محمود اچکزئی اور پی ٹی آئی میں دراڑ ، بڑی خبر آگئی
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
ا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان تعلقات میں دراڑ پڑنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق محمود اچکزئی، اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر پارٹی قیادت سے ناراض ہو کر بلوچستان روانہ ہو گئے ہیں۔
اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اختلافات کی بنیاد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے منصب پر پیدا ہونے والی کشمکش ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ محمود اچکزئی کو یہ بات ناگوار گزری کہ عدالت سے حکمِ امتناع (اسٹے آرڈر) ملنے کے باوجود عمر ایوب کو اپوزیشن لیڈر برقرار رکھا گیا۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، پی ٹی آئی رہنماؤں نے اچکزئی سے کہا تھا کہ وہ میڈیا کے سامنے آ کر بانی چیئرمین عمران خان کا شکریہ ادا کریں اور یہ مؤقف اپنائیں کہ وہ عدالت کے فیصلے تک اپوزیشن لیڈر کا منصب قبول نہیں کریں گے۔ تاہم محمود اچکزئی نے یہ تجویز سختی سے مسترد کر دی اور ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگ چاہتے ہی نہیں کہ میں اپوزیشن لیڈر بنوں۔ اس کے بعد وہ کوئٹہ روانہ ہو گئے۔ جب ان سے اس خبر پر موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
پی ٹی آئی کی وضاحت
دوسری جانب تحریک تحفظ آئین پاکستان کے ترجمان نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ محمود اچکزئی کسی ناراضی کی وجہ سے نہیں بلکہ معمول کی سیاسی سرگرمیوں کے سلسلے میں کوئٹہ گئے ہیں، اور اس معاملے پر میڈیا میں آنے والی خبریں بے بنیاد ہیں۔
پارٹی کے اندر بھی اختلافات
یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے پر پی ٹی آئی کے اندر ہی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ بعض رہنماؤں نے اس فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی میں ایسے کئی سینئر اور باصلاحیت افراد موجود ہیں جو یہ ذمہ داری نبھا سکتے ہیں۔
دوسری جانب کچھ رہنما بانی چیئرمین کے فیصلے کو حتمی اور قابلِ احترام قرار دیتے ہیں اور ان کے مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں۔
اسی طرح کے اختلافات کے باعث پی ٹی آئی کی جانب سے اعظم سواتی کی بطور اپوزیشن لیڈر سینیٹ نامزدگی بھی تاحال مؤخر کر دی گئی ۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: محمود اچکزئی اپوزیشن لیڈر پی ٹی ا ئی
پڑھیں:
تنزانیہ میں الیکشن تنازع شدت اختیار کرگیا، مظاہروں میں 700 افراد ہلاک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تنزانیہ میں عام انتخابات کے نتائج نے ملک کو شدید سیاسی بحران میں دھکیل دیا ہے، جہاں اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق صدر سمیعہ صولوہو حسن نے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی، تاہم اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے مرکزی رہنماؤں کو قید میں ڈال دیا گیا یا انہیں انتخابی عمل میں حصہ لینے سے روک دیا گیا، جس کے باعث نتائج مشکوک بن گئے ہیں۔
اپوزیشن جماعت چادیما نے نتائج کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا ہے اور دارالحکومت سمیت کئی شہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں، جہاں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اپوزیشن ذرائع کے مطابق پولیس اور فوج کی فائرنگ اور تشدد کے نتیجے میں اب تک 700 سے زائد افراد ہلاک جب کہ سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
مظاہرین نے کئی علاقوں میں سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں، گاڑیوں کو آگ لگائی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، لاٹھی چارج اور فائرنگ کا استعمال کیا۔ دوسری جانب حکومت نے دارالحکومت سمیت ادیگر حساس شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے، انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہیں جب کہ فوج کو سڑکوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مظاہرین کی ہلاکتوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکورٹی فورسز کو عوام کے خلاف غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اب تک کم از کم 100 ہلاکتوں کی تصدیق ہوچکی ہے، تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔