Express News:
2025-11-05@03:21:26 GMT

محمدی انقلاب

اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT

آج امت مسلمہ سخت ابتلا و آزمائش کا شکار ہے۔ کفر اور یہود و ہنود امت کے وجود کے درپے ہیں۔ مسلمان ریاستیں دفاعی اور سائنسی لحاظ سے کمزور اور یورپ و امریکا پر ان کا سارا دارومدار ہے۔ اور کئی مقامات پر تو سرعام مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ قرون اولیٰ اور قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کے مقابلے میں انتہائی لاغر اور بیمار امت اس وقت دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔

اس 12 ربیع الاول کی آمد پر حضرت محمدؐ کے ظہور مقدس کو 1500 سال پورے ہوچکے ہیں اور ہماری نبی آخر الزماں سے تمام محبت زبانی دعووں اور ظاہری طور پر کھوکھلے نعروں تک محدود ہے۔ ہم آج کی نوجوان نسل کو محمدی اسوۂ حسنہ کی روح عطا کرنے میں ناکام ہیں۔

آج کا نوجوان اپنے نبی سے کوسوں دور اور نظریاتی طور پر سیکولر ہوتا جا رہا ہے۔ بے ثبات دنیا کے خوشنما جال اور مادی دنیا کی پرفریب چالوں نے امت مسلمہ کے معصوم نوجوان اور عقل سے عاری مسلم شہریوں کو جکڑ رکھا ہے۔ کئی مقامات پر مسلمان قحط، بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں اور باقی ماندہ مقامات پر یا تو مسلم امت کے افراد کو دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے یا بے حس ڈکٹیٹر حکمران سیکولر مسلمان ریاستوں کو فروغ دے رہے ہیں۔

1500 سال پہلے آنے والا محمدی انقلاب، جس نے کائنات کے نظام کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور کفر و شرک کے اندھیروں کو ختم کرکے نور برپا کردیا تھا، اس انقلاب کے نور اور روشنی کے دوبارہ احیاء کی ضرورت ہے۔ محمدی انقلاب کو نئے سرے سے امت کے ہر فرد تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔


1) صادق اور امین:

محمدی انقلاب کی بنیاد صادق اور امین راست باز نوجوان محمدؐ نے رکھی۔ آج معاملات میں صادق اور امین افراد کا قحط الرجال ہے۔ فکر و نظر کا انتشار ہے۔ تمام معاشرے کے دانشور، علماء، اسٹیک ہولڈر اس بات کا جائزہ لیں کہ اج صادق اور امین افراد اور نوجوان پیدا کیوں نہیں ہو رہے اور کرپشن، رشوت، سفارش، اقربا پروری جیسی برائیاں مسلمان معاشروں میں کیسے سرائیت کرگئیں۔ ان معاشرتی ناسوروں کا محمدی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔


2) سزا اور جزا کا تصور:

محمدی انقلاب کی بنیاد سزا اور جزا پر رکھی گئی۔ شتر بے مہار اور مادر پدر آزاد معاشرے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ آج موت کی سزا پر پابندی ہے اور جرائم پیشہ افراد قانون سے بالاتر۔ محمدی معاشرے کا احیاء تبھی ممکن ہے جب خیر پر جزا اور شر پر سزا کا مضبوط تصور موجود ہو، ورنہ معاشروں کی جڑیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔ 


3) حکمت، علم کا فروغ:

محمدی انقلاب میں اسلامی علوم کے فروغ کےلیے تمام صحابہ کرامؓ اور صحابیات نے علم و حکمت کا پرچار کیا۔ اصحاب صفہ کا چبوترہ بنیاد بنا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ تک نے علم و حکمت کی تقسیم کا فریضہ انجام دیا۔ آج امت مسلمہ کے ممالک سائنس اور علوم کےلیے مغربی ممالک کی درسگاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی درسگاہیں ناقص ہیں اور سائنسی علوم اور فنون کی معراج سے مبرا۔

اسلامی حکمرانوں اور متمول مسلمانوں کا فرض ہے کہ عظیم الشان اسلامی اور دنیاوی درسگاہیں قائم کی جائیں اور ریسرچ اور تحقیق کو فروغ دیا جائے۔ کائنات کو مسخر کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ کئی مسلمان رؤسا کی دولت ایلون مسک اور بل گیٹس کی طرح ہے۔ وہ بھی علم و حکمت اور شعور و شناسائی کے ادارے اور رصد گاہیں کھولیں۔ رقص و سرود اور شراب و کباب کی محفلوں کے بجائے آگاہی کے مراکز اور ریسرچ سینٹرز کھولے جائیں یہی محمدی انقلاب ہے۔


4) خود کفیل محمدی ریاست:

محمدؐ کی قیادت میں قائم ریاست خود کفیل تھی۔ ان خلفاء اور صحابہ کرام کے کوئی اللے تللے نہیں تھے، نہ کوئی پروٹوکول کے اخراجات، نہ کوئی شاہی اخراجات، بیت المال امت کی امانت تھی۔ یہ محمدی تربیت تھی۔ آج کے مسلمان حکمرانوں کو اسلام اور محمدی انقلاب کے دائروں کے اندر آنا ہوگا اور خود کفیل محمدی ریاست قائم کرنا ہوگی۔ 


5) محمدی اسوہ حسنہ:

قدرت نے فاطمہ کے والد، حسن و حسین کے نانا، علی مرتضیٰ کے سسر، عثمان غنی کے سسر، ابوبکر صدیق اور عمر کے داماد، احد و خندق کے کمانڈر، فتح مکہ کے داعی، خطبہ حجۃ الوداع کے مبلغ، ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام کے تخلیق کار، قرآن کے نزول کے صاحب، معراج کی عظمتوں کے رازداں، غار حرا کے مراقبوں کے خالق، شعب ابی طالب گھاٹی کے قیام کے دنوں کے مرد آہن، بیوہ اور مساکین کے والی، مدنی ریاست کے بانی، صادق اور امین، الغرض قدرت نے ہر قوس قزح کا رنگ اور پرتو آپ کو عطا کیا۔

کیا ہم ان رنگوں اور محمدی پرتو کو نئی نسل اور امت میں ٹرانسفر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ آج کے معاشرے میں قتل و غارت، عدم برداشت ہے۔ کیا اسلامی ممالک میں محمدی اسوہ حسنہ ریسرچ سینٹر قائم کیے گئے ہیں جہاں آپ کی ذات کے ہر پہلو کا تحقیق کے بعد احاطہ کر کے معاشرے کے ہر شخص تک اس کو منتقل کرنے کا بندوبست کیا گیا ہو۔

آئیے اس ربیع الاول پر یہ عہد کریں کہ حقیقی طور پر محمدی انقلاب کے رنگوں کو سمیٹیں گے اور روح اور بدن میں اسوۂ حسنہ کی حقیقی آبیاری کریں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صادق اور امین محمدی انقلاب

پڑھیں:

دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ

بنگلہ دیش نے خطے میں دفاعی سازوسامان تیار کرنے والی نئی طاقت بننے کی سمت اہم پیش رفت شروع کر دی ہے۔

حکومت نے ایک خصوصی ڈیفنس اکنامک زون کے قیام کا منصوبہ بنایا ہے، جس میں ڈرونز، سائبر سسٹمز، ہتھیار اور گولہ بارود نہ صرف ملکی ضرورت کے لیے بلکہ برآمدات کے لیے بھی تیار کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش ایئر فورس کا چین کے اشتراک سے ڈرون پلانٹ قائم کرنے کا اعلان

حکام کے مطابق، یہ اقدام خود انحصار دفاعی صنعتی ڈھانچے کی تعمیر کے وسیع منصوبے کا حصہ ہے، حکومت کا تخمینہ ہے کہ تقریباً 1.36 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، غیر ملکی سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔

???? | Breaking Analysis | #BDMilitary
???????? Bangladesh moves from consumer to producer. Dhaka’s latest policy push—anchored in the establishment of a dedicated Defence Economic Zone (DEZ)—signals a decisive stride toward self-reliance in military manufacturing and export orientation.… pic.twitter.com/WdHgoUvJ33

— BDMilitary (@BDMILITARY) November 3, 2025

چیف ایڈوائزر محمد یونس نے پہلے ہی ایسی پالیسی اقدامات کی منظوری دے دی ہے جن کے ذریعے ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جائے گا، بنگلہ دیش آرمی کو قومی دفاعی صنعت پالیسی کے مسودے کی تیاری کا کام سونپا گیا ہے۔

غیر ملکی دلچسپی اور برآمدی عزائم

میڈیا رپورٹس کے مطابق، کئی غیر ملکی حکومتوں اور کمپنیوں نے بنگلہ دیش کے ابھرتے ہوئے دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، اگرچہ مخصوص ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، لیکن حکام نے تصدیق کی کہ بات چیت ’دوستانہ ممالک‘ کے ساتھ جاری ہے۔

بنگلہ دیش اکنامک زون اتھارٹی اور بنگلہ دیش انویسٹمنٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی  کے چیئرمین اشک محمود بن ہارون نے کہا کہ زون کی جگہ کا تعین ابھی باقی ہے۔ ’ہم پالیسی فریم ورک تیار کر رہے ہیں اور شراکت داروں سے رابطے میں ہیں۔ ہمارا مقصد دفاعی شعبے کو برآمدی بنیاد پر استوار کرنا ہے۔‘

ملکی ضرورت اور عالمی منڈی

اس وقت بنگلہ دیش کی دفاعی ضروریات کا تخمینہ 8,000 کروڑ ٹکا لگایا گیا ہے، جس میں مسلح افواج، بارڈر گارڈ، کوسٹ گارڈ، پولیس اور دیگر نیم فوجی اداروں کی ضروریات شامل ہیں۔

حکام کا خیال ہے کہ مقامی صنعت اس طلب کو پورا کر سکتی ہے اور آگے چل کر عالمی منڈی میں بھی داخل ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش کا بھارت کے ساتھ سرحد پر سیکیورٹی مضبوط بنانے کے لیے نئی بٹالینز تشکیل دینے کا فیصلہ

تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ملکی طلب پر انحصار کافی نہیں ہوگا، صدر بنگلہ دیش انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز اے این ایم منیر الزمان کے مطابق صنعت کو پائیدار بنانے کے لیے ہمیں برآمدی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا ہوگی۔

’عالمی دفاعی منڈی میں مقابلہ سخت ہے، اور کامیابی کے لیے ٹیکنالوجی شراکت داری اور غیر ملکی سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔‘

نجی شعبے کی شمولیت ناگزیر

فائنانس سیکرٹری ایم ڈی خیرالزمان نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح نجی شعبے کا کردار بنگلہ دیش کے لیے بھی اہم ہے۔

انہوں نے لاک ہیڈ مارٹن اور میک ڈونل ڈگلس جیسی کمپنیوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کاری کو کئی مالیاتی سالوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

جبکہ وزارتِ خزانہ زمین کے حصول کے لیے غیر استعمال شدہ سرکاری فیکٹریوں کو بروئے کار لانے پر غور کر رہی ہے۔

علاقائی موازنہ اور چیلنجز

حکام نے تسلیم کیا کہ بنگلہ دیش ابھی پاکستان اور بھارت جیسے ہمسایہ ممالک سے پیچھے ہے، پاکستان نے گزشتہ 4 سالوں میں ہر سال تقریباً 450 ملین ڈالر دفاعی پیداوار میں لگائے۔

جبکہ بھارت کی سالانہ سرمایہ کاری 2.7 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے، اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی دفاعی صنعت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔

پالیسی خامیاں اور قانونی رکاوٹیں

اگرچہ غیر ملکی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن حکام نے اعتراف کیا کہ قوانین اور خریداری پالیسیوں کی موجودہ صورت نجی شعبے کی شمولیت میں رکاوٹ ہے۔

وزارتِ صنعت کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق، غیر ملکی سرمایہ کار قانونی ضمانتیں چاہتے ہیں جو فی الحال دستیاب نہیں۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش ملبوسات کی نئی عالمی منزل، چینی سرمایہ کاری میں اضافہ

ستمبر کے اجلاس میں شرکا نے نئے قوانین، سرمایہ کاری کے تحفظ اور ایک مستقل رابطہ ادارہ قائم کرنے کی سفارش کی، اس کے علاوہ، ترکی اور پاکستان کے ماڈلز سے استفادہ کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔

کامرس سیکریٹری محبوب الرحمن نے کہا کہ اگر منصوبہ بروقت شروع کر دیا گیا تو بنگلہ دیش بھی پاکستان کی سرمایہ کاری کی سطح تک پہنچ سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ نیا زون گیزپور کے بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری کی طرز پر قائم کیا جا سکتا ہے۔

طویل المدتی وژن

اگرچہ ماہرین کے مطابق ایک مکمل دفاعی ایکو سسٹم قائم کرنے میں 25 سے 30 سال لگ سکتے ہیں، لیکن بنگلہ دیشی قیادت پُرعزم ہے۔

پالیسی اصلاحات، نجی شعبے کی شمولیت، اور بین الاقوامی تعاون کے امتزاج سے بنگلہ دیش مستقبل میں علاقائی اسلحہ برآمد کنندہ ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز ایکو سسٹم بنگلہ دیش بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری دفاعی پیداوار دفاعی سازوسامان سرمایہ کار کامرس سیکریٹری لاک ہیڈ مارٹن میک ڈونل ڈگلس

متعلقہ مضامین

  • امریکا میں نئی تاریخ رقم، مسلمان ظہران ممدانی میئر نیویارک منتخب ہو گئے
  • 13 آبان، ظلم کے خلاف عوامی مزاحمت اور بیداری کی علامت ہے، دفاع مقدس کا قومی میوزیم
  • جنوبی کوریا کا 728 کھرب کا بجٹ، خودمختار دفاع اور مصنوعی ذہانت میں انقلاب کا اعلان
  • نیویارک کے ممکنہ مسلمان میئر ظہران ممدانی کی مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟
  • رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب، ایک مختصر تجزیہ
  • دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ
  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
  • آزاد ‘ محفوظ صحافت انصاف ‘ جمہوریت کی ضامن: سینیٹر عبدالکریم 
  • آزادصحافت جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، قاضی اشہد عباسی
  • بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان