Daily Sub News:
2025-09-17@23:45:36 GMT

حضرت محمد ﷺ: تمام انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت

اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT

حضرت محمد ﷺ: تمام انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت

حضرت محمد ﷺ: تمام انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت WhatsAppFacebookTwitter 0 1 September, 2025 سب نیوز


تحریر:محمد محسن اقبال


اللہ ربّ العزت نے اپنی لامحدود رحمت اور حکمت کے تحت ہمارے جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام اور امّاں حوّا کو اس دنیا میں بھیجا تاکہ انسانیت کا آغاز ہو اور تہذیب و تمدن کی کہانی شروع ہو۔ لیکن انسان کو کبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑا گیا۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آسمانی کتابیں نازل فرمائیں اور اپنے برگزیدہ رسول مبعوث کیے تاکہ بنی نوعِ انسان کو سیدھی راہ دکھائیں۔ حضرت نوح سے لے کر حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ سے حضرت عیسیٰ علیہم السلام تک ہر نبی نے توحید کی ابدی سچائی کی گواہی دی۔ لیکن جب خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تشریف لائے تو رسالت کا مشن اپنی تکمیل اور کمال کو پہنچا۔


آپؐ پر آخری آسمانی کتاب، قرآن مجید نازل ہوئی جو ہر دور اور ہر قوم کے لیے رہنمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے” (البقرہ 2:2)۔ اور ایک اور مقام پر فرمایا: ”اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر” (الانبیاء 21:107)۔ یہ رحمت صرف مسلمانوں تک محدود نہ تھی بلکہ ایک لامحدود سمندر کی مانند ساری کائنات پر محیط تھی—انسان و حیوان، مومن و غیر مومن، زمین و آسمان سب اس رحمت کے دائرے میں آ گئے۔


نبی کریم ﷺ کی مبارک ذات چلتا پھرتا قرآن تھی۔ آپؐ کا قول و فعل انسانیت کے لیے بہترین نمونہ تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ ہے، اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے” (الاحزاب 33:21)۔ آپؐ کی عاجزی بے مثال، آپؐ کا عدل ناقابلِ تزلزل اور آپؐ کی شفقت لامحدود تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ”مجھے بھیجا ہی اس لیے گیا ہے کہ میں اخلاق کے اعلیٰ معیار کو مکمل کر دوں” (مسند احمد)۔
عرب کے صحراؤں سے اٹھنے والا یہ پیغام براعظموں تک پھیل گیا اور تاریخ کا دھارا بدل گیا۔

شعرا، دانشور اور مفکرین—مسلمان ہوں یا غیر مسلم—سب اس عظیم المرتبت ہستی کے بارے میں لکھنے پر مجبور ہوئے جنہوں نے قوموں کی تقدیر بدل دی۔ ہر زبان میں اور ہر دور میں آپؐ کی مدح میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں لیکن آپؐ کی عظمت قلم و زبان کی گرفت سے ماورا ہے۔


فرانس کے شاعر اور سیاست دان الفانس ڈی لامارتین نے اعتراف کیاکہ ”فلسفی، خطیب، رسول، قانون ساز، مجاہد، خیالات کا فاتح… بیس دنیوی سلطنتوں اور ایک روحانی سلطنت کے بانی، وہ محمدؐ ہیں۔ انسانی عظمت کے پیمانے پر اگر پرکھا جائے تو کیا ان سے بڑا کوئی ہے؟”


اسکاٹ لینڈ کے محقق ولیم مونٹگمری واٹ نے آپؐ کی سچائی پر گواہی دی کہ ”اپنے عقیدے کی خاطر اذیتیں سہنے کا حوصلہ، ان لوگوں کا اعلیٰ اخلاق جو آپ پر ایمان لائے اور آپ کو رہنما مانا، اور آپ کی کامیابیوں کی عظمت—یہ سب آپ کی بنیادی دیانت کی دلیل ہیں۔”


جارج برنارڈ شا نے کہا کہ ”انہیں انسانیت کا نجات دہندہ کہا جانا چاہیے۔ میرا یقین ہے کہ اگر ایسا شخص آج دنیا کی قیادت سنبھالے تو وہ دنیا کے مسائل حل کر کے امن و سکون قائم کر دے۔”


تھامس کارلائل نے لکھا کہ ”ایک شخص نے کس طرح تنہا خانہ جنگی میں مبتلا قبیلوں اور بدووں کو بیس برس سے بھی کم عرصے میں ایک طاقتور اور مہذب قوم میں بدل دیا… یہ ایک خاموش اور عظیم روح تھی جو دنیا کو جگانے آئی۔”
روسی مفکر لیو ٹالسٹائی نے کہا: ”اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد ﷺ ان عظیم مصلحین میں سے ہیں جنہوں نے معاشرتی ڈھانچے کی گہرائیوں کو بدلا اور ایک پوری قوم کو سچائی کی روشنی دکھائی اور ترقی و تہذیب کے دروازے کھول دیے۔”


مہاتما گاندھی نے اقرار کیا: ”اسلام تلوار سے نہیں پھیلا… بلکہ نبی کریم ﷺ کی سادگی، وعدوں کی پاسداری، اخلاص، بہادری اور اللہ پر کامل یقین نے دلوں کو جیتا۔”


اینی بیسنٹ نے کہا: ”جو کوئی بھی عرب کے عظیم پیغمبر کی زندگی اور کردار کا مطالعہ کرتا ہے وہ اس ہستی کے لیے سوائے احترام اور عقیدت کے کچھ محسوس نہیں کر سکتا۔”
انگلستان کے مورخ ایڈورڈ گبن نے مانا: ”محمدؐ کی سب سے بڑی کامیابی محض اخلاقی قوت سے حاصل ہوئی، بغیر تلوار کے ایک وار کے۔”


ریورنڈ بوسورتھ اسمتھ نے کہا: ”وہ قیصر بھی تھے اور پوپ بھی، لیکن قیصر تھے بغیر لشکروں کے، اور پوپ تھے بغیر دعووں کے۔”
جرمن شاعر گوئٹے نے آپ کو ”انسانیت کا ہیرو” قرار دیا جس کی زندگی ایک ”لازوال اور شاندار دھارے” کی مانند بہتی ہے۔
اینا میری شِمّل نے کہا: ”نبی اکرم ﷺ ہمیشہ کے لیے بہترین نمونہ ہیں… امت کے رگ و پے میں عشقِ رسول خون کی مانند دوڑتا ہے۔”
مائیکل ایچ ہارٹ نے تاریخ کے سب سے مؤثر افراد میں آپؐ کو سب سے پہلے مقام پر رکھا اور لکھا: ”وہ واحد شخصیت ہیں جو مذہبی اور دنیوی دونوں سطحوں پر بیک وقت کامیاب ہوئیں۔
واشنگٹن اِروِنگ نے آپ کو ایک سنجیدہ، سادہ اور عوام کا محبوب رہنما قرار دیا۔


سر تھامس آرنلڈ نے کہا کہ آپ کا پیغام ایک ایسا عقیدہ ہے جو ”انتہائی سادہ اور صاف ہے اور براہِ راست دلوں میں اترتا ہے۔”
یوں وحی ہو یا تاریخ، اولیا کی گواہی ہو یا مفکرین کا اعتراف—سب ایک ہی سچائی پر متفق ہیں: رسول اللہ ﷺ وہ نور ہیں جنہوں نے تاریکی کو روشنی میں بدلا۔ قرآن خود اعلان کرتا ہے: ”اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہ بنا کر، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر، اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر” (الاحزاب 33:45-46)۔
نبوت کا تاج آپؐ پر ختم ہوا مگر آپ کا نور آج بھی زندہ ہے، آپ کی سنت ابدی ہے۔ آپؐ کے نقشِ قدم آج بھی امت کی دعاؤں میں، اذان کی صدا میں، اور ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن میں سنائی دیتے ہیں۔ آپؐ دنیا کے لیے رحمت بن کر آئے اور ہمیشہ رحمت رہیں گے۔ کوئی قلم آپ کا حق ادا نہیں کر سکا، کوئی زبان آپ کی مدح پوری نہ کر سکی۔ اور جیسا کہ لامارتین نے کہا اور تاریخ نے جواب دیا: کیا ان سے بڑھ کر کوئی انسان ہے؟

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرگلگت بلتستان حکومت کا ہیلی کاپٹر چلاس کے قریب گر کر تباہ انقلاب اور پاکستان سیلاب: آنسو، سوال اور امید بغیر ڈیم کا دفاع سہ فریقی سفارتکاری: جنوبی ایشیا کی اسٹریٹجک بساط کی نئی تشکیل غربت کے خلاف چین کی کامیاب جنگ ۔آنکھوں دیکھا حال امریکی مفادات، پاکستانی وسائل اور مستقبل کی راہیں TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 

کراچی:

’’یہ انڈینز تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہیں، ہم کیوں ہاتھ ملانے کیلیے کھڑے رہیں‘‘  جب میدان میں پاکستانی کرکٹرز  ایک دوسرے سے یہ بات کر رہے تھے تو  ٹیم منیجمنٹ نے انھیں وہیں رکنے کا کہا، اس پر وہ تلملا گئے لیکن عدم عدولی نہیں کی، بعد میں جب مائیک ہیسن اور سلمان علی آغا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف گئے تو انھیں دیکھ کر ایک سپورٹ اسٹاف رکن نے دروازہ ایسے بند کیا جیسے کوئی ناراض پڑوسن کرتی ہے۔

تقریب تقسیم انعامات میں پاکستانی کپتان احتجاجاً نہیں گئے جبکہ انفرادی ایوارڈز لینے کے لیے  ڈائریکٹر انٹرنیشنل پی سی بی عثمان واہلہ اور  ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ نے شاہین آفریدی کو جانے کا کہہ دیا، انہیں زیادہ چھکوں کا ایوارڈ دیا گیا، بھارتی رویے کو اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا تو وہ  آئندہ بھی کسی انڈین پریزینٹر کو انٹرویو دیں گے نہ ایوارڈ لینے جائیں گے، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن کافی دیر تک پی سی بی کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔

 چیئرمین محسن نقوی نے جب استفسار کیا تو  انہیں مناسب جواب نہ ملا، انھوں نے فوری طور پر ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کیلیے آئی سی سی کو خط لکھنے کی ہدایت دی، بعد ازاں سستی برتنے پر عثمان واہلہ کو معطل کر دیا گیا، اب یہ نہیں پتا کہ معطلی پکی یا کسی ایس ایچ او کی طرح دکھاوے کی ہے، اس تمام واقعے میں بھارت کا کردار بیحد منفی رہا، بھارتی حکومت پاکستان سے جنگ ہارنے اور6 جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے، اس نے کرکٹ کی آڑ لے کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی۔

 نفرت کے عالمی چیمپئن بھارتیوں کی سوچ دیکھیں کہ ایک کھیل میں جیت پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں، جنگ میں ہار اور مسلسل جھوٹی باتیں کرنے پر اپنی حکومت سے استفسار نہیں کیا جا رہا، یہ معاملہ اب جلد ختم ہونے والا نہیں لگ رہا، پی سی بی نے  سوچ لیا ہے کہ اگر پائی کرافٹ کو نہ ہٹایا گیا تو ٹیم ایشیا کپ کے بقیہ میچز سے دستبردار ہو جائے گی، میچ ریفری کا کام ڈسپلن کی پابندی کروانا ہوتا ہے، وہ اکثر کھلاڑیوں کو غلطیوں پر سزائیں دیتا ہے، اب خود غلط کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔

 پائی کرافٹ  کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سلمان علی آغا سے کہتے کہ سوریا کمار یادو سے ہاتھ نہ ملانا، شاید انھیں اس کی ہدایت ملی ہوگی، بطور ریفری یہ ان کا کام تھا کہ  کرکٹ کی روایات پر عمل یقینی بناتے ، الٹا وہ خود پارٹی بن گئے، شاید آئی پی ایل  میں کام ملنے کی لالچ یا کوئی اور وجہ ہو، میچ کے بعد بھی بھارتی کرکٹرز نے جب مصافحے سے گریز کیا تو ریفری خاموش تماشائی بنے رہے، پاکستان کو اب سخت اسٹینڈ لینا ہی ہوگا۔

 البتہ آئی سی سی کے سربراہ جے شاہ ہیں، کیا وہ اپنے ملک بھارت کی سہولت کاری کرنے والے ریفری کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے؟ کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے نفرت کے بیج مسلسل بوئے جا رہے ہیں، کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں محسن نقوی اور سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے پر سوریا کمار کو غدار تک کا لقب مل گیا تھا، ایسے میں کھلاڑیوں نے آئندہ دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی انھیں بھی اپنے بورڈ اور اسے حکومت سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہوگی۔

 جس ٹیم کا کوچ گوتم گمبھیر جیسا متعصب شخص ہو اس سے آپ خیر کی کیا امید رکھ سکتے ہیں،  جس طرح بھارتی کپتان نے پہلگام واقعے کا میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات میں ذکر کرتے ہوئے اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اسی پر ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، آئی سی سی نے سیاست کو کھیل میں لانے پر ماضی میں عثمان خواجہ کو نہیں چھوڑا تو اب اسے  سوریا کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا، پی سی بی کی دھمکی سیریس ہے، ریفری کو نہ ہٹایا گیا تو ایشیا کپ پاکستان کی عدم موجودگی میں دلچسپی سے محروم  ہو جائے گا، اس کا منفی اثر آگے آنے والی کرکٹ پر بھی  پڑے گا، بھارت کو ورلڈکپ کی میزبانی بھی کرنا ہے  تب بھی اسے مسائل ہوں گے۔

 اب  یہ جے شاہ کیلیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھنا ہوگا وہ کرتے کیا ہیں، البتہ ان سے کسی سخت فیصلے کی امید کم ہی ہے، ویسے ہمیں خود کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوتی تو کیا بھارت ایسی حرکت کر سکتا تھا؟ ہمارے کھلاڑی خود مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، پی سی بی کو اس واقعے کے ساتھ ٹیم کی شرمناک کارکردگی بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، پلیئرز  کوئی فائٹ تو کرتے، کسی کلب لیول کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھائی، کیا پاکستان اب صرف عمان اور یو اے ای جیسے حریفوں کو ہرانے والی سائیڈ بن گئی ہے؟۔

آئی پی ایل سے بھارت کو جو ٹیلنٹ ملا وہ اس کے لیے انٹرنیشنل سطح پر پرفارم بھی کر رہا ہے، پی ایس ایل کا ٹیلنٹ کیوں عالمی سطح پر اچھا کھیل پیش نہیں کر پاتا؟ ہم نے معمولی کھلاڑیوں کو سپراسٹار بنا دیا، فہیم اشرف جیسوں کو ہم آل رائونڈر کہتے ہیں، اسی لیے یہ حال ہے، بابر اور رضوان  کو اسٹرائیک ریٹ کا کہہ کر ڈراپ کیا گیا۔

 صرف بھارت سے میچ میں ڈاٹ بالز دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی فرق نہیں پڑا، بنیادی مسائل برقرار ہیں، اب ٹیمیں 300 رنز ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنا رہی ہیں، ہم 100 رنز بھی بمشکل بنا پاتے ہیں، ہمارا اوپنر صفر پر متواتر آئوٹ ہو کر وکٹیں لینے میں کامیاب رہتا ہے اور سب سے اہم فاسٹ بولر کوئی وکٹ نہ لیتے ہوئے دوسرا بڑا اسکورر بن جاتا ہے، یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ ختم ہوگیا یا باصلاحیت کرکٹرز کو مواقع نہیں مل رہے، بورڈ کو اس کا جائزہ لینا چاہیے۔

 کہاں گئے وہ مینٹورز جو 50 لاکھ روپے ماہانہ لے کر ملک کو نیا ٹیلنٹ دینے کے دعوے کر رہے تھے، بھارت  نے یقینی طور پر غلط کیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • ماں کے خلاف شکایت کرنے والے بیٹے کو معافی مانگنے کی ہدایت، صارفین کا ڈی پی او غلام محی الدین کے لیے انعام کا مطالبہ
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  • صادقین سے مراد آل محمد (ص) ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • غزہ کی المناک صورت حال پوری انسانیت کی ناکامی ہے، حاجی حنیف طیب
  • مسئلہ فلسطین حل کرناہوگا،گریٹراسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہے، امیر قطر
  • گریٹراسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہے،امیر قطر
  • انسانیت کو جنگ و جدل سے بچانے کیلئے اللہ کی مرضی کا نظام قائم کرنا ہوگا، حافظ نعیم الرحمن