سبی میں گرینڈ جرگہ، امن و ترقی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
سبی میں منعقدہ ایک اہم گرینڈ جرگے میں گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل، وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی، کور کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل راحت نسیم احمد خان، آئی جی ایف سی بلوچستان (نارتھ)، آئی جی پولیس بلوچستان، رکن قومی اسمبلی میاں خان بگٹی، صوبائی وزراء، چیف سیکرٹری اور سبی ڈویژن کے قبائلی عمائدین نے شرکت کی۔
جرگے کا مقصد بلوچستان کو درپیش چیلنجز کے حل، امن و استحکام کے قیام، ترقیاتی منصوبوں کی پیشرفت اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے مؤثر اور مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینا تھا۔
اس موقع پر قبائلی عمائدین نے مقامی مسائل اور تجاویز پیش کیں جنہیں حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان: لسبیلہ میں المناک ٹریفک حادثہ، 9 افراد جاں بحق
گورنر بلوچستان نے کہا کہ صوبے کی ترقی اور خوشحالی تمام اسٹیک ہولڈرز کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔
وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے قبائلی روایات اور جرگہ سسٹم کو امن قائم رکھنے کا مؤثر ذریعہ قرار دیا اور کہا کہ حکومت عوام کے تعاون سے ترقی کے سفر کو آگے بڑھائے گی۔
کور کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل راحت نسیم احمد خان نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز امن و استحکام کے ساتھ نوجوانوں کے لیے مثبت مواقع فراہم کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرتی رہیں گی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان: موسلادھار بارشوں کے دوران 2 شہری جاں بحق، کوئٹہ سبی شاہراہ متاثر
جرگے کے دوران کوئٹہ ڈھاڈر (N-65) روڈ کی توسیع اور بہتری کے منصوبے کا بھی افتتاح کیا گیا، جسے خطے کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے اہم سنگ میل قرار دیا گیا۔
جرگے کے اختتام پر تمام شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بلوچستان کی پائیدار خوشحالی کے لیے حکومت، سیکیورٹی اداروں اور قبائلی عمائدین کا باہمی تعاون ناگزیر ہے۔
قبائلی عمائدین نے عہد کیا کہ وہ تنازعات کے حل، سماجی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے فروغ میں اپنا فعال کردار ادا کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سبی کور کمانڈر 12 کور گرینڈ جرگہ، لیفٹیننٹ جنرل راحت نسیم احمد خان، وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کور کمانڈر 12 کور گرینڈ جرگہ لیفٹیننٹ جنرل راحت نسیم احمد خان وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی قبائلی عمائدین کے لیے
پڑھیں:
پاک افغان جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251101-03-2
پاکستان اور افغانستان کے مابین جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق ہو گیا ہے جس کے تحت نگرانی اور تصدیق کا باقاعدہ نظام قائم کیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے والے فریق کو سزا اور ٹھیرایا جائے گا۔ پاکستان اور افغانستان دونوں اسلامی اور ہمسایہ ممالک ہیں، اسلام میں ہمسایوں کے بہت زیادہ حقوق بیان کیے گئے ہیں، قرآن حکیم اور رسول اکرم نے مسلمانوں کو اپنے ہمسایوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ان کے لیے کسی بھی صورت پریشانی اور تکلیف کا باعث نہ بننے کی ہدایات دی ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے مگر اسے بدقسمتی کے علاوہ اور کیا نام دیا جائے کہ پاکستان میں آئے روز کی دہشت گردی کے مسئلہ پر دونوںملکوں کے مابین کشیدگی آخر باقاعدہ جنگ تک جا پہنچی حالانکہ مسلمانوں کے لیے قرآن حکیم کی سورۂ انفال کی آیت 46 میں باہم لڑائی اور جھگڑوں سے ہر صورت دور رہیں کیونکہ یہ پوری امت مسلمہ کے لیے کمزوری کا سبب ہو گا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو واضح حکم دیا گیا ہے کہ: ’’اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے اس دو ٹوک حکم کے باوجود اگر مسلمان آپس میں برسر پیکار ہو ہی جائیں تب بھی خالق کائنات نے سورۂ الحجرات کی آیت 9 میں ہدایت فرمائی ہے کہ:۔ ’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو کہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ مقام شکر ہے کہ اسی حکم قرآنی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ترکیہ اور قطر نے پاکستان اور افغانستان کو مذاکرات کی میز پربٹھایا۔ دونوں میں 18 اور 19 اکتوبر کے مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی عمل میں آگئی۔ جسے ’دوحا معاہدہ‘ کا نام دیا گیا جنگ بندی کی شرائط اور وعدوں پر عمل درآمد کو ٹھوس شکل دینے کے لیے فریقین میں ترکیہ کی میزبانی میں 25 اکتوبر سے استنبول میں مذاکرات کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ چار روز تک مذاکرات کا عمل جاری رہا مگر فریقین کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے اور بدھ کے روز پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات نے مذاکرات کی ناکامی کا باضابطہ اعلان کر دیا تاہم ثالث ممالک ترکیہ اور قطر نے فریقین کو بات چیت جاری رکھنے پر آمادہ کیا اور جمعرات تیس اکتوبر کو مذاکرات سے متعلق ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ 25 سے 30 اکتوبر تک جاری رہنے والے مذاکرات کا مقصد دوحا مذاکرات میں طے پانے والی جنگ بندی کو مضبوط بنانا تھا۔ مذاکرات کا مقصد پاکستان کی طرف سے ایک ہی بنیادی مطالبے پر پیش رفت حاصل کرنا تھا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکا جائے اور بھارت کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں، خصوصاً فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں، یہ مذاکرات کئی موقعوں پر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیے۔ خاص طور پر ایک روز قبل صورتحال یہ تھی کہ بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا، تاہم میزبان ممالک ترکیہ اور قطر کی درخواست اور افغان طالبان وفد کی طرف سے پہنچائی گئی التماس کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ اعلامیہ کے مطابق گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات میں تمام فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا ہے، جنگ بندی کے نفاذ کی مزید تفصیلات اور طریقہ کار 6 نومبر 2025ء کو استنبول میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں طے کیے جائیں گے، جنگ بندی پر رضا مندی اس بات سے مشروط ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی نہ ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف واضح، قابل تصدیق اور موثر کارروائی کریںگے۔ اعلامیہ کے مطابق تمام فریقین اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ جنگ بندی کی نگرانی اور تصدیق کے لیے ایک باقاعدہ نظام قائم کیا جائے گا، جو امن کی خلاف ورزی کی صورت میں خلاف ورزی کرنے والے فریق کو سزا وار ٹھیرائے گا۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ بطور ثالث، ترکیہ اور قطر دونوں فریقوں کی فعال شرکت کی قدر کرتے ہیں اور دائمی امن اور استحکام کے لیے تعاون جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین جنگ بندی کروانے اور اس کے تسلسل پر فریقین کو متفق کرنے میں ثالث اور میزبان ممالک کا کردار یقینا قابل ستائش ہے اگرچہ بعض دیگر مسلمان ممالک بھی اس تنازع کو طے کرانے اور جنگ کو پھیلنے سے روکنے میں پس پردہ خاصے متحرک رہے اور برسر جنگ برادر ملکوں پاکستان اور افغانستان کو باہم مل بیٹھ کر مسائل کے حل پر آمادہ کرنے میں موثر اور فعال کردار ادا کیا تاہم ترکی اور قطر کے مذاکراتی وفود نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ان تھک اور شب و روز محنت کی ہے جس کا اعتراف کیا جانا ضروری بھی ہے اور مذاکرات کے اختتام پر جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیہ میں فراخدلی سے یہ اعتراف کیا بھی گیا ہے توقع رکھنا چاہیے کہ ان کی محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا اور امت مسلمہ اور دونوں مسلم ممالک کے بدخواہوں کو خوش ہونے کا موقع دینے کے بجائے جنگ بندی کو مزید مستحکم بنایا جائے گا تاکہ دونوں ملکوں کے برادر عوام امن اور دوستی کی فضا میں ترقی و خوش حالی کی جانب سفر جاری رکھ سکیں اور ماضی کی طرح اس سفر میں دونوں برادر اسلامی اور ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہوئے اندرونی استحکام حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک اپنے انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے عناصر کو معاملات بگاڑنے کا موقع نہ دیں۔ پاکستان ہمیشہ سے عالمی سطح پر امن کا علم بردار رہا ہے خصوصاً اپنے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات اس کی ترجیحات میں شامل رہے ہیں، مگر بدقسمتی سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ افغانستان سے کشیدگی اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ دونوں ملک آمادہ جنگ ہو گئے امید ہے کہ اب دوبارہ حالات کو اس رخ پر جانے سے ہر صورت روکا جائے گا جس کا نتیجہ تباہی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔