدہیہ پردیش اور یو پی میں طوفانی بارشوں نے وہاں تعمیرکیے گئے تین ڈیموں کو تباہ کیا اور سیکڑوں بستیوں کو بھی اجاڑ دیا۔

سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریا راوی، بیاس اور ستلج کا پانی بھارت کے حصے میں چلا گیا تھا مگر جب بھارت نے طوفانی بارشوں کے پانی کو راوی، بیاس اور ستلج میں منتقل کردیا اور اس پانی سے لاہور، سیالکوٹ، گجرات سے لے کر جنوبی پنجاب میں تباہی مچنا شروع ہوئی تو اس پانی نے پہلے ملتان شہر کے کچے کے علاقے میں تباہی مچائی۔ پھر ملتان کی مختلف تحصیلوں شجاع آباد، شیر شاہ، جلال پور پیروالا میں تباہی مچا دی۔ ملتان کے نوجوان صحافی جودت ندیم سید نے شجاع آباد جلال پور پیروالا کے تفصیلی دورے کے بعد لکھا ہے کہ اس پورے علاقے میں سیلابی پانی کی تباہی سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ اس علاقے سے ملنے والی رپورٹوں کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ ہزاروں افراد ایک ہفتہ سے زیادہ عرصہ تک پانی میں گھرے رہے۔

اس پورے علاقے میں سرکاری کشتیوں کی قلت تھی۔ کچھ لوگ پرائیویٹ کشتیاں چلانے لگے۔ ان پرائیویٹ کشتی والوں نے غریب لوگوں سے منہ مانگی رقم طلب کی ۔ جن لوگوں نے یہ رقم ادا کی، و ہ اپنے مویشیوں سمیت محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے اور جن لوگوں کے پاس پیسے نہیں تھے وہ پانی میں گھرے رہ گئے۔ ٹی وی چینلز کے اسکرین پر ان غریب مردوں اور عورتوں کی فریاد سنائی دی جاتی رہی۔ پھر یہ شکایت عام تھی کہ خیموں میں آباد خواتین کے لیے بیت الخلاء کی سہولتیں موجود نہیں تھیں۔

بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ شیر خوار بچوں کو دودھ فراہم نہیں کیا گیا۔ کشتیوں کی کمی کی وجہ سے کئی حادثات رونما ہوئے۔ عام لوگوں میں عدم اعتماد اور نظم و ضبط کے فقدان کی بناء پر مشکل سے دستیاب ہونے والی کشتی میں ضرورت سے زیادہ افراد سوار ہونے سے کشتی الٹ گئی۔ ان حادثات میں کئی جانیں ضایع ہوئیں۔ انتظامیہ کے افسران کا کہنا ہے کہ سیلاب میں گھرے ہوئے علاقوں میں گھرے ہوئے بعض افراد آخری وقت تک گھر چھوڑنے کو تیار نہیں ہوئے، جس کی بناء پر اپنے گاؤں میں وہ لوگ تنہا رہ گئے۔

اس بناء پر ان افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں دیر ہوئی، مگر متاثرہ افراد کا یہ مؤقف ہے کہ ان کے سامان اور مال مویشیوں کو چوری ہونے کی بہت وارداتیں ہوئیں۔ عجیب بات ہے کہ چوروں کی کشتیاں آرام سے سیلابی پانی میں سفر کرتی رہیں اور غریب لوگ بے بسی کا شکار رہے۔ ان علاقوں کا دورہ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان علاقوں کے منتخب اراکین ووٹروں سے دور رہے، اگر منتخب اراکین اور ان کے کارکن عوام کو متحرک کرتے اور لوگوں کو یقین دلایا جاتا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ دیں، ان کا سامان اور مال مویشی چوری نہیں ہوںگے تو انتظامیہ کے کاموں میں آسانی ہوجاتی۔

پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے جب پیر والا کا دورہ کیا اور ان کے علم میں پرائیویٹ کشتی مالکان کی لوٹ مارکے واقعات لائے گئے تو انھوں نے یہ حکم دیا کہ تمام پرائیویٹ کشتیاں ضلع انتظامیہ کی نگرانی میں دی جائیں تاکہ غریب افراد اپنے تباہ ہونے والے گھروں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہوسکیں۔ پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب کی نگرانی میں امدادی سرگرمیوں میں تیزی آئی مگر پھر بھی ہزاروں افراد اونچے مقامات اور موٹروے پر امداد کی منتظر تھے۔

 سیلاب نے جنوبی پنجاب میں زبردست تباہی مچائی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کا شکار ان علاقوں میں ہر سال سیلاب آسکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے جو ایک اچھا اقدام ہے مگر اس ایمرجنسی میں ایسی منصوبہ بندی ہونی چاہیے جس سے آیندہ اس علاقے کا مستقبل محفوظ ہوجائے اور پھر کسی نجمہ کے خواب بکھر نہ پائیں۔

متعلقہ مضامین

  • گڈو اور سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب‘ متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 81 ہزار سے متجاوز
  • دریائے سندھ میں گڈو اور سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب، کچے کے علاقے زیر آب
  • گڈو بیراج پر پانی کے بہاؤ میں کمی، سکھر بیراج پر دباؤ برقرار، کچے سے نقل مکانی جاری
  • گدو اور سکھر بیراج کے مقام پر اونچے درجے جبکہ کوٹری پر نچلے درجے کا سیلاب ہے: شرجیل میمن
  • وفاقی وزیر برائے آبی وسائل کی سیلابی صورتحال پر بریفنگ
  • سیلابی ریلوں سے دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ
  • سندھ میں سیلاب سے قادرپور فیلڈ کے 10 کنویں متاثر
  • گھوٹکی؛ سیلابی پانی سے قادرپورگیس فیلڈ کے متعدد کنویں متاثر، گیس کی سپلائی بند
  • پنجاب کا بڑا حصہ ڈوب گیا، سندھ کے بیراجوں پر پانی کا دباؤ، کچے کے متعدد دیہات زیر آب