چودھری یاسین پیپلز پارٹی کے نئے وزیراعظم آزاد کشمیر ہوں گے، بلاول بھٹو نے منظوری دیدی
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کی قیادت اجلاس میں موجود، وزارت عظمیٰ کیلئے چار ناموں پر غورکیا گیا، آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد آئندہ 24 گھنٹے میں پیش کیے جانے کا امکان
ہم بس عدم اعتماد میں پیپلزپارٹی کی حمایت کررہے ہیں، وزیراعظم کے نام پرہمیں اعتماد میں نہیں لیا،چوہدری یاسین کو نامزد کرنے کا ان کا ذاتی فیصلہ ہے،راجہ فاروق حیدرکی میڈیا گفتگو
آزاد کشمیر میں ان ہاؤس تبدیلی کا معاملہ، پیپلز پارٹی نے وزیراعظم کے امیدوار کا نام فائنل کرلیا۔ذرائع کے مطابق مرکزی قیادت نے وزارت عظمیٰ کیلئے چودھری یاسین کی منظوری دے دی، چودھری یاسین کا نام بلاول بھٹو کے ساتھ اجلاس میں اناؤنس کیا گیا۔پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کی قیادت اجلاس میں موجود تھی، پیپلز پارٹی میں وزارت عظمیٰ کے لئے چار ناموں پر غور ہورہا تھا۔ذرائع کے مطابق وزارت عظمیٰ کی فہرست میں چودھری یاسین، لطیف اکبر، فیصل ممتاز راٹھور اور سردار یعقوب خان کا نام شامل تھا۔چیٔرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے چودھری یاسین کا نام فائنل کرلیا، پارٹی کی جانب سے باقاعدہ اعلان آج رات تک کیا جائے گا۔ذرائع کاکہنا ہے کہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد بھی آئندہ 24 گھنٹے میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔دوسری جانب سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نون آزاد کشمیر کے پارلیمانی لیڈر راجہ فاروق حیدر کا کہنا ہے کہ ہم بس عدم اعتماد میں پیپلزپارٹی کی حمایت کررہے ہیں، میں جب آزاد کشمیر میں جب بھی عدم اعتماد کا ووٹ دیا جائے گا تو وہی اعتماد کا ووٹ ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نون آزاد کشمیر کے پارلیمانی لیڈر راجہ فاروق حیدر نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے وزیراعظم کے نام کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا، پیپلزپارٹی کے پاس پہلے ہی 27 ارکان کی حمایت موجود تھی،پیپلزپارٹی نے 27 ارکان کی حمایت کیوجہ سے ہم سے وزیر اعظم کے حوالے سے ہم سے مشورہ نہیں کیا،چوہدری یاسین کو نامزد کرنے کا پیپلزپارٹی کا ذاتی فیصلہ ہے، ہم بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے، دیگر لوگ بھی ہمارے ساتھ ہوں گے،آزاد کشمیر کی اپوزیشن میں 20 تا 22 لوگ بھرپور کردار ادا کریں گے، انوارالحق کی حکومت میں اپوزیشن 3 سے 4 لوگوں پر مشتمل تھی،نظام کو کامیاب رکھنے کیلئے مضبوط اپوزیشن کی ضرورت ہوتی ہے،انوارالحق کی حمایت ہماری غلطی نہیں قیادت کا حکم تھا، ہم نے انوارالحق کو ووٹ دینے سے انکار کیا مگر قیادت نے کہا یہ کریں، انوار الحق کا مسئلہ یہ تھا کہ سیاسی جماعتوں کی نہیں ایم ایل ایز کی حکومت تھی۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
وزیراعظم آزاد کشمیر کا استعفیٰ سے انکار، پیپلز پارٹی کی نمبر گیم مکمل
آزاد کشمیر میں حکومت سازی کا معاملہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق کی جانب سے استعفیٰ دینے سے انکار اور تحریک عدم اعتماد کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا جاچکا ہے، جبکہ دوسری جانب مخالفین نے تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے کوششیں تیز کرتے ہوئے وزیر اعظم کو دن 2 بجے تک کی مہلت دے رکھی ہے۔
پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم انوار الحق کو استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے یقین دہانی کرانے کے بعد پیپلز پارٹی کے پاس اس وقت 36 ارکان کی حمایت موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیے: آزاد کشمیر میں حکومت کی تبدیلی کے وفاق پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نئے وزیر اعظم کے نام کا اعلان کریں گے۔ چوہدری لطیف اکبر اور چوہدری یاسین میں سے کسی ایک کا نام فائنل کیا جائے گا۔ دوسری جانب اسپیکر اسمبلی لطیف اکبر وزارتِ عظمیٰ کے لیے مضبوط امیدوار قرار دیے جارہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 53، ایک رکن کے استعفے کے بعد 52 رہ گئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے پیپلز پارٹی کو 27 ارکان کی حمایت درکار ہے اور ان کے اپنے ارکان کی تعداد 17 ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے 9 بندوں کی حمایت کے بعد ارکان کی تعداد 36 ہوجائے گی۔ کیونکہ بیرسٹر سلطان گروپ اور فارورڈ بلاک کے مجموعی طور پر 10 ارکان نے پہلے ہی پیپلز پارٹی کی حمایت کردی ہے۔
وزیر اعظم انوار الحق کے گروپ میں مجموعی طور پر 10 ارکان اسمبلی موجود ہیں، پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے پاس 4 ممبران اسمبلی ہیں، مسلم کانفرنس اور جے کے پی پی کے پاس ایک ایک نشست ہے، جبکہ اوورسیز نشست پر منتخب رکن محمد اقبال پہلے ہی استعفیٰ دے چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: آزاد کشمیر حکومتی تبدیلی: ن لیگ کا تحریک عدم اعتماد میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا اعلان
تاہم، اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ ن اپنی اسٹریٹجی میں تبدیلی لاسکتی ہے۔ مسلم لیگ ن پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ عدم اعتماد میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کے بعد وہ حکومت میں نہیں شامل ہوں گے اور اگلے الیکشن میں اپنی پوزیشن مظبوط کرنے کے لیے اپوزیشن بینچز پر ہی بیٹھیں گے۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما جو وزیر اعظم انوار الحق کی کابینہ میں شامل ہیں جن میں کرنل وقار ن، سردار عامر الطاف، عنصر ابدالی اور اظہر صادق سمیت 7 وزرا ابھی تک وزیر اعظم کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم پر امید دکھائی دے رہے ہیں کہ عدم اعتماد کے وقت پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا جو اتحاد ہے ٹوٹ جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے: نمبر گیم پوری ہے تو عدم اعتماد کیوں نہیں لاتے؟ وزیراعظم آزاد کشمیر انوارالحق کا مخالفین کو پیغام
ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم پر امید ہیں کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے ایک فارورڈ بلاک بن سکتا ہے، اس لیے وہ تحریک عدم اعتماد کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جانب سے استعفیٰ کا امکان بظاہر نظر نہیں آرہا۔ تاہم، خاص ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
یاد رہے کہ چوہدری انوار الحق ماضی میں کئی بار اعلانیہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر مخالفین ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے درکار نمبرز پورے کرلیں تو وہ بنا کوئی اعتراض اٹھائے ’گھر چلے جائیں گے‘۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی گزشتہ کئی روز سے جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔ آزاد کشمیر سے پارٹی قیادت نے صدر آصف زرداری کی بہن فریال تالپور سے کئی ملاقاتیں کیں اور میڈیا پر بھی نمبرز پورے ہونے کے دعوے کیے۔ تاہم ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی میں فی الحال نئے وزیر اعظم کے نام پر اتفاقِ رائے نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیے: آزاد جموں و کشمیر اسمبلی اسمبلی اب محض دکھاوا بن چکی ہے، سلمان اکرم راجہ
پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر صوبے کے معاملات صحیح طریقے سے نہیں چلا سکے، اور ایکشن کمیٹی کی تحریک کامیاب ہونے سے اتحادی جماعتوں کا سیاسی وقار مجروح ہوا ہے اور وزیر اعظم ہمارے حقوق کی حفاظت کرنے میں ناکام دکھائی دیے ہیں۔
خیال رہے مظفر آباد میں اس وقت سیاسی ماحول گرم ہے اور استعفیٰ نہ آنے کی صورت میں کسی بھی وقت وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی جائے گی۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو پیپلز پارٹی اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی اور ناکام ہونے کی صورت میں 6ماہ سے قبل یہ تحریک دوبارہ پیش نہیں کی جا سکے گی۔
واضح رہے اگر اس بار تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ 2021 سے 2026 کے درمیان دوسری عدم اعتماد اور چوتھا وزیراعظم ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آزاد کشمیر پی پی پی عدم اعتماد ن لیگ ووٹ