بیجنگ :

80 سال قبل جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوام کی مزاحمتی جنگ اور عالمی فاشسٹ مخالف جنگ نے ایک عظیم فتح حاصل کی جو نہ صرف ایک فوجی فتح تھی بلکہ فسطائیت کے خلاف انصاف اور بربریت پر تہذیب کی فتح بھی تھی جس نے جدید دنیا کے سیاسی نمونے کو تشکیل دیا ۔ اگرچہ بارود کا دھواں آج ختم ہو چکا ہے، لیکن انسانیت ایک نئے تاریخی دوراہے پر کھڑی ہے۔ اگرچہ امن ایک عالمگیر خواہش ہے لیکن اس کی بنیاد کو نسل در نسل مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ اس بات سے آگاہ ہو رہے ہیں کہ امن آسمان کی طرف سے ایک تحفہ نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا مقصد ہے جس کے لئے تمام انسانوں کو مل کر کام کرنا چاہئے.


فسطائیت کے خلاف جنگ ایک انتباہی یادگار ہے جو تاریخ کے کتبے پر ان گنت زندگیوں کے ساتھ نقش ہے۔ اس فسطائیت مخالف جنگ میں ، چین اور سوویت یونین ، ایشیاء اور یورپ میں اہم میدان جنگ کے طور پر ، بالترتیب 35 ملین اور 27 ملین فوجی اور شہری ہلاکتوں کی بڑی قربانیاں ہوئیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے ابتدائی الفاظ ہیں “ہم، اقوام متحدہ کے لوگ، مستقبل میں ایسے مصائب سے بچانے کے لئے پرعزم ہیں”، اور سنجیدگی سے اعلان کیا گیا ہے کہ “عالمی وقار، ترقی اور سلامتی ایک مشترکہ ذمہ داری ہوگی”. لیکن انسانیت کے لیے امن کا وژن رکھنے والی اس سنگ میل کی دستاویز کو 80 سال کے نشیب و فراز کے بعد آج بین الاقوامی سطح پر بے مثال چیلنجز کا سامنا ہے۔
جنگ کے خاتمے کے بعد سے 80 سالوں میں مقامی تنازعات، سرد جنگ کے سائے ، دہشت گردی اور بالادستی کی نئی شکلوں نے دنیا کو مسلسل یاد دلایا ہے کہ امن ایک نازک پودا ہے جسے نسلوں کو مل کر پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ فلسفی جارجیو سانتیانا کا کہنا تھا : “جو لوگ تاریخ سے سیکھنے سے انکار کرتے ہیں وہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے لئے برباد ہو جاتے ہیں۔” آج ہم اس فتح کی یاد منا رہے ہیں، جس کا مقصد نہ صرف شہداء کو یاد کرنا ہے، بلکہ امن کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرنا ہے اور تاریخی سانحات سے دوبارہ گریز کرنا ہے ۔
جنگ کی فتح کا مطلب صرف فاشزم کی فوجی شکست نہیں بلکہ اس سے ایک گہری حقیقت بھی ظاہر ہوتی ہے: دنیا کو اندھیر وں کی کھائی میں ڈالنے کی کوشش کرنے والی قوتوں کے سامنے کوئی بھی ملک اکیلا کھڑا نہیں رہ سکتا اور جب انسانیت متحد ہو جائے گی تبھی تہذیب کی روشنیوں کی حفاظت کی جا سکتی ہے ۔ تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے چینی عوام اور دنیا کے عوام کے مشترکہ مفادات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پھنگ نے عالمی امن اور ترقی کی سمت کی نشاندہی کرتے ہوئے انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کا تصور پیش کیا۔ یہ تصور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں، شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے اعلامیے میں لگاتار آٹھ سال تک اور برکس رہنماؤں کے اجلاس کے اعلامیے میں آٹھ بار لکھا جا چکا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت کے لئے ہم نصیب معاشرے کا نظریہ ایک یوٹوپیائی تصور نہیں ہے، بلکہ حقیقت کا سامنا کر کے عالمی حکمرانی کے لئے نئی حکمت عملی فراہم کرتا ہے، بین الاقوامی تبادلوں کے لئے ایک نیا نمونہ پیش کرتا ہے، اور ایک بہتر دنیا کے لئے ایک نیا وژن فراہم کرتا ہے.
فسطائیت مخالف جنگ کی فتح سے لے کر انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر تک، جنگ کی فتح نے ہمیں اس بات کا جواب فراہم کیا ہے کہ امن کیوں ضروری ہے، جبکہ ہم نصیب معاشرے کے تصور نے دیرپا امن کے حصول کے لئے” ایک حقیقت پسندانہ راستے کی نشاندہی کی ہے ۔ یہ راستہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کو نہ صرف تاریخ کے المیے کو یاد رکھنا چاہیے بلکہ تاریخ سے بھی سیکھنا چاہیے اور ہر قسم کے تنازعات سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ اور مزید یہ کہ کھلے پن، شمولیت اور فائدہ مند تعاون کے جذبے کو برقرار رکھا جائے، بات چیت کے لئے فعال طور پر پل قائم کیے جائیں، تعاون کے رابطوں کو مضبوط کیا جائے، عالمی گورننس میں حقیقی کثیر الجہتی پر عمل کیا جائے، اور عالمی گورننس سسٹم کی ترقی کو زیادہ منصفانہ، معقول اور جامع سمت میں فروغ دیا جائے۔
80 سال پہلے، انسانیت نے عظیم قربانی کے ساتھ امن میں رہنے کا حق حاصل کیا تھا۔ 80 سال بعد ہم پرامن ترقی کے حق کو تشکیل دینے کے لئے اس مشن کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ مل کر امن قائم کرنے کے لیے ہر ملک اور ہر فرد کو ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھنے کی ضرورت ہے، تعصب کو تفہیم سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، محاذ آرائی کو تعاون سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اور زیروسم کو جیت جیت سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے. صرف اسی طرح فسطائیت مخالف جنگ کی فتح نہ صرف تاریخی عظمت کا ایک صفحہ ہو سکتی ہے بلکہ ایک ابدی مشعل بھی ہو سکتی ہے جو بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کو روشن کرتی ہے- بارود کے بغیر اس دنیا میں امن کی وجہ سے انسانی تہذیب کی کہکشاں ہمیشہ روشن ہو گی ۔

Post Views: 6

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

251102-09-4

 

محمد مطاہر خان

پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی تاریخ پیچیدہ مگر امکانات سے بھرپور ہے۔ 1971ء کے بعد دونوں ممالک کے مابین کئی ادوار میں سرد مہری دیکھی گئی، تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رفتہ رفتہ رابطوں کی بحالی اور اقتصادی تعاون کے امکانات نے ایک نئی راہ ہموار کی۔ اب، اکتوبر 2025ء میں ڈھاکا میں منعقد ہونے والا نواں جوائنٹ اکنامک کمیشن (JEC) اجلاس دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ایک ایسا موقع جب ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود مستقبل کی سمت تعاون، ترقی اور باہمی اعتماد پر مبنی ایک نئے باب کا آغاز کیا جا رہا ہے۔

1974ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کئی ادوار میں تجارتی روابط کو وسعت دینے کی کوششیں ہوئیں، مگر سیاسی اختلافات، علاقائی ترجیحات اور عالمی طاقتوں کے اثرات نے اکثر ان کوششوں کو محدود کر دیا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا میں اقتصادی انضمام کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور خطے میں چین و بھارت کے اثر رسوخ کے تناظر میں پاکستان اور بنگلا دیش نے اپنے مفادات کو ازسرِ نو متعین کرنا شروع کیا۔ اسی تاریخی تسلسل میں حالیہ JEC اجلاس غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے وفاقی وزیرِ پٹرولیم علی پرویز ملک اور بنگلا دیش کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر صالح الدین احمد نے کی، جو کہ نہ صرف دونوں ممالک کے اقتصادی وژن کی ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ دو دہائیوں کی سفارتی خاموشی کے بعد ایک مضبوط عملی پیش رفت بھی۔

اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق، پاکستان نے بنگلا دیش کو کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے استعمال کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش محض تجارتی سہولت نہیں بلکہ ایک علاقائی اسٹرٹیجک اقدام ہے۔ کراچی پورٹ، جو بحرِ عرب کے ذریعے دنیا کے بڑے تجارتی راستوں سے منسلک ہے، بنگلا دیش کو چین، وسطی ایشیا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنی برآمدات و درآمدات کے نئے دروازے کھولنے میں مدد دے گا۔ اس پیشکش سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ’’ریجنل کوآپریشن فار اکنامک ڈویلپمنٹ‘‘ کے تصور کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ماضی میں SAARC جیسے فورمز کے غیر فعال ہونے کے باوجود، اگر پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ تجارتی راہداری فعال ہو جائے تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کی قومی شپنگ کارپوریشنز کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔ سمندری تجارت کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اور اس شعبے میں تعاون سے نہ صرف لاجسٹکس کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ باہمی سرمایہ کاری اور بندرگاہی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کے پاس طویل ساحلی پٹی اور جدید بندرگاہوں کا تجربہ ہے، جبکہ بنگلا دیش کی شپنگ انڈسٹری نے گزشتہ چند برسوں میں تیز رفتار ترقی کی ہے۔ اس شراکت داری سے دونوں ممالک اپنی مرچنٹ نیوی، شپ یارڈز، اور میری ٹائم ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو بین الاقوامی معیار پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان کی پاکستان حلال اتھارٹی اور بنگلا دیش کی اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیسٹنگ انسٹی ٹیوٹ (BSTI) کے درمیان حلال تجارت کے فروغ سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے گئے۔ یہ قدم عالمِ اسلام میں بڑھتی ہوئی حلال اکنامی کا عملی اظہار ہے، جس کی عالمی مالیت 3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کی حلال مصنوعات کی صنعت پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں مقام بنا چکی ہے، اور بنگلا دیش کے ساتھ اشتراک سے یہ منڈی مزید وسعت اختیار کرے گی۔ اجلاس کا سب سے اہم پہلو ’’پاکستان۔ بنگلا دیش نالج کوریڈور‘‘ کا قیام ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان نے بنگلا دیشی طلبہ کے لیے 500 مکمل فنڈڈ اسکالرشپس دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان علمی، تحقیقی اور سائنسی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کی جامعات خصوصاً قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) تحقیق و سائنس میں ممتاز مقام رکھتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش نے حالیہ برسوں میں آئی ٹی، بایو ٹیکنالوجی اور رینیوایبل انرجی کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ نالج کوریڈور کے ذریعے دونوں ممالک کے طلبہ اور محققین ایک دوسرے کے علمی وسائل سے استفادہ کر سکیں گے، جو خطے میں ’’علمی سفارت کاری‘‘ (Academic Diplomacy) کی بنیاد رکھے گا۔

وفاقی وزیر علی پرویز ملک نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات باہمی احترام اور دوستی پر مبنی ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولیں‘‘۔ یہ بیان نہ صرف سفارتی آداب کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کے ’’اقتصادی سفارت کاری‘‘ کے نئے وژن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ بنکاک سے استنبول تک، اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقا تک دنیا تیزی سے علاقائی بلاکس کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور بنگلا دیش کا تعاون نہ صرف جنوبی ایشیائی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔

بلکہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کر سکتا ہے کہ کس طرح تاریخی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر باہمی مفاد کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ڈھاکا میں منعقدہ JEC اجلاس محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ دو دہائیوں کے تعطل کے بعد ایک نئی اقتصادی شروعات ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، حلال ٹریڈ، شپنگ اشتراک اور نالج کوریڈور جیسے منصوبے صرف کاغذی وعدے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظرنامے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

اگر دونوں ممالک اس تعاون کو سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلا دیش نہ صرف اقتصادی بلکہ علمی و ثقافتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جب اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں کو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک روشن اور باہمی ترقی پر مبنی مستقبل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ عالمی برادری، بالخصوص او آئی سی، کو بنگلا دیش اور پاکستان کے اس مثبت رجحان کو سراہنا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ اسلامی ممالک کے مابین عملی اتحاد کے خواب کو بھی حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔

محمد مطاہر خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • سیریز جیتنے پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی قومی ٹیم کو مبارکباد
  • کینیڈین وزیرِاعظم نے ٹیرف مخالف اشتہار پر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی قومی ٹیم کو سیریز جیتنے پر مبارکباد
  • ویمنز ورلڈکپ: جنوبی افریقا اور بھارت پہلی مرتبہ ٹائٹل جیتنے کیلیے بےتاب
  • ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • ویلڈن گرین شرٹس! ٹی20 سیریز جیتنے پر محسن نقوی کی قومی ٹیم کو مبارکباد
  • پاکستان مخالف بھارتی میڈیا کا ایک اور جھوٹا پروپیگنڈا بے نقاب
  • نیدرلینڈ پارلیمانی انتخابات، اسلام مخالف جماعت کو شکست، روب جیٹن ممکنہ وزیر اعظم