Jasarat News:
2025-10-04@16:50:12 GMT

شمع جونیجو: وزارت خارجہ کٹہرے میں؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251004-03-3

 

قاسم جمال

وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف کے حالیہ دورہ امریکا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفد کے ساتھ اسرائیل کی حمایتی خاتون شمع جونیجو کی شمولیت نے پاکستان کی سیاست میں ایک نیا تہلکہ مچا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر پر سیاسی حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ سب کس کے اشارے پر ہوا ہے؟ ایک ایسے نازک موقع پر جب فلسطین کے حق میں دنیا بھر میں آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں پاکستانی وفد میں اسرائیل کی حمایتی خاتون کا وزیر داخلہ کے انتہائی قریب موجود ہونا ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ اس واقعہ نے پاکستان کی حکومت بالخصوص وزارت خارجہ کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان کے عوام یہ بات بھی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ واقعہ محض انتظامی غلطی تھی یا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے نئے رخ کا عندیہ؟ متنازع شہرت کی حامل شمع جونیجو جو کہ اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے لیے بے چین رہتی تھی۔ 19 اگست 2022 کو شمع جونیجو کا ٹویٹ موجود ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ اگر وہ اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوگئی تو ان کے ساتھ اپنی تصویر میں اپنی ڈی پی میں لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں کروں گی اور یہ میرے لیے ایک اعزاز ہوگا۔ شمع جونیجو جو اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کا اعزاز تو نہیں مل سکا لیکن پاکستانی وفد میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا اعزاز انہیں ضرور مل گیا ہے۔ لوگوں نے جب شمع جونیجو کے ٹویٹر اکاؤنٹ کی تحقیق کی تو علم ہوا کہ اس کے اسرائیل سے اتنے گہرے تعلقات ہیں کہ اسرائیلی وزارت خارجہ کا آفیشل ہیڈل جو بڑے بڑے امریکی سینیٹرکو بھی لفٹ نہیں کراتا وہ شمع جونیجو کی صحت یابی پر اسے مبارک باد دے رہا ہے۔

شمع جونیجو نہ صرف اسرائیل کی لابنگ کرتی رہی ہیں بلکہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد بھی وہ اسرائیل کی حمایت کررہی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیسے پہنچیں؟ وزیر دفاع کے بالکل پیچھے نشست کا اہتمام کس نے کیا تھا؟ شمع جونیجو اگر صحافی کی حیثیت اور کالم کی اشاعت کے لیے اجلاس میں شریک ہوئی تھیں تو انہیں مخصوص پریس گیلری میں نشست فراہم کرنا چاہیے تھی۔ شمع جونیجو جو انتہائی طاقتور خاتون سمجھی جاتی ہیں وہ وزیر اعظم کے خصوصی طیارے میں سفر کرتی ہیں۔ وزیر اعظم سیکرٹریٹ تک ان کی رسائی ہے اور طاقت ور حکمرانوں کے قریب سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن خواجہ آصف نے صحافیوں کے سوال پر یکدم انہیں پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کا نام اگر شمع جونیجو کے ساتھ جڑ جائے گا تو وہ ساری زندگی اس داغ کو دھو نہیں سکیں گے۔ خواجہ آصف کی جانب سے شمع جونیجو کے بارے میں ہونے والی گھبراہٹ نے کی شمع جونیجو اسکینڈل کا پردہ فاش کیا ہے۔ شمع جونیجو کے بقول وہ پچھلے کئی مہینوں سے پاکستان کے وزیراعظم کے لیے کام کررہی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے خود انہیں بطور ایڈوائزر اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کا حصہ بنایا تھا اور انہیں اپنی تقریر لکھنے کا ٹاسک دیا تھا۔ تاہم سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

سلامتی کونسل کے اجلاس میں شمع جونیجو کی شرکت سے ایک سفارتی تنازع پیدا ہوگیا ہے اور شمع جونیجو شہباز شریف حکومت کے لیے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ وزارت خارجہ نے بھی صاف انکار کردیا ہے کہ شمع جونیجو کی شرکت سرکاری سطح پر ہوئی ہے۔ 24 ستمبر کو اقوام متحدہ کے 80 ویں سلامتی کونسل کے اجلاس میں مصنوعی ذہانت اور عالمی سلامتی کے خطرات کے موضوع پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کو تقریر کرنا تھا لیکن وہ اپنی دیگر اہم مصروفیات کے باعث اس سیشن میں شریک نہ ہوسکے اور ان کی جگہ یہ تقریر پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی۔ ان کی بالکل پچھلی نشست پر شمع جونیجو کی موجودگی نے سوشل میڈیا پر ایک بھونچال پیدا کردیا ہے کیونکہ شمع جونیجو نہ پاکستان مشن کی رکن تھیں اور نہ کوئی منتخب عہدیدار ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی صحافیوں کے سوال کرنے پر شمع جونیجو سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ کون خاتون ہے اور ہمارے وفد میں کیوں ہیں۔ جبکہ خارجہ امور کے ذمے داران کا کہنا ہے کہ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی منظورکردہ آفیشل لیٹر کی فہرست میں شمع جونیجو کا نام شامل نہیں تھا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو بھی وفد پاکستان سے جاتا ہے تو اس کی سمری دفتر خارجہ تیار کرتی ہے اور بعد میں وزیراعظم کی منظوری کے بعد وزارت خارجہ یہ نام اقوام متحدہ کو بھیجتی ہے اس کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے ان افراد کے نام سے پاس کیے جاتے ہیں۔ لیکن شمع جونیجو کا نام جب امور خارجہ کی جانب سے دی گئی فہرست میں ہی نہیں تھا تو اس خاتون کی شرکت کیسے ہوگئی ہے۔

بلاشبہ اسرائیل اور اس کے ایجنٹوں نے دنیا بھر کے اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں اس کی تازہ مثال شمع جونیجو کی ہے جس کے صدر آصف زرداری، وزیراعظم میاں شہباز شریف، میاں محمد نواز شریف، اسحاق ڈار، خواجہ آصف ودیگر اہم وزراء کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور اسرائیل کے ایجنٹوں سے ہوشیار اور دور رہنا چاہیے۔ اسرائیل کے ایجنٹوں کی موجودگی میں اب ہماری سلامتی غیر محفوظ ہوگئی ہے اور عوام میں اضطراب اور بے چینی پھیلتی جا رہی ہے۔ حکمراں جتنا جلد ہوسکے شمع جونیجو جیسی عورتوں سے دور رہے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوگا ورنہ عوام کا اضطراب اور غصہ انہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا اور تاریخ میں وہ نشان عبرت بن جائیں گے۔

گوہر ایوب قاسم جمال.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی شمع جونیجو کے شمع جونیجو کی کے اجلاس میں جنرل اسمبلی پاکستان کے اسرائیل کی شہباز شریف خواجہ ا صف کے ساتھ کے لیے ہیں کہ ہے اور

پڑھیں:

غزہ امن منصوبہ ، امریکی صدر کے20 نکات مسترد،ڈرافت میں تبدیلی کی گئی،نائب وزیراعظم

امن معاہدے کیلئیٹرمپ نے جو 20 نکات دیے وہ ہمارے نہیں،8 اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے اپنی تجاویز پیش کیں اور انہی نکات پر مشترکہ بیان جاری کیا ،اسحاق ڈار
فلسطین پر قائداعظم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، سینیٹر مشتاق کی رہائی کیلئے یورپی ممالک سے مدد لے لی، غزہ میں امن بیانات سے نہیں عملی اقدامات سے ممکن ہوگا ، قومی اسمبلی میں اظہار خیال
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ 20 نکات دراصل پاکستان کے پیش کردہ نکات نہیں ہیں بلکہ ان میں ترامیم کی گئی ہیں۔ 8 اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے اپنی تجاویز پیش کیں اور انہی نکات پر مشترکہ بیان جاری کیا گیا، جن میں سے بیشتر پاکستانی نکات کو تسلیم کر لیا گیا۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ مشترکہ بیان میں غزہ میں امن کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششوں کا خیر مقدم کیا گیا، یہ ہمارا ذاتی مسئلہ نہیں ہے، اسلامی ممالک کی ذمے داری ہے، 8 ممالک کے وزرائے خارجہ اور صدر ٹرمپ کی ٹیم کے درمیان ملاقات ہوئی، امریکی صدر نے ٹیم سے کھل کر بات کی۔فلسطین سے متعلق ہماری وہی پالیسی ہے جو قائد اعظم کی تھی۔انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے غزہ معاملے کے لیے اہم نکات پیش کیے، غزہ میں جنگ بندی کے لیے صدر ٹرمپ کی آرا کا خیر مقدم کیا گیا۔ صدر ٹرمپ سے غزہ میں جنگ بندی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر بات ہوئی، غزہ میں مکمل جنگ بندی ضروری ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے یو این ناکام ہو چکا، غزہ میں لوگ بھوک سے فوت ہو رہے ہیں، فلسطین اور غزہ کا مسئلہ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ جب بھی ضرورت پڑی چین ہمارے ساتھ کھڑا ہوا، چین کے ساتھ تعلق تھا، ہے اور رہے گا، سعودی عرب کے ساتھ جو دفاعی معاہدہ ہوا ہے وہ بہت اہم ہے، دہائیوں سے ہمارا سعودی عرب سے جو تعلق ہے وہ ڈھکا چھپا نہیں۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ ہم اسرائیل کا نام بھی نہیں سننا چاہتے، صمود فوٹیلا میں ہمارے ایک سینیٹر صاحب بھی تھے، ہمارے اسرائیل سے کوئی روابط نہیں، اسرائیل نے 22 کشتیاں تحویل میں لے کر لوگوں کو تحویل میں لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری اطلاع کے مطابق سابق سینیٹر مشتاق احمد بھی تحویل میں لیے جانے والوں میں شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جی7 ممالک کی جانب سے ایران پر پابندیوں کی بحالی کا مطالبہ، ایرانی وزارتِ خارجہ کا شدید ردعمل
  • غزہ امن منصوبہ ، امریکی صدر کے20 نکات مسترد،ڈرافت میں تبدیلی کی گئی،نائب وزیراعظم
  • آزاد کشمیر احتجاج: بھارتی وزارت خارجہ کا پاکستان سے جواب دہی کا مطالبہ
  • علاقائی رابطہ کاری ترقی و تجارت کے لیے ناگزیر ہے، وزیر خارجہ اسحاق ڈار
  • ہم نے شمع جونیجو کا نام اس وفد میں نہیں بھیجا تھا، اسحاق ڈار کی وضاحت
  • شمع جونیجو کس وفد کے ساتھ اقوام متحدہ گئیں؟ اسحاق ڈار کی وضاحت
  • ٹرمپ نے جن 20نکات کا اعلان کیا ہے وہ ہمارے نہیں ہیں، اسحاق ڈار
  • نائب وزیراعظم سینیٹر اسحاق ڈار کا ایس سی او اجلاس کی تیاریوں کے حوالے سے اہم اجلاس
  • صہیونیت دنیا بھر کیلئے واحد حقیقی خطرہ ہے، وینزویلا