اسرائیل نے مغربی کنارے کا الحاق کیا تو سفارتی تعلقات خطرے میں پڑسکتے ہیں؛ یو اے ای
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
متحدہ عرب امارات نے مغربی کنارے کو اپنی ’ریڈ لائن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل نے اس علاقے کا الحاق کیا تو ابراہیمی معاہدہ خطرے میں پڑسکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار متحدہ عرب امارات کی اعلیٰ سفارتکار اور وزیرِ خارجہ کی خصوصی ایلچی لانا نسیبہ نے اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل کو انٹرویو میں کیا۔
انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مغربی کنارے کا اسرائیل کے ساتھ الحاق (Annexation) کا مطلب یہ ہوگا کہ دو ریاستی حل ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گا اور علاقائی انضمام کا خواب ختم ہوجائے گا۔
لانا نسیبہ نے مزید کہا کہ اسرائیل کا مغربی کنارے کو خود میں ضم کرنے کا غیر منصفانہ اقدام خطے میں کسی بھی پائیدار امن کے امکان کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے گا۔
لانا نسیبہ نے کہا کہ ہر عرب ملک اب بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی پر بات کرنے کو تیار ہے، لیکن اگر اسرائیل انتہا پسند عناصر کو خوش کرنے کے لیے مغربی کنارے کا الحاق کرتا ہے تو یہ موقع ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستیں بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لا سکتی ہیں، لیکن اس کی شرط یہی ہے کہ اسرائیل نہ صرف الحاق ترک کرے بلکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ٹھوس اور ناقابلِ واپسی راستہ اختیار کرے۔
انٹرویو میں نسیبہ نے بالواسطہ طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کو بھی مخاطب کیا اور کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ صدر ٹرمپ ابراہام معاہدے کی کامیابی کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں خراب نہیں ہونے دیں گے۔
لانا نسیبہ نے یاد کرایا کہ کہا کہ اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے باوجود یو اے ای نے اسرائیل کی سکیورٹی خدشات کو تسلیم کیا اور ساتھ ہی غزہ کے عوام کے لیے سب سے زیادہ امداد فراہم کی۔
تاہم انھوں انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے مغربی کنارے میں اپنی موجودگی مزید پختہ کرنے کی کوشش کی تو پورا خطہ "ناقابلِ واپسی" راستے پر نکل سکتا ہے۔
آخر میں نسیبہ نے اسرائیل کے عوام سے براہ راست اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ابراہام معاہدے خوشحالی، بقائے باہمی، رواداری اور استحکام کی علامت ہیں۔ اسرائیل کے پاس ابھی بھی موقع ہے، لیکن الحاق کے بعد یہ ہاتھ واپس کھینچ لیا جائے گا۔
خیال رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو اپنی کابینہ کے چند وزرا کے ساتھ مغربی کنارے کے ممکنہ الحاق پر مشاورت کرنے والے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم یہ اقدام مغربی ممالک بالخصوص برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا اور بیلجیم کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کے جواب میں اُٹھارہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کا ابراہیمی معاہدے کو ختم کرنے کا انتباہ اس معاہدے کے پانچ سال مکمل ہونے سے چند روز قبل آیا ہے۔
یاد رہے کہ 2020 میں جب یو اے ای نے اسرائیل کے ابراہام معاہدے پر دستخط کرتے وقت اسرائیل پر واضح کیا تھا کہ مغربی کنارے کا الحاق اورسفارتی تعلقات کی بحالی ایک ساتھ ممکن نہیں نتیجتاً اسرائیل نے اس وقت الحاق کے منصوبے کو مؤخر کیا تھا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مغربی کنارے کا لانا نسیبہ اسرائیل کے اسرائیل نے نے اسرائیل کا الحاق کے ساتھ کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
تعلقات کے فروغ پر پاک، چین، روس اتفاق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-03-7
ضیاء الحق سرحدی
گزشتہ دنوں پاکستان، چین اور روس کا باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق ہوا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ نے شہباز شریف سے ملاقات میں کہا کہ چین دفاعی اور اقتصادی ترقی کے تمام شعبوں میں پاکستان کی مدد جاری رکھے گا۔ خصوصاً اس وقت جب سی پیک اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور پاکستان کے کلیدی اقتصادی شعبوں پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپلز میں صدر شی جن پنگ ہے ملاقات وزیر اعظم نے صدر شی کو 2026ء میں پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر پاکستان کے سرکاری دورے کی دعوت بھی دی۔ دریں اثناء بیجنگ میں وزیر اعظم شہباز شریف سے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ملاقات کی، ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کے فروغ پر اتفاق کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان روس کے بھارت کے ساتھ تعلقات کا احترام کرتا ہے، لیکن پاکستان بھی روس کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے جو خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہم ہوں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بیجنگ میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی ملاقات کی۔ گرمجوش مصافحے سے شروع ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات کے فروغ پر گفتگو کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہے ہیں اور پاکستان ان روابط کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن اور خوشحالی کا خواہاں ہے اور روس اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
صدر پیوٹن نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہترین قرار دیا اور کہا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر انہیں شدید افسوس ہوا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایس سی او سمٹ میں شرکت کی دعوت بھی دی جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ روس کا دورہ کر کے انہیں خوشی ہوگی۔ روسی صدر نے مزید کہا کہ پاکستان اور روس کو مختلف شعبوں میں مل کر آگے بڑھنا ہوگا جبکہ دونوں ممالک عالمی فورم بالخصوص اقوام متحدہ میں یکساں موقف رکھتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اپنی متوازن اور آزادانہ حیثیت کے باعث عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے۔ شہباز شریف کی چین اور روس کے سربراہان سے ملاقاتیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ انہیں مزید مضبوط کرنے کے لیے پر عزم ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کی گہرائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دونوں ممالک نہ صرف معاشی ترقی بلکہ دفاعی شعبے میں بھی ایک دوسرے کے مضبوط شراکت دار ہیں۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ اس شراکت داری کو نئی بلندیوں تک لے جانے کا عزم رکھتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور روس کے تعلقات میں حالیہ برسوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ روس کے ساتھ پاکستان کی بڑھتی ہوئی قربت نہ صرف دو طرفہ تجارت اور معاشی تعاون کے لیے اہم ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے بھی ایک کلیدی عنصر ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ روس کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا احترام کیا ہے لیکن اپنی آزادانہ پالیسی کے تحت روس کے ساتھ مضبوط تعلقات کے قیام پر زور دیا ہے۔ یہ تعلقات نہ صرف دو ممالک کے درمیان بلکہ پورے خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ روس کے صدر کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہترین قرار دینا اور عالمی فورم جیسے اقوام متحدہ میں مشترکہ موقف کی حمایت اس بات کا عکاس ہے کہ دونوں ممالک خطے کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ چین، روس، اور امریکا جیسے بڑے عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان نہ تو کسی ایک عالمی طاقت کے بلاک میں شامل ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کے خلاف وہ اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ پاکستان، چین اور روس کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون خطے میں امن، معاشی ترقی، اور خوشحالی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ سی پیک جیسے منصوبوں کے ذریعے معاشی ترقی، روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی دفاعی اور تجارتی شراکت داری، اور عالمی فورمز میں مشترکہ موقف خطے کو عالمی سیاست کے پیچیدہ منظر نامے میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ پاکستان کی یہ سفارتی کامیابی اس بات کی غماز ہے کہ وہ نہ صرف اپنے قومی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی ایک ذمے دار کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان اور روس کے درمیان باہمی تجارت، تعاون اور باہمی ترقی کے امکانات کے بے شمار راستے موجود ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں تلاش کیا جائے اور عمل درآمد کیا جائے۔ پاکستان سے ماسکو تک یہ پورا وسط ایشیا ایک قدرتی تجارتی بلاک کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن عالمی استعمار اور سیاسی مفادات نے اس خطے کو تقسیم کر کے رکھا۔ اب جبکہ خطے کے تمام ممالک یا بھی تعاون اور تجارت کے فروغ کا فیصلہ کر چکے ہیں تو لازم ہے کہ ایک دوسرے کو ہر طرح کی تجارت میں ترجیح دی جائے اور باہمی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے مل کر ترقی کی شاہراہ پر سفر طے کیا جائے۔ اس خطے کے تمام ممالک کی ترقی و خوشحالی ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاک روس بارٹر ٹریڈ معاہدہ دونوں ملکوں ہی نہیں پورے خطے کے لیے مفید ثابت ہوگا حالانکہ پاک روس تجارتی معاہدہ مارچ 2023 میں ماسکو میں طے پایا تھا۔ جس کے تحت پاکستان روس کو چاول، دوائیں، پھل اور کھیلوں کے سامان سمیت 26 اشیاء برآمد کرے گا جبکہ روس سے پٹرولیم مصنوعات ایل این جی، گندم اور دھاگے سمیت 11 اشیاء درآمد کی جائیں گی۔ بہت سے ممالک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ توانائی کے پائیدار ذرائع آج کی دنیا میں بہت اہم ہیں، اور ان تک رسائی ہر ایک کی زندگی کے امکانات کو بہتر بنا سکتی ہے۔
کسی قوم کی ترقی کا ایک اہم جز و توانائی کا ایک قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ متعدد اعداد وشمار سے پتا چلتا ہے کہ اگر توانائی تک سستی رسائی کو آسان بنایا جائے تو انسانی ترقی اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ دنیا کے توانائی کے وسائل کے سنگم پر واقع پاکستان کو اسٹرٹیجک فائدہ حاصل ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان کی توانائی کی صورتحال مثالی نہیں ہے کیونکہ ریاست درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور اس کے پاس توانائی کے اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ خود کو برقرار رکھ سکے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب اور اخراجات میں تبدیلی کے نتیجے میں درآمدی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان گزشتہ چند دہائیوں سے توانائی کے سنگین مسئلے کا سامنا کر رہا ہے، جیسا کہ بجلی کی مسلسل بندش، گیس کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ، بڑھتی ہوئی قیمتیں، اور ایندھن کی خراب سپلائی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ توانائی قومی سلامتی کا ایک اہم جزو ہے، پاکستان کی موجودہ صورتحال توانائی کے عدم تحفظ کے طور پر سب سے بہتر ہے۔ پاکستان اپنی توانائی کی استعداد پر قابو پانے کے لیے علاقائی رابطوں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔