سعودی عرب کے مفتی اعظم، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ انتقال کر گئے۔

عرب خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق شاہی دیوان نے سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کو بتایا کہ شیخ عبدالعزیز کا انتقال منگل کی صبح ہوا۔

خلیج ٹائمز کے مطابق سعودی عرب کے مفتی اعظم اور ہیئت کبار العلما کے سربراہ، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن محمد آل الشیخ کے انتقال کا اعلان سعودی خبر رساں ایجنسی نے منگل کے روز کیا، ان کی نمازِ جنازہ بعد نماز عصر ریاض کی امام ترکی بن عبداللہ مسجد میں ادا کی جائے گی۔

سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام، مدینہ منورہ کی مسجد نبوی اور مملکت بھر کی تمام مساجد میں عصر کی نماز کے بعد ادا کی جائے۔

واضح رہے کہ بطور مفتیِ اعظم، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ سعودی عرب میں مذہبی اختیار کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز تھے، وہ مکہ مکرمہ میں مقیم اسلامی عالم تھے اور سلفی مسلمانوں کی وسیع عالمی تحریک کے نمایاں مذہبی رہنما کے طور پر اثر و رسوخ رکھتے تھے۔

سعودی عرب میں آل الشیخ خاندان روایتی طور پر مذہبی اور عدالتی اداروں میں فائز رہا ہے، وہ محمد بن عبدالوہاب (1792-1703) کی نسل سے ہیں، اور گزشتہ 250 برسوں سے وہ آل سعود حکمران خاندان کے ساتھ قریبی تعلقات اور بین الازدواجی رشتوں میں جُڑے رہے ہیں۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ

پڑھیں:

کشمیری قیدیوں کی واپسی پر محبوبہ مفتی کی عدالت میں عرضی دائر

پی ڈی پی کی سربراہ کیجانب سے پیش ہوئے وکیل آدتیہ گپتا نے عدالت کو بتایا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بڑی تعداد میں زیر سماعت قیدیوں کو جموں و کشمیر سے باہر کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر نے سابق وزیراعلٰی محبوبہ مفتی کی اس عوامی مفاد عرضی (پی آئی ایل) پر سوال اٹھایا ہے جس میں انہوں نے ریاست کے زیر سماعت قیدیوں کو بیرون جموں و کشمیر جیلوں سے واپس لانے کی درخواست کی تھی۔ چیف جسٹس ارون پالی اور جسٹس راج نیش اوسوال پر مشتمل بنچ نے سماعت کے دوران کہا کہ عدالت کو پہلے درخواست گزار کی لوکس اسٹینڈی (قانونی جواز یا ذاتی حیثیت) پر مطمئن ہونا ہوگا۔ عدالت نے محبوبہ مفتی کے وکیل سے پوچھا کہ آپ کو اس معاملے میں کیا نقصان پہنچا ہے اور یہ پی آئی ایل دراصل کس مقصد کے لئے ہے۔

محبوبہ مفتی کی جانب سے پیش ہوئے وکیل آدتیہ گپتا نے عدالت کو بتایا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بڑی تعداد میں زیر سماعت قیدیوں کو جموں و کشمیر سے باہر کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ ان کے مطابق اس فیصلے سے ان قیدیوں کے اہلِ خانہ اور وکلاء کے لئے قانونی مشاورت اور ملاقاتیں نہایت مشکل ہوگئی ہیں۔ وکیل نے دلیل دی کہ اکثر قیدی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے لئے دور دراز سفر ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ عدالتی کارروائی خود ان کے لئے سزا بن گئی ہے۔ تاہم عدالت نے ریمارکس دئے کہ اس سے قبل یہ طے کرنا ضروری ہے کہ آیا یہ درخواست واقعی قابل سماعت ہے اور کیا محبوبہ مفتی بطور عرضی گزار اس کے لئے قانونی طور پر اہل ہیں۔

سماعت کے دوران بنچ نے ریکارڈ میں درج کیا کہ محبوبہ مفتی کے وکیل نے مزید تیاری کے لئے وقت طلب کیا۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل نے بحث کے دوران مزید تیاری اور دلائل کے لئے وقت مانگا ہے۔ یہ معاملہ اب 18 نومبر کو آئندہ سماعت کے لئے درج کر لیا گیا ہے۔ اپنی درخواست میں محبوبہ مفتی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ جموں و کشمیر کے قیدیوں کو دور دراز جیلوں میں رکھنا آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت ان کے بنیادی حقوق، مساوات اور حق زندگی کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں اور ماڈل پریزن مینوئل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی حکومت پر انسانی اور آئینی، دونوں بنیادوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قیدیوں کو ان کے خاندانوں کے قریب اور متعلقہ عدالتوں کے دائرہ اختیار میں رکھا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • سیدہ اسماء بنت صدیقؓ
  • معروف گیت  نگار محمد ناصر انتقال کر گئے
  • محبوبہ مفتی کا کشمیری نظربندوں کی حالت زار پر اظہار تشویش
  • بلوچستان میں انسدادِ منشیات کارروائی 600 ایکڑ پر بھنگ کی فصل تلف
  • مفتی تقی عثمانی اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر دنیا کے با اثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل
  • کشمیری قیدیوں کی واپسی پر محبوبہ مفتی کی عدالت میں عرضی دائر
  • بابا گرونانک کے 556 واں یومِ ولادت پر وزیراعظم کی سکھ برادری کو مبارکباد
  • اسداللہ بھٹو کے بھائی کی اہلیہ قضائے الٰہی سے انتقال کرگئیں
  • میڈی کیم ٹرافی: زون 6وائٹس اور3وائٹس کی فائنل میں رسائی
  • دنیا کی بااثر ترین شخصیات:پاکستانی وزیر اعظم،فیلڈ مارشل،مفتی تقی عثمانی شامل