Daily Sub News:
2025-11-02@06:02:21 GMT

حضرت محمد ﷺ: تمام انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت

اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT

حضرت محمد ﷺ: تمام انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت

حضرت محمد ﷺ: تمام انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت WhatsAppFacebookTwitter 0 1 September, 2025 سب نیوز


تحریر:محمد محسن اقبال


اللہ ربّ العزت نے اپنی لامحدود رحمت اور حکمت کے تحت ہمارے جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام اور امّاں حوّا کو اس دنیا میں بھیجا تاکہ انسانیت کا آغاز ہو اور تہذیب و تمدن کی کہانی شروع ہو۔ لیکن انسان کو کبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑا گیا۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آسمانی کتابیں نازل فرمائیں اور اپنے برگزیدہ رسول مبعوث کیے تاکہ بنی نوعِ انسان کو سیدھی راہ دکھائیں۔ حضرت نوح سے لے کر حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ سے حضرت عیسیٰ علیہم السلام تک ہر نبی نے توحید کی ابدی سچائی کی گواہی دی۔ لیکن جب خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تشریف لائے تو رسالت کا مشن اپنی تکمیل اور کمال کو پہنچا۔


آپؐ پر آخری آسمانی کتاب، قرآن مجید نازل ہوئی جو ہر دور اور ہر قوم کے لیے رہنمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے” (البقرہ 2:2)۔ اور ایک اور مقام پر فرمایا: ”اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر” (الانبیاء 21:107)۔ یہ رحمت صرف مسلمانوں تک محدود نہ تھی بلکہ ایک لامحدود سمندر کی مانند ساری کائنات پر محیط تھی—انسان و حیوان، مومن و غیر مومن، زمین و آسمان سب اس رحمت کے دائرے میں آ گئے۔


نبی کریم ﷺ کی مبارک ذات چلتا پھرتا قرآن تھی۔ آپؐ کا قول و فعل انسانیت کے لیے بہترین نمونہ تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ ہے، اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے” (الاحزاب 33:21)۔ آپؐ کی عاجزی بے مثال، آپؐ کا عدل ناقابلِ تزلزل اور آپؐ کی شفقت لامحدود تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ”مجھے بھیجا ہی اس لیے گیا ہے کہ میں اخلاق کے اعلیٰ معیار کو مکمل کر دوں” (مسند احمد)۔
عرب کے صحراؤں سے اٹھنے والا یہ پیغام براعظموں تک پھیل گیا اور تاریخ کا دھارا بدل گیا۔

شعرا، دانشور اور مفکرین—مسلمان ہوں یا غیر مسلم—سب اس عظیم المرتبت ہستی کے بارے میں لکھنے پر مجبور ہوئے جنہوں نے قوموں کی تقدیر بدل دی۔ ہر زبان میں اور ہر دور میں آپؐ کی مدح میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں لیکن آپؐ کی عظمت قلم و زبان کی گرفت سے ماورا ہے۔


فرانس کے شاعر اور سیاست دان الفانس ڈی لامارتین نے اعتراف کیاکہ ”فلسفی، خطیب، رسول، قانون ساز، مجاہد، خیالات کا فاتح… بیس دنیوی سلطنتوں اور ایک روحانی سلطنت کے بانی، وہ محمدؐ ہیں۔ انسانی عظمت کے پیمانے پر اگر پرکھا جائے تو کیا ان سے بڑا کوئی ہے؟”


اسکاٹ لینڈ کے محقق ولیم مونٹگمری واٹ نے آپؐ کی سچائی پر گواہی دی کہ ”اپنے عقیدے کی خاطر اذیتیں سہنے کا حوصلہ، ان لوگوں کا اعلیٰ اخلاق جو آپ پر ایمان لائے اور آپ کو رہنما مانا، اور آپ کی کامیابیوں کی عظمت—یہ سب آپ کی بنیادی دیانت کی دلیل ہیں۔”


جارج برنارڈ شا نے کہا کہ ”انہیں انسانیت کا نجات دہندہ کہا جانا چاہیے۔ میرا یقین ہے کہ اگر ایسا شخص آج دنیا کی قیادت سنبھالے تو وہ دنیا کے مسائل حل کر کے امن و سکون قائم کر دے۔”


تھامس کارلائل نے لکھا کہ ”ایک شخص نے کس طرح تنہا خانہ جنگی میں مبتلا قبیلوں اور بدووں کو بیس برس سے بھی کم عرصے میں ایک طاقتور اور مہذب قوم میں بدل دیا… یہ ایک خاموش اور عظیم روح تھی جو دنیا کو جگانے آئی۔”
روسی مفکر لیو ٹالسٹائی نے کہا: ”اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد ﷺ ان عظیم مصلحین میں سے ہیں جنہوں نے معاشرتی ڈھانچے کی گہرائیوں کو بدلا اور ایک پوری قوم کو سچائی کی روشنی دکھائی اور ترقی و تہذیب کے دروازے کھول دیے۔”


مہاتما گاندھی نے اقرار کیا: ”اسلام تلوار سے نہیں پھیلا… بلکہ نبی کریم ﷺ کی سادگی، وعدوں کی پاسداری، اخلاص، بہادری اور اللہ پر کامل یقین نے دلوں کو جیتا۔”


اینی بیسنٹ نے کہا: ”جو کوئی بھی عرب کے عظیم پیغمبر کی زندگی اور کردار کا مطالعہ کرتا ہے وہ اس ہستی کے لیے سوائے احترام اور عقیدت کے کچھ محسوس نہیں کر سکتا۔”
انگلستان کے مورخ ایڈورڈ گبن نے مانا: ”محمدؐ کی سب سے بڑی کامیابی محض اخلاقی قوت سے حاصل ہوئی، بغیر تلوار کے ایک وار کے۔”


ریورنڈ بوسورتھ اسمتھ نے کہا: ”وہ قیصر بھی تھے اور پوپ بھی، لیکن قیصر تھے بغیر لشکروں کے، اور پوپ تھے بغیر دعووں کے۔”
جرمن شاعر گوئٹے نے آپ کو ”انسانیت کا ہیرو” قرار دیا جس کی زندگی ایک ”لازوال اور شاندار دھارے” کی مانند بہتی ہے۔
اینا میری شِمّل نے کہا: ”نبی اکرم ﷺ ہمیشہ کے لیے بہترین نمونہ ہیں… امت کے رگ و پے میں عشقِ رسول خون کی مانند دوڑتا ہے۔”
مائیکل ایچ ہارٹ نے تاریخ کے سب سے مؤثر افراد میں آپؐ کو سب سے پہلے مقام پر رکھا اور لکھا: ”وہ واحد شخصیت ہیں جو مذہبی اور دنیوی دونوں سطحوں پر بیک وقت کامیاب ہوئیں۔
واشنگٹن اِروِنگ نے آپ کو ایک سنجیدہ، سادہ اور عوام کا محبوب رہنما قرار دیا۔


سر تھامس آرنلڈ نے کہا کہ آپ کا پیغام ایک ایسا عقیدہ ہے جو ”انتہائی سادہ اور صاف ہے اور براہِ راست دلوں میں اترتا ہے۔”
یوں وحی ہو یا تاریخ، اولیا کی گواہی ہو یا مفکرین کا اعتراف—سب ایک ہی سچائی پر متفق ہیں: رسول اللہ ﷺ وہ نور ہیں جنہوں نے تاریکی کو روشنی میں بدلا۔ قرآن خود اعلان کرتا ہے: ”اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہ بنا کر، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر، اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر” (الاحزاب 33:45-46)۔
نبوت کا تاج آپؐ پر ختم ہوا مگر آپ کا نور آج بھی زندہ ہے، آپ کی سنت ابدی ہے۔ آپؐ کے نقشِ قدم آج بھی امت کی دعاؤں میں، اذان کی صدا میں، اور ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن میں سنائی دیتے ہیں۔ آپؐ دنیا کے لیے رحمت بن کر آئے اور ہمیشہ رحمت رہیں گے۔ کوئی قلم آپ کا حق ادا نہیں کر سکا، کوئی زبان آپ کی مدح پوری نہ کر سکی۔ اور جیسا کہ لامارتین نے کہا اور تاریخ نے جواب دیا: کیا ان سے بڑھ کر کوئی انسان ہے؟

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرگلگت بلتستان حکومت کا ہیلی کاپٹر چلاس کے قریب گر کر تباہ انقلاب اور پاکستان سیلاب: آنسو، سوال اور امید بغیر ڈیم کا دفاع سہ فریقی سفارتکاری: جنوبی ایشیا کی اسٹریٹجک بساط کی نئی تشکیل غربت کے خلاف چین کی کامیاب جنگ ۔آنکھوں دیکھا حال امریکی مفادات، پاکستانی وسائل اور مستقبل کی راہیں TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

اسموگ اور اینٹی اسموگ گنز

پنجاب میں اس وقت اسموگ کا راج ہے۔ لاہور فیصل آباد دنیا میں آلودہ ترین شہروں میں شمار کیے جا رہے ہیں۔ اسموگ کی وجہ سے لوگ بیمارہیں۔ سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ لیکن ایسا کوئی پہلے سال نہیں ہوا ہے۔ ہر سال ہی ایسا ہوتا ہے۔ ہر سال ہی اسموگ کا راج ہوتا ہے۔ ہر سال ہی ہم اسموگ پر شور مچاتے ہیں۔ اسموگ کی وجوہات کا بھی سب کو علم ہیں۔

سب کو پتہ ہے ایک بڑی وجہ بھارتی پنجاب سے آنے والی ہوائیں ہیں۔ بھارت میں بھی اسموگ کا مسئلہ ہے۔ بھارت کا دارالخلافہ دہلی کا بھی برا حال ہے، وہاں بھی اسموگ نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے، پورے خطہ کا مسئلہ ہے۔ ہم مل کر ہی اس کو حل کر سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسے تعلقات ہی نہیں ہیں کہ ماحولیات پر تعاون ہو سکے۔ مل کر کوئی پالیسیاں بنائی جا سکیں، ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھا جا سکے۔ اس لیے مشترکہ پالیسی اور حل تلاش کرنے کی کوئی صورتحال نہیں ہے۔

موجودہ حکومت نے اسموگ سے نبٹنے کے لیے ایک سال میں کافی کام کیے ہیں۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ کسان فصلوں کی باقیات جلاتے تھے، ان کو روکنے کے لیے جدید مشینیں دی جا رہی ہیں۔ لیکن کسانوں کو جلانے کی پرانی عادت ہے، ابھی بھی اس کو مکمل روک نہیں سکے ہیں۔ صنعتوں پر ماحولیات کا سخت نفاذ کیا جا رہا ہے۔ لیکن آپ کہیں سب ٹھیک ہوگیا ہے، غلط ہوگا۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہر آج بھی دنیا کے آلودہ ترین شہر ہیں۔ اسموگ کا راج ہے۔ اسموگ سے نبٹنا کوئی اتنا آسان نہیں۔ اس سے پہلے لندن اور بیجنگ جیسے بڑے شہر بھی اسموگ کا شکار رہے ہیں۔

لندن اور بیجنگ اسموگ بہت مشہور رہی ہیں۔ آج وہاں صورتحال بہتر نظر آرہی ہے۔ لیکن دس سال سے زیادہ عرصہ لگا ہے صورتحال کو تبدیل کرنے میں۔ پنجاب میں بھی اگر یکسوئی سے کام کیا جائے تو دس سال لگ جائیں گے۔ لیکن یکسوئی بنیادی شرط ہے۔ پالیسیوں کا تسلسل بنیادی شرط ہے۔ یہاں حکومت بدلتی ہے تو ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ پالیسیاں بدل جاتی ہیں، جس سے اسموگ سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔بہرحال آج کل اسموگ کا راج ہے ۔ پنجاب حکومت نے لاہور میں اسموگ کا زور کم کرنے کے لیے اینٹی اسموگ گن درآمد کی ہیں۔

لاہو رکی سڑکوں پر اینٹی اسموگ گن چلتی نظر آرہی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں اسموگ رہی ہے وہاں یہ اینٹی اسموگ گن استعمال کی گئی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ اسموگ کو مستقل ختم نہیں کرتیں۔ لیکن جس علاقہ میں اس کو استعمال کیا جائے وہاں اس کا اثر ہوتا ہے۔ یہ اسموگ کا مکمل علاج نہیں ہیں لیکن فوری ریلیف ضروری دیتی ہیں۔ جیسے درد کم کرتی ہیں لیکن بیماری کا علاج نہیں ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں جب تک ہم اسموگ کو ختم کرنے کے دیرپا حل مکمل نہیں کر لیتے اس درمیانے عرصے کے لیے اینٹی اسموگ گنز ایک بہترین آپشن ہیں۔

ایک تنقید یہ سامنے آرہی ہے کہ اس کا اثر محدود ہے۔ لیکن یہ تو کوئی نہیں کہہ رہا کہ اس کا کوئی اثر نہیں۔ ویسے تجرباتی طور پر لاہور میں صرف پندرہ اینٹی اسموگ گن منگوائی گئی ہیں۔ یہ لاہور کے لیے بہت کم ہیں۔ لاہور بہت بڑا شہر ہے یہ سارے لاہور کو کور ہی نہیں کر سکتیں۔ جس سڑک پر استعمال کی جاتی ہے صرف وہیں اثر ہوتا ہے۔ مزید گاڑیاں ہونی چاہیے تا کہ ان کے صحیح اثرات لوگوں کے سامنے آسکیں۔ کم تعداد اس پر تنقید کرنے والوں کو دلیل دے رہی ہے۔ جب اینٹی اسموگ گن کی تعداد بڑھ جائے گی تو نتائج بھی بہتر سامنے آئیں گے، تنقید بھی ختم ہو جائے گی۔

اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق جہاں اس اینٹی اسموگ گن کا استعمال کیا گیا ہے وہاں اسموگ میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن یہ جس علاقہ میں استعمال کی جائے وہیں کمی ہوتی ہے۔ سارے لاہور کو یک دم کم نہیں کر سکتی۔ کئی علاقوں میں چالیس فیصد تک کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ اس لیے میں اس تجرنے کو ناکام نہیں کہہ رہا ہے۔ میں اس کو جاری رکھنے اور ان کی تعداد بڑھانے کے حق میں ہوں۔ سارے شہروں میں یکساں استعمال کی جائیں گی تو عمومی فرق بھی سامنے آئے گا۔ آپ ماحولیات کے جزیرے نہیں بنا سکتے۔ ایک علاقہ میں بہتر کر لیں ساتھ والے علاقہ کو رہنے دیں، یکساں استعمال ہی بہتر نتائج دے گا۔

سادہ سی بات ہے، ہم کہتے ہیں کہ اگر بارش ہو جائے تو اسموگ ختم ہو جاتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے نگران دور میں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے متحدہ عرب امارات سے مصنوعی بارش برسانے کے لیے جہاز بھی منگوایا تھا۔ وہ دو تین دن مصنوعی بارش کر کے چلا گیا۔ وہ بہت مہنگا تھا۔ اتنی مہنگی مصنوعی بارش ممکن نہیں۔ پھرایک جہاز کافی نہیں۔ چند دن کافی نہیں۔ سارے شہروں میں کیسے کی جائے۔ یہ اینٹی اسموگ گن بھی ایک طرح سے مصنوعی بارش کی ہی ایک شکل ہے۔ پانی فضا میں ایک گن سے پھینکا جاتا ہے جو فضا میں جاکر اسموگ کو ختم کرتا ہے۔ ابھی جو اینٹی اسموگ گن منگوائی گئی ہیں، ان کی رینج 120میٹر ہے۔ جو اسموگ کے ختم کرنے کے لیے کافی ہیں۔

بیجنگ میں اور دہلی میں بھی یہی استعمال ہوتی رہی ہیں، بین الاقوامی معیار یہی ہے۔ ویسے تو پاکستان میں حکومت کوئی بھی کام کرے تواس پر تنقید کرنا سب سے آسان کام ہے۔ حکومت کوئی کام کرے تو اس پر تنقید کریں، اگر کوئی کام نہ کرے تو پھر اور تنقید کریں۔ کئی سالوں سے اسموگ کا شکار پنجاب لانگ ٹرم پالیسیاں تو بنا رہا ہے، ان کے نتائج بھی وقت سے آئیں گے۔ ہمسایوں کے بھی مسائل ہیں۔ لیکن فوری حل بھی کرنا حکومت کا کام ہے۔ کئی سالوں سے کوئی فوری حل نہیں تھا۔ ہم خاموش بیٹھے تھے۔

آج ایک حل سامنے آیا ہے تو دوست اس پر بے وجہ تنقید کر رہے ہیں۔ جب تک حکومت کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے، کام آگے کیسے بڑھے گا۔ اگر کسی کے پاس کوئی متبادل حل ہے تو بتائیں۔ اس پر بات ہو جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں وزیر اعلیٰ پنجاب اور سینئر وزیر مریم اورنگزیب خصوصی داد کی مستحق ہیں کہ کم از کم کوئی تو حل سامنے لائی ہیں۔ بہر حال اسموگ کا راج ہے اور فی الحال فوری حل اینٹی اسموگ گن ہی ہیں۔ اس پر تنقید کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ یہ مزید منگوائی جائیں تا کہ ان کا اثر کھل کر سامنے آسکے اور تنقید نگاروں کی تنقید ختم ہو سکے۔ ڈر کر اس منصوبے کو ختم کرنا بزدلی ہوگی اور مجھے پتہ ہے پنجاب حکومت بزدل نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • پی ٹی آئی رہنما ذاتی نہیں قومی مفاد میں کام کریں: رانا ثنا اللہ
  • ولادت حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے مدرسہ امام علی قم میں نشست کا انعقاد
  • ڈی جی این سی سی آئی اے نے ضبط تمام جائیدادوں،گاڑیوں کی تفصیلات مانگ لیں
  • ذاتی مفادات کی سیاست چھوڑ کر قومی مفاد کے لیے کام کریں، رانا ثنا اللہ کی پی ٹی آئی رہنماؤں کو تلقین
  • کل عام تعطیل کا اعلان
  • اسد اللہ بھٹو،کاشف شیخ محمد یوسف ودیگر کا عبید ہاشمی کی وفات پر اظہار تعزیت
  • تہجد کا انعام
  • اسموگ اور اینٹی اسموگ گنز