پشاور: لیڈی ریڈنگ اسپتال کے زنانہ انتظار گاہ سے معذور بچی کی لاش برآمد
اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT
پشاور کے سرکاری تدریسی اسپتال لیڈی ریڈنگ (ایل آر ایچ) کے زنانہ انتظار گاہ سے جمعہ کے روز ایک 5 سالہ معذور بچی کی لاش برآمد ہوئی ہے۔
پولیس اور اسپتال انتظامیہ نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ لاش کو مقامی پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے اور تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
ایل آر ایچ کے ترجمان محمد عاصم نے کہا کہ دوپہر کے وقت گائنی بلاک کی زنانہ انتظار گاہ میں بچی کی لاش ملی۔ موقع پر سیکیورٹی اور اسپتال عملہ پہنچا اور فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی گئی۔
مزید پڑھیں: فضل الرحمان لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور پہنچ گئے، باجوڑ دھماکا کے زخمیوں کی عیادت
انہوں نے کہا کہ لاش کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی اور لواحقین بھی سامنے نہیں آئے۔ ابتدائی طور پر لگتا ہے کہ لاش کو نامعلوم افراد چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
پشاور پولیس کے مطابق لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے خیبر میڈیکل یونیورسٹی منتقل کر دیا گیا ہے اور واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔
مزید پڑھیں: عید کی چھٹیوں کے دوران پشاور کے اسپتالوں میں غیر معمولی رش، وجہ کیا ہے؟
اسپتال ذرائع نے بتایا کہ بچی کو مبینہ طور پر تشدد کرکے قتل کیا گیا، تاہم یہ معلوم ہونا باقی ہے کہ لاش خواتین کے مصروف انتظار گاہ میں کیسے پہنچائی گئی۔
گائنی وارڈ میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں سے واقعے کے حوالے سے اہم شواہد حاصل ہو سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پشاور زنانہ انتظار گاہ لیڈی ریڈنگ اسپتال معذور بچی کی لاش.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پشاور زنانہ انتظار گاہ لیڈی ریڈنگ اسپتال معذور بچی کی لاش زنانہ انتظار گاہ لیڈی ریڈنگ بچی کی لاش کہ لاش
پڑھیں:
عرب جذبے کے انتظار میں
اسلام ٹائمز: ماضی میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب بھی اسلامی ممالک نے آپس میں متحد ہو کر ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تو اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ مثال کے طور پر 1973ء میں ماہ مبارک رمضان کی جنگ میں مصر اور شام آپس میں متحد ہوئے اور انہوں نے مل کر اسرائیل کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں کینال سویز پر مصر کی رٹ بھی قائم ہوئی اور صیہونی رژیم کی جنگی مشینری بھی رک گئی۔ آج بھی خطے میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار ہوتے ہوئے ایک علاقائی فوجی اتحاد تشکیل پانا چاہیے تاکہ اس طرح اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت بھی بحال ہو اور ہر قسم کی جارحیت کا سدباب بھی کیا جا سکے۔ امریکہ کا مشہور تجزیہ کار جرج فریڈمین بھی کہتا ہے کہ اسرائیل مغربی ایشیا میں امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی ہے اور امریکہ ہر گز اس کے مقابلے میں عرب ممالک کو ترجیح نہیں دے گا۔ تحریر: سید رضا حسینی
دوحا شہر پر غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کے آثار ختم ہونے سے پہلے پہلے قطر کے حکمران تل ابیب کی فوجی مہم جوئی کی روک تھام کے لیے عرب اسلامی اتحاد کی اہمیت ہر وقت سے زیادہ محسوس کرنے لگے ہیں۔ آل ثانی خاندان نے امریکی فوجیوں کی میزبانی کر کے ان سے ہر قسم کی فوجی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی امیدیں لگا رکھی تھیں لیکن اسرائیلی حملے کے بعد اب انہوں نے اپنی پالیسی تبدیل کی ہے اور گروہی سلامتی کے اصول پر کاربند ہو چکے ہیں۔ اسی سلسلے میں قطر کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ پیر کے دن عرب اور اسلامی ممالک کا ہنگامی اجلاس دوحا میں منعقد کیا جائے گا جس میں قطر پر اسرائیلی جارحیت کا جائزہ لیا جائے گا اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب راہ حل تلاش کیا جائے گا۔
خلیجی ریاستوں کی جانب سے قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے امریکہ کی فوجی طاقت پر اعتماد کرنے کا تجربہ ناکام ہو جانے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل علی لاریجانی نے ایکس پر اپنے ایک پیغام میں اس بات پر زور دیا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں منعقد ہونے والے عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں صرف زبانی کلامی حد تک اسرائیل کی مذمت نہ کی جائے ورنہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات جاری رہیں گے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں مزید لکھا: "صیہونی جنون کے مقابلے میں ایک مشترکہ آپریشن روم تشکیل پانا چاہیے۔" علی لاریجانی نے مزید لکھا: "یہی فیصلہ صیہونی رژیم کے مالک کو تشویش میں مبتلا کر دے گا اور وہ عالمی امن قائم کرنے اور نوبل انعام حاصل کرنے کی خاطر ہی سہی صیہونی رژیم کو ایسے مزید اقدامات انجام دینے سے روکے گا۔"
اتحاد یا نابودی
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مغربی ایشیا پر استعماری طاقتوں کے قبضے اور اثرورسوخ کے باعث عرب اسلامی ممالک اب تک گروہی تحفظ تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں جس کے باعث یہ خطہ عام طور پر مغربی اور مشرقی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کا میدان بنا رہا ہے۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے سینٹکام (مغربی ایشیا میں امریکہ کی مرکزی فوجی کمان) کے ذریعے خطے کی سلامتی یقینی بنانے کا نظریہ پیش کیا جو آج تک جاری تھا۔ عرب حکمرانوں کا تصور تھا کہ وہ امریکہ کو اپنے اپنے ملک میں فوجی اڈے بنانے کی اجازت دے کر اپنی قومی سلامتی بھی یقینی بنا سکتے ہیں اور یوں کمزور فوج اور فوجی طاقت کا بھی ازالہ کر سکتے ہیں۔ لیکن قطر کے دارالحکومت دوحا پر حالیہ اسرائیلی جارحیت نے انہیں غفلت کی نیند سے بیدار کر دیا ہے۔
آج عرب حکمرانوں پر واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ صرف اس وقت تک ان کا دفاع کرے گا جب تک اس کے اپنے مفادات اس بات کا تقاضا نہ کریں کہ عرب ممالک کی قومی سلامتی خطرے میں پڑے۔ لہذا جیسے ہی اسرائیل نے ایک عرب ملک کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تو اس ملک میں موجود امریکہ کا جدید ترین میزائل دفاعی نظام خاموش تماشائی بنا رہا اور اسرائیلی میزائل اپنے مطلوبہ اہداف کو نشانہ بناتے رہے۔ وال اسٹریٹ جرنل اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے: "اسرائیلی میزائل بحیرہ احمر کے مشرقی ساحل سے اسرائیلی جنگی طیاروں کے ذریعے فائر کیے گئے تھے لہذا اسرائیل نے سعودی عرب کی فضائی حدود کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ سعودی عرب ایسا ملک ہے جو طوفان الاقصی آپریشن سے کچھ دن پہلے تک اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔ لہذا اسرائیل کے اقدامات نے خلیجی ریاستوں پر بھی اتحاد کی اہمیت واضح کر دی ہے۔"
دنیا کے مسلمانو متحد ہو جاو
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل علی لاریجانی نے جو وارننگ جاری کی ہے وہ منافقت اور اجنبی طاقتوں پر تکیہ ختم کر کے آپس میں متحد ہو جانے کی ضرورت پر مبنی ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے اسلامی ممالک کے متعدد اجلاس منعقد ہو چکے ہیں لیکن وہ غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ کے خلاف ظالمانہ محاصرہ ختم کرنے میں کیوں ناکامی کا شکار ہوئے ہیں؟ اس کی واحد وجہ اسلامی ممالک کا آپس میں متحد نہ ہونا اور اپنے دفاع اور سیکورٹی امور کے لیے اجنبی طاقتوں پر تکیہ کرنا ہے۔ اسلامی ممالک اور اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت کا ایک ہی راز ہے اور وہ خطے کی سطح پر دفاعی اتحاد اور اداروں کی تشکیل ہے۔ صرف اسی صورت میں اسرائیل کی سرکش اور وحشی صیہونی رژیم کو بھی لگام دیا جا سکتا ہے۔
ماضی میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب بھی اسلامی ممالک نے آپس میں متحد ہو کر ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تو اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ مثال کے طور پر 1973ء میں ماہ مبارک رمضان کی جنگ میں مصر اور شام آپس میں متحد ہوئے اور انہوں نے مل کر اسرائیل کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں کینال سویز پر مصر کی رٹ بھی قائم ہوئی اور صیہونی رژیم کی جنگی مشینری بھی رک گئی۔ آج بھی خطے میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار ہوتے ہوئے ایک علاقائی فوجی اتحاد تشکیل پانا چاہیے تاکہ اس طرح اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت بھی بحال ہو اور ہر قسم کی جارحیت کا سدباب بھی کیا جا سکے۔ امریکہ کا مشہور تجزیہ کار جرج فریڈمین بھی کہتا ہے کہ اسرائیل مغربی ایشیا میں امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی ہے اور امریکہ ہر گز اس کے مقابلے میں عرب ممالک کو ترجیح نہیں دے گا۔